Thursday, November 26, 2020

لم ‏یاتی ‏نظیر ‏----- ‏کوئی ‏ثانی ‏نہیں ‏تمھارا ‏

لم یاتی نظیر .... کون ثانی نہیں تمھارا

اس بات کو ماننے میں حرج کہاں مگر اے نور لطیف!
جو کثافتیں دھو ڈالے
دلوں میں الوہیت کے چراغ روشن کرے.
اے لاثانی!
وہ آسمان پر ....!
اور نور لطیف زمیں پر ...
تم سے کتنے آئینے نکلے
تمھارے آئینے سے نکلا "نور " اور آسمانی "نور " ایک جیسا ہے. اس سلسلے میں مرکز "تم " اور مرشد بھی تم اور قبلہ نما بھی تم، میرا قطب نما بھی تم.میرے دل کی دھڑکن سے پیدا ہونے والی آواز بھی تم ہو اور موت کی آخری ساعت کا انتظار بھی تم ہو ۔اس کےباوجود ۔۔۔اے دو جہانوں کے سردار !
اے ذی وقار !
اے آئینہ دو جہاں
اے شیش نگر ۔۔۔ محل بنانے والے میرے زباں پر اک سوال آیا ہے ۔ ہمت کرکے محفل مقدس میں پوچھنا چاہتی ہوں ۔ مجھے امید ہے لاچار کی آواز پر اعتراض نہ ہوگا۔ ایک گناہ گار ہوں ۔ کہے دنیا سیاہ کار ہوں

ایک سوال کرنا ہے؟

''کرو، شوق سے کرو، اجازت ہے.۔۔۔۔۔!!!
میں کسی آئینے میں "یہ " عکس پاتی. میرا شوق بڑھتا ہے کہ میں تمھارا آئینہ ہوتی اور ہر سو مجھ میں "یہ " دیکھتی. مگر میں ہوتی تو۔......؟ مجھے آئینہ ہونے کی خواہش ہے.میرے پاس وضو کے لیے پانی نہیں، بنجر زمین ہے، ہرہالی کا نام و نشان نہیں ہے۔

""یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تم میں چھپا ہے۔.ہر روح آئینہ ہے جس کا وعدہ "قالو بلیٰ " کی صورت میں ملا. اس عہد کی ہر ذی نفس کو ضرورت کو تجدید کی ضرورت ہے کیا ہر بچہ دین فطرت پر پیدا نہیں کیا گیا ۔ ؟ جب تم من میں جھانکتے نہیں تو سوال تو اٹھیں گے. خود کے سمندر میں ڈوب کر دیکھو.من میں غوطہ زن ہو کر غوطہ خور بن جاؤ اور اس گیان کے ساتھ جہاں کی دید کرو ۔ سارے سوالات ختم ہوجائیں گے۔

مرشدی!
سیدی!
''میری روح نے یہ وعدہ خاکی بستر میں آنے سے پہلے کیا اور جیسے ہی لطافت کے اوپر گرد چڑھی . کچھ نظر نہیں آیا. مجھ میں بصیرت ہے نہ بصارت!!! کیا کروں ... ؟ تجدید کی ہی طلب گار ہوں ۔۔۔ !
میری حالت تو ایسی ہے کہ مجھے خود پر یہ گمان ہوتا کہ :
صم بکم عمی فہم لا یر جعون.۔۔

اندھے، بہرے ،گونگے جن کے دل طلاق کھا چکے. تالے کھلتے نہیں ہیں . ہائے! کون کھولے گا یہ تالے؟ ۔دکھ دکھ دکھ، ان کو کھول دیں ..آزادی میں حیاتی ہے. مجھے میری اسفلیت سے نکال دیں. اسفل سافلین سے بچا لیں.

"سنو "
''سفل .... لفظ۔۔۔۔۔ ''
خاک کو زیب نہیں کہ وہ سفل کا مقام خود دے. یہ وہ مقام جو "عین " سے دور ہوجانے والے کو ملا یہ اس کے حواریوں کو۔ یہ مقام ابلیس کا ہے ۔ یہ مقام فرعون کا ہے اور اسی مقام پر نمرود و شداد نے اپنی زندگیاں گزاریں اور قارون ہو یا ابو لہب ۔ ۔۔ یہ مقام انہوں نے اپنے لیے خود چنا ہے ۔

خاکی۔۔۔
تجدید کی کنجی توحید ہے ۔ ''احد '' کو اپنے دل میں بسا لے اور صنم خانہ مٹادے ۔ تیرے صنم خانے میں جب ایک ہی قسم کی شراب کی نہر جاری ہوگی تب تجدید کے سوال و جواب کی ضرورت نہیں رہے گی
تم اپنا مقام خود چننا چاہو گے تو رسوا ہوجاؤ گے انہی کی طرح ۔۔۔ !!


تم نے اپنا مقام عقل و شعور کے دائرے سے اخذ کرنا ہے نہ کہ اس طرح کے گمان پال کر ۔خود کو سفل کہ کر اپنا مقام مت گرا. تیرے اندر بسا نور ہے. اس نور کا تقاضہ اس بات کے مانع ہے ........۔جب اس گمان سے نکل کر شہادتوِں کو دیکھ کر شاہد بنو تو واحد کو پہچانو گی اور اس معرفت میں جو شہادت تمھارے من سے ابھرے گی وہ تیری پہچان بن جائے گی. جتنا شاہد انسان بنتا جاتا ہے آئینہ پر عکس منعکس ہو جاتا ہے جتنی شہادتیں شدت سے نکل کر تیرے وجود سے منقسم ہوں گی اور تیرا قطرہ قطرہ شہود کا عکس ہوگا، تب تیرا دل آئینہ ہوگا. تم کو تب مانگنے کے بجائے دینا ہوگا.

متلاشی

''میں نے اپنے ارد گرد جنگیں دیکھیں ہیں ۔ کبھی کبھی ارد گرد بکھرا خون مجھے اپنا سا لگنے لگتا ہے ۔ چند دنوں سے اس جاری جنگ کے احساس نے مجھ میں اتنے خون کر دیے ہیں کہ یوں لگتا ہے باہر کی دنیا شفاف ہے اور اس پر بکھرا خون میرا ہے اور اسکو میرے من نے جذب کرلیا ہے ''

''یہ جنگ کس کے درمیان ہوتی ہے؟ ''میرے قریب بیٹھے سفید پروں والی عجیب الخلقت مخلوق نے سوال کیا ۔

''پتھروں کے درمیان ۔۔۔! ''میں نے اس کے سوال سے بھی مختصر جواب اس کو دیا ۔

'' پتھروں کی لڑائی تم نے کہاں دیکھی ہے ؟ اور کیا پتھروں کا خون تمہارے من نے جذب کر لیا ہے ؟ '' اس نے دھیمے لہجے میں شائستگی سے پوچھا ۔

ہاں ! آج کل پتھروں کی لڑائی ہی ہوتی ہے ۔ کبھی تم نے شفاف ، نیلے، سبز ، سرخ ، ست رنگی پتھر دیکھے ہیں ؟

''کل دو پتھر ایک دوسرے سے تلوار اٹھائے لڑ رہے تھے ۔ ان میں سے ایک زخمی ہو کر زمین کے نیچے چلا گیا اور دسرا زمین کے اوپر ۔۔۔!!
اور پھر جب میں بھی اس کے پیچھے زمین کے نیچے گئی تو وہاں مجھے یاقوت چمکتا ہوا ملا ۔ ''

سفید پروں سے نور کے دھارے میرے چہرے سے ٹکرا کر روشنی بکھیرنے لگے جس نے مجھے مزید کچھ کہنے سے روک دیا اور اس نے پوچھا :

''گویا تم کان کن ہو ۔۔؟

'' نہیں '' !!!
'' میرا نام متلاشی ہے ، مقدر میں سفر لکھا ہے۔۔۔!! ایک دم میری دست شہادت سے سرخ روشنی نکلنے لگی اور اس کی سفیدی سے مل ہلکا نارنجی بنانے لگی ۔

''وہ عجیب الخلقت مخلوق مجھ سے دور ہوگئ اور کہا یہ پتھر تم نے پہن کر سوراخ بھر دیا ۔ سوراخ کو پتھروں سے بھرنے کا ہنر اچھا ہے ، کسی خاکی نے یہ کیا عجب تماشہ کیا ہے مگر چھید بھرنے کا طریقہ اور ہوتا ہے ''

مجھے اس کی باتوں میں پراسراریت محسوس ہوئی اور میں خود بھی اس سے دور ہٹ گئ ۔

'' تم نے یاقوت کو پہن کر اچھا نہیں کیا ، کیا اچھا ہوتا ہے کہ اس کو پگھلا کر چھید بھرتی ۔ پہننے سے صرف روشنی منعکس ہوتی ہے جبکہ اس کو حصہ بنانے سے روشنی وجود سے نکل کر چار سو بکھرتی ہے اور جہاں کے مظاہر اس کو منعکس کرتے ہیں ''

''گھاٹے یا منافع کا سودا کیا ؟
اے نیک صفت !
مجھے تو سوراخ سے مطلب !

میں تمہں ایک ایسے غار میں لے چلتا ہوں جہاں پر تمہاری طلب کی حد ختم ہوجائے گی اور تم شاید اور کی تمنا نہیں کروگی ۔ اس کے ساتھ میں اس غار میں چل دی ۔ غار کا دہانہ کرسٹل کی شکل میں آسمانی رنگ کی شعاعیں بکھیر رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے وہاں ڈھیر سارے نیلے سیفائرز کو پایا جن کی آب وتاب سے تاریک غار روشن تھا ۔ تب عجیب الخلقت مخلوق آگے بڑھی جس کے پروں سے وہی نیلے رنگ کا انعکاس ہونے لگا تھا۔ ان میں سے ایک بڑا پتھر اٹھایا اور اس کو ہاتھ میں پکڑا ۔ جیسے ہی اس نے پتھر پکڑا ، وہ پتھر ریزہ ریزہ ہوگیا ۔پھر میری طرف متوجہ ہوا

'' یہ لو ''
'' ان ٹوٹے ریزہ ریزہ پتھروں کا میں کیا کروں گی ؟ اگر دینا تھا تو آب و تاب سے بھرپور مکمل پتھر دیتے ۔۔!!!''


پہلی بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے میرے اندر جھانک رہا ہوں اور پھر بولا۔

'' لال جو باہر انگشت شہادت میں پہنا ہوا ہے اس کا اصل تو انگشہت شہادت کے زیریں ہے ۔اس نے '' گرد'' کو خود میں جمع کر لیا ہے اور
تمام کثافتوں کو اپنے اندر مدغم کرلیا ہے ۔۔۔۔ ''

اس نے اشارہ کیا اور اس کے ہاتھ سے نکلے پتھر کے نیلے ریزے جیلی کی شکل اختیار کرتے گئے اور وہ جیلی ایک ہی جھماکے سے اندر کہیں جم گئی ۔''

میرے اندر طمانیت کی لہر اتر گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ خاکی ارض پر وجودیت نے نیا روپ دھار لیا ہے مگر کس طرح ہوا ، اس کا اسرار جاننا مشکل تر کام ہے۔

'' تمہارے اندر '' یاقوت '' ہے اور تمہارے خون میں '' سیفائر '' ہے ۔ ہاں ایک بات یاد رکھنا : تمھیں 'زمرد ' کے قابل بن کر ''ہیرے '' کا متلاشی بننا ہے اور ۔۔۔ اگر تم نے '' سونا'' ڈھونڈنا شروع کردیا پھر کچھ بعید نہیں کہ دھوکہ میں رہو اور دھوکہ دو۔ ایک ایسا پتھر ' ہیرا' جس کو '' خالص ہونے کے لیے کڑوڑوں سال کی سورج جیسی تپش اور کشش کے دباؤ نے بنایا اس کو تلاش کرچکنے کے بعد تمہیں میری ضرورت نہیں رہے گی ۔ کڑوڑوں سال کا فاصلہ تم سالوں میں طے کرنا کا موقع مل رہا ہے ۔

میں سوچ رہی تھی کہ '' ست رنگی '' ہوگا تو شفاف بھی ہوگا ۔میں اپنے سفر پر نکلی تھی اور یہ عجیب راہیں بتا رہیں ہیں ۔

اُس نے میری سوچ شاید بھانپ لی : ''ست رنگی تمھی ''زیفرقستان'' میں ملے گا اور امید تیقن کے ساتھ '' ہیرا'' انہی خاردار راہوں میں چھپا ہے ۔انسان کی اصل پہچان ست رنگی سے ہوتی یک رنگی ہوجاتی ہے ''

'' میری سمجھ سے سرخ ، سبز ، نیلا ، ست رنگی اور یک رنگی باہر ہے ، بالکل ایسے جیسے کوئی دوسری زبان ہو ''

'' سفر شروع کرنے سے پہلے سوال کرتے نہیں ، کہ یہ سفر بذات خود ایک 'سوال' ہے اور سوال کے اوپر سوال جچتا نہیں ۔ سفر کے دوران سارے سوال ایک ہی سوال میں ختم ہوجائیں گے بس اس سوال کا جواب منزل تک پہنچا دے گا ۔

اس کے بعد میں نے سوال کرنا چاہا مگر وہ غائب ہوگیا ۔ اس نے ہونا ہی تھا کیونکہ سحر کی آمد آمد تھی ،مرغ بانگ دے رہے تھے ۔ میں نے آسمان پر ستاروں کو دیکھا اور وضو شروع کردیا۔

دھواں ‏سگریٹ ‏کا

سگریٹ کا دھواں
عمارت سے نکلتا ہے
آنکھوں میں چبھا بہت
کھانس کر حلق زخمی
ٹی بی کا مرض لگا کر
انسان کو کر رہا ہے بیمار
پھیپھڑوں میں جگہ بنا کر
عمارت کر رہا ہے خراب
دھواں بلند ہے بہت
اڑا کر لے کر جائے گا
اور باقی عمارت کی
بچی کچھی راکھ میں
ملے گا فقط ایک سگریٹ۔۔۔۔!!!

تقلید ‏اندھی ‏نہیں ‏ہوتی ‏

تقلید اندھی نہیں ہوتی ..........!!!
ایک عرصے سے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے مارتے دل کچھ تھک سا گیا ہے کہ تقلید اندھی ہے اور مجھے تقلید نہیں کرنی ہے . دراصل تقلید کے لفظی معانی میں اتنی الجھی ذات میری کہ تقلید کے وسیع معانی کی طرف دھیان ہی نہیں گیا . تقلید ، مقلد ... ان لفظوں کی مارو ...!! اور یہ لفظ ہمیں ماریں ... جواب میں لفظوں کا کچھ نہیں گیا مگر ذات اندھی ہوگئی ہے . اندھے کو ''نور'' ایک دفعہ مل جائے تو رفتہ رفتہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ تقلید اندھی نہیں ہوتی بلکہ تقلید کے پیچھے بھی ایک فکر چھپی ہے . مجھے تقلید سے ایک بات یاد آرہی ہے . میں نے کسی جگہ کہیں پڑھا تھا .

حضرت نظام الدین اولیاء رح کو اپنے دو مرید بہت عزیز تھے یا یہ کہ ان میں سے بھی ایک زیادہ عزیز تھا.حضرت نصرت چراغ دھلوی رح اور دوسرے حضرت امیر خسرو رح .... دونوں لاڈلے مگر زیادہ پیار ان کو'' طوطی ِ ہند '' سے تھا . جب اپنا جانشین مقرر کرنا چاہا تو آپ فیصلہ کرنے میں تامل کرتے رہے کہ کس کو مقرر کروں . دونوں حاضرِ خدمت تھے . دونوں کو کہا: فلاں فلاں جگہ پر جا کر یہ کھیر فلاں شخص کو دے آؤ. دونوں چلے اور اس جگہ پہنچ گئے . جب ادھر پہنچے تو دیکھا کہ کوئی حضرت اینٹ کی ایک بنیاد رکھتے کہ دیوار تعمیر ہو سکے . اسکی بنیاد پر تعمیر کا کام خود ہوتا جاتا . جب ان دونوں کو دیکھا ، تو حضرت نصرت چراغ دہلوی نے کھیر کا برتن ان کو تھما دیا. اور ان حضرت کو کیا جی میں سمائی کہ انہوں نے مٹی کھیر میں ڈال کر دونوں کو دے دی کہ کھا لیں . طوطی ہند نے ذرا تامل کیا جبکہ حضرت نصرت چراغ دہلوی نے بلا تامل کھا لی. اس کے بعد وہ حضرت کام میں مشغول ہوگئے اور یہ دونوں شخصیات واپس حضرت نظام الدین اولیاء کے پاس آئیں . آپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی خلعت ِ فاخرہ حضرت نصرت چراغ دہلوی کو مرحمت کر دی .

زندگی میں اسی طرح ہم اندھے ہوکر حقیقت کے پردوں کو سمجھ نہیں پاتے . ہمیں جو نظر آتا ہے وہی حقیقت لگتا ہے . لیکن ...! لیکن ہر کڑوی شے بھی زہر نہیں ہوتی . کبھی کبھی کڑوی شے سے وہ اثر نکلتا ہے جس سے تن من سے میٹھے سرمدی نغمے نکلتے ہیں . یہ نغمے درد سے مخمور ہونے کے باوجود سہارا بن جاتے ہیں . ''تن'' کا فلسفہ ہے کہ تقلید ''اندھی '' ہے جبکہ من کا فلسفہ ہے '' تقلید '' عقل سے گزر جانے کا مرحلہ ہے . یہ مقام عقل سے ملتا ہے مگر عقل پر مستقیم لوگ تقلید پر استوار نہیں ہو پاتے ہیں جبکہ عقل سے گزر جانے والے تقلید پر ایمان لے آتے ہیں . یہ وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں روشنی سے تن و من و لباس سے روشن روشن کرنیں گزرنے والوں کے لیے مشعل ِ راہ بن جاتی ہیں .

ہم چونکہ پیدائشی مسلمان ہیں اس لیے ہمارے لیے تقلید کا مفہوم وہی ہے کہ اندھا رہ ....! جبکہ ایک کافر ، ملحد جب ایمان لاتا ہے اس کی تقلید عقل کے مرحلے سے گزر چکی ہوتی ہے . اس لیے کافر ہم پیدائشی مسلمانوں پر سبقت لے جاتا ہے . بالکل اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد صاحب پیدایشی تقلید کے عادی تھی مگر تھے وہ سچے ، ان کے افکار بھی صوفیانہ تھے مگر لوگ ان کو سُن نہ سکے . لیکن ایک مغرب زدہ انسان جس کے کچھ عقائد باطل تھے کچھ بہت روشن تھے اس سے لوگ متاثر ہوگئے . کیونکہ اس کی ذات میں پیدا ہونے والے باطنی تغیرات میں لوک ذات چھپی تھی . وہ لوگ جو اپنا آئینہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ انسان ہمارے ہی جیسا ہے ، یہ کبھی ہم پر کفر کا فتوٰی نہیں لگا سکتا ہے اور اگر لگائے گا تو اس پر ہم خود بڑھ چڑھ کر الزامات لگا دیں۔۔۔۔۔!!! . وہ شخص اقبال تھے جن کی ذات میں پیدا ہونے والے تغیرات نے ایک مسلمان کو کافر اور پھر کافر سے مومن بنادیا. اقبال عقل سے گرز کے اس مقام پر آگئے جہاں اجتہاد بھی تقلید کا حصہ تھا ، جہاں سنت بھی .۔۔۔۔!. جہاں حدیث بھی اور جہاں فقہ بھی تقلید کا حصہ تھا۔۔۔۔!. ایک مسلمان نے ''شکوہ'' لکھ کر اللہ کی ذات کو للکارا کہ ہم سے صرف وعدہ حور کیا ہے ، دیکھو مسلمانوں کی حالت کتنی دل گرفتہ ہے ،.... کافروں کو نوازنے والے کبھی مسلمانوں کو بھی نواز دے ۔۔۔۔!. اس للکار سے رحمت باری تعالیٰ نے کافر کو اپنے اور قریب کر لیا اور اس نے کہ دیا

پا کر مجھے بے کس تری رحمت یہ پکاری
یہ بندہ بے برگ و نوا صرف ترے لیے ہے

یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انسان مومن کا درجہ پالیتا ہے تو وہ 'اسوہ حسنہ '' کا نمونہ بن جاتا ہے . مومن جو حقیقت میں قران پاک کی قرات میں مصروف ہوتے ہیں وہ خود ہئ چلتے پھرتے نمونے بن جاتے ہیں ..۔۔ یہ چلتے پھرتے آئینے ہوتے ہیں اور ان آئینوں میں جھانکوں تو بس ایک ذات نظر آتی ہے ۔ کوئی آئینہ دل کو ظاہر کرکے حلاج بن جاتے ہیں اور کوئی ابو الحسن نوری ، یا بایزید بسطامی ۔۔۔ کچھ پوشیدہ رہتے ہیں ۔ اللہ کی ذات اخفاء رہتی ہے اور اس کو پوشیدگی پسند ہے ۔ اور ظاہر ہو بھی جائیں تو وہ ذات باری تعالی کے داعی ہوتے ہیں۔ ان کے اندر قران مشک کی طرح گھول دیا جاتا ہے ۔ اس کی خوشبو چہار سو پھیل جاتی ہے ۔بس ایک ذرا سے ۔۔۔۔ ایک غوطے کی دیر ہوتی ہے ۔ غریقِ قران ِ کلامِ باری تعالیٰ والے اصحاب دراصل غوطہ ور ہوتے ہوئے بھی دنیا میں رہ کر ''نور'' کو پھیلا رہےہوتے ہیں

