Wednesday, November 22, 2023

قرأت کیوں ضروری ہے

قران پڑھنے و فہم کے لیے روحِ اعظم سے ربط ضروری ہے  معظم و مبین و رحمت سراپا ہستی نے قَریب سالہا سال کی ریاضت و مجاہدہ فکرو غور پر رکھا. سوچ و خیال کے تَمام سوتے مرکوز ہوئے ایک نقطے پر، تب جبرئیل رحمت اس نقطہ کے وسیلے سے حرفِ اقرء کے راوی ہوئے
کَہا گیا 
قرأت ویسی کیجیے،جیسی کہ بَتائی گئی 
حکمت کا درجہ تھا کہ تین مرتبہ کہا گیا 
میں قرأت نَہیں جانتا 
میں قرأت نہیں جانتا 
میں قرأت نہیں جانتا 

قرآن پاک کو درجہ بَہ درجہ ایک سیڑھی (نور کی) سے معتبر کیا جاتا ہے تب یہ واردات(وحی) *اوحی* کے لیے وسیلہ روحِ اعظم ٹھہری اور رابطہ کے لیے نشانِ جبرئیل حادث مقرر ہوا.گویا ترتیل و تنزیل کے لیے فرشتہِ وَحی ایک نشان اور ترسیل نور و قرأت پسِ پردہ جاری ہوئی. ہیبت کا عالم تھا کہ لرزش سراپا بدن معطر تھا. رابطے کا پہلا نشان کھالوں کا نَرم پڑجانا، روح کا مقرر ہوجانا. انسانی نفس و جسم پر واردات کیفی کا حال لرزش و خشیست میں ظاہر ہوتا ہے.نَماز دین کی ابتدا اس پہلی وَحی مقرر سے ہوگئی 

نَماز دین کا پہلا درجہ خشیت و لرزش ہے جو بعد دید حاصل ہوتا ہے. لقاء سے محرومین اس نَماز دین سے عاجز ہوتے ظاہر کے روبہ ملتبس خدا سے محروم یلغار میں مہم کار رہے

قرأن کسی بَشر کو قرأت کے بنا یعنی (روحِ اعظم) سے ربط بنا نہیں آسکتا.

راقم اس حوالے سے ایک وحی مقرر کی جانب غور و فہم کراتا ہے

تم میں ایک ایسا بھیجا جو تمھارے دلوں کا تذکیہ کرتا اور آیات کو کھولتا.آیات یعنی قلب مبارک میں نشانات. ایسے نشان جن سے چشمے جاری ہوتے 

سورہ البقر میں اشارہ ہے
کچھ پتھر سجدے میں اور کچھ سے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں 

چشموں سے مراد بصیرت ہے. بصر یعنی دیکھنا اللہ کے نور سے. مومن کی فراست اللہ کے نور سے دیکھنا ہے ...

ان نشانات کی قرأت و ترتیل و انتظام کے لیے غائب / حاضر سے رابطہ کسی روح اعظم سے ضروری ہے جس کا رابطہ اس حادث نور کے نشانات سے ہوتے سلسلہ خدا سے ملتا ہو ...

دوسرا درجہ: قم فأنذر

جب نور مکمل جاذبیت و حسن سے سیراب کردیے تب من و تو کا فرق واجب نہیں ہوتا کیونکہ واجب و الوجود ذات ایک ہی ہے. وہ خود اس کاغذ ہستی میں نمود پاتے نقطے سے حروف تہجی کی مکمل ترتیل کرتی ہے.تب کہا جاتا ہے پیار سے 
کملی (نور سراپا) والے

زمانے والو کو ڈراؤ.......

قرآن پاک کی ندرت بیانی ہے کہ اس میں کئی قرآن کی اقسام بیان کی گئی. ظاہر معلوم ہے کہ ہر نبی پر قرأت افکار مختلف ہوتی ہے. کسی پر یہ نور فرقان بن جاتا ہے کہ اس کو ہر سچ و باطل کی تمیز ہو.کسی پر نور الہدی کہ ہدایت پانے والے بن جائیں. کہیں یہ ذکر سے مشبہ ہے. جب وہ ذاکر ہو تو جس جس سے وہ ذکر کرتا ہے یعنی نصیحت.اس نصیحت کی جامعیت کا واردات بن جانا اس کی جانب سے تحفہِ عظمی ہے.وہ برتن میں جب اترتی ہے تو تناول ایک ہستی کرے یا بہت سی مگر یہ جیسے اترتی ہے ویسے زمانوں تک جاری رہتی ہے بس برتن در برتن ایک فرق آجاتا ہے ....

