نور بنتِ نایاب

Friday, May 14, 2021

طلسم ‏ہوشربا

طلسم ہوشربا کی کہانی ہے اور یہ قرات ہے مری زبانی کہ راوی کہتا ہے اک گاؤں چین کی بنسری میں تھا کہ اچانک آگ لگ گئی 
مانا اندھیرا تھا 
مگر شجر زیتون کا سراپا آگ بن جانا 
شہر کا حرا بن جانا 
یہ عجب تعین تھا، لا تعین میں 
دل میں کسی شاہ کا ڈیرا رہا 

ازل کا نور قدیم ہے 
شیطان تو رجیم ہے 
علیین سے نکل جاؤ 
سجیین سے نکل جاؤ 
محبوبی میں آجاؤ 
اس نے عرش کا پانی دیا شجر زیتون کو 
قلم آیت بہ آیت چلا سلسلہ ہے
لوح دل پر قلم چل رہا ہے 
نشان گویا رقم ہو رہا ہے 
مزید نشانات اور علم کا باڑہ 
گویا سیارہ بن گیا ستارہ 
یہ ستارہ صبح ازل کا اشارہ 
موج کو ملے گا نہ اب کنارہ

خود میں بیخود ہو جاؤ 
بیخودی میں روبرو ہوجاؤ 
رات کی جھولی میں شمس 
قُبائے ہاشمی رات کا پیرہن 

دل! دل!  دل!  قلب طاق ہے اور طاق مین روح ہے اور روح میں نور ہے اور جو آگ پکڑ رہا ہے. یہی شاخ انجیر ہے! زیتوں کے پتوں میں انجیر نے ربط فلک سے قائم کرکے حرا کی وادی کے سامنے لا کھڑا کیا. فنا ہو جاؤ کہ بقا کی چادر آنے والی ہے. زندگی میں نئی زندگی آنے والی ہے اور طاق دل پر عرق نیساں نے بھلا دیا ہے کہ کہ میں کون!  تو ہے جابجا!  تو ہے کو بہ کو!  تو ہے چار سو!  شاخ گل پر بیٹھا داؤدی لحن میں گاتا طائر کون ہے؟

آج ہُد ہُد زمین پر ہے. ہُد ہُد نے خط القا کردیا ہے اور لقائے ذکر کی ہوا چل پڑی ہے. بسمل کے ہزار ٹکروں میں ذکر القا ہوگیا ہے. تسبیح میں مجذوب ٹکرے صامت ہیں کہ قرأت میں مجذوب ہیں پتے!  قرأت سے محدوب ہیں آئنے!  قرأت سے ہماہمی میں طلسم برپا ہے 
کھالیں نرم پڑنے لگیں ہیں 
ضرب لگنے لگی ہے
کیسی ضرب؟  
اللہ ھو والی ضرب 
یہ کیسا ہے طرب 
چلی کوئے عرب 
قیدِ قفس میں.ہے 
دل حبس بے جا مین 
جذاب حسین ہے 
مجذوب حسین ہے 
کلمہ مکمل ہو رہا ہے 

روح کی چادر ملمیں ہے اور ململ کء دھاگے پر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوا ہے.