قرآن میں غوطہ زن ہو اے مرد مسلماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اﷲ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
یہ راز کسی کونہیں معلوم کہ مومن۔۔۔۔۔۔۔۔ قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

مجھے یہ لکھتے ہوئے ایک درد کا احساس ہو رہا ہے کہ ذات ہماری کتنی بری ہے ۔ ہم پر سوار ہمارے شیطان نے ملعون شیطان کو خوش کر دیا ہے ۔ ہم اپنے نفس کے حصار سے نکل سکیں ، اپنے حساب و شمار سے نکل سکیں تو بات بھی ہو۔ ہم تو خود میں کھوئے ہوئے ہیں ، اور کھو کر بھی ، غرق ہو کر بھی اگر احساس نہیں ہوتا ہے تو ہمارے ہونے کا فائدہ ۔۔۔؟ کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک اندھی تقلید کو عقل کی کسوٹی سے پرکھ کر ، اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیں ۔ ایسا کرنے میں ہماری مٹی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ خاکی پتلے کی حقیقت جس طرح بابا فرید نے عیاں کی وہ مٹی کی کشمکش ہے ، اور بالآخر ہم سب کو جانا تو اسی مٹی میں ہے ، جہاں سے ہمارا خمیرا اٹھایا گیا ہے اور اس کے پاس جانا ہے ، جس نے ہم میں روح پھونکی ہے ۔ اس کی ''پھونک '' سے ہم میں غرور پیدا ہوا ہے ، اس غرور و تکبر کو عجز و انکساری کے پیکر میں ڈھلنا ہے

ویکھ فریدا مٹی کھلی
مٹی اتے مٹی ڈلی
مٹی ہنسے مٹی روے
انت مٹی دا مٹی ہوے
نہ کر بندیا میری میری
نہ اے تیری نہ اے میری
چار دن دا میلا دنیا
فیر مٹی دی بن گءی ڈھیری
نہ کر ایتھے ہیرا پھیری
مٹی نال نہ دھوکا کر تو
تو وی مٹی، او وی مٹی
ذات پات دی گل نہ کر تو
ذات وی مٹی، تو وی مٹی
ذات صرف خدا دی چنگی
باقی سب کچھ مٹی مٹی


یہ راز بہت دیر سے جا کر معلوم ہوتا کہ مٹی کی حقیقت صرف ایک دھوکا اور سراب ہے ۔ اس مٹی نے مٹی میں جانا ہے تو کیوں نا! کیوں نا ۔۔!! ہم جاتے کوئی کام ایسا کر جائیں کہ ''انت'' بھی اگر ہو جائے تو چنگی ذات خدا دی ، ساڈے نال نال ہی روے ۔ کیا تفرقے میں الجھ کر خود کو تباہ کرتے جارہے ہیں ۔ اپنے نفس کے جہاد کی تقلید کر لیتے تو معلوم ہوتا کہ تقلید کبھی بھی اندھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔!!! نفس سے جہاد کرنے کے بعد انسان چلتا پھرتا قران بن جاتا ہے ، جہاں ظاہر و باطن ، روح و مٹی کے درمیان کی کشمکش ایک ہو کر سارے اختلافات ختم کر دیتی ہے ۔۔ہمیں اپنے اندر کی مٹی کو ختم کرنا پڑے گا ، اس خاک کو جس نے ہم کو حواس کے ذریعے بھٹکا دیا ہے

پیوستہ ‏رہ ‏شجر ‏سے ‏امید ‏بہار ‏رکھ ‏

یونہی ہنس کے نبھا دو زیست کو مسلسل
محسوس کرو گے تو مسلسل عذاب ہے

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جسم سیال بن کر بہنا شروع کر دیتا ہے. روح کا ذرہ ذرہ کانپتا ہے. اور درد کی سوغات کی گرمائش سے گھبرا کر دل درد کی کمی کی دعا مانگنے لگتا ہے. درد کا کام ہے۔۔۔! کیا ! شعلے کو بڑھکانا! شعلہ بڑھکتا ہے اور روح کو لپک لپک کر بانہوں میں لپیٹ کر وار کرتا ہے.۔۔۔۔۔۔۔!!! درد بذات خود کچھ نہیں، اس کا ماخذ اندر کی تخریب در تخریب کرکے مٹی کی گوڈی کرتا ہے۔۔۔!!! اور مٹی جب تک نرم نہیں ہوتی یہ وار کرتا ہے!!!. اس نرم زمین پر پھول کھلنا ہوتا ہے . اس پھول کی خوشبو کا عالم دیوانہ ہے اور بلبل اس کی پروانہ وار متوفی ہے. جگنو کا رنگ و روشنی اس خوشبو کے آگے ماند پڑجاتا ہے. کون جانے محبت کے درد میں چھپی خوشبو۔۔۔!!! جو! جو جان جائے وہ جھک جائے، وہ مٹ جائے۔۔۔۔۔۔۔!!!

درد کے ہونے کے احساس کئی سوالات کو جنم دیتا ہے! جب درد وجود بن جاتا ہے تو وجود کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس سوال کی تلاش اور کھوج میں ایک بات ذہن میں آئی ۔۔۔۔! میں نے ایک کینگرو کے بچے کو زمین پر بھاگتے ہوئے پایامگر اس کے پاؤں زمین پر بھی نہ تھے ۔ مجھے لگا اس کو کوئی اٹھائے ہوئے ہے ۔میں نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ اس حجم زمین سے سے پانچ انچ اوپر ہے اور کبھی لگا کہ وہ کسی کی آغوش میں ہے مگر مجھے اس طرح کی آغوش کی سمجھ نہیں آئی جو نظر نہیں آتی ۔ کیا کینگرو جس نے بچے کو اٹھایا ہوا اور اس کو وجود ختم ہوگیا ؟؟؟؟ یا یہ کہ وہ ایک دائرہ لطافت میں داخل ہوگیا ہے۔۔۔! کیا پھر میں یہ مان لوں کہ کینگرو ہی نہیں رہا ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس کا وجود نہیں ہے۔۔۔۔؟؟ مگر اس کے درد کا وجود تو ہے ۔ ہم گزشتہ سے پیوستہ ہیں اور جس رشتے سے پیوست ہیں وہ ایک درد کا اور تخلیق کا رشتہ ہے ۔۔۔۔۔!!! مگر کون جانے اس تخلیق کی اذیت ۔۔؟


کون جانے گا ؟ کوئی تو ہو جو روک لے ! جب کوئی روکے گا نہیں تو اذیت بڑھتی جائے گی اور لامتناہی ہوگی ۔ اللہ ہم کو نظر نہیں آتا مگر اللہ سے ہمارا رشتہ درد کا ہے! تخلیق کا ہے ! خالق کو مخلوق سے محبت ہے ! مگر ہم کو اس کا احساس جب ہوتا ہے جب ہم درد میں ہوتے ہیں۔سارے رشتے اللہ جی سے درد کے ہیں ! ہم جھکتے اللہ کے آگے درد میں ہے مگر میرا درد اتنا نہیں کہ میں جھکوں ! میں تو دنیاوی سہارے لے کر درد کو سُلا دیتی ہو۔۔۔دل میرا صنم خانہ بن جاتا ہے ! اور کبھی اس میں بُت رکھ دیتی ہوں ! اقبال کو بھی یہی درد محسوس ہوا ہوگا۔۔!!!


جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں


دل تو صنم خانہ بنا مانگتا ہے سہارا۔۔۔۔۔۔۔ ! اور ہے یہ بڑا بیچارہ۔۔۔۔ ! روتا ہے۔۔۔ ! رونے دو ۔۔۔! ہنستا ہے۔۔۔ ! ہنس لینے دو۔۔۔ ! کرنے دو اس کو ! ہنسے یہ کھیل کر ۔۔۔۔! کہ ہے تو رونا اس کو ۔۔۔۔۔! تو تھوڑا سا ہنس لے۔۔۔۔۔۔۔ ! مستی کرلے ! مستی کرکے کیا کرے گا ! ہے یہ بڑا بیچارہ ! ناہجاز! دل کی تڑپ اگر تمثیل بن جائے اور غلامی کا تاج پہن لیا جائے تو کیا ہوتا ہے ! وہی ہوتا ہے جو شاعر کہتا ہے

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا
صبر ایوب کیا، گریہ یعقوب کیا

جب دل درد سے معمور ہوجائے تو میخانہ بن جاتا ہے ! میخانہ چھلکتا ہے ! چھلک کر ٹوٹ جاتا ہے ! آواز تک نہیں آتی ! ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !کیا ہے دل شکستہ رب کو عزیز بھی بڑا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔!! اللہ دلوں کوتوڑتا ہے اپنے اصل سے جوڑنے کے لیے ۔۔۔۔۔!! مکمل دل میں دنیا اور ٹوٹا ہوئے میں اللہ کا بسیرا ہوتا ہے ! کرچی کرچی ہوتا ہے ! ہونے دو ! توٹتا ہے ! توٹ جانے دو ! مگر کیا ہے احساس ہونے دو کہ درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔! لوگ احساس بھی ہونے نہیں دیتے ۔۔ہم نےدرد کے آئینے کو سنبھال کر رکھا۔۔۔۔۔۔ ! غم ہوتا بھی تو انمول ہے نا! جب ہم دکھوں کو انمول کرکے ان کو بے مول ہونے سے بچالیتے ہیں تو اللہ جی ! اللہ جی ! خود کہتے ہیں ۔۔۔۔! کیا کہتے ہیں ؟؟؟ وہی جو ابھی لکھا ہے ! کیا لکھا ہے !

تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں

یہ لکھا ہم نے تو نہیں ! مگر یاد آیا ہے بڑا ! کہیں ہمارے دل ٹوٹا ہو تو نہیں ! مگر یہ بڑا سالم و قوی ہے ! اس میں بسا دنیا کا درد ہے درد ہے ! ارے !!! اس میں دنیا کی خاطر تو کوئی درد نہیں لیا ہوا۔۔۔۔ہم شروع سے اپنی دھنی اور خوش رہنے والے ! دھن تھی کہ مارکس اچھے ہیں کبھی ٹاپ کرنے کو سوچا نہیں تھا! ہمارے مارکس اچھے آئے ہم تو خوش۔۔۔ ! مگر ہمارے اساتذہ ہم سے خوش نہیں۔۔۔ ! ان بقول ہم کوٹاپ کرنا تھا ! سو ہم نے ان کے دکھ کا سوچا ہی نہیں ! اور کبھی سوچا نہیں انسان کو دوسرے کے دکھ کے لیے پیدا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔!!! درد دل میں پیدا ہوتا تو اپنے ہم عمروں کے لیے ! کہ چلو ۔۔۔۔۔! چلو ۔!!! آئنے سے پیار کا تقاضہ تو نبھ رہا ہے مگر تھی تو کرپشن ! ہم سب سے بڑے نقل خورے ! ہم نقل کروا کے اپنا اصل چھپا لیا کرتے تھے۔۔۔لوگ ہم سے آگے نکل جاتے مگر ہم کو اصل سے زیادہ ان کی پرواہ ہوتی ۔۔۔! اگر میں اور آپ ! سب مل کر آئینوں سے ، سبزے سے ! صحرا سے ! درختوں کی بریدہ شاخوں سے ! خزاں کے زرد پتوں سے ! بہار کی اولین خوشبو سے ! سرمئی آنچل پر بادلوں کے نقاب سے ! زمین پر پھیلے اشجار سے ! اُس کی تخلیق کے ہر روپ میں پنہاں درد کو سمجھنا شروع کردیں گے تب ہمارا شجر تخلیق سے رشتہ اور پیوستہ ہوجائے گا۔۔۔!

مکالمہ ‏۳

۔

میں آج رات کو جلد سو جانا چاہتی تھی ۔دل بہت اداس تھا کہتے ہیں دل اداس ہو تو نیند نہیں آتی ۔کبھی کبھی احساس کی گولی پلانے سے بہت طاقتور نیند آتی ہے میں نے بھی یہی کام کیا اور مجھے لگا مجھے نیند آرہی ہے یا لگا کہ میں محوِ خواب ہوں ۔ خود کو سرسبز وادیوں میں پایا ۔ خواب میں وہ سب سے پہلے نظر آتا ہے جو سب سے قریب ہو ۔ میں نے اپنے قریب ہمدم کو پایا ۔ ہوا بہت سرد تھی یوں لگ رہا تھا دسمبر کی رات ہے ۔چاند چمک رہا تھا ۔ چار سو روشنی بکھیرنے کے لیے ستارے لالٹین بنے ہوئے تھا میں کسی پہاڑ کی چوٹی پہ مقیم تھی ۔ میرے پاس ایک خوبصورت گانے والا پرندہ آکر میرے کاندھے پر بیٹھ گیا اور محبت کا گیت سنانے لگا ۔ میں اس کے سُروں کو سہرا رہی تھی ساتھ میں چاند کو دیکھ رہی تھی ۔ایسے لگ رہا تھا چاند بہت تشنہ ہے اور ڈوب رہا ہے ۔ شاید خواب میں بھی سچ نظر آ جاتا ہے ۔

چاند کو دیکھ ہی رہی تھی کہ مرے سامنے روشی کا جھماکہ ہوا۔ وہ پھر سے میرے پاس موجود تھا ۔ میں نے اسے ٹھاک سے کہا:'' کبھی تو مجھے سکون لینے دیا کروں ۔ جب کبھی تنہا ہوتی ہوں تم آ جاتے ہو ۔۔۔'' میں نے اس کے چاند سے چہرے پہ تل کو تاکنا شروع کردیا

ہمم!! '' تم پھر اس تل کو دیکھ رہی ہو یہ محبت کی علامت نہیں ہے ۔۔۔ میں نے کیا تھا نہ تم بہت مغرور ہو ، خیر یہ تم پہ سجتا ہے ۔۔ اچھا یہ بات بتاؤ۔! تم اتنی ہی حسین ہو جتنی نظر آتی ہو یا چاند رات کا کمال ہے ''

میں نے اپنے کاندھے پہ بیٹھے پرندے کو اشارہ کیا وہ اڑ گیا۔۔۔۔ یوں لگا محبت کو پرواز مل گیا یا اجل نے آ تھاما ہو اور بولی : حسن کبھی بھی نظر نہیں آتا یہ موجود ہوتا ہے دیکھنے والے کی آنکھوں میں ۔۔۔ مجھے تم کبھی بھی برے نہیں لگے نہ میں نے تمہارے اک اک نقش کو ترازو میں تولا ہے ۔ کب تصویر دل میں بس جائے تو بصارت کھو جاتی ہے بس بصیرت رہتی ہے ''

اس نے جنجھلاتے ہوئے مجھے دیکھا اور کہا : افف !!! '' وہی افسانویت ، وہ فلسفیانہ باتیں ۔۔۔۔ تم کہاں بدلی ہو ِویسے کی ویسے ہو ۔۔۔ آج میں نے سوچا تھا تم سے مل آؤں تم خوش ہو جاؤ گی ''

'' اچھا'' میں نے آسمان پہ نظر ڈالی جو بہت تاریک ہورہا تھا یوں لگ رہا تھا چودھویں رات اماوس کی رات میں ڈھل رہی ہو اور چراغِ محبت کی لو تھم رہی ہو۔''
ہمم !! '' بہت ہی اچھا کیا ، سنو! ہم جب کسی چیز کو کشکول میں ڈالتے ہیں وہ کشکول ہمارے پاس ہوتا ہے مگر اسکے اندر والا سب کچھ دینے والے پر منحصر ہوتا ہے کبھی کبھی تو یوں ہوتا ہے ایک کشکول کو کئی لوگ بھر لیتے ہیں ، اس لیے تو مجھے کشکول سے نفرت ہے ۔۔۔ محبت مانگ کر نہیں لی جاتی ، دل اگر مانے تو نواز دو مگر محبت کا سودا نہ کرو کبھی ۔۔۔ مجھے اس میں سودے بازی منظور نہیں ''

''اوکے اوکے '' اچھا ۔۔۔۔ تو یہ بات ہے ۔۔۔۔ ایک تو تم میں انا بہت ہے یا محبت کر لو یا انا کی محبت رکھو '' یہ کہتے کہتے وہ میرے پاس آیا کان میں سرگوشی کی '' جب کوئی محبت پرواز کرتی ہے اس میں ایک خون نہیں ہوتا کبھی کبھی ۔۔۔ ہر دفعہ میں تمہارے پاس چل کر آتا ہوں کبھی تم بھی چل آیا کرو '' پھر چاند کی طرف اشارہ کیا

''وہ دیکھو چاند نظر نہیں آرہا دنیا کتنی ادھوری ہے ۔۔۔ میں جب بھی تمہارے پاس آتا ہوں دنیا ادھوری ہوجاتی ہے ۔۔۔ مجھے اتنا مت بلایا کرو '' یہ کہتے ہوئے وہ چلا گیا

اور رہ رہ کہ میرے دل میں یہ خیال آتا رہا

یہ میری انا کی شکست ہے نہ مجھے دوا دو نہ دعا
جو ہوسکے تو یہ کرو مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو اک ترکشِ وقت ہے ہیں اس میں تیر بہت
اک تیر تم کو نہ آلگے میرے حالِ دل پہ یوں نہ ہنسو
* ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،

مکالمہ ‏پارٹ ‏۲

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
وہ کافی عرصے بعد پھر مجھ سے ملنے آیا ۔بالکل اسی طرح جیسے کبھی کبھی ہم مزاروں پہ چلے جاتے ہیں ۔اس کے برعکس وہ خانقاہ بن کر میرے سامنے کھڑا مجھے اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے جاننا چاہتا ہو تمہارا حال کیا ہے ؟ میں نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دی ۔دل سے ایک صدا آئی

چہرے پہ سجائے رکھتے ہیں جو ہنسی کی کرن
نہ جانے روح میں کتنے شگاف رکھتے ہیں

مجھے پھر سے ساحل پہ گھروندے بناتے دیکھ کر بولا : '' ایک تو تم لڑکیاں عجیب ہوتی ہو ۔تمہیں معلوم بھی ہوتا ہے انہوں نے ٹوٹنا ہوتا ہے پھر بھی بناتی ہو۔'' پھر ہنستا ہی چلا گیا اسکی ہنسی میں فاتحانہ پن تھا۔

میں نے ایک لمحے پھر کو ہی اسکو دیکھا اور اتنی یکسوئی سے وہ بھی گھبرا گیا۔ پھر میں گھروندا بنانے میں مصروف ہوگئی ۔

اس نے پوچھا : '' تم جو محل بنانا چاہ رہی ہو اس کو لہریں لے جائیں گے سب ختم ہوجائے گا۔ کتابِ زیست کا بوسیدہ صفحہ پھر سے مت پلٹو، تم پچھتاؤ گی ۔

میں نے اسکو کہا ؛ '' کبھی کبھی پچھتاوے بھی سکون دیتے ہیں ۔جو مزا جلنے میں ہے وہ صبا کے چلنے میں بھی نہیں ۔

وہ مجھ سے بولا: تمہارا وہ غرور کہاں گیا جس میں میں جل گیا تھا۔ اب تم خود جلنے کی بات کر رہی ہو۔ تمہیں ایندھن کی بھٹی اپنے پاس رکھ کر ملتا کیا ہے ؟

میرے ہاتھ پورے ساحل کی گیلی مٹی سے رنگ چکے تھے ۔میرا لباس مٹی بن چکا تھا۔ خود کو دیکھا پھر اسے ۔۔۔ وہ سراپا جمال تھا ۔۔۔اسکے بال باد کے جھونکے سے جب الجھتے تب مجھے اسکی خوشبو دیتے ۔ میں خوشبو کا احساس کرتے ہوئے بولی : '' مٹی کا کام جلنا ہے جب تک یہ جلتی نہیں ہے تب تک کندن نہیں ہوتی ۔ تمہارے عشق کی لو دل میں ایسی جلی کہ وہ بجھتی نہیں ، اگر اسکو بجھاؤں تو خود میں جلتی ہوں ''

اس نے تاسف سے ایک سانس بھری جیسے ایک جلتا ہو سگریٹ دھواں چھوڑتا ہے اور بولا: '' جب تک محبت کو عقل سے ناپو گی اس کا حساب کتاب رکھو گی ، تکرار کرو گی تو جلنا ہی پڑے گا ۔ یہ ایندھن تم نے خود خریدا ہے ۔ تم جیسے عقلیت پسند محبت کو سائنس سمجھتے ہیں جب یہ دور چلی جاتی ہے تب دل کا راگ الاپنے لگ جاتے ہیں ۔کبھی کہتے ہیں محبت میں مادیت نہیں کبھی محبت تو روح سے ہوتی ہے ۔میں تم سے کہا کرتا تھا نہ محبت روح بھی ہے ، مادہ بھی ۔۔۔'' پھر چپ ہوگیا ۔ میں نے پہلی دفعہ اسکی چہرے پہ شبنم کے قطرے دیکھے۔ اس نے گاگلز لگاتے ہوئے سگریٹ سلگانا شروع کردیا جیسے وہ خود بھی جل رہا ہو۔

