Sunday, November 22, 2020

کیا لکھوں

 کیا لکھوں؟

کسے لکھوں؟
کہوں کیا؟
یہی ان گنت فسانے ہیں.
بے شمار باتیں جن کی
کھو گئیں ہیں
قلم نوکِ دل پر پھر بھی زور لگائے ہے کہ لکھ فسانہ ء دل .....
حیات کی کشمکش میں کسے کہیں اپنا ؟
یہاں سبھی اپنے ہیں ،پھر بھی پرائے ہیں

رقص قلم دیکھ کے جنبشِ مژگان نے دو موتی کیا ٹپکا دئیے!
قیامت آگئی!
خشک سیاہی میں کیسی جان آگئی ؟
لہو خشک تھا، فشار میں روانی آگئی
میں نے پھر بھی کہ دیا " کیا لکھوں؟
کسے لکھوں؟
کیا کہوں؟
کسے کہوں؟
یہاں سبھی اپنے ہیں پھر بھی پرائے ہیں "
موتی ٹپکتے رہے، ہاتھ بھرتا رہا
تنگی ء دامن پر گلہ کیا کرتے؟
تپش! یہ تپش حشر کی تپش کی مانند برفابی جھیلوں کے حُسن کا اضافہ کرتی دکھتی ہے
تپش نے گویا خنجر کی جگہ لے لی، زخم جگر مگر دیکھے کون ؟
ان کہی کہانی کے ان کہے لفظوں سے کچھ لکھنا چاہا ہے


ایک لکھنے کی کشمکش ہے کہ لکھ دل سے مگر میں سوچتی ہوں کہ کیا لکھوں. یہ ہم کلامی سی ہے یا خود پر جھیلا احساس ہے. اصل میں کچھ ہوا یوں ہے کہ سرحد پار ایک اجنبی سے میری ملاقات ہوئی. میں نے اس سے پوچھا تم سرزمین حشر میں کیا کر رہے ہو؟ اسنے کہا میں حجاز سے آیا ہوں اور ایک پیام لایا ہوں! میں نے پوچھا حجاز مقدس سے کیا پیغام ہے؟
کہا "نماز قائم کرو "
کہا نماز تو پڑھی نہیں کبھی
کہا پھر باوضو رہا کرو، نماز آجائے گی
کہا وضو تو ہمیشہ سے "تو، میں " کی تکرار سے ناقص ہے
کہا نیت دل پر جا، شوق حضور کی طلب رکھ
کہا قال کے بنا حال بھی کچھ نہیں.
کہا نیت سب کچھ ہے، عمل سچا، سچی شریعت ہے، مگر مت پڑ ان باریکیوں پر
کہا نیت حضوری کیسے کروں
کہا آیتِ سجدہ تلاوت کر
کہا کہاں کہاں سے لاؤ، کس کس کو پڑھو! .
کہا، لکھا جو خط محبوب نے، جہاں سے شروع کر، ترے لیے موجود ہے
کہا خط پڑھنے کا سلیقہ نہیں، امی ہوں
کہا کہ آیت معراج پڑھ
کہا کہ پڑھ لوں گی مگر فہم نہ ہوگا
کہا کہ فہم اللہ کی جانب سے ہے، نیت منجانب عبد ہے
کہا کہ شہنائی کیوں سنائی دی
کہا کہ اخلاص سے نکلی دعا تھی یہ تری
کہا کہ اتنا کچھ کہ ڈالا، عمل سے دور ہوں
کہا کہ دل کا سجدہ کر، دل والوں کے لیے سجدہ لازم
کہا کہ سویرا کب ہوگا
کہا جب شمس رات کو طلوع ہوگا
کہا شام حنا کب آئے گی
کہا جب رات قبا بدلے گی دن کا
کہا کہ.رات اتنی سجیلی کیوں ہے
کہا کہ نور ہے! نور ہر جگہ ہے اس لیے رات بھی دن ہے

حاظرین ایک کشمکش ہے کہ بہت کچھ لکھنا ہے گویا سیلاب پر بند باندھوں کیسے؟ کسے کہوں کہ شام غم کی سحر میں مرغ مؤذن نے اندھیرے مٹا دئیے ہیں ....کسے کہوں اذن حاضری ہو تو بس حی علی الفلاح کی صدا آتی ہے ... فلاح کی جانب قدم پر لاکھ تاویلیں ہیں، کیوں کروں؟اس لیے کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟

زمین

 