قرأن کی تفہیم بنا قاری کے کیسے ممکن ہے؟ 
تم کیسے کسی مرشد(قاری) کے بنا تحفہ معظم پاسکتے ہو 
قرأن کی قرأت کا اعجاز موجود زمانے میں ایک سورہ سے شروع ہوا ہے.سورہ رحمن کی قرأت ایسے قاری سے جس کو قرأت روح اعظم سے حاصل ہو.جس کو یہ شرف ہو وہ ربط خدا میں ہمہ حال ہے
قرأت قران شفا بن جانا تو بس نقطہ کے کھل جانے کی پہلی آیت ہے

بشر اپنی تمام کثافتوں کو لیے جب اس قرأت سے فیض یاب ہوتا ایسا جیسا قاری عبد الباسط کے پیچھے وہ خود بھی خدا کے روبرو ہے

تب وہ خشیت سے کھالوں کا نرم پڑجانا اہم ہے
بیماریوں کی شفاء سے لیکر عرفان ذات تلک سارے کام نقطے سے شروع ہوتے حروف تہجی مکمل ہونے تلک ہے ...

ذکر کی بہترین قسم ہے کہ ذکر جاری رکھو

نبی مثل نور ہوتا ہے

نبی مثلِ نُور ہوتا ہے مگر صورت بشر ہوتا ہے.اس کی رویت میں اللہ عزوجل اس قدر قرار پاچُکا ہوتا ہے، اُسے دیکھنا اللہ کو دیکھنے جیسا ہے مگر یہ ظاہری صورت کا جلوہ نَہیں  وہ دید تو ابو جہل نے بھی کی تھی  یہ درون کی رویت کا جلوہ جب تک ممکن نَہیں جب تک نبی خود نَہ دکھانا چاہے  نَبی خود نَہیں دکھاتا بلکہ اسکے نور کی رویت(اللہ) جس تک وہ چاہے، جتنی چاہے،پہنچ جاتی ہے  اس لیے مومنین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ نَہیں پاتے تھے جب تک نَبی ان کو نہ دیکھیں  جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا، تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا.   جس نے ان کو دیکھا گویا اس نے خود کو دیکھا    .... وہ اندر(درون)  میں موجود ہیں ..  

جناب یعقوب علیہ سَلام کا صبر ایک مثال مگر مسنی الضر کہنا پڑا    .
جناب آدم علیہ سلام کا گریہ اور ربنا ظلمنا انفسنا کہنا پڑا.
جناب یوسف علیہ سلام کا گناہگار ہوتے جیل کاٹنا مگر قیدی کو بآلاخر کہہ دیا بادشاہ کو یاد دلا دے.
جناب یونس علیہ سَلام کو لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظلمین کہنا پڑا.
..

ہر ایک نے مثلِ نور ہوتے کہیں نہ کہیں تقاضائے بشریت کا اظہار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی کوئی بات نہیِ نبھائی جس سے نجات کی دعا مانگتے    آپ نے اپنی امت کے لیے اپنی اولاد و آل کو قربان کردیا اور دعا امت کے لیے رکھ لی ....ان کی دعا سے ہچکی لیتا بدن،لرزش پیہم،گفتہ بہ دل، گریہ بہ چشمان، روئے زار زار.    

رحمت سراپا ،متلجی دِیا،قبولیے دعا،دیجیے ردا،نقش نعلینت پر سجدے کا اذن،شمس الدحی کی رویت، ماہیت قلب میں ..... ایسی رہے ایسی رہے جیسی دعا ہے مدعا رکھا ہے، دل پڑا ہے،ہاتھ دھرا ہے .....

Sunday, October 15, 2023

آج کی ڈائری

بہت تلاش و بسیار کے بعد انسان کو اپنا مطمع نظر مل جاتا ہے مگر مجھے نہیں مل رہا. یقین کچھ ٹھوکریں کھا کے مل گیا. مجھے یقینِ کامل سے نواز.یقینا خدا یہ گھڑیاں میرے لیے تنگ ہیں مگر تری رحمت و رحمانیت کی چادر بہت وسیع ہے. تو رحمن و رحیم و کریم ہے میرے عزوجل ...آج میں نے سوچا ہے تنہائی ترے ساتھ کاٹوں ...تو میرا ہمسفر و ہمنیشین. مجھے ترے سوا چاہیے کیا ....میں کیوں خوار ہوں دنیا کے پیچھے؟  اس دنیا سے مجھے درد ہی ملنا ...خیر مالکا ...سائیاں ہمت سے نواز 

Tuesday, October 10, 2023

ذات ِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اللہ کی ذات روشن و بابرکت ہر زَمن کے لیے متجلی ہے. جب وہ کسی کو اپنی محبوبیت کا شرف بخشتا ہے تو اس کو ایسی چادر عطا کرتا ہے جو قربت کی نشانی ہوتی ہے. ہر زمانے میں اُسکا محبوب بصورتِ نشان رہا ہے. گویا ذات محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور ہر نبی کے دل ودیعت کردہ ہے. وہ زمانہِ قدیم سے اب تلک کے تمام خبر دینے والوں کے قلب میں نشانِ عظیم ہے. ہر معرفت کا طلب گار دل اس نشان عظیم کا متمنی ہے. 