میرے دل نے چاہا کاش میں ساحل پر رہنے والی جل پری ہوتی اس شبنم کو سیپ میں قید کرلیتی اس امید پہ کہ یہ موتی بن جائے ۔ ابھی میں ایسا سوچ ہی رہی تھی اس سوچ میں مجھے ایک شعر یاد آیا

عقل گو آستاں سے دور نہیں
اسکی قسمت میں حضور نہیں ۔

میں نے جواب دیا: ' تمہارا ساحل پہ لوٹ آنا ہی میرے لیے کافی ہے میں اس امید پہ گھروندتے بناتی رہی گی کہ تم کبھی تو آؤگے اور انکو مٹتا دیکھو گے۔ تم نے کہا تھا کہ ''مجھ سے مت الجھو ورنہ نہ جی سکو گی نہ ہی مر سکو گی'' میں نے تم سے الجھنا چھوڑ دیا ہے یہ کہتے ہوئے ساحل کی موجیں نے شور مچایا یوں لگا طوفان آگیا ہے ۔سارے گھروندے جو اسکو دیکھ دیکھ کر بنا رہی تھی مٹی بن رہے تھے ۔کیچڑ ہورہے تھے ۔ان کے دیکھتے ہوئے وہ مسکرایا نہیں مجھے دیکھتا رہ گیا۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

مکالمہ ‏۱

ایک دن میں اپنے گھر بیٹھی تھی وہ اچانک آگیا سب اس سے مل کر بہت خوش تھے میں نے اس کی طرف توجہ نہیں دی ۔وہ میرے پاس آیا اور کہا بہت مغرور ہو تم پر یہ سجتا ہے مگر مجھے یہ پسند نہیں ۔ میں نے اس کو دیکھا اس کو چہرا بابا سے مشابہ تھا میں نے کہا تمہارے چہرے پر جو تل ہے مجھے اچھا لگتا ہے میرے چہرے پر بھی ہے ۔ اس تل کو سنبھال کر رکھنا ۔ وہ ہنس دیا اور کچھ دنوں بعد آیا تو چہرے پر کوئی نشان تل کا نہیں تھا ۔میں ہنس دی وہ بولا ہنسنا بھی جچتا ہے مگر مجھے مسکراتی لڑکیاں زہر لگتی ہیں ۔ میں نے کہا میرے پاس بہتر جواب مسکراہٹ ہی ہے ۔ کہنے لگا تمہیں پتا ہے میں تم سے بچپن سے محبت کرتا ہوں ۔ میں نے استہزائیہ لہجے میں اس کو دیکھا اور کہا محبت اتنی سستی ہے ۔ یہ بچپن سے ہوجاتی ہے اور ہر دوسری سے کہ رہے ہوتے ہو میں تم اتنے سالوں سے چاہتا ہوں ۔


حیران ہو کر مجھے دیکھا کہا ارے تم تو بڑی منہ پھٹ ہو ۔ مجھے منافقت پسند نہیں مگر اتنا کھرا سچ مجھے جلا دیتا ہے ۔اس سے پہلے کے میں تمہیں خاکستر کردوں آگ کی بھٹی میں رہنا چھوڑ دو۔

اچھا ۔۔!!!! میں تو آگ ہوں اور میرا کام بھسم کرنا ہے میرے قریب آؤ گے تو بھسم ہوجاؤ گے ۔ مجھے تو یقین نہیں آتا محبت میں تم خاکستر ہونے کے بجائے مجھے جلا ڈالو گے ۔ کمال کی محبت ہے تمہاری ۔۔۔ مجھے ایسی محبتیں اٹریکٹ کرتی دل کرتا ان لوگوں کے چہرے نوچ لوں جو ماسک لگا کر کہتے ہیں میں منافق نہیں ہوں ۔

اچھا لڑائی چھوڑو ، یہ بتاؤ مجھ سے شادی کر وگی ۔بہت خوش رکھوں گا ۔ میں بہت دھیمے مزاج کا آدمی ہوں ۔ہنستے کھیلتے زندگی گزارو گی ۔

میں نے جواب دیا چلو محبت کرکے دیکھتے ہیں ، محبت آزما کے دیکھ لیتے ہیں ۔ میرا بھروسہ نہیں کرنا میں سمندر کی تیز لہر ہوں گھروندے گرادیتی ہوں ۔

وہ بولا مجھے بڑا اعتماد ہے کنکریٹ کے گھروندے بناتا ہوں ساحل میں ڈوبتے نہیں اور اگر ڈوب گئے تو میں خود ڈوب جاؤں گا ۔

پھر اسکی محبت میں ڈوب گئی اور میرے ساتھ وہ گھروندے سمندر کی تہوں میں مٹی ہوگئے وہ ساحل پر بیٹھ کر انتظار کرتا رہا پھر چلا گیا یہ کہتے ہوئے تمہارا انتظار بے سود ہے کسی اور ساحل پر چلوں گا۔

ساحل پر ایک عنابی پودا نمو پاگیا ۔ ایسا لگا محبت کا خون ہوگیا ہے اور وہ خون عنابی رنگ میں ڈھل گیا ہو۔آہستہ آہستہ وہ مرجھا گیا ۔ اور اس کا نشان باقی رہا ۔وہ کبھی کبھی اس جگہ آتا اور اس مرجھائے ہوئے پودے کو دیکھ کر گردن تان لیتا اور مسکرا کہتا میں کہتا تھا مجھ سے مٹ الجھو ورنہ نہ جی سکو گی نہ ہی مر سکو گی

زندگی ‏اور ‏جنگ

زندگی میں سلاخیں بدن میں گڑھ جاتی ہیں اور زندگی محدود ہوجاتی ہے. قیدی کا کام کیا؟ اس کو دو حکم ملتے: ایک مالک سے اور دوسرا نائب سے. وہ کس کا کہنے مانے؟ بدن کے اندر دھنسا مادہ التجا کرتا ہے اور کبھی خاموشی کی چادر اوڑھ کر سمندر کو شوریدہ کرتا ہے ۔

''مکانی قیدی''کی بات قوقیت رکھتی کیونکہ ظاہری طور پر زندگی اس کی غلام ہےمگر پسِ پردہ' یہ 'زمانی ''مالک کی تابع ہوتی ہے.انسان کی جنگ جو اس کے من کے اندر چلتی ہے وہ اسی زمانی و مکانی نسبت کا شاخسانہ ہے. تم ایک وقت ایسا پاؤ کہ جب مکان کی وقعت کھو دو تو ''تمہارا '' اور'' زمانی'' کا رابطہ ایک ہوجائے،تب صرف اور صرف راستے کی رکاوٹ میں شامل تمہارا نفس ہے. اس راستے میں عقل بطور پل صراط بن کر تمہارا راستے کا پل بن جاتی ہے اور یہ پل تمہاری آزمائش اور پہچان کی طرف کا راستہ بھی ہے۔


بدنی پانچ حسیات اور وجدان ایک دوسرے کی ضد ہیں. لاشعور زمانی اور حسیات مکانی ہیں.کبھی نفس تمھیں آنکھ سے بھٹکائے گا تو کبھی خوشبو راستہ روکے گی تو یہ کبھی نغمہ ساز بن کر بھٹکے گی تو کبھی نغمے کی کشش ۔۔۔۔۔ ۔۔! کبھی چھو جانے کا احساس گداز ڈال کر تیرا راستہ روکے گا. ان سے جنگ تیرا جہاد اکبر ہے اور یہی راستہ جنگ عین 'زمانی '' کی طرف لے جائے گا۔


جنگ کے مرحلے تیرے نفس کے مراحل ہیں: جب تو امارہ سے لوامہ سے ملحمہ سے ملکوت سے جبروت سے لاہوت کا سفر طے کرتاہے. ایک درجے سے دوجے درجے جانے کا امتحان ہوتا ہے. ایک دروازہ ایک پل پار کرنے کے بعد کھلتا ہے ۔اس پل کو تم' پل صراط' کہ لو کہ جہاں ساری حسیات کو یکجا کرکے تم چل سکے تو چلے ۔۔۔۔ اور ان میں سے ایک حس نے بھی تمھارا توازن خراب کر دیا تو سمجھو تم برباد ہوگئے ۔ اس بربادی سے بچنے کی دعا مانگنا اور بچ بچ کے چلنا صبر اور تقوٰی سے حاصل ہوتا ہے

زندگی میں جب تجھے آزمائشیں گھیر لیں اور تو گھبرا کر مایوس نہ ہو کہ خالق کا فرمان ہے
لا تقنطو.۔۔۔۔۔۔۔
مایوس مت ہو۔ (اللہ کی رحمت سے )

تیری مایوسی ،تیرا نفس ہے جو تجھ پر حاوی ہونا چاہتا ہے وہ تجھے دس ہزار طاویلیں دے کر راستہ روک دے گا۔. رکنے والے سفر روک دیتے ہیں اور جنگجو سفر جاری رکھتے ہیں. دنیا میں جنگجو کبھی سپاہی ہوتے ہیں تو کبھی جرنیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !!!

تیرے اندر کی جنگ تیرا مقدر ہے اور تیرا ان پر حاوی یا محکوم ہوجانا تیری تدبیر ہے. اور ایمان دو حدود کے بین بین ہیے. نفسانی خواہشات پر جبر کرنے والے یہ راستہ کھو سکتے ہیں مگر صابر کو میٹھا پھل ملتا ہے اور صابرین کے ساتھ وہ ہستی ہوتی ہے.

صبر و جبر تیرے نفس پر گرہیں ہیں جب تو ان سے خواہشات نفسانی کو مقفل کرتا جائے گا تو تجھ پر انوار منکشف ہوں گے مگر تو اگر نفس کو کھلائے گا تو تیرے دل پر مہر لگنے کا خطرہ ہے جو معطونوں کے لیے ہے.

دنیا میں تیرے صبر کو تقویت دینے والی چیز تقوٰی ہے. یہ تیری نفس کا دست راست ہے. زندگی کی خار راہوں سے موتی چن کر کانٹوں سے بچ بچ کے چلنا زندگی کا عین ہے.

وہ وعدہ جو روح وجود میں آنے سے پہلے کر چکی ہے وہ ہی جو ایک زندگی.گزار چکی ہے جب جب تو موتی چنے یا کانٹے۔۔۔۔!! یا تجھ میں احساس جاگے کہ تو اس بات سے واقف ہے ،تو سمجھ لےکہ تیری روح تجھ میں بیدار ہے اور تیری ذات کو کیل کانٹوں سے نکالنے میں معاون ہوگی .یونہی تیرے نفس کے مدارج طے ہوتے جائیں گے.

ہم ‏تو ‏ڈوبے ‏صنم ‏تم ‏کو ‏بھی ‏لے ‏ڈوبے ‏

ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے

زندگی میں قافلہ میرِ کارواں کے بغیر چلتا ہے ۔ ۔ ۔ ؟ اگر ایسا ہوتا تو انسان سالار ہوتا ۔ انسانی کی سالاری دو چیزوں پر منحصر ہے ، ایک اس کی عقل اور دوسرا اس کا وجدان ۔ وجدان کا ردھم زندگی کی روح اور عقل فطرت کا تغیر ہے ۔ دونوں میں کا ساتھ متوازن چلنا مشکل ہے ۔ آسان الفاظ میں جوش و ہوش کو متوازن کرنے سے انسانیت کی تعمیر ہوجاتی ہے ۔ اور ہر دو انتہائیں انسان کی دوسری سالاری کے جزو کو کو مقفل کر دیتی ہیں ۔

انسان اگر عقل کی انتہا کو لے کر چل پڑے تو اس کے پاس ''شک'' رہ جاتا ہے ، اور یہی ''شک'' اس کو انکار کرنے کی طرف لے جاتا ہے ۔ '' عقل '' کا کام ہر وہ بات رد کرنا ہے جو اس کے اپنے حواسِ خمسہ ماننے سے انکار کردیں گوکہ چیز موجود رہتی ہے مگر فرق عقل والے کو پڑتا ہے کہ اس کی سالاری مفلوج ہوجاتی ہے ۔ ایسا سالار انسانیت کا نائب بن سکتا ہے ؟ اگر بن جائے تو انقلاب شیطان کا ہوگا۔۔۔۔۔۔ ؟ شاید اس کا وعدہ شیطان نے کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!

افسوس ! انسان کی ''انتہا ''اس کو دھوکے میں مبتلا کر دیتے ہے کہ انتہا کا دوسرا نام'' دھوکہ'' ہے ۔ گو کہ انتہا میں جانے والی بہت ذہین ہوتے ہیں مگر ان کی فطانت ان کے لیے ، ان کا ہی بنا ''جال'' ب ان کے سامنے لا کر ان کو پریشان کر دیتی ہے اور وہ اس جال میں کھو کر کہیں کہ نہیں رہتے۔۔۔۔ ۔!!! دو کشتیوں کے سوار انسان کی زندگی کیسی ہوگی ؟ اور ایک وقت آتا ہے کہ پاسبانِ عقل اپنے اختیارات خود '' شک '' کو پکڑا دیتے ہیں ۔ یہی وہی ''شک ''ہے جس کا ''بیج '' آدم کو جنت سے نکالے جانے کا باعث بنا۔ انسان کی سرشت میں یہ مادہ گوندھ دیا گیا ہے ۔ وہ اس سے کیسے بچ سکتا ہے ؟

اقبالیات : عقل گو آستاں سے دور نہیں ۔
اس کی قسمت میں حضور نہیں

اس وجہ سے اکثر احباب کو میں نے ''اقبالیات'' کا منکر دیکھا ہے یہ وہ انسان تھا کہ جس نے عقل و وجدان کی پاسداری کرتے ہوئے انسان کے نائب ہونے کے فرائض کی کمی پوری کردی ۔ اس انسان کی عقل نے بھی ''شکوہ ، یعنی شک '' کیا ، جو اس کی عاقلیت کا ثبوت ہے مگر اس کی ضرب ِ کلیم نے وجدانی کیف کا حق پورا ادا کی،ان کا لکھا شعر، شاید لاشعوری طور پر ان کی تعبیر ہے ۔

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

اس انسان کو بہت سے عاقل '' شرابی '' اور '' ملحد'' کہتے ہیں ۔ اس وقت جب میں لوگوں کے منہ سے یہ باتیں سنا کرتی تھی تو میرے دل میں شبہات جنم لیتے تھے کہ یہ انسان ''شرابی '' ہے کیا ؟ یہ انسان ملحد ہے کیا ۔۔۔۔؟ الحادِ فکر مغرب اور وجدانی شراب پینے والی شخص کی توقیر دنیا کے چند عاقل نہیں کر سکتے ہیں اور آج میرے سامنے دور ِ جدید کا اجتہادی نمونہ اقبال کی صورت میں ہے ، جس نے قران الحکیم کے حکمت کے گنجینہ اور پرا سرار الفاظ کو اپنے کلا م میں بند کر دیا اور پیغام دے دیا کہ لوگو '! ''عقل کے دروازے اور وجدان کے دروازے '' کھلے رکھنے سے پوری انسانیت کو فلاح مل جاتی ہے ۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ اقبال کی تقلید شروع کر دی جائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبال کے راستے کی تقلید کی جائے کہ یہ وہی راستہ ہے جو انبیاء کا راستہ ہے ۔ اس راستے میں فکر و غور بھی ہے اور وجدان بھی ہے اور اسی راستے پر ایک اور دور ِ حاضر کی شخصیت بھی چل کر اپنا نمونہ بن گئ، جس کو دنیا قدرت اللہ شہاب کے نام سے جانتی ہے ۔اس لیے یہ سلسلہ
چلتا رہے گا ، راستہ بھی کھلا رہے گا ۔ مگر کون راستے کے اوپر آتا ہے یہ انسان کی اپنی بساط و مرضی ہے ۔

دوسری طرف وجدان کی بات کرتے ہوئے مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ وہ انتہا ہے جس میں بقا تو ہے ، جس میں فلاح تو ہے مگر یہ فلاح و بقا صرف اور صرف انسان کی اپنی ذات کی ہے ۔ اس صورت میں غذا کی حق دار صرف اور صرف روح ہوتی ہے ۔ اور یہ وہ سلسلہ ہے جس پر بکھشو و سادھو چلتے ہیں ۔ گوکہ اسلامی تصوف کے بہت سے سلسلے اس راستے پر آئے مگر ایک سلسلہ ایسا بھی ہے جس نے دین و دنیا دونوں کا ساتھ نبھایا ۔ سلسہ سہروردیہ کے برزگ حضرت بہا الدین زکریا ملتانی رح بہت بڑی اراضی کے مالک تھے ، وہ شاہ ِ وقت کی عنایات بھی رکھتے اور امراٰء سے ملنے والوں تحفوں کو وصول بھی کرتے ،اور اس کے ساتھ بادشاہوں کی محافل میں شریک بھی ہوتے مگر دنیا کا لباس پہن کر ، اس لباس کی '' لیروں '' سے دنیا والوں کو دیتے ، اور نوازتے رہے اور ساتھ میں عقل کے تمام اجزا کو مجتمع کرکے اپنے من کے گیان میں کھو کر وجدان سے روح کو لذتوں سے سرشار بھی کرتے رہے ۔ مگر ایسا ہے کہ دنیا میں روح کی انتہا پر چلنے والی مجنون بن کر بار گاہ خد میں مقبول و منظور ہوجاتے ہیں مگر وہ انسانیت کی فلاح کے لیے کم کم کر پاتے ہیں ۔

اسلام میں اس کی جانب اشارہ ہے کہ شک و شبہ میں نہ پڑو مگر اسلام نے غورو فکر کو سلاسل میں قید نہیں کیا ہے۔ اسلام متوازن سطحوں پرچلتا ہے ۔ اور جو لوگ درمیانی راہوں پر چلتے ہیں ، تاریخ ان کے ناموں کو متوازن شخصیت قرار دے کر دنیا والوں کو راستہ دکھاتی ہے کہ دنیا میں رہ کر فقیری اختیار کر ، دنیا کو دوسروں کے لیے سمجھو ، اپنے لیے نہ سمجھو ۔ اس لیے قرانِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ دین میں میانہ روی یا اعتدال اختیار کرو۔ یہی راستہ بھلائی و بہار کا ہے ، ہر دو انتہائیں زندگی میں خزاں بن کا روپ اختیار کرلیتی ہیں ۔ اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی لے ڈوبتی ہیں ۔ پتا نہیں ! پتا نہیں ۔۔۔ ہم میں سے کتنے ڈوبیں گے اور ساتھ کتنوں کو لے ڈوبیں گے ۔

افسوس ! آج عقل نے انتہائے عقل کردی ، اور شعور ہی شعور رہ گیا ، اور اللہ کا خلیفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!! شاید کہیں گم ہے ، شاید وہ موجود ہے ، شاید ہمیں اس کی سمت نہیں مل رہی ہے ، شاید ہمارے ''قطب نما ''نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے ، شاید مرکز سے رشتہ ریختہ ہوگیا ہے ۔اور پھر سب کی نظروں میں عاقل کا چہرہ سما جاتا ہے ۔

محبت ‏و ‏مادیت ‏

محبت اور مادیت
دنیا میں سب سے لازوال جذبہ محبت ہے۔مگر اس کوپائمال نفرت کی حد سے کیا گیا ہے۔کدورت، انتقام، غصہ، حسد اور جلن سب محبت کا سر چشمہ ہے۔ محبت کی بیماری گھٹی میں ملتی ہے ۔ کہیں یہ موروثی وبا کی ما نند مٹی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔مات ہو با زی میں تو شہ ما ت بن جا تی ہے۔ اس کا اسیر دیوانہ ' رشتوں سے بیگانہ اور ہوس کا پروانہ بن جاتا ہے۔ لوگ محبت پر شاعری کرتے ہیں ' محبوب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ در پردہ ' دلوں میں مخفی مقا صد مکڑی کے جال کی مانند پر فریب ہوتے ہیں ؛ دھوکہ کھا نے والا بادشاہ وقت ہی کیوں نہ ہو بچ نہیں پاتا جب تک برباد نہ ہو جائے۔
شیکسپیر نے محبت کے موضوع پر درجنوں ڈرامے لکھے۔ کنگ لیئر اس کی واضح مثال ہے۔محبت پہلے اعتبار کرواتی ہے پھر اس کاقتل۔۔۔مقتول مرنے کے بعد بھی جان نہیں پاتا ۔ اور جان بھی جائے تو اس معصوم سی پہیلی کے جواب پر ششدر و پریشاں ہو جاتا ہے۔

درحقیقیت محبت کی بقاء تمام برائیوں کی انتہا ہے۔ معترضین نکتہ اٹھا ئیں گے کہ محبت مالک بندوں سے کرتا ہے اور کائنات میں محبوب ترین ہستی تومحمدﷺکی ذات ہے۔محبت نور سے ہو تو جل کر بھی جہاں منور ہے۔روح میں نور کا بسیرا محب کو جلا کے کندن بنا دیتا ہے۔ یہاں پر الفاظ کا زیاں نہیں ہوتا۔ شیلے اسطرح کی محبت کو ایک مقصد کی طرح چاہتا تھا ۔اس لیئے کہا جاتا ہے کہ محبت میں زباں کی کیا اہمیت۔۔۔۔ کنگ لیئر اگر کارڈیلا کی محبت کا یقین کر لیتا بجائے محبت کی مادیت جو باقی دو بیٹیوں نے بصورت الفاظ اظہار کی ، اپنی شان نہ سمجھتا تو وہ کبھی پاگل نہ ہوتا۔نہ ہی بے بسی کی موت مرتا۔ محبت یا خود پسندی تھی جو اس نے صاف گو بیٹی کا یقین نہ کیا۔اپنے مجسم سے محبت اس کا ٹریجک فلا بنا۔
جان ڈن نے محبت کو مادیت کے اتنے قریب کر دیا کہ وہ خدا کی محبت میں بھی مٹی تلاش کرتا تھا۔اس میں اتنی حد پار کر دی کہ دائرہ احترام سے نکل گیا۔محبت میں چور ہو کر اس نے ڈیوائن پوئٹری تشکیل دی۔اسکی خدا سے محبت بماند مٹی کے تعلقات کی سی تھے جو عالم ہجر میں بربادی کی طرف کا راستہ ہے۔ احساس محبت ہے جو چھونے سے ہی عیاں ہو پائے۔ نہ کے ان دیکھا احساس جو روح میں سرائیت ہو کر دل کو باغباں بنادیتا ہے۔دنیا نے آج محبت کا کاروبار شروع کر دیا ہے

اک ‏جھونکا ‏باد ‏کا ‏، ‏اک ‏بازی ‏صیاد ‏کی

ایک جھونکا باد کا ... اور ایک بازی ہے صیاد کی ...! دنیا بڑی سیانی ہے ...! باد کے جھونکوں سے ، نیلم کے پتھروں سے ، ہیرے کی کانوں سے ، اونچے اونچے گھرانوں سے ، بے وقعت آشیانوں سے ، ایلپ و ہمالیہ کے پہاڑوں سے ہوتی خاکی مقید کو اور خاکی مقید کی قید میں کر دیتی ہے. ایک شے کی بے وقعتی ...! لوگ سمجھتے نہیں شے کی وقعت کو سمجھانا پڑتا ہے..! خاک کو خاکی آئینہ نہ ملے تو خاکی قبر کے ساتھ ساتھ لامکاں کی بلندیوں پر پرواز کرتی روح دھڑام سے نیچے گرتی ہے.....! چھوٹی موج کا شکوہ ہوتا ہے ! کرتی ہے ! مگر آسمان سے گر کے جو معلق ہوجاتے ہیں ان کو ہم کہتے ہیں : نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے!