جب زمین کو افلاک کی گردش میں رکھا گیا تھا، زمین کے دس ٹکرے ہوگئے. کچھ آنسو تھے تو کچھ خون تھا، مل کے بحر کی شکل اختیار کرلی ... ہر ٹکرا مکمل کائنات تھا مگر ایک ٹکرا ارض حجاز کا نکلا ...مقدس، پاک، الوہی چمک سے بھرپور .... شمس نے جب اس پر اپنی آب و تاب دکھائی تو صفا کے سارے جبل مثل طور ہوگئے مگر نہ تو کوئی پہاڑ زمین بوس ہوا، نہ کوئی زاہد مدہوش ہوا بلکہ یہ شعور کی زمین تھی! جس میں دیوانگی کا کام نہ تھا! اس خمیر سے عرق نیساں سے نمو پاتا گوہر نکلا جس پر جب فلک کی نگاہ پڑی تو وہ کھو گیا! یہی وجہ تھا زمین کا فلک سے رشتہ جڑ گیا!


وہ ارض.حجاز کی.سرزمین جس کے سر پر سرمئی گگن!
بارش کا موسم نہ تھا مگر خوب جل تھی!
بہار کی بات نہیں ہوئی تھی مگر لالہ و گل اپنی.چمک دکھا رہے تھے!
قران پاک اس ارض مقدس میں ماہ رمضان کو اترا تھا!
یہیں پر مبارک، پرنور ہستی مانند نسیم جو محمد صلی اللہ علیہ والہ.وسلم ہیں .... باطن سے ظاہر میں موجود آئی ...... وہ عملی قران ....دین تھا گویا مکمل ہوگیا ......

اس زمین میں.بہت سے راز تھے، جس کا ایک ٹکرا مقامِ کوفہ تھا! کربل کا میدان سجا تھا! سرخی زمین دیکھ کے فلک اشکبار تھا! زمین اتنی نرم، گداز تھی کہ جیسے کہ سرخی ء محشر کا پتا دے رہی ہو!

راز کی باتیں!
داستانِ کربل
دل پکارے یا حُسین

پوچھیے خود سے قربانی کی اصطلاح؟ امام عالی نے حج کیا، مگر اے دل کہاں کیا؟ کربل کے زمین پر سجدہ ء تسلیم اداکرتے، جب زبان پر آیت سجدہ جاری تھی! تکبیر پڑھی! اللہ اکبر! آپ کی قربانی معتبر ہوگئی! یہ حشر کی زمین ... جس پر گگن کا سایہ تھا! جس کے دیکھ ابر مسکرایا تھا! یہ حجازی سفر کی داستان ... زمینیں مقدس ہوگئیں! قربانی مقدس کرگئی!

اے دل کبھی حج کیا؟
میں نے کہا کہ نہیں
اے دل کبھی قربانی دی
میں نے کہا کہ جان نہ دی بس
اے دل داستان کوفہ ہے!
داستان حجاز ہے! داستان کربل ہے!
قربانی کی ابتدا سے منتہی!
زمین ِِ شام سے زمین کوفہ تک!
حرف اول کو بقا مل گئی تھی
حرف آخر کا راز کھل گیا تھا!
جبین نیاز میں رہی تھی!
قصر دل پر اک نور کا ہالہ تھا.
یہ اشک .. اشک ... یہ دھواں
یہ سب نیا ہے ...یہ سب نیا ہے
بقائے ہست فنائے ہست سے ملی
نور کی نشانی وجود میں رہی
زندگی سبب میں مگر رہی
قرار نہیں! ہجر ہے! ضرب!
اے دل کتنی ضربیں باقی ہیں؟
جب تک پگھل نہیں جاتی شمع
اے دل کچھ تحفہ زمین کا بتلا
جھک جا! آئنہ زندگی میں ملے


اے دل رک جا! یہ میرے محبوب کی زمین ہے! دل کہاں رکا اور چل دیا اور مسجود ہوگیا صحن حرم میں! ساجد کو طواف کا ہوش نہ رہا! مسجود زمین پر، ساجد کا کلمہ ء حق نکلا! خون تھا کہ جاری ہوگیا! پوچھیے خون کہاں سے تھا! داستان کربل کا! یہ خون، یہ شمع! یہ رفعت! یہ کہانی! یہ تو معراج ہے! روشنی تیرا مقدر! روشن تری تقدیر! فکر ہست کر! فکر دین کر! فکر کر جو فرش پر رہتے تکبر نہیں کرتے! فکر تو کر ان کو جن کو عرش پر بھی تکبر نہیں!

