Sunday, November 22, 2020

کلامِ الہی سے خشیت کا طاری ہونا

 

( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آَيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ) [الأنفال: 2]

مومنین میں ایسے لوگ ہیں جن کے دل اللہ کے کلام کی ہئیت پاتے ڈر جاتے ہیں ۔ وہ نشانیاں ان کے قلوب میں رقت طاری کردیتی ہیں ۔ وہ مومنین جب مشکلات میں گھرے ہوتے ہیں ، ان کے دلوں کو توانائی اس قران پاک سے ملتی ہے اور ان کے یقین میں اضافہ کرنے والی کتاب حقیقتاً قران پاک ،کلامِ الہی ہے ۔ اللہ کریم فرماتے ہیں
( لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآَنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ ) [الحشر: 21]

اس کلام کی اثر انگیزی ایسی ہے کہ اگر یہ پہاڑ پر نازل ہوتا تو وہ بھی خشیت سے ٹکرے ٹکرے ہوجاتا۔ اے کاش کہ ہمارے دل اسکی حقیقت جان بھی لیں ۔ اللہ تعالیٰ کا پیار و دلار دلوں پر کیسے کیسے اثر کرتا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا : مجھے قران پاک کی تلاوت سناؤ ، جواباً : اے اللہ کے رسول ہاک ﷺ ،میں آپ کو قران پڑھ کے سناؤ جبکہ قران کا نزول آپ پر ہی ہوا ہے ؟ فرمایا: ہاں
آپ نے سورہ النساء کی تلاوت فرمائی اور جب اس آیتِ کریمہ تک پہنچے

( فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا ) [النساء: 41]

آپ کو اس آیتِ مبارکہ پر اس آواز نے روک دیا : بس کرو ، استعجاباً پیچھے مڑ کے دیکھا جنابِ رسول کریم ﷺ اطہر کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے ۔

جناب رسول پاک ﷺ عملی مثال ہیں ۔ ہم لوگ سنت پر چلنے کے لیے بے تاب ہیں اپنی خرد و عقل کے استعمال سے مگر اسکو عمل بجالانے میں مفلوج ہے ہمارے عمل و بدن ۔ یہ سیاہ کاری کیسے چھپے گی ؟ اعمال کی سیاہی دل کی سیاہی بن گئی ہے ، جیسے رات کالی آگئی ہے ۔ روزِ محشر اللہ کا سامنا کیسے کریں گے ، ان اعمال کے سبب چھپنا بھی چاہیں تو نہ چھپ سکیں ۔۔ ہم تو مسلمان ہیں جن کے دل خشیت خالی مگر وہ اللہ کے بندے جن تک اسلام پہنچا نہیں تھا مگر ان کے دل روشن تھے ۔۔۔

لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ٭
(اے پیغمبرﷺ!) تم دیکھو گے کہ مومنوں کے ساتھ سب سے زیادہ دشمنی کرنے والے یہودی اور مشرک ہیں اور دوستی کے لحاظ سے مومنوں سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں یہ اس لیے کہ ان میں عالم بھی ہیں اور مشائخ بھی اور وہ تکبر نہیں کرتے
وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَى الرَّ‌سُولِ تَرَ‌ىٰ أَعْيُنَهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَ‌فُوا مِنَ الْحَقِّ ۖ يَقُولُونَ رَ‌بَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ٭

اور جب اس (کتاب) کو سنتے ہیں جو (سب سے پہلے) پیغمبر (محمدﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب میں) عرض کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم ایمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں میں لکھ لے

یہ آیاتِ مبارکہ اس بات کی دلیل ہیں کہ اللہ نے اس وقت ایک عیسائی کی گواہی کو ہمارے لیے ایک نشانی بنایا ہے ۔ ہجرتِ حبشہ کے بعد نجاشی کے دربار میں قرانی آیات کی تلاوت کی گئی تو وہ ایسے روئے تھے کہ ان کی آنکھیں سے نکلنے والے آنسو ان کی داڑھی کو تر کرگئے ، اس کلام نے ان کے دل پر خشیت طاری کردی اور انہوں نے روتے ہوئے اس کلام کے سچے ہونے اور حضور پاکﷺ کے سچا نبی ہونے کی تصدیق کردی ۔ ایسے لوگ جن کے دل خشیت سے کانپ جاتے ہیں ، درحقیقت وہ عارف ہوتے ہیں یعنی حق کی پہچان کرنے والے ہوتے ہیں ، سبحان اللہ !


اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے ، اسکو پڑھنے کی ، سمجھنے کی اور بار بار پڑھنے کی تاکہ ہمارے دل بھی ایسے ہی خشیت میں ڈوب جائیں اور ہم بھی ان کو سن کے ، پڑھ کے رو دیں ۔ کاش ! ہم ایسا کرپائیں ۔ دل سیاہ ہوچکے ہیں ، عمل میں ریاکاری ہے ، ہم عمل میں پیچھے اور قول میں آگے ہیں ۔ اے ہمارے رب کریم ، ہمارے حال پر رحم فرما ۔ آمین !