اس کی زندگی 'تین اور تیرہ' کا المیہ بن جاتی ہے ...! تین کا کلمہ اکیلا پڑھنا حق کو گوارہ نہیں اور چار والی سرکار عدد تین کے بغیر کچھ نہیں ہے .. کسی نے کہا اور خوب کہا

یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نو القر
لقد یمکن الثنا کما کان حق ہو
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

تین بذات خود سہ حرفی ہے کہ وہ یکتا ہے .. ! جب کہ تین اور ایک کو جمع کرلو تو عدد چار بن جاتا ہے ...مخلوق اللہ کی ایک ہے ..باقی سب تین ہے .۔۔۔۔۔۔۔!!!.یہی ایک کا فرق چار والی سرکار کو تین سے جدا کرتا ہے اور بولتے ہیں سعدی صاحب: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ..۔۔۔۔۔۔۔۔.!!.! اس تین میں چھپا اک نور ہے۔۔۔۔!!! اور جو مخلوق سے ربط استوار نہیں رکھ سکتے ان کا مقام نہ تین سے ہے اور نہ ہی چار سے ...آسمان اور زمین کے درمیان معلق لوگ ..۔۔۔۔۔۔۔!!!. جو سفل بھی نہیں ہیں مگر وہ مومن بھی نہیں ہیں .۔۔۔.! حق کا کلمہ ان کو معلق کیے ہوئے ہیں ! حق !حق ! کرتے ہیں زندگی بسر کرکے درمیانی زندگی کا تعین ان کی مسافت کو جِلا بخشے گا ...۔۔۔!!!وہ مجہول سوال نہیں کریں گے اور نہ کہیں گے : کہاں جاؤں میں ....!!!


حقیقت کا پردہ دھیمے دھیمے نغمے پر فاش ہوجاتا ہے اور صاحبِ حقیقت ان دھنوں کے لے پر ناچ کر ، دھمال ڈال کر ، لے کی مستی میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہوجائے تو اس کی آگہی کے در کھلنے پر اس کی ذات سے حق کو کیا حاصل ...؟ حق بڑا جلال میں ہے ....۔۔۔...!! اس کی تاب لانے کو حوصلہ چاہیے کہ درد صدیوں کا لمحوں میں دے کر پل پل کی مار ماری جاتی ہے ! یہاں پر جلال حق کو بنتا ہے کہ اس نے بندے پر مان کیا اور اس نے مان کی لاج نہ رکھی ...... اس پر تیرہ کا در ... چار نہ ہوسکا اور جب چاند ٹکرے کرنے والا نظر نہ کرے تو ...؟ تو حق کیا کرے گا ...؟ چاند نگر کا باسی زمین سے ناراض ہوتا کب ہے .. اس کی محبت زمین سے اتنی ہے کہ وہ اس کے گرد گھوم کر اس کی ایک ایک بات کی خبر لے رہا ہے ...!!!

قران پاک کی ایک آیت ناشکروں کے لیے اتری جو ''افلا یعقلون'' کی مثال پر صادر آتے ہیں ۔۔۔۔۔.!!!. نشانیاں دیکھ کر انکار کرتے ہیں .. جب رب فرماتا ہے : تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ....؟؟؟؟ کھول کھول کر نشانی بتانے کے بعد عقل رکھتے ہوئے یہ لوگ اندھے ہوتے ہیں ....۔۔۔۔۔ ! رب کا جلال ان کو نیچے گرنا نہیں دیتا کہ اس کو گوارہ نہیں کہ وہ پاتال میں گر جائیں اور نہ ہی ان کو قرب دیتا ہے ...!!! ا


کعبے کو کس منہ سے جاؤ گے ....؟ شرم و نہ حجاب... ! نہ پاس یار کا...! او میرے بندیا !

شرم کر ...! شرم ! شرم ! اور ڈوب جا اپنے من کے گیانوں میں ...! تیرا گیان ہی تیری پہچان ہے ...!!! غار بھی ہے ! چٹان بھی ہے ! فکر کا راستہ بھی ہے ! عقل سے گزرنے کا راستہ بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔!اتنی جلدی رب سے مایوس ہوجانا...!! میرے پیارے دلدار ...!!! تیری آنکھوں سے گرنے والا پانی اس بات کی پہچان ہے کہ تجھ کو مجھ سے کتنا پیار ہے.۔۔۔۔۔۔۔۔.! کیا میں تیرے پیار کی لاج نہ رکھوں۔۔۔۔۔۔۔..؟ کیا
میں تیری شرم کا حجاب نہ بن جاؤں...۔۔۔۔۔۔۔؟ رب تیری باتیں تجھ کو کھول کر بتانا چاہتا ہے کہ آنکھ کھول کر زمین کا نظارہ کر.۔۔۔۔۔۔...!!!

تجھ کو پرواہ ہے درد کی جو تیرے سینہ کھل جانے پر عطا کردہ ہے .۔۔۔۔۔..! ساری زندگی کیا تو اس کی دوڑ میں صرف کردے گا؟ بتا ..!!! تجھ کو اس دنیا میں کچھ کام کرنا ہے ...! جب تک تو وہ کام نہیں کرلیتا ۔۔۔۔!!تجھ کو اپنی محبوبیت سے دور رکھنا ہی میری منشاء ہے. ایک میرا غازی بندہ ! وہ جس نے قرامطییوں کو شکست فاش دے کر براہ راست خود کو عدد ''تین '' پر استوار کرلیا ہے..دنیا میں سب تین ہے ۔۔۔!!!مخلوق بس ''ایک '' ہے.. وہ تین جمع چار ....!!! دونوں تینوں کو عین پر پالیا ..۔۔۔۔۔۔!!!. ایک وہ بندہ جس کو نور الدین زنگی دنیا کہے جس کا باپ عماد الدین بن کے ""دین کا ستون"" نور دنیا کے حوالے کرگیا.۔۔۔!!! صدقہ جاریہ اس کا کام...! وہی جس نے نبیﷺ کی قبر مبارک کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار سے مضبوط کردیا اور خود ایک جانشین صلاح الدین دنیا کو چھوڑ گیا.۔۔.!!! صلاح الدین کا مقصد اللہ نے طے کر رکھا تھا.۔۔۔۔۔!!.

ایک بار پھر یثرب سے فلسطین آ
راستہ دیکھتی ہے مسجد اقصی ترا..

اقصی ٰ نام کی بات سے یاد آیا.۔۔۔!!!..بندے نام ِکے اقصیٰ والے ہو تم...! نام بدل جانے سے کام بدل نہیں جاتے ...!!!! اپنا نام تو نے بدل ڈالا...مگر نام اقصیٰ والے بڑے کام والے ...! جب کام ملے تو بندے کا کام کرنا چاہیے زندگی کا مقصد سب کی زندگیوں میں جدا جدا ہے مگر اس جدا کام کی شاخ در شاخ مل کر نور کو سرچشمہ ِ درخت سے جڑی فیض یاب ہوجاتی ہے .۔۔۔. !!کوئی شاخ ہے تو کوئی درخت تو کوئی ہرا بھرا باغ ہے ..۔۔۔۔!!!.سب کا مقام اپنا اپنا... ! چل بندیا ! تو نہ کر تیری میری ! تو کر بس ''میری میری'' تیری خواہش کی تیری تیری ... اس کو رب پر چھوڑ دے.۔۔۔۔۔!!!.. نوازنے پر آؤں تو نواز دوں زمانہ........!

تحریر ‏لکیروں ‏کو ‏مٹاتی ‏ہے ‏

تحریر لکیروں کو مٹاتی ہے
------
سردیوں میں دُھوپ سینکنے کا اپنا مزہ ہے '-
سرد لہجے / چھوٹے دن / بونے لوگ
دھیمے سے لہجے میں لان میں بیٹھتے ہوئے مائرہ ، ماہ نور سے کہہ رہی تھی ۔
''تم بھی حد کرتی ہو۔ ۔"
ہر جگہ فلاسفی جھاڑنے بیٹھ جاتی ہو۔۔
ارسطو / افلاطون/ مائرہ
ماہ نور طنزیہ مسکراہٹ سے گویا ہوئی ۔ اسے مائرہ کی فلاطنی (اسکے مطابق فلاطنی) نہیں بھاتی تھی ۔ روٹھا سا چہرہ دیکھ کر ماہ نور کو اُس پر ترس آیا ۔
'' اچھا یہ بتاؤ ۔"
"کل تم کیا پڑھ رہی تھیں؟"
میں بھی تو سنوں ! ''
تمہیں پتا کل میں ایک افسانہ پڑھ رہی تھی ''خبر ہونے تک'' میں نے اس مصنف کا نام کبھی نہیں سُنا ۔
"میں تو سوچ رہی ہوں اس افسانے کو سب پڑھیں''
''حد ہوگئ مائرہ ۔۔۔تمہارا ٹیسٹ اتنا گر گیا ہے ۔۔۔ جس کو تم جانتی نہیں ہو،اس کو پڑھ رہی ہو۔۔۔
تم واقعی ہی پاگل ہو۔۔
یہ سولہ نمبر کی بس ہے ۔۔۔اس میں تمہیں بٹھا کر پاگل خانے بھیجنا پڑے گا۔۔
کچھ زیادہ ہی ارسطو ہوگئ ہو۔۔۔۔۔۔۔'
ماہ نور! تم /میں / سطحی پن
انسان کا سطحی پن کب ختم ہوگا ؟
بغاوت / سماج / منافقت
تم / میں / آلہ کار
تحریر اپنی پہچان خود کرواتی ہے ۔تم ایک دفعہ پڑھ تو لو اسے ۔ہم اپنی روایات سے بھاگ رہے ہیں ۔گاؤں میں رہ کر شہر کے خواب دیکھتے ہیں اور شہر میں رہ کر امریکہ ،یورپ کے ۔ ہم کتنے کھوکھلے ہوچکے ہیں ''
ماہ نور کے بولنے تک وہ حرف حرف پڑھ چکی تھی ۔
''وہی باتیں / دکھ / پچھتاوا -
یار ۔۔کوئی نئی بات تو نہیں کی ۔۔۔ البتہ لکھنے کا انداز اچھا ہے ۔۔۔ کیا پاکستان کا کوئی مصنف ہے ؟
پاکستان کا ہو/ بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
پڑتا ہے۔۔۔'' مائرہ پڑتا ہے ۔۔۔ ہر مصنف اپنے عہد کے مسائل پیش کرتا ہے ،ان کا حل ساتھ دیتا ہے ، یا اندھوں کو راستہ دکھاتا ہے ۔دیکھوں یہاں اُس نے صرف گاؤں کی بات کب کی ہے۔معاشرے پر طنز کیا ہے ۔ ایسا طنز جو روح میں نشتر چھبو دے ،جو من کو گھائل کردے ۔۔۔
دیکھو ۔۔ اپاہج سے شادی کون کرتا ہے؟
اپاہج کا ساتھ دینے والے یار دوست کب دیتے ہیں ۔
کوڑھی کو کوئی دیکھتا نہیں۔۔۔۔
ہم مدر ڈے/ اپاہج ڈے/ وومن ڈے/ لیبر ڈے مناتے رہتے ہیں ۔۔۔ ہم دن ہی تو مناتے ہیں ۔
ان کا احساس کون کرتا ہے ،ان کے مسائل کا حل کون دیتا ہے ؟
میں / تم/ معاشرہ ؟
تم نے تحریر پڑھی ۔۔۔ کہانی پر تحریر ہے کہ کون ہے مصنف ۔۔!
نہیں یار۔۔ ورڈ فارمٹ میں سب لکھا ہے ۔۔
نام درج نہیں ۔
تم بتاؤ مصنف کون ہے ۔
اس نے پھر مائرہ سے پوچھا
پاکستان کا ہو / بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
ماہ نور نے ہنوز اُسی لہجے میں جواب دیا۔۔۔۔
پڑتا ہے فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔
جو مسائل وہ لکھاری سامنے لاتا ہے ،اپنے معاشرے سے لاتا ہے
وہ درد، احساس کی کرچیاں ، کہاں سے آتی ہیں ؟
جہاں لکھاری رہتا ہے ۔۔۔۔
'یار چھوڑو اس بحث کو ۔
تم ایسا کرو
سورج ابھی جاگ رہا ہے , پڑھو ''
ماہنور پڑھنے لگی ۔۔ پڑھنے کے بعد گویا ہوئی -
یار ! یہ کیا ۔۔ ساری سائنسی اصول ادھر ادھر کہانی میں بکھرے ہوئے ہیں ۔
مجھے سمجھ نہیں آیا ادب میں سائنس کہاں سے آگئی ۔۔
جو سائنس کو نہ سمجھ سکے وہ کیا کریں ۔۔
ادب تو عام آدمی کے لیے ہوتا ہے -
کہیں فزکس تو کہیں جیالوجی کے ٹکرے جوڑے ہوئے ۔۔۔
مائرہ نے ایک لمحے میں پل صراط کا فاصلہ طے کرکے اُسے فلسفہ سمجھایا :
زندگی کیا ہے ؟
ہوا / پانی/ آگ/ خاک
سب کے سب روپ بدلتے
زندگی بھی اور موت کا سندیسہ بھی
سونامی بھی ، طوفان بھی ۔۔۔
ان کے روپ بدل جاتے ہیں ۔وہی خاک جو مرہم رکھتی ہے وہ خاک ہمارے زخموں پر نمک چھڑکتی ہے
لکھاری بھی تو یہی کہہ رہا ہے ماں، رات/ آندھی کی ساتھی -
سورج دن میں نظر آتا ہے اور رات کو بھی موجود ہوتا ہے ۔۔۔زمین کی حفاظت چاند اور سورج مل کر کرتے ہیں ۔۔۔کبھی سُنا ہے زمین کو گرہن لگا ۔۔۔چاند گرہن ،سورج گرہن ۔۔۔۔ تم نہیں جان سکتے لکھاری ٹرین کی باتیں کرتا ہے وہ بیچارہ سفر میں ہے اور ہمیں پھر سائنس کا اصول سمجھاتا ہے ۔گھر کے اندر سکون ہوتا ہے ،باہر جتنا بھی طوفان ہو ۔۔۔۔ماہ نور کیا تمہیں ان باتوں سے انکار ہے ۔۔۔
نہیں پہلے تم لکھاری کا نام بتاؤ
کیا فرق پڑتا ہے ۔۔۔۔
ماہنور پڑتا ہے ۔۔تم آخر کیوں نہیں سمجھتی ۔۔۔
پاکستان کا ہو / بھارت کا/ ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
مائرہ کے بار بار یہ کہنے پر ماہنور زچ ہوگئ۔۔۔
فرق پڑتا ہے ۔
مجھے اس مصنف کے سارے افسانے پڑھنے ہیں ۔۔۔
میں اس کے افسانے بغیر شناخت کے تلاش کروں گی ۔۔۔
حد ہوگئ ہے یار۔۔
یار ۔۔۔یہ کوئی بھارت کا لکھاری ہے میں ان کو خود بھی نہیں جانتی ،مگر مجھے احساس ہو رہا ہے یہ کتنے بڑے لکھاری ہیں ۔قوس قزح رنگ زندگی کی داستان کو اپنی پوٹلی میں سمیٹے ہوئے شاید کوئی درویش ہے -
یہ دیکھو ۔۔
یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ ۔۔
گوگل پر بیٹھی دونوں سر سے سر ملائے دیکھے جارہے تھی ۔دونوں اس مصنف کی دیگر تصانیف آن لائن دیکھنا چاہ رہی تھیں ۔ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتے ہے ۔
خورشید کو ڈھونڈنے چلی ۔۔۔
یہ کہاں ہے۔۔۔
دن / رات /ماہ و سال کا چکر۔۔۔
وصال / ہجر
ماہ نور سرچ کر رہی تھی اور مائرہ کے دل و دماغ میں ایک جنگ چل رہی تھی ۔۔۔
یہ وہ انسان ہے جس کی کہانی میں کہیں نہ کہیں اس کی ذات موجود ہے۔کہتے ہیں: کہانی کار ،کہانی کو اپنے اندر سے سنچتا ہے۔ خورشید کاکام جہاں کو منور کرنا ہوتا ہے ۔ رات کو وہ چاندنی کے پردے میں چھُپ جاتا ہے۔اندھیارے میں رہ کر صبُح کو تلاش کرتا ہے ۔اندھیارے میں رہنے والا چاندنی کی قدر کرنے لگتا ہے کہ اس کی بدولت ہی تو اس کو آگہی اور خود شناسی کے مراحل طے کرنے میں آسانی ہوئی ۔ اندھیارے میں ہونے والے گُناہ چھُپ جاتے ہیں ۔ لوگ جان نہیں سکتے اندھیارے کی اوٹ میں خورشید چھُپا ان سب کا مشاہدہ کرکے سجدوں میں گڑ گڑا کر روتا ہے ۔ اس سے پوچھتا ہے
اے مولا۔۔۔
یہ بے بس عورتیں۔۔۔
کھلونا چہرے ۔۔۔۔
اس کا دل تڑپ اٹھتا ہے ۔ قلم ،کاغذ اٹھا کر وہ لکھنا شروع کردیتا ہے ۔ سوچتا ہے میں معاشرے کو اپنی تڑپ سنا دوں۔۔۔
سُنی۔۔۔۔؟
سُن لی ۔۔۔۔!
وہ یہ کام کرتا رہتا ہے ۔۔۔ سوچتا ہے کرتا رہے گا ابد تا عمر ۔۔۔۔ عمر کی قید اس کے پاؤں کی زنجیر نہیں بن سکتی ۔ اخلاق کے قائدے توڑنے والوں کے بے نقاب ہونے سے اس کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ جگنو تلاش کرنے والے خود اندھیرے خرید لیتے ہیں ۔۔۔۔۔
مائرہ کی سوچ میں ماہنور کی آواز نے خلل ڈالا۔۔۔
یہ دیکھو۔۔۔!
ان کی اخبار میں تصویر لگی ہے ۔
میں سوچ رہی ہوں کہ کچھ پیسے دئے ہوں گے اور اعزازی تقریب کروا ڈالی ہوگی ۔۔
آج کل۔۔ایسے ہی تو ہوتا ہے۔۔
ناول بھی ایسے مطبوعہ ہوجاتے ہیں۔
پھر ان کے اعزاز میں محفلیں بھی ہوتی ہیں۔ اور کتاب دلہن کی طرح سجتی سنورتی ہے پھر رسم رو نمائی - کتاب چہرہ پڑھ کر جس کے جی میں جو آتا ہے لفظوں کو تھالی میں سجا کر پروس دیتا ہے
افف۔۔۔!!!
ماہ نور ۔۔میں تمھیں اتنا متعصب نہیں سمجھتی تھی ۔تم نے دو تین لائنیں پڑھیں اور اتنی غلط آرء قائم کرلی ۔تمھیں پتا ہے۔۔
جو تم نے کہا وہ سچ ہے ۔۔ایسا ہو رہا ہے -
مگر اپنی نظر ہر ایک پر ایک طرح کی رکھو۔۔پیتل اور سونے میں بڑا فرق ہوتا۔یہاں تک کہ اگر پیتل پر ملمع کاری کی پرت چڑھ جائے تو اس کا اپنا آپ تو چھپ جاتا ہےاور کچھ عرصے بعد سونے کا پانی اثر کھونے لگتا ہے ۔
دنیا پیتل/ پیتل دنیا / سونا کون ؟
تمھیں اپنی آنکھ سے پڑھنا ہے ۔ اپنی رائے دینی ہے ۔ کیا تم نے ان کا افسانہ ایڈز پڑھا ہے ؟
'' مائرہ ۔۔حد کردی ۔۔۔اتنی بے عزتی ۔۔
ادھار رہی ۔۔۔۔
میں پڑھ چکی ہوں ۔۔ یوں پڑھا اور ختم ۔۔عجب سی روانی ہے،آنکھ ٹھہرتی بھی نہیں اور تشنگی بھی ہے ۔
مجھے لگتا ہے یہ ضرور کوئی شاعر ہیں ۔۔
اتنا مختصر تو شاعر ہی لکھتے ۔۔۔ جس کی تشریح کرنے کے لیے دس صفحات چاہیں اور تب جا کر سمجھ آئے
ماہنور نے یہ کہ کر اپنی بات ختم کی ۔
اچھا لکھاری خیال، پلاٹ اور الفاظ کو سیتا ہے
جس طرح ایک درزی کپڑے سیتا ہے
تمھیں پتا ہے آج کل ہم ''زیرو سائز '' کے کریز میں ہیں۔۔
اس طرح افسانے کی بنت بھی زیرو سائز کی ہو تو کرافٹنگ بہت اچھی ہوتے ہے ۔اس پر جذبات کا لباس بہت اچھا لگتا ہے۔ یہ خورشید حیات کا خاصا ہے ۔۔۔ مجھے نہیں پتا تھا تم اتنا سطحی سوچتی ہو۔۔
''ایڈز ۔۔۔
آج کل کی روح اور جسم دونوں کا المیہ ہے۔
سفید جرثوموں کا خاتمہ /لیو کو سٹس کا خاتمہ
سفیدی کا خاتمہ /روحانیت کا خاتمہ
سفیدی/سیاہی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مرکز سے دوری کی کشش
ان کے اس افسانے میں مرکز سے دوری اور دوری کے نتائج کے بارے میں آگاہ کیا ہے ۔ہمیں سوشل انجیرنگ کی ضرورت ہوگی وگرنہ وہی ہوگا جو خورشید حیات نے لکھا ہے