گہرائی

 


میں ابھی کلام سُن رہی تھی ...

یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہسوار ہے
یہ بالیقین حسین ہے نبی کا نور عین ہے
لباس پھٹا ہوا غبار میں اٹا ہوا
تمام جسم نازنیں چھدا ہوا کٹا ہوا

اسکو سنتے ہوئے "گہرائی " کا اندازہ ہوا .. ہم جب گہرائی میں جاتے کوئی کام نہیں کرتے وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوتا. زندگی میں گہرائی اتنی اہم ہے مگر پھر بھی لوگ گہرائی میں جانے سے کیوں ڈرتے ہیں ....... شاید گہرائی میں اترنے کا فن ہر کسی کو نہیں آتا ... شاید اس راستہ جنون سے گزرتا ہے اس جنون میں ہوش قائم رکھنا اصل حق ہے. باقی سبھی دیوانے ہوتے کہیں نہ کہیں کھو جاتے ہیں.


اک ٹیچر ہوں میں، میں جانتی ہوں تدریس کا حق ادا نہیں کرسکتی ہوں مگر اک چیز کو محسوس کرتی ہوں ...... گہرائی اک ایسا احساس ہے جو بچوں کو پڑھانے میں مددگار ہوتا ہے. میں جو چیز پڑھاؤں گی، اسکو پڑھانے کے واحد کا طریقہ ہے کہ بچوں میں اس کانسیپٹ کی گہرائی پیدا کروں جب اس مضمون کی گہرائی ان میں پیدا ہوگئی تو پھر وہ سوال کریں گے. انہی کے سوالات انہی کا دھیان بنائیں گے. اس کے لیے میں ان کو کتنا ایکٹولی انگیج کرتی ہوں، یہ سوچنا ہے


گہرائی کیا صرف ٹیچنگ میں کام آتی ہے؟ نہیں؟ میں نے سُنا بھی، پڑھا بھی تان سین کے راگ میں اتنا دم تھا کہ اس سے پانی میں آگ لگ جاتی تھی. پانی تو بیچارہ بے جان تھا، جانداروں کا کیا حال تھا. ہمیں بعض اوقات کلام سنتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ یہ گانے والے یا قاری کس قدر سے دل گا رہا ہے یا پڑھ رہا ہے ... وہی تاثر جو آواز دینے والے سینے میں پیدا ہوتا ہے، وہی ہم میں ابھرنے لگتا ہے ..

گہرائی والی بات کسی غیر زبان کو سمجھنے میں کام آتی ہے بشرطیکہ کہ دل پسند ادب سنیں یا پڑھیں. جب ہم کسی کلام کو دل سے پڑھتے ہیں یا کہ سنتے ہیں تو اس غیر زبان کے لفظ ہماری فہم میں آنے لگتے اور ہمارے لیے وہ زبان بھی اجنبی نہیں رہتی ہے .... اسی کا حوالہ قران پاک کے لیے بھی ہے جسکو قران پاک سے محبت ہے وہ اسکو روز خشوع خضوع سے پڑھے تو اسکو بھی اسکی سمجھ آنے لگتی ہے ...


بات صرف گہرائی کی ہے. ذرا گہرائی میں جاکے امام عالی حُسین کی قربانی کو محسوس کیجیے! آپ کا دل میدان کربلا بن جائے گا. آپ کے دل کی زمین سرخ ہوجائے گی اور آپ کا دل بھی پکارے گا

بیخودی

 

بیخودی ذات کا اصل شعور نہیں ہے بلکہ بیخودی میں حاصل شدہ علم شعوری سطح سے مربوط ہونے لگتا ہے تو انسان اسی حال میں انائے اکبر تک پہنچنے لگتا ہے. بیخود پاگل ہوتا ہے، بیخود مجذوب ہوتا ہے. کچھ لوگوں کے لیے یہ وقتی کیفیت بھی ہوتی ہے. بیخودی تاہم ذات کا ایسا جوہر ہے جو شعور تک نہیں لے جاسکتا ہے. انسان کی ہمہ وقت جہت اسکے لیے اصل دروازے وا کردیتی ہے ....