مناجات

اے مالکِ کونین! دل کو اپنے نور سے منور کردے.قرابت کی منازل عطا کر. جنبشِ ناز سے حریمِ دِل میں قدم رکھ. فریاد رس دل میرا تری بارگہ میں ترے نام کا ہدیہ لیے طالب ہے.مولا تو نے اپنے طالب کو کب حق سے محروم کیا ہے؟ مولا تو نے کب موج کو بحر سے الگ کیا ہے.مجھے بحرِ حق سے الگ مت کر. یہ میرے ظاہر کی بھی موت ہے. یہ مرے باطن کی بھی موت ہے.

نعت

اوہدہ کمبل کالا تے مکھ چن ورگا 
مکھڑا سوہنا ،لگدا مینوں رب ورگا 

تراب کی قسم کھائی جاتی ہے اور بوترابی کا لقب عطا کیا جاتا ہے.القابات سارے رب کی جانب سے عطا ہیں. وہ اس زمانہِ روشن میں بھی جھکے ہیں جو اس زمانہِ قدیم میں جھک گئے تھے.وہ اس حال میں مقیم ہیں گویا ان کے روبَرو ان کا محب ہے. یہ تسبیح ہے. انسان کو قائم تسبیح خیال کی یکسوئی سے ملی ہے جبکہ رات کی تسبیح بشارت دینا ہے. اندھیرا ہمیشہ روشنی لاتا ہے ..... روشنی عالمِین کی قائم ہوتی ہے تو کملی والا دکھائی دینے لگتا ہے ....

Tuesday, March 14, 2023

ترا خیال....

یہ الفاظ کھوجائیں گے...... 
محبت کے حرف ختم نَہ ہوں گے ....... 
وصلت عیش میں خیال ترا غافل نَہ کردے..... 
اس لیے تجھے سامنے بِٹھا کے دیکھتے رہتے ہیں .... 

کَہیں تُم مجھ خُدا تو نَہیں سَمجھ رَہی؟ 
تُم خدا سے بَڑھ کے ہو کیونکہ تمھیں دیکھ کے خُدا یاد آجاتا ہے 
تمھارے چہرے کا نقش نقش سینے میں محفوظ کرتی ہوں کہ کَہیں خطا میں میں خطا ہوجاؤں تو یہ خیال خطا نہ ہو اور نماز محبت قضا نَہ ہو .......

میری جان 
جب سے تمھیں دیکھا ہے چین و پل کو دان کرکے درشن کو مندر میں بھگوان کی پوجا شُروع کردی. مرے خیال کی رکھشا کرے گا بھگوان اور مجھ سے کبھی جدا نَہ کرے گا

تم جانتی ہو 
محبت تلازمِ حیات ہے .... 
یہ وہ آبِ حیات ہے جس سے شہد کی مٹھاس ماند پڑ جاتی ہے
یہ وہ چاندنی ہے جس سے چاند ماند پڑجاتا ہے 
یہ وہ آگ ہے جس سے لوہا پگھل جاتا ہے 
یہ وہ نغمہ ہے جو دِلوں کے باہم وصال سے وجود آتا ہے 

اچھااااا!  
تُمھارا حُسن اس قدر جاذبیت لِیے ہے کہ اک پل کو جی چاہے کہ روشنی سورج کی تم سے خیرات مانگنے آتی ہے ....

 تمھارے احساس کا آنچل .....
تمھاری محبت میں جلتا سندیب .... 
چراغ محبت میں راکھ ہوتی دشائیں 

آرتھی اتارو 
بھگوان نیا میں بہنے دو آنچل سے آگ کو 
کپڑے کو جل جانے دو 
محبوب ساتھ ہو تو جلنے کا لطف الگ ہے 
جو مزہ جلنے میں وہ صبا کے چلنے میں نہیں 

یونہی تھام چہرا دیکھ دیکھ کے احساس کی سرحدوں میں پیار روشنی کے دریا جیسا داخل ہوا .... یکتائی .... دوئی نہیں ہوتی پیار میں ... ورنہ پیار نہیں ہوتا ..... 

ترے سنگ چلی پیا 
نینن میں بَسا کے چلی