VERY SORRY ACQUIRED IMMUNE DEFICIENCY SYNDROME IS FATAL
یار ،مائرہ ۔۔تم کتنا ٹھیک کہ رہی ہو۔۔۔ تمہاری مثبت سوچ نے میری رائے بدل دے کہ سونا پیتل نہیں ہوسکتا ۔
میں ان کا افسانہ ''آدم خور " پڑھ رہی ہوں ،، ابھی نیٹ سے ملا ہے ۔مجھے ان سے اعتراض ہے کہ آدمی کو کتا کہا ، کلچر کو کتا کہا ۔کیا تمھیں لگتا ہے یہ سب مناسب باتیں ہیں۔۔دیکھو ''رابعہ کتنی مایوسی کی باتیں کر دہی ہے ، کوما میں جانے کی ، کیا یہ ہے مسائل کا حل؟
دیکھو ! رابعہ کی موت کو امیریکی آدمی خوروں سے منطقی انجام دے دینے کا کیا تک بنتی ہے ۔۔۔تم کچھ بھی کہو! یہ افسانہ ادھورا بے تکا سا ہے ، اس کا آغاز دل موہ لینے والی باتوں سے کرکے انجام کو ادھورا کر دیا۔
ارے ، ارے ، ماہنور سطح پر نہ جاؤ ، ابتدا سے اختتام تک افسانہ مربوط سے، لکھاری نے ایک ہی ڈور میں آغاز اور انجام کر دیا ۔ افسانے کو سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ۔
''کہانی تو ہم سب کے اندر لہروں کی طرح ڈوبتی ابھرتی ہے
سمندر میں , میں ہوں
مجھ میں سمندر
بارش کی بوندیں سمندر میں
اور سمندر بارش کی بوندوں میں ۔''
تمھیں لگے گا کہ یہ ''نمرہ احمد'' کی طرح استعارے استعمال کرتے ہیں جن کو عام قاری نہیں سمجھ سکتا ، ان کی زبان عمیرہ احمد کی طرح سادی نہیں ہے ، یہ اشفاق احمد بھی نہیں جو دیہاتی لہجے میں بات کرتے ہیں ۔۔ ان کی اپنی پہچان ہے ،ان کے اپنے استعارے ہیں ،کیونکہ زندگی ان کی اپنی ہے ، میں روتی ہوں۔۔۔تمھیں پتا ہے دل نے ان کی آواز سنی ہے، پتا ہے وہ کیا کہ رہے ۔۔
سنو !
میری آنکھوں سے سیال تب ہی بہتا ہے جب دل میں دکھوں کا سمندر ہوتا ہے اور جب میں ہجومِ دنیا کے درد کے سمندر میں کھو جاتا ہوں ۔۔۔ درد کے ہچکولے مجھے ہلا دیتے ہیں ۔۔۔مجھے انسان کُتا لگتا ہے ، اشرف المخلوقات ہو کر جب وہ کتا بن جائے گا تو میں اس کو کیا کہوں ۔۔۔انسان کہوں ؟
وہ انسان جو عورت کی تکریم نہیں کرتا ، اپنے دکھ عورت کو دے کر اس کی جھولی سے خوشیاں کشید کرکے چین کی نیند سوجاتا ہے ۔۔
کیا میں اُسے انسان کہوں ؟
بتاؤ؟ مائرہ تم بتاؤ ۔۔۔؟
حیوان /انسان / جن
کیا کہوں ۔۔۔۔ میں روتا ہوں جب غریب کا بچا ہاتھ میں کتابوں کے بجائے مزدوری کرتا ہے اور اس کا باپ آرام سے سوتا ہے
انسانیت کہا ہے ؟ پہلے انسانیت دکھلا دو ۔۔۔۔ پھر میں الفاظ واپس لے لوں گا۔۔۔۔۔
سنو ۔۔۔! آدم خور ہمارے اندر ہے ، یہ انسان کو دیمک کی طرح کی کھاتا ہے اور اس پر کوئی الزام نہیں آتا ۔۔۔روح کے چھید کوئی نہ دیکھے ۔۔۔ظاہر سب ظاہر دیکھے ۔۔۔۔ امریکی بچ جاتے ہیں کیونکہ ان کے لیے انصاف کے نئے قانون بنتے رہتے ہیں ۔۔۔ افغانستان میں دیکھو ۔۔۔ جہاں فوجیوں کو ہم جنس پرستی حلال کر دی گئی ۔۔۔۔ امریکی ہے ۔۔۔۔ فرق ہے نا۔۔
نوکر /آقا
ظالم/مظلوم کا
مائرہ کا دل ان باتوں کو سُن رہا تھا۔۔۔
مائرہ ۔۔۔کہاں گم ہوں۔۔
وہ۔۔آدم خور میں ۔۔
مجھے آدم خوروں سے ڈر لگ رہا ہے۔۔! تمھیں لگ رہا ہے ؟
اچھا ہے تم آدم خور کو نہ سمجھو ۔۔۔۔
تم بھی ڈرنے لگو گی ۔۔۔۔ کوئی تو بہادر رہے ۔۔۔۔ !
میرے پاس ایک اور افسانہ بھی ہے
''پانچ انگلیاں۔۔۔۔۔
مائرہ ۔۔۔۔

تم رو کیوں رہی ہو۔۔ رونے والی کیا بات ہے ۔۔۔ ہم " پانچ انگلیاں '' کسی اور دن پڑھ لیں گے ۔۔۔ تم رونا بند کرو۔۔۔مجھے بس ان کے بارے میں بتاؤ۔۔۔ میں ان کو سننا چاہتی ہوں ۔۔۔ یار کوئی تو اسرار ہے کہ میں ان کے بارے میں جاننا چاہ رہی ہوں ،جتنا جانتی ہوں اتنا تعارف ادھورا لگتا ہے ۔۔۔۔سرحدیں ۔۔۔ سرحدوں کے فاصلے -

اب میں تمھیں ان کے بارے میں تفصیل سے بتاتی ہوں اگر پہلے بتاتی تو تم کہتی یہ سب تو لفاظی ہے ۔۔ تعریفوں کے پُل باندھ رہی ہوں ۔۔۔
خورشید حیات ہندوستان کے مانے ہوئے لکھاری ہیں ۔۔۔

وہ ان کی ان کی زندگی کی تخلیقی کامیابیوں کے قصے سناتی رہی ۔ یوں تقریبا سارا دن گزر گیا ۔

انہوں نے بچوں ، بالغوں اور ادھیڑ عمر حضرات سب کی ترجمانی کی ۔۔ تیرہ سا؛ کی عمر میں بچوں کے لیے لکھا ۔
اور۔۔''میرا دل کر رہا ہے ان کی ساری کہانیاں پڑھوں

یار ۔۔زبردست۔۔۔
اتنی زیادہ معلومات کا بہت شکریہ ۔۔۔
یار ۔۔تمھیں اور کیا بتاؤں ۔۔ ان کی کئی مٹی بدن نظمیں 2005 سے اردو رسائل میں شایع ہوئی ہیں - ۔ان کے افسانے نصاب میں شامل ہیں ۔۔ یہ کسی فخر سے کم بات نہیں ۔۔ یار۔۔حکومتی سطح پر ان کو کئی انعامات سے نوازا گیا ہے ۔۔
ارے ، ارے ، تم کیا سوچ رہی ہو۔۔۔
کچھ بُرا لگا کیا ؟
نہیں ۔۔مائرہ ۔میں سوچ رہی ہوں ۔۔تم ٹھیک کہ رہی تھی ۔۔۔
لکھاری جنوئین ہونا چاہیے ۔۔
پاکستان کا ہو/بھارت کا/ایران کا /پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے ''
میں سرحدوں میں گھر کر تعصب کا شکار ہو بیٹھی ۔۔۔ آج احساس ہو رہا ہے میں کتنی غلط ہوں ۔۔۔ سرحدیں خورشید کو اُبھرنے سے کہاں روک سکتی ہیں ۔۔۔
اُٹھو چلو۔۔۔ ماہنور ،، مائرہ سے مخاطب ہوئی
'کہاں ۔۔۔
اردو بازار
مگر کیوں۔۔۔
کیا افسانے تک ہی رہنا ہے ؟ کیوں نا ان کےتنقیدی جائزے اور افسانوی مجموعے لینے چلیں ۔۔۔ چلو دیکھتے ہیں اس " پہاڑ ندی عورت " میں کیا ہے ------------
چیرہ آئینہ کب اور کیسے بنتا ہے -------

مائرہ سوچ رہی تھی ۔۔۔
واقعی لکھاری جنوئین ہونا چاہیے ۔۔۔ اس کو ابھرنے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔۔
پاکستان کا ہو/ بھارت کا / ایران کا / پورپ کا ،کیا فرق پڑتا ہے '-

دل ‏کی ‏حالت ‏بھی ‏سنبھلتی ‏نہیں ‏ہے ‏

دل کی حالت بھی سنبھلتی نہیں ہے
جسم سے جاں بھی نکلتی نہیں ہے

جنس بازار یہ دنیا ہی سہی
روح پاکیزہ تو بکتی نہیں ہے

خوب کرتی جو ملمع پیتل
دھوکہ دنیا دے کے تھکتی نہیں ہے


اونچی مسند پہ ہیں بیٹھے ادباء
بات سچ کی ہی نکلتی نہیں ہے

لوگ مخلص ہی بنے جو سارے
سادگی ہم پہ بھی جچتی نہیں ہے

میرے ‏دل ‏میں ‏نہاں ‏محمد

میری دل میں نہاں محمدﷺ
کوئی تم سا کہاں محمدﷺ


۔(ﷺ)Swore to love for thee
۔(ﷺ)When shook heart for thee


یًسین و طہ بھی اور مزملﷺ
سردارِ دو جہاں محمدﷺ


!Light is and was and will remain
!Light is Islam and an alive Quran

مسکین و یتیم تھے محمدﷺ
والی مگر ان کے ہیں محمدﷺ


.Dwelt in the hearts of Arab and Ajaam
. Chieftain of prophets was like a common man


کوئی ثانی ملے تمہارا۔۔۔۔۔؟
عیسی بنے امّتی تمہارے


.Ummai I am is a fortune of mine.
. My fate in the end will shine


طائف میں فلک کی سرخی دیکھی
میداں میں خدا کی ہستی دیکھی


.Forgave the assassins of Hamza-the martyr
.Made safety latch the house of Abu -sufian


کافر کو کر دیا مسلمان
سفیان بھی پھرلے آئے ایماں

Father of Hussain (R.A), martyr the great
.who perfected the sacrifice of Abraham

کملی بچھایا کرتے محمدﷺ
زہرا ملا جب کرتی محمدﷺ

Frighted from the scenery of hell during his visit of Meeraj
An angel came to give comfort in form of Bo-Bakar

لکنت جو زباں کی کھل سی جاتی
مدحت میں جاں بھی گھل سی جاتی
نور سعدیہ

زندگی ‏اور ‏جہاں ‏

زندگی اور جہاں !
یہ فانی
جو اس کے درمیاں
وہ قربانی
عظمتوں کے پیکر
رفعتوں پر مکیں
مانگتے ہیں
اپنے ہونے کی
ایک عظیم قربانی
حیات کے ہر قدم پر
مشکل کے آئینے
آنکھوں میں آبگینے
دلوں میں ملال کے سمندر
مانگ رہے ہیں
سفینے ۔۔۔!
کہاں ملیں گے ؟
کہاں اور کس موڑ پر
اداکار تری بستی کے
تجھے برباد کرکے
اپنے ہنر کی چھاپ لگا کر
کیا کریں گے؟
ہنسیں گے ۔۔۔!
ہنسنے دو ۔۔۔۔!

مجھ ‏کو ‏پینا ‏زہر ‏کا ‏اب ‏پیالہ ‏ہے ‏

مجھ کو پینا زہر کا اب پیالہ ہے
مار شہرت نے مجھے جو ڈالا ہے


اس کی فطرت شوخ موسم جیسی تھی
وہ خزاں میں چھوڑ جانے والا ہے


زخم اس کے مضحمل ہوتے نہیں
یونہی دم میرا نکل بھی جانا ہے


دل کی بستی بارشوں سے اجڑی ہے
ہر گھڑی اب کیا جی کا بہلانا ہے


منتظر ہو سحر کی تم نور کیوں ...؟
مستقل کیا اس جہاں میں رہنا ہے....؟

کینوس

''وہ'' اپنے کمرے کے اطراف کا جائزہ لے رہی تھی ۔کمرہ رنگوں کی خوشبو سے مہک ہوا تھا۔ کبھی ایک پینٹنگ کو تنقیدی نظر سے دیکھتی اور کبھی دوسری کو دیکھتی اور یونہی ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے ''میں'' سے مخاطب ہوئی

''میں'' تم نے یہ پینٹنگ دیکھی ہے ؟ اس میں سارا رنگ اسکیچ سے باہر نکلا ہوا ہے ۔۔۔ پتا نہیں کب رنگ بھرنا سیکھو گی ؟''

میں نے ''وہ'' کو دیکھا، جس کا انداز مجھے بہت کچھ جتا رہا تھا۔۔۔ میں نے ''وہ'' سے کہا:

'' جب میں نے رنگ بھرنا شروع کیا تھا۔۔۔ مجھے ایک بنا بنایا سکیچ دیا جاتا تھا۔مجھے اس میں رنگ بھرنا آسان لگتا تھا۔اب میں کبھی اسکیچ کو دیکھتی ہوں تو کبھی رنگ کو ۔۔۔۔۔ اس کشمکش میں رنگ باہر نکل آتا ہے''

''وہ '' نے ان پینٹنگس سے توجہ ہٹائی اور مجھے دیکھنے لگی ۔۔۔ارے یہ کیا ''میں'' تمہارے چہرے پر قوسِ قزح پھیل کر کپڑوں تک کو خراب کر رہی ہے ۔'' یہ کہ کر ''وہ '' ہنس پڑی

''میں'' نے اسے جواب دیا کہ شروع میں سب ہی مصور رنگ بھرے کپڑوں کو دیکھ کر مسکراتے ہیں ، ہنستے ہیں ۔۔۔ تمہیں کیا پتا یہی رنگ تو سرمایہ ہے ۔۔۔ یہ دیکھو سبز رنگ ! میرا چہرہ کس قدر حسین لگ رہا ہے ۔۔۔ یہ نیلا ،پیلا رنگ میرے کپڑوں پر لگا ہے۔ انہی رنگوں کی خوشبو سے تو مجھے مزہ آتا ہے ''

وہ کئی لمحات تک مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی اور کہا: اس لیے تم نے ادھورے اسکیچ مکمل نہیں کیے ۔۔۔ جب یہ مکمل کرلوگی تو تم پر رنگ بھی جچیں گے ورنہ سب رنگ تمہاری ذات سے نکل کر بھی مصنوعی تاثر دیں گے ''

''میں '' دل ہی دل میں ''وہ '' سے قائل تو ہوگئی مگر ہتھیار پھینکنے پر دل آمادہ نہ ہوا اور بولی:

'' یہ دیکھو ۔۔۔ادھر آؤ۔۔۔ یہ پینٹنگز دیکھو ۔۔۔۔جن کے اوپر سفید چادریں ہیں ۔۔۔ان کو میں نے ان سے کور کیا ہے تاکہ کوئی ان مکمل اسکیچ دیکھ نہ سکے ۔۔۔بس سب سفید ہی نظر آئے ۔۔۔۔''

''وہ '' نے جب وہ خالی اسکیچ دیکھے تو داد دیے بنا نہ رہ سکی ۔۔۔اور پھر چونک کر کہا ۔۔۔تم نے اتنے سارے اسکیچ ادھورے چھوڑ کر صرف ایک ہی پینٹنگ میں سرخ ، پیلا اور پھر نیلا رنگ بے ہنگم طریقے سے بھرا ہوا ۔۔۔اچھی بھلے خاکے کا ستیا ناس کر دیا ہے ۔۔۔شاید اس لیے اس کو بھی غلاف سے ڈھکا ہوا۔۔۔''

''میں '' وہ کی چالاکی پر حیران ہونے سے زیادہ پریشان ہورہی تھی ۔۔۔مجھے معلوم نہ ہوسکا وہ اس قدر گھاگ نکلے گی ۔ابھی سوچوں میں گم ہی تھی ۔وہ پھر سے مخاطب ہوئی :

''تم ایک کام کرو، اپنے سارے رنگ خود سے اتار پھینکو ۔۔۔ !! بلکہ ایسا کرو اس رنگین لباس کو سبز، نیلا ،پیلے ، جامنی، سرخ ، اورنج اور نارنجی سے ملا کر سفید کردو ۔۔۔ تاکہ تمہارے رنگ بھی ان غلافوں کے رنگوں سے مل جائے''

منتشر ‏خیالات

مایوسی ایسا دلدل ہے جس میں آپ نے خود گرنا ہوتا ہے۔اس کے آس پاس لہراتے بازو آپ کو کھینچنے کو کوشش میں رہتے ہیں ۔ جب آپ توازن کھو دیتے ہیں تو دو انتہائیں رہ جاتی ہیں ۔ایک انتہا آپ کو مسٹسزم کی طرف لے جاتی ہے اور دوسری ڈینائیل کی طرف، جب آپ مرتد ہو جاتے ہیں ۔ سوال یہ ہے دو انتہاؤں کے درمیان رہنے والے کیا منافقت کا لبادہ اوڑھے ہیں جسے عام زبان میں انسانیت کہا جاتا ہے ۔

جب میں چھوٹی بچی تھی تب میں ان انتہاؤں میں نہ ان کے مابین تھی ۔ میں معصوم تھی ۔ اس کی دلیل بھی معصومانہ سی ہے ۔ پانچ سال کی عمر میں یہ خیال کرتی تھی میں نے گناہ دو کیے ہیں یا ابھی ایک کیا ہے جب تک تین گناہ نہیں ہوں گے اللہ تعالیٰ معاف کرتے رہیں گے یا نماز چھوٹ جایا کرتی تھی تو سوچا کرتی سات سال کی عمر میں فرض ہے اگر چھوٹ بھی گئی تو کیا ہے ۔ بڑے ہو کر یہی معصومیت منافقت میں بدل گئی ۔ کیا ہوا میں نماز نہیں پڑھتی میں کلمہ گو ہوں ۔ کوئی مدد کو آئے تو گمان ہو کہ ان کو عادت ہے مانگنے کی سو مانگتے ہیں

اور جب میں میٹرک میں تھی تو مجھے نعتیں ، قرانِ پاک تفاسیر سے بہت لگاؤ تھا سچ بتاؤں تو مزہ بھی بہت آتا تھا÷ پانچ وقت کی نماز پڑھ کر خود کو جنتی سمجھا کرتی تھی ۔ قیامت کا سوچ کر مجھے شاہکارِ کائنات نورِ مجسم ، امامِ انبیاء ، بانی حوضِ کوثر کا خیال آجایا کرتا ۔ اور میں حضرت امام حسین پر اتنی فدا تھی اکثر ان کی بات کرتی رہتی تھی ۔ یہ خیال کیا کرتی میں لباس پیوند زدہ پہن کر سنت پوری کر رہی ہوں ۔ اللہ سے سوال تب بھی کرتی تھی ۔ اللہ مجھے اپنی محبت عطا کر مجھے جنت و دوذخ کے انعام و سزا میں نہ ڈال ۔ یہ بات کہنے کی حد تک تو آسان مگر کرنے کو مشکل تھی ۔

میری عادت ایک تو بڑی گندی ہے میں اللہ تعالیٰ سے سوال کرتی ہوں ۔ شکوے کرکے ان کے جواب لکھ دیتی ہوں گویا کہ میں اقبال ہوں ۔شکوے کا طرز تو اقبال سے ہی سیکھا تھا ورنہ جواب شکوہ بھی نہ لکھا کرتی ۔آپ لوگ پریشان ہوں گے جوابِ شکوہ کہاں ہے ۔ اسی محفل کی کسی لڑی میں پڑا ہے مگر خدا گواہ ہے جب لکھا تب خود کو معلوم نہ تھا میں کیا لکھ رہی ۔بس اتنا میں لکھ رہی ہوں جس طرح اب لکھ رہی ہوں۔ لکھنے کے لیے غم کی مے دستیاب ہوتی ہے وہ نہ ملے تو بازار کا سٹاک بھرا ہوا ہے ۔ اکثر شعراء کو میں نے دونوں طرز کے مشروبات نوش کرتے پایا ہے (سنا) بے خودی کے عالم میں انسان شاہکار تخلیق کرتا ہے ۔ اب پتا نہیں اس بات میں کتنی صداقت ہے

اے ‏خدا ‏کہاں ‏ہے ‏تو ‏؟

ابھی کل پرسوں کی بات ہے کسی ادیب کی تحریر پڑھی ''خدا کہاں ہے '' جس میں یہ لکھا ہوا تھا خدا پاؤں کی ٹھوکر میں ہے . میں نے جھٹ سے نتیجہ اخذ کیا وہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ انسان جب جب گرتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ مل جاتے ہیں . آئینے میں خود کو کھڑا کیا پوچھا کہ خدا کہاں ہے . ٹھک سے جواب آیا نور ہے اور نور دل میں ہوتا ہے ، پھر سوال کیا کیا دل کے پاؤں ہوتے ہیں جو خدا پاؤں میں ملتا ہے '' . پھر ہنسی آگئی ...