بیخودی کیا ہے؟ بعض لوگ آپ نے ایسے بھی دیکھے جو دنیا سے بیگانے مست پھرتے ہیں .... ان کو جس کام کی دھن لگ جائے وہ سب کرتے ہیں باقی سب چھوڑ دیتے ہیں ... اگر کسی کو کرکٹ کھیلنے کا شوق ہے تو خوب کھیلے گا. اگر کسی کو اسیکچنگ کا شوق ہے تو وہ بھی خوب ہوگا .... اگر کسی کو عشق ہوگیا تو عشق کا ہوگیا اور دنیا کو چھوڑ دیا .... بیخودی نے اصل اک کام سے جوڑ دیا، اسکام کے طریقے بھی بتادئیے اور اسکے وضع کردہ اصولوں میں جینے والے کے لیےباقی ماندہ اشیاء سے وابستگی عذاب ہوجائے گی .....


شعور کیا ہے؟ شعور بیخودی سے نکلتا راستہ ہے یوں سمجھ لیجیے بیخودی رات ہے تو شعور صبح کا سویرا .... ہر دن اک نئی صبح لاتا ہے. رات میں چاند کی روشنی اور دن میں صبح کا سویرا ... سویرے کی اساس رات ہے. اگر رات نہ آئے تو کبھی دن نہ ہو مگر دن اور رات کا تسلسل ذات کی.کھوج کے لیے ضروری ہے ناکہ رات میں کھوئے رہنا اور دن کو بھول جانا ....


بیخودی میں انسان وہ عکس دیکھ لیتا ہے،جو منعکس اصل سے ہوتا ہے ...اس منعکس کو شعور میں پیوست کرنا شعور کے بنا ممکن نہیں ... ...اسلیے بیخودی انسان کو آشنائے راز کرتو دیتی ہے مگر زمانہ "انا الحق " کی.صدائیں سنتا ہے، سنگسار کرتا ہے .... جبکہ شعور والے زینہ.بہ.زینہ.ذات کی گہرائی.تک پہنچ کے نا صرف خود کو سنوارتے ہیں بلکہ.دوسروں کے لیے بھی مثل.شمع ہوجاتے.ہیں

درون

 ربیع الاول کا ماہ مبارک شروع ہوا ہے .... سب رنگ غم کے ماند پڑجاتے ہیں، دل میں خوشی بہار کی مانند پھیل جاتی ہے ... درون میں جب سیرت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی پھیل جاتی ہے تو حیرت سے دل متعجب پوچھتا ہے کہ درون کیا ہے؟ درون باطن کو کہتے ہیں. ایسی دنیا جس کی بدولت خیالات متحرک ہوتے ہیں ...خیالات سوچ کے محور کے گرد گھومتے ہیں اور احساس کو نمو دیتے ہیں ....احساس کی نمو سے خیال کی تجسیم تلک، خیال کی تجسیم سے حقیقت تلک ..... جب سوچ سے خیال، خیال سے تجسیم، تجسیم سے حقیقت مل جاتی ہے، تب مقامِ حیرت شروع ہوتا ہے .. ... کبھی کبھی یونہی گھٹنوں کے بل بیٹھے، دیوار سے ٹیک لگائے خیال اکثر گنبد خضراء میں گھومتا ہے تو کبھی غارِ حرا کو ڈھونڈتا ہے .... گویا ایسے کہ غار حرا کی حقیقت پہلے بھی کھل چکی ہے یا کہ حرا کے مقام کی معرفت مل چکی ہو مگر اس کی حقیقت تلک رسائی میں خیال کی تجسیم دھندلا گئی ہے ... اس ماہ مبارک کی برکت تو یہی ہوتی ہے کہ دل کے آئنے پر غار حرا روشن ہونے لگتا ہے اور صدا یہی بازگشت بن جاتی ہے


آؤ غارِ حرا چلیں ..، چلو حرا کو چلیں .....

درون میں دراصل اصل خوشی ہے اور اصل ذات تک رسائی اصل الاصل خوشی ہے. بچہ ماں سے جُدا ہوتے ہے مگر احساس کی مادی دنیا میں آتے اسکو نہیں پتا ہوتا اسکی ماں کون ہے مگر بچے کے دل میں ماں کی خوشبو بسی ہوتی ہے .ماں کا لمس اسکی خوشی ہوتی ہے ... اسیطرح جو خالق ہے، اسکا رشتہ بھی شناسائی کا ہے ... پہچان کرنے کا کہ کس دنیا سے آیا تھا اور کس جہاں میں آباد ہے. روح کا اک حصہ اس جہاں آباد ہے، جسکو عالم ملکوت کہتے ہیں ... اس عالم سے روح کو روشنی ملتی رہتی ہے اور روشنی کا ملنا گویا ربط کا سلسلہ ہونا .... ربط کا یہی سلسلہ اصل سے ملنا ہے، یہی وصال ہے اور جس قدر ربط بڑھتا جاتا ہے اسی قدر کمال نصیب ہوجاتا ہے .....