من نے پوچھا کیوں ہنس رہی ہوں . جواب دیا خدا اور اللہ میں بڑا فرق ہے . شکر ہے اس نے لفظی طور پر لکھا تھا ایسے... اس کو خدا اور اللہ لکھنے میں اللہ کی کبریائی کا لائیسنس مل گیا ہوگا ۔۔ مجھے دو باتیں یاد آگئیں جب میں نے کسی ابن آدم کو چندا اکٹھا کرتے دیکھا تاکہ وہ اپنے باپ کی سسکتی زندگی کو بچا لے . .. چندا کل 20 لاکھ کے قریب تھا وہ تو اکٹھا ہو گیا

اور اس سے پہلے وہ اپنا جگر اپنے باپ کے جگر میں اتارتا اس کے باپ کو اجل نے آ تھاما ... اس نے سوال کیا خدا کہاں ہے ، تم دنیا میں تباہی کے لئے آیے ہو . کسی نے اس کو سمجھایا بجھایا اور توبہ کروالی . کفر کر لیا چل کلمہ بھی پڑھ .... اس نے اللہ کو واحد مانا اس کو وہ مل جائے گا اس کا دل جب تھم جائے گا .. ایک اور قصہ یاد آتا ہے جب کسی دوست نے یہ سٹیٹس شئیر کیا ہوا تھا اے خدا تو کہاں ہے اگر تو نے اس کو دنیا میں ٹھوکروں کے لیے بلایا یا اس دنیا کا کوڑا بنانے کو لیے تو اس کو اٹھا لے ... اس پر بھی کفر کا فتوٰی لگ گیا۔۔۔لگنا بھی تھا ۔۔ خدا سے سوال وہ بھی گستاخانہ ۔۔ ...


ہمارا معاشرہ فتوٰی دینے میں آگے ہے . مگر دلوں میں نہیں نظر ڈالتا کہتا ہے فلاں ملحد ہے ۔دلوں سے نور کیوں جا رہا ہے .... لوگوں میں ایمان کم ہو گیا ہے ... حمزہ نام رکھنے سے کوئی حمزہ سید الشہدا تو نہیں بن جائے گا .۔ فاروق نام رکھنے سے کوئی فرق کرنا تو نہیں سیکھ سکتا ۔۔ اور فاطمہ نام رکھنے سے کوئی ویسا پاکیزہ ہو سکتا ہے

میں سوچ رہی ہوں.میں نے خدا تک پہنچنے کا سفر شروع کیا ہوا ہے۔ ۔۔. زادِ راہ نہیں ہے ورنہ جم کر کہتی دیکھو کیا خوب تیاری کی اس ذات سے ملنے کی ...میں نے بھی حسرتوں کا انبار دل میں مدفن کر لیا ہے ، کس منہ اس کے سامنے جاؤں گی ۔۔شرم تو آئے گی مگر ڈھٹائی پر رونا آتا ہے اسکے دینے پر اور اپنے ندیدے پن پر ۔۔

یہ دنیا تو ٹھکانہ ہے اور عارضی ٹھکانے پر حسرتوں کی قبر بن جاتی ہے ... پھر جب بے شمار قبریں بن جاتی ہیں دل میں اندھیرا چھا جاتا ہے ہم پوچھتے ہیں خدا کہاں ہے ... نور تمہیں ان مردہ نعشوں میں ملے گا کیا...؟ یا اس اندھیرے میں پاؤں مارتے رہو گے تو مل جائے گا ... نور تب ملے گا ان حسرتوں کی قبر نہ بناؤ اگر یہ قبر بن بھی جائیں تو سوگ تین دن کا مناؤ...اور حسرتوں کو حتی الاامکاں مرنے نہ دے .. جب یہ حسرتیں ناسور بن جائے ان زخموں پر پھائے رکھنے والا کوئی نہ ہو تو ہمیں اس کا وجود لایعنی سا لگتا ہے ..

دل سے ایک صدا آئی ہے ۔۔ مجھے لگا یہ نور کی آواز ہے ۔۔۔ پاک ذات کی جو دل کی میل کو دھو ڈالنا چاہتا ہے مجھ پر ایک سوال داغ ڈالا ۔۔

''اے خاک تو نے کبھی مجھے دیکھا ہے کیا ؟ کبھی میرا جلوہ کیا ہے ؟ کبھی میرے دیدار کی خواہش کی ہے ... تو دنیا میں خداؤں کے پیچھے بھاگتاہے جب وہ خدا تجھے چھوڑ جاتے ہیں تو میرے پاس آتا ہے پوچھتا ہے میں کہاں ہے ... جب تو نے مجھے اس پاک جگہ سے ہٹا کر کسی اور کوصنم بنایا تھا میں نے پوچھا تھا میں کہاں ہوں؟

شکوہ ‏اور ‏سوال

ہماری سوچ کا محور اکثر دنیا ہو تی ہے ۔ دنیا میں لوگ بہت خوش ہیں اور کیوں خوش ہیں ۔ اسکو میری بد دعا لگی اسکے ساتھ برا ہوا ۔ ہم برا ہونے پر خوش اور کسی کے اچھا ہونے پر نا خوش ہو تے ہیں ۔ ہمارے ہونٹ کی جنبش میں مناجات بھی مطلب کی ہوتی ۔ اللہ سائیں اچھا کرنا ۔ بلکہ اس بندے سے زیادہ دینا۔ مجھے ترقی دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوال کیا ہوتا ہے ۔۔؟ اک سوال تو معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا جاتا ہے ۔ اک سوال مدد کا ہوتا ۔ مگر مرا مطلب سوال سے شکوہ کے معانی میں ہیں ۔ بندہ رب سے سوال کیوں کرتا ہے ۔ سوال کرنا ہو تو وہ کس حد تک جائز ہے ۔ مجھے حکمت کا جواب اللہ وتبارک وتعالیٰ کی قصے سے ملا اور پتا چلا اللہ جانی نے قصے کیوں کر بتائے ہیں ۔ ان میں کیا حکمتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

سورت کہف شریف میں اسکا ذکر ملتا ہے اور کیا کمال انداز بیاں ہے ۔ میں اس کرم کے کہاں قابل کہ اس بات کو سلیقے سے بتا پاؤں جس قصے سے مجھے سفرِ خضر یاد آتا ہے ۔ روانگی سے قبل انہوں نے منع کیا سوال نہ کرنا اور یہ ساتھ جانے کی شرط تھی ۔ جب حضرت موسیٰ (ع) نے پوچھا مالک کائنات سے کہ اللہ اس دنیا میں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس علم نہیں ۔ پروردگار ِ عالم نے کہا۔۔ ایک ایسا بندہ ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اسے تجھ پر فو قیت ہے ۔ پوچھا کون ہے وہ ؟ جواب ملا کہ وہ خضر (ع) ہیں ۔ موسی ؑ تو نبی دلال تھئ ملنے کی ضد کی ۔ پروردگار عالم نے کہا مرا بندہ یہاں یہاں ملے گا، یہ وہی خضرؑ ہیں جنہوں نے آبِ حیات پیا ہے ۔۔۔۔!!!

موسیٰ (ع) سمندر پر آپ کے ساتھ تھے ۔ جس کشتی پر سوار تھتے اسکے کچھ حصوں کو توڑ دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ حیران ہوئے سوال کیا ۔ آپ ؑ کو خضر ؑ نے ٹوک دیا ۔ کہ سوال منع کیا تھا ۔اب کہ سوال کیا تو سفر آپ ؑ کے ساتھ نہ ہو گا۔پھر جب آپ ساحل پر آئے تو ایک بچہ کو مار ڈالا۔ اب تو حضرت مو سیٰ حیران ہوئے ۔۔ لب رک نہ سکے کہ سوال ہونٹ پر در آیا۔۔ پوچھا یہ کیا کیا۔ حضرت خضر ؑ نے کہا میں نے منع کیا تھا سوال نہ کرنا۔ مجھے اجازت دیں ۔ اب آپ کی اور میری راہ علیحدہ ۔۔۔ مگر حضرت موسیٰ ؑ نے منت سما جت کی ۔ مجھے آخری موقع دیں ۔اب کہ سوال کیا تو مجھ سے آپ علیحدہ ہوجائیں بے شک ۔۔

حضرت خضر ؑ مان گئے۔ جہاں پر یہ دونوں ہستیاں تھیں وہ ایک گاؤں تھا وہاں ایک گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ خضر ؑ نے اس گھر کی دیوار شکستہ حالت میں تھی ۔۔۔ آپ ؑ نے دیوار تعمیر کر دی ۔ حضرت موسیؑ پھر سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ پوچھا یہ کیا آپ نے ۔۔ مکان کی دیوار کی تعمیر پر کچھ اجرت ہی لے لیتے ۔ اور کیا وجہ تعمیر کرنے کی ۔۔ ۔ !!!!

اب کی بار حضرت خضر ؑ نے کہا کہ اب میرا تمہارا سفر ختم۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ سوال نہ کرنا ۔ جاتے جاتے وہ سوالات کا جواب دے گئے ۔ کہا جس کشتی کو خراب کیا تھا وہ بہت حسیں اور اکمل تھی ۔ ساحل کے پار ایک بادشاہ ہے اسے جو اچھی کشتی لگتی ہے وہ اس پر قابض پو جاتا ہے ۔ اس کشتی میں نقص کی وجہ سے وہ اسے اپنی ملکیت نہیں بنائے گا ۔ اور غریب کا بھلا ہو جائے گا۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا اس نے
بڑا ہو کر ماں باپ کے لئے ملامت و تذلیل کا باعث بننا تھا ۔ اسکے بدلے اللہ تعالیٰ ان کو نیک اولاد عطا کرے گا۔ جس مکان کی دیوار کو میں نے تعمیر تھا ۔اسکے نیچے خزانہ دفن ہے جو یتیم بچوں کا ہے اور اب وہ بچے بالغ نہیں ۔ وہ سونا دیوار کے نیچے دفن رہے گا ۔ کیونکہ حریص رشتہ دار ان کا سونا غضب کر لیتے تھے ۔

حضرت موسی ؑ جو لاڈلے نبی ہیں ، لاڈلے نبی تسلیم کیا کہ خضرؑ کا علم ان سے زیادہ ہے ۔ اور رخصت ہوئے ۔ اس سارے واقعے میں ''سوال '' حکمت ہے ۔ ہم سوال کہیں یا شکوہ کہ لیں ۔۔ مالک سے سوال کرتے اللہ میں کیوں سول سروس میں کامیاب نہیں ہوا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس تم میں کمی ہے بس اللہ کی مرضی اور ہے اور اس پوشیدہ بھلا ہے جو وہ ہی جانتا ہے اسکے سوا کوئی نہیں ۔ اللہ تعالی بندہ کو ڈھیل دیتا ہے کسی حد تک کہ وہ شکوہ یا سوال کرے ۔ جب وہ حدود پار کردے تو اسکے ساتھ چل نہیں سکتا ۔ ہم کیتے ہیں اللہ اس کا بیٹا لائق ہے میرا نالائق یا کہ میرے ہم نوا مجھ سے اچھا پیش کیوں نہیں آتے میں بھلا چاہتا ہوں ۔ نو سال کا بچہ عالمی ریکارڈ بناتا ہے ۔ مگر 20 -22 سال میں وہ ریکارڈ نہیں با سکے ۔ایسا کیوں ۔ عاشق بناتا ہے اللہ خاص خاص کو ،،، اور معشوق تو اس سے بھی زیادہ چنیدہ ہوتے ہیں ۔ ہم فٹ سے کہتے پیں اللہ میں معشوق کیوں نہیں ۔َ کیوں بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ سوال پہ سوال وہ خاموش ، وہ ساتھ نہیں چھوڑتا چاہے ہمارا یار شیطان ہی کیوں نہ ہو۔۔




کبھی کسی نے اللہ سے کہا اللہ مجھے نبی اکرم ﷺ کا امتی بنایا کسی اور نبی کا بنا دیتے ۔ کوئی نہیں کہے گا ۔ ہم کو اللہ خاص بناتا ہے امتی بنا کر اور آدم کی خصلت ہے کہ وہ خود کو عام نہیں ہونے دیتا ۔خوب سے خوب تر کا جنون ہوتا ہے ۔ ہم بازار جاتے ہیں لینا اک سوٹ یا شرٹ ہوتی ہے یا پرفیوم ۔۔ پورا شہر یا ملک اور کوئی تو باہر کے ممالک بھی چھان مارتے ہیں پھر جا کر انہیں کچھ پسند آتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں پسند کیا ہے ہیارے محمد ﷺ مجتبیٰ مرتضیٰ کا امتی ہونا ۔ اللہ نے چھانٹی کی ہے ہماری ۔ساری امتوں میں سے چنا ہے ۔ خاص خاص بندوں کو نبیﷺ کی امت میں ڈالتا گیا۔ پم چنے ہوئے ، گنے ہوئے لوگ ہیں ۔ اللہ کی پسند ہیں ۔ جتنا شکر کرین تو کم ہیں ۔

موت کے اجل نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتا ۔ فرمایا میں نے سمندر کی موجوں کو کہا اسکو ماں کی مامتا دو لوری دو ، ہوا کو کہا اسکا جھولا بن جاؤ ، سورج کو کہا اسکو روشنی دو ، درختوں کو کہا اسکو سایہ دو ، پھلوں کا کہا اسکو توانا کرو ۔۔۔۔ تم جانتے ہو وہ کون تھا۔۔۔ وہ نمرود تھا جس نے بڑے ہو کر خدائی کا دعوا کیا تھا ۔

مجھے رہ رہ کر قرانِ پاک کی نشانی /آیت یاد آرہی ہے جسکو سورہ رحمان میں بار بار دیرایا گیا ہے ۔
فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ سوال کرنا بھی اسکی نعمت کو جھٹلانا ہے ۔ ہم بہت خاص ہیں اللہ کے۔۔ وہ اپنے لاڈلے بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ۔ہم پھر بھی شریک کرتے ہیں اسکو ۔ وہ ہمیں سب کچھ دیتا ہے مگر ایک مطالبہ کرتا ہے کہ مومن ہو جا ، محبت کا مومن بن جا ، محبت سیکھ ۔۔۔ بس تو محبت کرنا سیکھ اسکے بعد وہ جو آسمانوں ہر مقیم کبھی تری دعا رد نہیں کرے گا۔عاشق ایک تو حکمتوں کو جانتا ہے نہ بھی جانے تو ہوتا تو وہ دیوانہ ہے ۔ اسکا ہوش رہتا ہے اسے بس ۔ ذات باری تعالیٰ کے بعد وہ سب بھول جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جو ''میں'' ہوتی ہے / انا کہ لوں۔۔۔۔۔ اس کو خاک تلے روند دیتا ہے

اک تری چاہت ہے

اک مری چاہت ہے

ہوگا وہی جو مری چاہت ہے

ہاں اگر تو سپرد کردے خود کو

اسکے جو مری چاہت ہے

تو میں تجھ کو وہ دوں گا جو تری چاہت ہے

اور اگر تو نے مخالفت کی اسکے جو مری چاہت ہے

تو میں تھکا دوں گا اس میں جو تری چاہت ہے

پھر ہو گا وہی جو مری چاہت ہے !!!


اختتام سے پہلے دو حکمت سے بھرپور واقعات آپکی نظر کر دوں ۔۔ اک بزرگ نے منت مانی سید سیدی بابا بلھے شاہ رح کے مزار مبارک پر ۔۔۔ روز وہاں جا کر زار و قطار روتا رہتا کہ بات پوری ہو جائے مگر رونا کے سلسلہ بڑھتا جاتا۔۔دل پگھل کر موم ہوتا جا رہا تھا ۔۔ جسم سے سکت جا رہی تھی مگر دعا قبول نہیں ہو رہی تھی ۔ مایوسی کے سائے منڈلا رہے تھے پاس پا س ،۔۔ پر وہ بزرگ مایوس نہیں ہوئے معمول بنا لیا جیسے بندہ نماز پڑھتا اسطرح آکر زاریاں کرنا۔۔۔۔۔اک دن یہ بزرگ زار ع قطار رو رہے تھے ۔۔ تو دیکھا اک نائقہ آیئں ۔۔ منت مانگی ۔۔گھونگھر ؤں کی آواز کانوں میں سنسائی ۔۔ کچھ برا لگا جی کو مگر توجہ ہٹالی ۔

پھر اگلے دن وہ وہاں پر حاضر تھے ۔۔۔ آج مزار پر بہت چہل پہل تھی ۔۔ جیسے کوئی لنگر سا ہو ۔۔ کھانہ تقسیم ہو رہا ۔۔ پیسے بانٹے جا رہے ۔۔۔ ذرا کھوج لگائی تو معلوم ہوا کہ اس نائقہ کی دعا قبول ہو گئی ہے اور اس خوشی میں لنگر کا اہتمام ہوا۔۔ اب تو یہ صاحب مکمل مایوس ہوگئے مری کوئی اہمیت نہیں ۔ اک دن کے اندر اسکی دعا قبو ل ہو گئی ۔ اور تین دن تک مزار نہ گئے ۔۔۔ تیسری رات آنکھ لگتی ہے تو اک نورانی شخصیت جلوہ گر ہو تی ہے ۔۔۔۔ وہ عالی مقام سید سیدنا بابا بلھے شاہ رح ۔۔۔۔۔ بولے ۔۔۔!! تم اتنے ناراض ہوگیے ۔۔ اس عورت کا آنا مالک کو قبول نہ تھا کہ وہ آئے اور بار بار مانگے سو دعا پوری کردی اور تری زاریاں بہت پسند تھیں اور اس لئے مالک تجھے بار بار بلاتا تھا تو اسکا محبوب ہے ترا رونا قبول ہو جاتا ہے اس لئے تری دعا قبول نہیں ہوتی ۔ پھر اس دن کے بعد سے کبھی مزار جانا نہ چھوڑا۔۔


بات کروں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقسیم پر تو اک اور بات یاد آجاتی ہے ۔۔۔ سیدنا بابا بلھے شاہ اپنے پیرو مرشد کے ساتھ بیٹھے تھے ۔۔مجلس کا سماں تھا ۔ مرشد برحق نے کہا بلھیا۔۔۔!! مٹھائی تقسیم کر ڈالو ۔۔


بابا بلھے شاہ نے پو چھا سیدی کس طرز پہ ۔۔۔اللہ کی یا محمدﷺ کی طرز پہ۔۔۔۔۔۔!!! آپ کی بات کو نہ سمجھ پائے اشارتًا کہا کہ اللہ کی طرز پہ۔۔۔۔ جنابی عالی مقام نے کسی کو ایک ، کسی کو سات ، کسی کو 3 کسی کو چار اور کسی کو کچھ بھی نہ دیا۔۔ مرشد کامل نے پوچھا یہ کیسی تقسیم تھی ۔۔۔؟ بولے : آپ نے خود ہی تو کہا تھا اللہ کی طرز پہ کرو۔۔۔ اللہ کی تقسیم تو ایسی ہوتی ہے کسی کو بے حد دیتا ہے کسی کو تھوڑا۔۔کسی کو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ کا طرزِ کار تو یکساں تقسیم کا ہے ۔۔۔!!! آپ سب کو اک سا دیتے ہیں جبکہ اللہ تعالی دے کر بھی اور نہ دے کر بھی آزماتا ہے ۔۔۔ جب دعا قبول نہ ہونے پر سوال کریں کم دینے میں سوال کریں تو کیا جائز ہے ۔۔؟ اللہ کی ہر بات تو اسرار ہے جس میں پوشیدہ بھلا ترا یا مرا ہے ۔۔۔!!!بات اس پہ ختم کرتی ہوں ۔۔۔
شکوہ محبت میں ہی ہوتا ہے
مگر محبت شکوہ سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔۔۔!!!

Wednesday, November 25, 2020

خیال ‏اور ‏پیارے ‏رسول ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم

بس اچھے کو اچھا دکھ جاتا ہے ـ وہ اچھا چونکہ سچ ہوتا ہے ـ سچ کہتا ہے کہ تو ہے جو تو نے کہا وہ سچ ہے ـ محبت ایسا آزاد پرندہ ہے جو روح کی کشش میں قید ہوجاتا ہے ـ محبت قید ہوگئی ہے اور چاہتی ہے آزاد ہوجاؤں میں ـ محبت نے کہا تو ہم آزاد ہوں گے ـ آزادی میں حیاتی ہے ـ بدن تو انفاسی ہے کیوں برق الوہی انفاسی کو زیادہ دیں روح کو محروم رکھیں ـ روح لے کے رہے گی اپنا حصہ جب تک آزاد نہ ہوجاؤ ـ آزادی کے بعد حیات جاودانی ہے ـ رنگ لگا ہے روح کو محبت کو اور جل رہی ہے روح کے دل ہے  ـ سعید روح ہے جو یہاں پر ہے ـ رحمت وسیلہ ہے ـ ہم تو رحمت کو سانس بہ سانس نفس نفس میں دیکھ دیکھ کے جئیں گے ـ روح نے سونگھی ہے کہ کشید کی ہے صبا سے خوشبو ـ حی علی الفلاح ـ بلارہی ہے محبت ـ بھاگو محبت ورنہ آذان کے بعد نماز یے ـ نماز رہ نہ جائے ـ نماز ہم پڑھیں گے شوق لمحہ لمحہ سانس بہ سانس دم بہ دم دیکھ کے رخ بہ رخ،  مو بہ مو،  ضو بہ ضو،  کو بہ کو اور چار سو دکھے گی اک رحمت ـ رحمت بنا "محبت " ادھوری ہے ـ محبت متصل خیال سے ہے ـ ان کا خیال ملے دل جلے ـ خوشبو دھواں دار ہو ـ آہا!  آہا!  کیا خوشبو  ہے ـ کیا لطف و چاشنی ہے ـ جس نے پائی مکمل خوشبو اس کا حال کیا ہوگا ـ یقین ہے کہ لم یزل نے لکھی ہے مکمل خوشبو ـ یقین ہے کہ سفر لکھا یے ـیقین ہے زندگی دو دھاری تلوار ہے ـ ہم نہیں مانیں گے ہار،  قدموں کے بل رقص کرکے جائیں پاس ـ بس اشارہ کریں نا وہ دل مانند قمر شق القمر ہو ـ نکلے ان کا نور ـ ان کا سرمہ بینائی ہے ـ اندھا مانگتا ہے بینائی ـ رشنائی سے لگے گا میلا ـ محفل سجے گی ـ تار ہلے گا ـ واج لگے گی ـ ساز تب بجے گا ـراگ  الوہی گا ـ پھر کون ہوگا؟  نہیں انسان یہاں کوئ ـ اک اک کے لیے ـ ایک،  ایک کی تعریف کر رہا یے اور دوسرا بھی جوابا کررہا ہے ـخیال دو ہیں مگر اک خیال ذات ہے دوجا آئنہ ہے. ذات اور آئنہ ہونا ہے بندے نے .پتا چلے گا کہیں اللہ یے تو کہیں سرکار ـ کبھی تو سارا جہاں سرکار لگے گا تو کبھی سارا جہاں اللہ ـکبھی لگے گا ورفعنا لک ذکرک ہو رہا تو کبھی اللہ اللہ ہو رہی ہے ـ یہ وسیلے ہیں ـکسی نے سمجھا نہیں اس دکھ کو کہ جو مجھے لکھتے ہو رہا ہے ـ میں نے بھی نہیں سمجھا نا ـ بات یہ ہے نام تو پہچان کے لیے ہے نام ہٹا دیا تو بچتا کیا یے 

مزمل ـــ مدثر ـــ طٰہ ـــ یسین ـــ حم ـــ الم ــ حمعسق ـــ عسق ـــ 

نصیبہ بشر کا ہوتا ہے جب وہ ایسی باتیں پڑھتا ہے تو پڑھتا عین ہونا ہوتا ہے مگر عین ہون تو کچھ ہوتا ہے ـ جب عین ہو جائے تو کچھ نہیں دکھنا بس جلوہ ہونا ـ چلو منادی کرو کہ جگہ جگہ جلوہ ہے ـ چلیں دیکھیں کہ اللہ کدھر ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کدھر ہیں     ارے فرق نہ ہوگا ـنہیں قطعا نہ ہوگا جہاں ہین وہ ہیں وہاں ہی تو خدا ہے ـ ہم تو غلامی کی سند کو پانے کو تیار ـ غلام کو غلامی مل جائے رہائ مل جائے رہائ حیاتی ہے ـ حیات رہائ ...

سبحان ‏اللہ

محمد کی میم بھی بڑی نرالی ہے ـ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ـ یہ نقاش گر نے تب ہمیں دی،  جب ہم افلاس میں تھے ـ جب سے میم سے نسبت بنی ہے ـ افلاس تو کہیں بھاگ گئی ہے ـ سروری ملی ہے اور دولت کون چھوڑتا ہے ـ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضہِ مبارک جوں جوں تصویر میں جھلکنے لگتی ہے،  تصویر کا تعلق بوسیلہ میم المصور سے جڑ جاتا ہے ـ  یہ کمال کبھی بھی نہیں  درود کے بنا نصیب ہوتا  ہے ـ خیال میں محبت ملتی جاتی ہے، خیال محبت پاتا ہے اور خیال محبت دیتا ہے ـ جب سب کچھ یہاں نہیں ہے اور ہم محض خیال کی برق ہیں تو کیوں یہاں پر مستقل رہنے کا سوچ لیتے ہیں. خیال ملا، خیال نے وسیلہ بن کے دے دیا، جس کو جہاں سے ملا وہ خیال نے دیا ـ بندہ تو نہیں جانتا کہ دولت ہے کیا ـ دولت تو سکون ہے ـ اک جھونپڑی میں بیٹھا شخص خیال ہوتے خیال میں جائے تو کیا ہوگا؟  نیستی کا عالم ہوگا!  یہ جو ہستی کا مٹ جانا ـ خیال کو باہم وصلت ہوجانا یہ نور کے نور سے رابطے ـ برق کے برق سے سلسلے ـ یہی سلسلہ جس کو سینہ بہ سینہ انتقال کہا جاتا ہے ـ استقلال  چاہیے امانت کو سنبھالنے میں ـ جب امانتیں دی جاتی ہیں تو تقسیم روح کی شروع ہوجاتی ہے ـ روح کی تقسیم محبت کی ضرب سے ہوتی ہے ـ  محبت اگر بے غرض ہو تو منتقل ہوتی ہے ساتھ اس خیال کے جو کہ بطور امانت کاتب نے دیا ہے  یہ بھی اہم ہے کہ خدا نے ایسی امانتیں دیں مگر پہچان کا ذوق کسی کسی کو دیا ـ جب تم دیتے ہو تو یہ نہ سوچو کہ تم دے رہے ـ تمھاری اوقات نہیں ہے کہ تم کچھ دے سکو؟  تم تو خود ذات کے ہو ـ ذات کا کام ہے دینا ہے ـ یہ عین ذات ہے جو بانٹ رہی ہے ـ جتنا دیا جاتا ہے اتنی دنیا کی خواہش نکل جاتی ہے ـ ایسے اگر وقوع ہو جائے تو یہ مبارک بات ہے ـ نیک و سعید روح وہ ہے جو اثر سے نکل جائے؟  شیطان کے اثر سے ـ انسان تو محض متاثر ہوتا ہے اس کے بعد تاثر دم توڑ دیتا ہے ـ یعنی تاثر کشش پیدا کرتا ہے ـ اس کشش کو اچھی بات کے لیے رکھو اور اثر تو بس اللہ کا باقی رہتا ہے ـ خدا کو بقا ہے ـ وہ الحی القیوم ہے ـ اندر وہی تو ہے اس کو برق صمیم خیال کرلو ـ یہ شمع کی مانند جل رہی. کرنا تو اتنا ہوتا ہے کہ اپنے خیالات کی یکجائی کو جلا کے اس نور میں کود جانا ہوتا ہے وہ پھر مثل زیتون شاخوں کو ہرا بھرا کر دیتا ہے ـ کہاں رہتی ہے بندے کی ذات؟  اس کی باقی رہتی ہے. باقی تو اس کی ذات نے رہنا ہے کہ بندے کو اوقات میں رہنا ہے ـ شمس نے حجاب میں کب رہنا ہے ـ کسی نے مستقل میں کب رہنا ہے ـ سب بچھڑے اس کا خیال ہے ـ برق سے برق ملا کے اس سے مل جاؤ ـ بچھڑا یار خود ملے گا ـ بچھڑا یار قربانی کے بعد تو ملتا ہے 

سبحان اللہ!  ذی ہست و ذیشان ہے وہ ذات جو اوج ثریا پر بلاتی ہے ـ جو فاصلے مٹا کے سب نچھاور کرتی ہے ـ خدا محسوس نہ ہوا تو پھر کیا ہوا؟  سبحان کس شے کے لیے کہا؟  کس چیز سے متاثر ہوئے؟ وہی کہ برتر و اعلی ہے  عالیجناب سے بڑا کوئی نہیں ہے فقط اس واسطے احساس نے تشکیل دی ذات ـ ذات کو دیکھا کہ وہ اعلی ہے تو کہا پناہ!  کتنا حسین ہے خدا!  مر گئے ہم!  مارے گئے ہم!  زلیخا نے انگلی کاٹی ـ ہم نے جان قدموں میں رکھ دی ـ جان دی تو اسکی ہوئی تو حق ادا نہ ہوا کہ اس کو خود سے تو کچھ نہ دے سکے ـ اب اس کی بے نیازی سمجھ لگی تو پھر سبحان اللہ نکلا ـ دیالو اس لیے دیتا ہے کہ وہ محبت کرنا جانتا ہے اسے لینے کی توقع نہیں ہے ـ دیالو جیسی ذات بننا مشکل ہوتا ہے مگر کسی کو اس لیے دے دینا کہ دیالو نے کہا ـ بس اسے نیاز چاہیے ـ بندے کو عبد کہا گیا اس لیے ہے کہ وہ بے نیاز یے اور خدا تو بے نیاز ہے ـ پھر حمد کبھی خود سے کہہ سکو گے؟  نعت کا طریقہ آئے گا؟  یہ سب اس کی نسبت ہے تو لین دین کا طریقہ اسی نیاز و بے نیازی پر ختم ہوجاتا ہے ـ عبد فنا ہوجاتا ہے اور خدا رہ جاتا ہے تو پھر سبحان اللہ کون کہتا ہے؟

شبِ ‏درز

رات کا پچھلا پہر ہے ـ اس پہر کو شب بیدار دعا کیا کرے تو مانگ بھر دی جائے گی ـ درحقیقت مانگت یہی ہے کہ دعا توفیق ہے ـ جس کو نوازا جائے وہ نواز دے خزانے ـ تقسیم میں رحمن و رحیم نے تضاد رکھا ہے ـ اختلاف اس نے الجھانے کے لیے نہیں بلکہ دھیان کے لیے رکھا ـ فرق تاہم فرق ہے ـ اصل تو ہم ہے نہیں یہاں. ہم تو اسکے مجسم خیال کی بجلی و برق ہے ـ اس لیے بنا آگ کے قندیل سے روشنی سورج کی سی صورت اختیار کرلیتی ہے ـ رات کے پچھلے شب بیدار بیٹھا ہے اور کشش کا نظام قائم ہے ـ شب بیدار کو شب دراز کی ردا کھینچنی ہے تاکہ جانچ لیا جائے سویرا پیغام پہنچانے والوں کے لیے ہے جبکہ اندھیرا پیغام لینے کے لیے ـ کھول آیاتِ المزمل ـ اک حصہ شب بیدار ہے اور دوسرا سویرے ہوجانے کے بعد یے ـ

وہ اک خواب میں ہے جو بھی انس یہاں پر ہے ـ در حقیقت عین تو مرکز وہ خود ہے ـ اس کی صوت نے تصویر بنادی اور آواز نے جسم میں جان ڈال دی ـ یہ سوچ کا دھاگہ ہے کہ ہر بشر جو مشکل ہوا،  اس کی صوت کیا ہے ـ صوت اک ایسا خاکہ پر مشتمل ہے جس کی درون کی صوت اس صوت کو پالے اس نے راز جان لیا ـ یہی پانا بشر کا مقصود ہے مگر وہ جانے کن کن باتوں میں پڑا ہے اور سیاپا بہت ہے. اس نے کمایا کیا ہے،؟  کچھ کام ہو تو ہم بھی اسکو جانیں ـ اس کو پہچان کا صلہ دیں کہ صلہ قربت ہے . دعا کے واسطے کائنات بنائی گئی ہے ـ دعا دینے میں بگڑی بن جاتی ہے اور حقیقت مل جاتی ہے 

اٹھ ـ شب دراز سے!  ردا کھینچ دے!  اٹھ کے پیدائش کا مقصد یہی ہے کہ خاک ہو جا،  خاک میں مل جا تاکہ باقی وہی رہے ـ حق!  اسی کو بقا ہے مگر بندہ تو جانتا ہی نہیں ہے

Tuesday, November 24, 2020

عشق ‏کے ‏روپ

عشق کے روپ
بعض لوگ لباسِ مجاز میں کیفیتات کو محبت کی اصل سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عشق ایک روحانی کیفیت ہے جو کبھی کسی بھی وقت مرض میں گرفتار کرسکتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی مثال موسیقی کی سی ہے جب آپ کی روح کسی خاص دھن پر رقص کرنا شروع کردے تو عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔روح ہجرت کی ماری ، پہچان کے لیے بے قرار ہوتی ہے ۔۔۔۔۔بندہ دنیاوی تصرفات کی بدولت روح کو توجہ نہیں دے سکتا تو وجود مادی سے دوری ، جدائی اس کی ہجرت کا اصل پتا بتاتی ہے ۔۔۔۔۔۔عشق کا تعلق اللہ سے ہے جبکہ دنیا میں اکثر اوقات مجازی محبت اللہ سے عشق کی جانب لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر روح اپنے خالق کے فراق میں مبتلا ہے مگر مادی جسم اس کی پہچان نہین کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔کچھ وجود براہ راست خالق سے عشق کی بوٹی لیے پیدا ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو مجاز عشق کی جانب لے جاتے ہیں اور اکثر لوگ عشق کی حقیقت جانے بنا اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ۔خالص روحیں جل جل مرنا پسند کرتی ہیں اس لیے موم کی مانند گھلی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔ جسم خاکی سے ضرورت کا پیمانہ بھرا جاسکتا ہے جبکہ چاہت کو اس سے مربوط نہیں کیا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔ اکثر کہانیاں یا واقعات میں مجازی محبت کو اللہ کی جانب جانے کا زینہ سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔مجاز میں اگر حقیقت دکھ جائے تو حقیقت مجاز اور مجاز حقیقت ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سائنس کا ایک قانون ہے کہ ہر دو اجسام ایک دوسرے سے کشش رکھتے ہیں ہر وجود جو کشش ثقل رکھتا ہے اس کے مطابق دوسرا وجود اس کی جانب کھینچا چلا جائے گا ۔۔۔۔ جس کی کشش جتنی زیادہ ہوگی وہ وجود کو اپنے سے چپکا لے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا میں سب سے زیادہ کشش کا منبع اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ ہر شے میں اس کا جلوہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ لوگ براہ راست اللہ کی جانب کھنچے چلے جاتے ہیں کہ خالص و شفاف روحیں اللہ کو بنا کسی حجت اور میڈیم کے چاہتی ہیں کچھ ارواح مجاز میں اس کی حقیقت پالیتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔مجازی عشق اس لحاظ سے حقیقت کی جانب جانے کا زینہ ہے مگر لازمی شرط نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سوز و گداز ، ہجر و روگ جیسی کیفیات اس کا مرقع ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب اللہ سے ربط جڑ جاتا ہے تو بندوں سے محبت لازم ہوجاتی ہے​

عشق کا تعلق جذبہ ہجر سے ہے.جوں جوں بندہ زندگی کو پرکھتا ہے ، جانچتا ہے وہ جان جاتا ہے اس کی روح اپنے اصل خالق نے دنیا بنائی ہے اور مخلوق اسکی بنائی ہوا خیال ہے ۔۔۔۔۔ہر چیز کی تخلیق میں خیال کار فرما ہوتا ہے ، روح بھی ایک خیال ہے...........سمجھ لیجئے ، روح سے تعلق جذبہ ہجرت عشق ہے۔جوں جوں ہجر کی بوٹی کا احساس ملتا جاتا ہ ، بندہ کے دل میں '' عشق ''کا احساس رہ جاتا ہے بندہ خود خالی ہوجاتاہے.......خالق کاحساس دل میں تو ھو ھو کی صدا باقی رہتی ہے ۔۔۔۔۔۔بندہ خالق سے ملنے کی جستجو میں عشق ، اضطراب ، بے چینی کی کیفیت میں مبتلا رہتے کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے ۔۔۔۔۔جذبہ عشق خالص ترین اسی شکل میں ہوتا ہے یا سمجھ لیں کہ شفاف روح جس پر صرف ھو کا رنگ ہوتا ہے ، وہی عشق کےقابل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت سلمان فارسی کے عشق کی تڑپ دیکھیے ۔۔۔۔۔۔۔فارس کی سرزمین ، مجوسیوں کے خاندان سے حقیقت کی تلاش میں نکلے ، وہ حقیقت اللہ ہے ، عشق نے براہ راست خالق سے ربط رکھا اور بندہ جستجو میں آنحضرت رسالت مآب کے لیے فارس سے عرب کی سرزمیں پر آئے ۔۔۔۔۔۔۔حضرت ابوذر غفاری ۔۔جو اپنے قبیلے کے سردار ، تاجر تھے ۔۔۔۔۔۔۔سچائی کی تلاش میں دولت شان و شوکت چھوڑ ھو ھو کی صدا دیتے رہے،خانہ کعبہ میں بیٹھے لا الہ الا اللہ کا کلمہ تب پڑھا ،جب سیدنا فاروق ایمان نہیں لائے تھے ،بدن لہولہان زخمی مگر زبان سے جاری الا اللہ کا کلمہ چھوٹا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔لوگ خون میں لت پت بے ہوش بو ذر غفاری کو چھوڑ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ عشق ہے.......عشق تو قرن کے بادشاہ کو ہوا تھا ۔۔۔۔۔ان کو کیسے خبر ہوگئی احد میں سیدنا رحمت دو عالم شہ ابرار محمد صلی علیہ والہ وسلم کے دانت مبارک شہید ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔خالق سے ربط تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق ہجر کی ماری روح کا جذبہ ہے ۔۔۔ہجر کے اس جذبے کو بوٹی عشقہ سے مشابہت اسی وجہ دی گئی کہ اس کی وجہ سے سچی شفاف ارواح نے دولت ، شان و شوکت ، بھوک ، پیاس سب چھوڑ دیا مگر باقی رہا تو سچا عشق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب روح پر رنگ چڑھ جائے تو مجاز کی محبت میں انسان اللہ کو تلاش کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ ملتا نہیں ہے کیونکہ روح پر رنگ چڑھ جاتا ہے ، عشق کا تعلق خالص اللہ سے ہے اور مجاز بس ایک راستہ ان لوگوں کے لیے جو اپنے رب سے دوری ، اضطراب کی بے نام وجہ کو مجاز میں تلاشتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن کو درست معنوں میں عشق ہوا ۔۔۔۔۔۔وہ ہیر ،رانجھا ، سسی پنوں ، سوہنی ماہیوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ سچے عاشق جنہوں نے سب کچھ بھلادیا مگر عشق یاد رہا ہے ، ہجرت کا غم یاد رہا اور مجاز میں ان کو اللہ مل گیا ۔۔۔۔باقی ہوس رہ جاتی ہے یا نفس رہ جاتا ہے جس کو عشق یا محبت کا نام دینا زیادتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچا عشق صرف اللہ سے ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجاز میں ایسی صورت کم ہی دکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بہت کم روحیں مجاز میں عشق تلاشتی ہیں ایسی ارواح معشوق میں خود کو بھلا دیتی ہیں ۔۔انسان جب خود کو بھول جاتا ہے تو اللہ ملتا ہے ۔۔۔عشق یکسر فراموشی کا نام ہے ۔۔۔​