دل میں اسم حرا کی تکرار سے روشنی پھیل جائے تو ذکر کی تتلیاں، درود کی پتیاں، احساس کی اگر بتی سے سلگتا دھواں باطن میں عجب سا کیف طاری کردیتا ہے کہ گویا ذی وقار کی ہی بات ہو .... یہ احساس خوشی سے مسرور کردیتا ہے کہ احساس رگ و پے میں دوڑ رہا ہے اور ہر رگ فگار دل لیے ہے .... تار تار فگار دردِ ہجراں سے ہوا ہے اور ربط مل جائے تو درود واجب ہوجاتا ہے. اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ربط رکھنا ہو تو کثرت سے درود پڑھتا ضروری ہے .....

خارج بھی درون کا عکس ہے. پتا سرسراتا ہے کیونکہ میں نے اسے دیکھا ...میں نے آواز سنی اور میری روح نے وہ روشنی دی جس سے میں نے سننا شروع کیا تو احساس ہوا کچھ صدائیں معبد وجود کے درون اور کچھ خارج سے ہوتی ہیں .... درون کی آواز شناسائی ہے ....میں نے سرخ پھول دیکھا گویا میرے باطن نے سرخ رنگ جذب کرلیا اور باقی روشنی کے رنگوں کو منعکس کردیا ...... میرا رنگ سرخ ہوگیا .... مجھے پانی نیلا نظر آرہا ہے کیونکہ میری آنکھ نیلا رنگ جذب کر رہی ہے اور باقی رنگ منعکس .... میرا رنگ بھی انہی سے نسبتوں سے معتبر ہوگا کہ اللہ کا رنگ سب رنگوں پر حاوی ہے .....

درون میں کمال کا، جلال کا، جمال کا، خشیت کا، جبروت کا اور اسی اقسام کے رنگ ہوتے ہیں ... المصور، عبد المصور کا ربط انہی رنگوں کو یاد دہانی ہے .... یہی ذات کا جوہر ہے .... یہی کندن ہونے کا عمل ہے

نعت کہنے کو حرف دل ہونا چاہیے

 روشنی ہوتی ہے .... چراغ الوہی ہو تو .... الوہی چراغ کیسے ہوتا ہے، جب دل کا ہر حرف ثنائے محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں بسر ہو .... داستان دل رقم کیے دوں یا کم مائیگی پہ افسوس کروں ... افسوس بھی کیوں کروں کہ میں ہوں کیا؟ کافی عرصہ ہوا قلم اپنی رفتار پہ رک گیا اور جذبات کے تلاطم میں شور نہ رہا، نہ حرف کے لیے خون چکاں انگلیاں ہوئیں، نہ دل ...دل بھی کیسا جو کہ فگار نہ تھا! افسوس ایسے دل پر جو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہجر میں روئے نا. جگر بھی سالم ہے، جگر چاک نہیں .... قصور ہے نا تو میرا ہے کہ نعت لکھنے کی حسرت تو ہے مگر نعت لکھنے کو جو لوازمات چاہیے ان سے دل عاری ہے، روح مریض ہے ... دل مسکن ہے وبائی امراض کا .... نہ ان کی نظر ہوئی، آئنہ دھندلا صیقل کیسے ہو؟ کیسے ہو؟ شرم ہے نا کہ ماہ ربیع الاول کا چاند طلوع ہوا ہے اور دل پر اسم محمدی کے نقش نے جنبش نہ کی. پتھر ہے دل! پتھر دل سے جھرنا کیسے جاری ہو؟ کیسے چشمہ نکلے اور جب ہچکیاں نہ لگیں تو یہ حال ہوتا ہے .....


دل کو دیکھیے، حسد رکھتا ہے تو جلتا جاتا ہے ... دل کو دیکھے جلتا ہے تو غصہ کیا جاتا ہے دل کو دیکھییے کہ یہ حیلہ گر چاہتا نہیں کہ دل میں روشنی ہو. دل میں چراغاں ہو .....

روشنی کا مقدر عجیب ہے .... روشنی پانے والے کیسے ہوتے ہیں جن کو نعت گوئی کی سعادت حاصل ہوتی ہے. اپنا دامن دیکھوں تو خالی نظر آتا ہے آج تلک ایسی نعت تو کہی نہیں کہ کہنے کا حق ادا ہوجائے ... روشنی کا ستم عجیب ہے ... چراغ الوہی ہے تو ماند کیوں ہے؟ روشنی مقدر جس کا ہو تو اندھیرا کیا ہو؟ ............

وہ بھی کیا منظر ہوتا ہے جب حرا کا غار ہو، اور ہوا کی رفتار سے اس پر چڑھنا نصیب ہو .... نماز ادا ہو اور دل کہے کہ نعت سنا دے ... اس جگہ پہ بیٹھ کے اگر نعت پڑھوں تو لگے کہ میں نے نعت نہیں کہی بلکہ سب کہہ دیا جو میرے بس میں تھا یا کہ کوئی محفل نوری ہو، یہیں کہیں ہو اور میری نعت وہیں سنی جارہی ہو اور میری بات مقبول ہو رہی ہو ...


نعت کہنے کو حرف دل ہونا چاہیے
زخم دل کو خون سے پرونا چاہیے
رات کی ہتھیلی پر ہو محمد لکھا
قلم جب لکھے تب خوب رونا چاہیے

مرغِ بسمل ... خیالات ......... تماشائے ذات

 

سنیے! کبھی عشق کو چکھیے! آپ سر اُٹھا کے جی نہ سکیں گے! آپ کا جھکا سر، عبدیت کا درجہ ہے. سنا ہے عشق ہستی کو مٹا دیتا ہے! سُنا ہے مٹی کو مٹی بنا دیتا ہے. سنا ہے عشق ہر دم مستی ہے مگر نیستی کے عالم میں جائے کون؟ اک مجذوب گیا گاؤں، لوگوں سے کہا کہ کھانا دو! لوگوں نے کھانا نہ دِیا، پتھر مار دئیے! پتھر جیسے جیسے برستے رہے، خون رستا رہا اور مجذوب سجدے میں جھکتا رَہا .... مجذوب نے روٹی مانگی، معافی مل جانی. فقیر مانگے، تو پکڑ میں آئے گا .... فقیر کو اجازت نہیں مقام برضا الی اللہ سے نکلے جبکہ مجذوب ہر چہرے میں خدا کو دیکھتا ہے ......،


کچھ ہستیاں جذاب ہوتی ہیں. جیسے ہمارے پیارے سرور کونین کی مبارک ہستی جن پہ صدہا درود، صد ہا سلام .... پتھر ان میں جذب ہوجاتے ، سجدہ ہوتا ادا .... حضرت ابوبکر صدیق رضی تعالی عنہ، کتنے پیارے ساتھی تھے، محبت رسول اللہ میں غرق ... طٰہ، جلوہ کراتے ہیں جسے "س " کی روشنی سے دل کو طورِ سینا کرتے .. .....یہ سلسلہ ہے جڑا ہوا

جذب، مجذوب، جذاب ...یہ عشق ہے! یہ عشق ہے! بندہ جذب ہوجائے. یہ، عشق ہے! جذاب مل جائے ..... داغ دھل جائیں تو فقر نصیب ہوجاتا ہے .... نصیب، کیا یے ...دل کھول کے لکھا جائے، سب جل تھل ہو


عشق نبھانا مشکل ہے! اس سے مشکل کام جنگل میں خواب کا رستہ ڈھونڈنا! خواب درحقیقت منزل ہوتی ہے! عشق جب عطا ہوتا ہے تو خواب سے سرفراز ہوا ..... عشق تھا جس ابراہیم علیہ سلام کی نسل سے، کئی نسلوں تک چلا. ہم نے کئی سردار چُنے، جنہوں نے کلام الہی کو پہنچایا! عشق کی ع کو سمجھے نا کوئی، وہ عشق کا "ش " "ق " کیسے پاسکتا ہے ......،


عشق چکھیے! چکھا نہ ہو کبھی تو چکھ لیجیے! عشق نَہ پُچھدا ذات، عشق چکھا تو اَبدیت کی مئے بھی مل گئی. عشق بادشاہ گر! عشق کیمیا گر! عشق ہست مٹادے! عشق مٹی میں ملا دے ....

میرے سرکار آئیں ہیں ...درود، دُرود! ورودِ تجلیات! نمودِ ہست کے جلتے ہیں دِیے ...ش .......... ہے عشق کا کہ یقین سواری ہے! ش .... شہادت کا سلسلہ ہے، امامت کا رتبہ! عشق تیغ زن ہادی!