آج رنگ ہے ۔۔۔۔
چھاپ تلک سب چھین۔۔۔۔۔۔۔

یہ کلام ان کی ہجرت کے درد و اضطراب سے بھرپور ہے ۔۔۔۔۔دنیاوی عشق کوئی نہیں ہوتا ------------------بس عشق حقیقت سے ہوتا ہے ، آپ یا کوئی اسے محسوس کرسکتا ہے ۔۔۔۔بابا فرید الدین کے پاس ایک غیر مسلم مجازی عشق کے درد میں جلتا ہوا آیا ہے جس کا عشق اس سے روٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔آپ نے اس کی تعظیم کی اور بولے کہ یہ ہم سے اچھا ہے کہ اس کا عشق خالص ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص جذبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عشق ایک خالص جذبہ ہے جو کسی کو مجازی رنگ میں ملتا ہے تو کسی کو بے رنگی میں ملتا ہے ۔۔۔۔۔۔کوئی رنگوں کی بہار لیے کالا رنگ بن جاتا ہے تو کوئی ''بے رنگی ذات'' لیے خالق سے جا ملتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عشق کالا ہو سفید۔۔۔۔۔۔۔عشق تو عشق ہے ۔۔۔۔عشق میں فرق نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔رنگی ہو یا بے رنگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خالص ہے تو مجاز ہی حقیقت ہے اور حقیقت میں مجاز ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بس سمجھنے کی بات ہے ۔۔۔۔۔ایسا احساس سمجھ کے ہی ملتا ہے ۔۔۔میں اپنے اضطراب میں گم ہوں۔۔۔۔۔میری رگ رگ میں یار ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں انالحق مارکے سولی چڑھتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہی حقیقت ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہی مجاز ہوں ۔۔۔۔۔میں ہی عاشق ہوں میں ہی معشوق ہوں۔۔۔۔۔۔۔

میں حجاب میں ملوں تو کالا رنگ ہوں۔میں بے نقاب شفافی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں تو میں ہوں ۔۔۔۔۔۔میں ہی سب کچھ ہوں
میں جس کے عشق میں مبتلا ہوں ، اس کے خیال نے مجاز کو مجھ سے چھین کے میرا عشق کے خیال کو مجاز کی شکل دے دی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ذرے سے آفتاب ہوں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔میں روشنی کی شعاع نہیں ہوں میں روشنی کا منبع ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ہجوم میں ملتا ہوںمیں خلوت ، جلوت کا شہنشاہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں عشق ہوں ۔۔میں روگ ہوں ، میں عشق قلندر ذات ۔۔۔۔۔۔۔بدن روئی ہوتے اہمیت کھو گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔روح طاقت پاتے مجسم ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے ! وہی ہے چار سو ۔۔۔۔۔۔۔اور تو کچھ ملتا نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھ میں وہ گاتا ہے جس کو میں ساز ہوں ۔۔۔۔۔۔۔میں اسی کا سر ہوں ، جس نے سنگیت دیا میں عشق ہوں ۔۔۔۔کسی نے رام رام کہتے مجھے پالیا ۔۔۔۔۔۔

کوئی اللہ اللہ کہتے دور رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے پتھر کو خدا جانا اور مجھے پالیا۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے دل کو صنم خانہ بنادیا۔۔۔۔۔۔۔۔کیا مجاز ۔۔۔۔کیا حقیقت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں خلوص ،جہاں جذب ہے ، وہاں وہاں اللہ ہے ۔۔۔۔۔وہاں احد کا جلوہ ہے ۔۔۔۔۔وہاں میں وحدت میں ضم ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہاں میں اس سے ربط میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔میری جلن ، درد اضطراب آگ بن گئے ہیں ۔۔۔میرا وجود آگ ہورہا ہے کیوں روح ہجر کے دکھ میں لیر لیر ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔مجاز کو اتنی شدت سے چاہا ۔۔۔۔۔۔میری شدت نے مجھے رب دکھادیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجاز نے رب سے ملادیا ۔۔۔۔۔۔۔حق ھو ۔۔۔۔ایک تو ہی ہے ، تیری ذات ہے ۔۔۔۔۔۔ھو کی ذات جس جس مظہر میں ہے ، جو جو مظہر اس کو نور لیے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔

اس کی تجلی سے اپنی تجلی ملا لے ۔۔۔۔۔سچا جذب مل جائے گا ۔۔۔۔۔۔تجھے رب مل جائے گا



سرمد ایک ہندو لڑکے کے عشق میں مبتلا ہوگئے ۔۔۔۔۔۔عشق نے سدھ بدھ ختم کی اور کپڑوں سے ہوگئے معذور۔۔۔۔۔۔عشق کا عین پانا چاہا مگر اس کی تاب زمانہ نہ لاسکا۔۔۔۔۔۔عشق کی طاقت دیکھیے۔۔۔۔۔۔قیداورنگ زیب کے پاس ہے ۔۔۔۔۔۔۔جرم عائد ہوتا ہے رب کو نہی مانتا ۔۔۔۔۔۔کپڑے نہیں پہنتا ۔۔۔۔۔۔سرمد کا مرشد وہی ہندو لڑکا تھا کیونکہ عشق نے اللہ سے ملادیا۔۔۔ ہجر کا روگ مل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔تن من کا ہوش گیا ۔۔۔کہا گیا کلمہ پڑھیے ۔۔۔۔۔جواب دیا ابھی نفی میں گم ہوں اثبات کیا کروں۔۔۔۔۔ابھی لا الہ کو سمجھا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔الا اللہ کیا کہوں۔۔۔کفر کا فتوی عائد ہوا۔۔۔۔۔قتل کیا گیا تو سرمد کے سر تن سے جدا ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔تن بنا سر کے چلا اور سر ۔۔۔۔۔۔جو الا اللہ کا مرکز ہے اس نے کلمہ پورا کیا۔۔۔۔۔۔عشق کا عین پالیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔موت نے منزل دے دی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شہید سرمد ہوگئے ۔۔۔۔۔۔۔عشق تو مجاز سے کیا مگر سرمد کے اکیلے سر نے ، بنا دھڑ کے ، اللہ اللہ کا ذکر کیااور اس کی حمد کے بعد روح پرواز ہویہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔عشق کی رمز وہی جانیں ، جن کو عشق کی آگ نے مارا۔۔۔۔​
‏جون 28, 201

طٰہ ‏- ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ.وآلہ.وسلم ‏ـ ‏کائنات ‏دل

جب میں کعبے کے پاس بیٹھ جاتی ہوں تو کعبے والا دل میں ظاہر ہوجاتا ہے ـ کائناتِ دل میں دل والا اس قدر محبت سے دید میں محو کرتا ہے کہ تمام کائناتیں مجذوب ہو جائیں مگر جہاں اسمِ طٰہ روشن ہوجائے وہاں سے مجذوبیت کا نشان جاتا رہتا ہے ـ ان کی محفل سرکار ایسی ہے! وہ جانِ محفل،  شمعِ کائنات، محبوب کون و مکان،  مشعل رسالت،  رمز بقا جب موجود ہوتی ہے تو پروانہ روشنی کے لیے ترستا نہیں، بلکہ اس مبارک ہاتھ کا ہالہ دل پر پڑجاتا ہے ـ گویا تسلی دی جاتی ہے "لاتحزن، ہم ساتھ ہیں " کیا اس کے بعد کسی تسلی و تشفی کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟  کیا کسی واجب نظارے کو محجوب کیا جاتا ہے؟  مقامات درجہ بہ درجہ طے ہوتے ہیں ـ یقین کی تلوار تھمائی جاتی ہے کہ راکب اپنے دل سے خیبر کو اکھاڑ پھینکے اور
 شہادت دے کہ کوئی موجود نہیں مگر اللہ کے ـ 

مقام ایسا عطا ہوجائے جس میں قدسیوں ساتھ نماز میں محو ہوں تو نظارہ الست سے مستی طاری ہونا بہت عام ہے ـ جب میرے نبی وسیلہ ہوتے کسی کے پاس پہنچتے ہیں،  تو خبر پر یقین کیا جاتا ہے ـ تجھے خبر دی گئی مگر تو نے یقین نہ کیا ـ کیا خدا کے لیے کسی شے کو قابلیت دینا مشکل ہے؟ کیا اس نے چیونٹی کو بیکار پیدا کیا؟ کیا اس نے اشجار سے کام لیا نہین ـ اٹھو شب دراز سے!  اٹھو شب دراز سے!  اٹھو اس خبر کو یقین سے پورا کرو جس کے لیے تخلیق کیا گیا ـ جس کو ممکن ہی نہیں بشر کے لیے کہ وہ نہ کرے کہ طوعا کرھا وہ ہمارے منشور سے وہی نشر کرتا ہے جس کے لیے اس کو حکم دیا جاتا ہے ـ 

ہد ہد الہامی پرندہ ہے اور یہ پیغامات القا کرتا ہے ـ اس کو ایسی فوقیت حاصل ہے جس کو تنزیل و صعود میں کہیں دشواری نہیں پیغامات کے ـ شمسی و قمری ترتیب سے نہیں یہ ہماری تکوین کا محتاج ہے ـ جانا کبھی التین کیا ہے؟ جانا کبھی زیتون کیا ہے؟ جانا کبھی طور کیا ہے؟ جانا کبھی مکہ کیا ہے؟ یہ چادر کے مقامات ہیں ـ جب ترا نور،  زیتون کے بابرکت تیل سے تازگی پانے لگے تو دید والی جگہ جانا ہوتا ہے جس کو طور کہاجاتا ہے مگر حد یہ ہے کہ اس شہر مکہ کی قسم جو دل میں موجود ہے،  اس تک جانا کے لیے سایہ چاہیے ـ کملی والے کا سایہ جب پڑتا ہے (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) تو تدلی تک جانا آسان ہے بہ وسیلہ ـ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اک انسان نے منزل پائی ہے اور باقی سب کو رحمت  ملی ہے

آیت ‏تطہیر

آیتِ تطہیر چادر پر اتر رہی ہے . وہ ترتیب نزولی ہے جس میں یہ اتر رہی ہے. یہ برق مانند نور یونہی سینے میں مقامات طے کراتی ہے ـ جسطرح موت کا وقت مقرر ہے،  وہ نشان جس کو صور  سے تعبیر کیا گیا ہے، وہ بھی سینے میں موجود ہے ـ وہ ملحم آیات کا نشان جس کو  نوریوں سے معتبر کیا گیا ہے، جو صعود و نزول کرتے ُہیں،  وہ چادر پر نشانات ہیں ـ یہ نشانات جب کھلتے ہیں تو زمین و آسمان کی کنجیاں آدم کے حوالے کردی جاتی ہیں ـ یہ اب بھی کافی نہیں خلافت کی پہچان کر سکے ـ بندہ خلیفتہ الرسول سے سے خلیفتہ اللہ بنتا ہے . مہرِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر چادر پر منور معجل مطہر نشان ہے ـ یہ نشان خیال سے ایسا منور ہوتا ہے کہ مٹی ہیچ!  سراپا نور کا ہوجاتا ہے. وصل اصل سے باہم ایسے ہوتا ہے بندہ اندر مکمل کائنات ہے.

جب صور بوقت نفخ پھونکا گیا،  صدائے کن جاری ہوئی تو یہ صور کا نشان اس صدا کے ساتھ سوتا کٹتے موجود تھا،  الہیات کے نشانات بھی،  اسماء اور نوری کنجیاں بھی ـ گویا خیال ہے وہ اور باقی خیالات کا تسلسل. اس کا خیال اور چادر تک پہنچے تو،  چادر جگمگانے لگتی. اس جگمگاہٹ کو جب وہ دیکھتی تو دید کرنے لگتی ہے ـ یہ وہ مقام ہے جہاں جذب کائناتیں وا تو کرتی ہے مگر مجذوب ہونا مقام فکر ہے کہ یہ لائق نہیں آدم کو حیران ہوتے سکتے میں جائے کہ اس کو حواس کا تشکر بجالانا چاہیے کہ خدا نے اس کو کیا کیا نہیں دیا ــ  

بندے پر تو لازم ہے کہ ہر روز عہد الست کو یاد رکھے ـ خدا کے پاس حضوری ممکن تب ہے جب تک اس عہد کو یاد نہ رکھا گیا ہے ـ  حاضر ہیں جب ہم کہتے ہیں زبان سے یعنی "لبیک " ہم ہوتے تو غائب ـ اک غائب انسان جو دنیا میں رہے وہ کیسے حاضر ہو سکتا ہے. اس کے دل نشان ایزدی کیسے ابھر کے اس کی چادر کو انوارات سے مکمل کرے ـ جب یہ ممکن نہیں ہو سکتا ہے وہ " غائب " ہے اور خدا کو غائب کا حج کیا کرنا؟  بالکل اسی طرز نماز کا ہے کہ نماز میں حاضری نہ ہو تو ویل المصلین کا مقام آجاتا ہے. نماز منہ پر مار دی جاتی ہے ـ بندہ جب تک اندر سے کچھ نہیں پاتا تو باہر مچاتا ہے سیاپا  آیت تطہیر نازل ہونا ضروری ہے تاکہ سیاپے سے بچا جا سکے

آئنہ

ہر روح آئنہ ہے اور آئنے میں جھانکو تو عکس دکھتا ہے ـ یہ عکس اگر سامنے میں دکھ جائے تو فائدہ؟  یہ من مندر "یار جھاتی پا لے،  سوانگ بھریا اس نے " میں کیوں دکھ نہیں سکتا ہے؟  اللہ نور السماوات والارض ـ زمین اپنے افلاک کو نہ پہچان سکے تو طالعِ انوار، مثل البدر،  جمیل لسان،  بلیغ البیان،  حمید الاوصاف جیسے شمس سے اسکا واسطہ کیسے ہوگا؟  حقیقت کو کیسے جانا جائے؟ حقیقت  کو کیسے مانا جائے؟

طالب کو چاہیے کہ شب دراز میں جھانکے اور شب دراز کی طوالت سے گھبرائے نہیں ـ شب دراز وہی حقیقت ہے جس کی تپتی صبح کو طٰہ کو شرفِ پیامبری دی گئی ـ اللہ چارد کتنے رنگوں میں ڈھلی اور مکمل تصویر صبغتہ اللہ کی ہوئی ـ جب اللہ کی تصویر میں ڈھل جاؤ ـ تو گویا تمھاری وہی صورت جو آدم کی ہے یعنی آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ـ گویا تم نے جد کی پشت میں خود کو شناخت کرلیا ـ وہ پشت تو مٹی کا لباس تھی، درحقیقت جس نے یہ بوقت نفخ پہچان کی،  وہی مٹی میں جان پائی 

عہد الست ایسا زمانہ تھا جس میں ہر روح نے قالو بلی نہیں کہا تھا ـ یہ تو ماننے والی ارواح جو دم سادھ گئی ـ جاننے والی ارواح مدارج اعلی کے مختلف دائروں اور حلقوں میں قیام کر گئیں ـ جن کو جتنا جاننا تھا وہ وہی پا سکیں  ـ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟  ہرگز نہیں!  جو جان گیا وہ تضاد سے نکلا 

کسی نے کہا کہ ہم الوہیت کے جاموں میں ڈھلے ہیں ـ تیری صورت ہیں ـ کسی نے کہا کہ تجھ بن چین نہ آئے،  سوال کیا،  جواب کیا ہم جانن نہ رے،  کسی نے کہا نماز وصلت اصل عین ہے ـ کسی نے عشق ترا حجاب ہے ـ غرض ہر کسی نے وہی بولا، جو وہ چاہ رہا تھا 

انما امرہ اذا ارداہ شئیا ان یقول لہ کن فیکون 

کسی نے کن سے فیکون کو ویسے جانا،  جیسا اس نے اس کو خیال کیا ـ گویا وہ،  سمجھ گئیں کہ وہ وہ نہیں ہے بلکہ وہ وہ ہیں ـ نہیں رخ بھی اک ہے ـ نقاب نہیں ہے. حجاب نہیں ہے ـ تو دید کرتی رہیں وہ ـ وہ اپنے من کا آپ آئنہ ہوئی تو دوئی کا سفر وہیں ختم ہوگیا ـ وہ عارفین کی ارواح تھیں

Monday, November 23, 2020

فتح ‏

طٰہ! یہ اسمِ اجالا ہے ـ یہ جاذب نظر چادر کو بناتا ہے ـ چادر بہت بابرکت اور روشن ہو جاتی ہے ـ جب چادر روشن ہو جائے تو بندہ خبر پالیتا ہے ـ رحمتِ دو عالم کی چادر کا بیان تو وسعت اختیار کرلیتا ہے جب نوری قفل کھلتے جاتے ہیں ـ جب ان کی شناخت مکمل ہو جائے تو ہم ان کے سامنے چلے جاتے ہیں ـ اک انسان جس کا جسہ بھاری ہو،  وہ ہمیں دیو جیسا دکھتا ہے ـ اسی طرح تہہ در تہہ زمانے چادر میں منور ہو جائیں تو لطافتیں منتہی کا سفر پالیتی ہیں ـ 

کبھی سویرا ہو جائے ـ دھوپ تیز ہوجائے تو حبس سے بارش ہوجاتی ہے ـ یہ ہوتی ہے رحمانیت ـ وہ فرماتا ہے تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے ـ اس نے بارش دی اور تم نے نعمت کو بقدر پا کے مشروط کرلیا ـ اس نے بارش غیر مشروط دی ـ یہ چیز اللہ کو قہاری کی جانب لیجاتی ہے وگرنہ وہ تو سراپا محبت ہے ـ وہ تو عین محبت ہے ـ 

طسم  بھی روشنی ہے اور یہ بعد حــــم کا وہ قفل ہے جس میں منارہِ نبوت سے کچھ ایسی کنجیاں کھل جاتی ہیں،  جو کل زمانوں کی فتح کے برابر ہے ـ جب فرمایا گیا انا فتحنا لک فتحا مبینا ـ اس کا مطلب یہی تھا اب ہر کعبہ بت سے صاف ہوگا،  اب ہر کعبے کے بت گرانے والے مولائے علی ہوں گے ـ اب ہر انسان کو امان ملے گی ـ یہ فتح عالمین کی فتح ہے بالکل اسی طرح جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمت العالمین ہیں ـ اس طرح فتح بھی عالمین کی ہے ـ سو ہر جہت میں اک جلوہ نہ ہو تو سمجھ لو کہ تمھاری روح کو فتح مبین کا عقد نہیں ملا ـ یہ مسئلہ تو یہیں پر ختم ہوجاتا ہے جب فرمایا :  الیوم اکملت ـــــ  اب تمام کائنات کے نوری اسماء پر کمال عطا ہوگیا ـ یہ پتھر، یہ پہاڑ،  یہ افلاک، یہ نوری،  یہ ناری،  یہ انس،  یہ چرند پرند،  یہ حیوانات،  یہ اشجار،  بادل،  برکھا،  ہوا اور دیگر اشیاء میں اک نور مستقل ہے ـ

 اللہ نورالسماوات والارض --- وما ارسنلک الا رحمت للعالمین 

روشن فتح جب نصیب ہوتی ہے تو رسیوں کو عصائے موسی درکار ہوتی ہے جو کہ نگل لیتا ہے ہر نقل کو. اگر سچے لوگ ہوں تو وہ آیتِ الہی پر ایمان لے آتے ہیں اور دل یدِ بیضائی ہالہ بن جاتا ہے ـ افکار میں یہی روشن بات ہے:  ایک نے ایک کے لیے کائنات بنائی ـ ایک ہی قاب قوسین کے مقامِ ارفع تک پہنچا ـ باقی تو سب سائے ہیں ـ یعنی کہ باقیوں کو اک کملی نے گھیر لیا ہے 

جب کہا جاتا ہے
یا ایھا المزمل 
یہ اک مقام ہے 
جب کہا جاتا ہے 
یا ایھا المدثر 
یہ بھی اک مقام ہے 

مقامات درجہ بہ درجہ ہیں  اور تشبیہ استعارہ چادر ہے ـ گویا اللہ تو چاہتا ہے اپنا نور مکمل کرلے ـ واتممہ نورہِ ـ کوئی کتنا کوشش کرے نور بجھانے کی وہ چادر جس کو اس نے مکمل کرنا تھا یا مکمل کرنا ہو وہ مکمل ہو کر رہتی ہے  ـ کبھی چادر خشیت میں ڈھل جاتی ہے تو کبھی ہیبت میں تو کبھی جلال میں تو کبھی جمال میں تو کبھی کمال عطا ہوتا ہے. اس لیے کہا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نور تمام زمانوں کے لیے ہے