عشق جسکو ملے، سر اُٹھا کے جی نہ سَکے وہ! جو سر جھُکا تو عبدیت ملی، معراج ملی ........،

حقیقت حال، طریقت کمال، صدیقیت مثال .... روشنی کا جلال ... ہر سو حُسن ... جاناں کا حسن! حسین آگیا، درود پڑھو! حَسین مل گیا .... طٰہ آگئے ... چاند نے مسکرا کے آنکھ موند لی، سورج نے روشنی کی مثال لی .... چھپ گئے روح الامین ....کیا ہوگا مرا حال. ... سرکار مجھے اپنے قدموں میں چھپا لیجیے .... میرے طٰہ ..... قدموں میں چھپا لیجیے ..... قسم آپ کی عزت کی، قسم آپ کی شان کی .... طور سینا کی روشنی ہو،... مزمل سے مدثر .... مدثر سے طٰہ ....... طٰہ سے یسین کا سفر طے کیسے ہو، ....

سوار کو، سواری مل گئی ..... کمال ہوگیا ... سوال چھا گیا .... جلال سے سوال مخاطب اور ہو کا عالم ..... عشق ازلی کے حسن میں عشق ابدی کا رقص ...... دو نور کے تھے ٹکرے، تھا دوئی کا احساس ... ملے تو مٹ گئے جھوٹے نقش سبھی .....درود، درود ...

تمھارے کوچے سے چلے بھی جائیں، تو کریں گے کیا؟

 تمھارے کوچے سے چلے بھی جائیں، تو کریں گے کیا؟

گَلی گَلی نہ دیں تمھیں صَدائیں، تو کریں گے کیا؟

جلن تُمھاری ہے نصیب، لطفِ آشنائی میں
گزر کے خود سے تم تلک نہ آئیں، تو کریں گے کیا؟

فنائے ہست بعد دید کی طلب؟ یوں زندگی
میں مرتے مرتے مَر ہی گر نہ پائیں؟ تو کریں گے کیا؟


جِگر کے زخموں کا علاج ہوتا ہے؟ کِدھر، کَہاں؟
مسیحا سے ہی مل اگر نہ پائیں، تو کریں گے کیا؟

دِکھے ہو چار سُو تمھی، نہیں گماں میں کوئی اور
خیال میں نہ زندگی بِتائیں، تو کریں گے کیا؟

مہک تُمھاری بِکھری ہے چہار سو، کہ کاخِ دل
میں شمع کو ہی ڈھونڈنے نہ پائیں، تو کریں گے کیا؟

ادب کا یہ مقام ہے کہ روشنی جلو میں ہے
طواف میں یہ پر بھی جلتے جائیں، تو کریں گے ک

ترا ،حال وہی ہے ، جو میرا ہے

 دو سکھیاں کھڑی تھیں ، دونوں کے پاس اپنے اپنے رنگ تھے ، دونوں کے پاس شاہی لباس تھے ، آج دونوں ملیں تھیں کافی عرصے بعد تو گویا سرشاری چھائی تھی ،گویا دیوانگی چھائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


آؤ ، مل کے رقص کریں ۔۔۔، اسطرز رقص کہ تُو تُو نہ رَہے ،میں ، میں نَہ رَہوں ۔۔۔رَہے تو کائنات رَہے ۔۔ زمین نہ رہے مگر رَہے تو صرف فلک رَہے ، یہ دوئی مِٹانے کے بَہانے ۔۔۔ ہم تو اپنے ہیں ۔۔بہت پُرانے ۔۔۔۔،

دو ہمجولیاں مگر اک دوسرے کو نَہیں جانتی تھیں ، اک سکھی نے دوسری سے کہا

اے ہم نشین ،اے مقیمِ دل ، اے مدامِ شوق ! اے بَیانِ عجزو حلم ۔۔۔ تو کون ہے؟ تو کدھر سے آئی ہے؟

تری مستی کدھر سے آئی ہے؟
ھذا الستُ ، یوم الست !!! فکیف الست ۔۔۔؟ الیوم الست ، قال اللہ : الست بربکم ۔۔قالو بلی
تری خودی میں جھانک کے دیکھا ،ہمارا آئنہ ،ترا آئنہ ایک سا ہے ۔ ہم نے تجھ سے پوچھا تو کتنے شوق سے ہماری جانب آئے گی ۔ قالو : کیف مکرنی ،کُن محالکَ ،توری صورت میں لگے پریتم کی بتیاں روشن !

تیرا کام عشق کرنا ....چل کر ہمارا کام، تجھے ملے گا انعام ..کن محالک، مجالک .... یہ جو پتھر ہے ترے سینے میں. یہ عام نہیں .... ترا عشق سلامت رہے


کن محالک، کیف مجالک، کما ازدنی! کما تصدقنی!

یہ حال ،یہ رقص، یہ سُرور ۔ نا ختم ہونے والا سلسلہ

ورفعنا لک ذکرک ، ذکر اُٹھنا ہے ، ذکر جب بُلند ہوگا جمال کی سرکار سے ، تو پوچھا جائے گا ، کیف حالُکَ ، انت فبظلمی ؟ یوم الست میں کُن کے آوازے سے خلق ہوئے صد ہا آئنے ۔۔۔، یہ آئنے عکس و معکوس کے سلسلے ۔۔ تو ، ترا وجودِ اصل ، تو آئنہ ء شوق ۔

سرجھکا بندگی میں ، دل نے نگاہ نہ اٹھائی ، مگر ستم کیا کرے بیان ، روئیے زار زار ، زار زار رونے والے کہاں ہیں ؟ پوچھیے ،اس سے ،مستی ء شب کیا ہے؟ بندہ ء بشر کیا ہے؟

یہ دونوں ہمجولیاں ، گیت الست کی مستی کے سنارہی تھیں ،اک نے ساز سنبھال رکھا تھا ، اک نے صدا بلند کی ہوئی تھی

ہمجولی: کیف حالک؟ انت بذکری؟ انت فکری؟ انت حبی الرسول؟ یوم وصالک؟۔۔
سکھی :ترا حال ہم جانت ہیں ...توری پریم ہم مانت ہیں ..ترا خیال پاک ہے، اس لیے محو پرواز ہے. تو حلقہ ء ذکر کی شمشیر ہے. تو عشق کا ق ..تو عشق میں مہجور. کیف حالک؟ کیف حالک؟ انت بذکری؟ انت فکری؟

شوق رسالت شوق امامت، شوق نور، وجودیت کی کرچیاں، بسمل کا ظہور، اسم علی النور. اسم علی النور ...نور علی النور ... ، کیف حالک؟ کیف حالک؟ انت بذکری؟ انت فکری؟ جھک جا شوق رسالتٖٖ میں ، مٹ جا بزم حیدراِ ں میں ، مٹ جا! ... آ مجھ سے مل! آ، نور سے مل! آ کہ بیٹھا منتظر ترا محبوب . تو ہمارا شوق ...آ کہ تجھ سے بات کرنی ہے . آ کہ، زندگی تجھ سے چلنی ہے،آ کہ بسمل کی پاسداری ہے! آ کہ تو فقط ہماری ہے! تو جمال ہے! تو جمال ہے! ترا فکر کمال ہے! تری کیا مجال!

کیف یوم الست؟ ھذا البصر؟ یوم الست کے صیقل آئنے تھے. کچھ ہماری جناب کے، کچھ ہماری محبوب کی ...تقسیم کی چادر تنی. کچھ لاڈلے ہوئے، کچھ نے لاڈ اٹھائے ...کچھ ذکر کرتے رہے کچھ مستی میں غرق ہوتے رہے ...تو ذکر کا آئنہ ، شوق کا ..تو شوق کا تو نور فکر ہے . ........ ت.. تری بندگی اچھی لگی ...جھک جا ہم تجھیں نوازیں گے تحفہ ء معراج سے


حالَتُ بِحالَتکَ
اننی بذکر اللہ ، اننی فکر اللہ
حالتُ بحالتکَ
موج عشق میں غرق دو سکھیاں موج نفس میں موجود دو بتیاں
حالتُ بحالَتک
کمالِ رسالت سماوات کی ملی
کمال توحید جمالات کا آئنہ
حالُت بحالتک

شوق وجود اضطراب، شوق نمود و ننگ و خاک
فقر مقام ترا، دل میں منقش کرسی
الحی القیوم ، الباری ، الوالی
النور ، عینِ نور ، نورکَ ، الماجد النور ، الواحد النور
کیف حالک ؟
حالت بحالتک
حالت کمالتک
حالت جلالتک
حالت جمالتک
حالت اننی جبروتی
ہائے حیرت ملکوتی
ہائے شوخی تری، مری قدوسی
سبحانک ربی العلی سبحانک الفکرُ العلی. سبحانک بعزتی بعزتکَ ...سبحانَ اننی وحالک؟
حالت بحالتک
حالت کی کرسیاں
حالت کا وجود ہے
حالت موجود دل میِں
ہم جلال میں ...
ہمیں جلال سے ملتی روشنی