Sunday, November 22, 2020

وہ جو کرم کرے ، دل میں سما جاتا ہے

 وہ جب بھی ہم کلام ہوتا ہے ، بیخودی میں خود ہوتا ہے ۔ اس خودی میں ''میں ، تو '' ختم ہوجاتی ہے ۔ سب سے پہلے وہ دل توڑتا ہے ، اسکے شیشے سے دنیا نکل جاتی ہے ۔اسکا جلوہ کی دمک ملمع اتر جانے کے بعد نمایاں ہوجاتی ہے ۔ وہ صدائے ھو سے مست کیے رکھتا ہے ! وہ نورِ یزدانی ایسی مسند پر ہے جہاں کی سرحدیں ویرانے سے ملتی ہیں جس ویرانے میں ھو ھو کی صدا بکھر رہی ہے ۔ سب سے پہلے وہ جوگی بناتا ہے اور اسکے بعد جلوہ طور ہوتا ہے اور یہی جلوہ طور معراج ہے ، یہ منتہی ہے ، یہ پیار ہے ، یہ حبیبی ہے ، یہ اسکے پیار کی پیاری مٹھاس ہے جو کہ رحمت ہے ۔یہی زمانے میں بنٹنی ہے ۔ وہ جو ہے وہ سات زمینوں کو برابر روشنی دے جا رہا ہے ، کائناتِ دل منور ہوجائے تو باقی دنیا بھی ہوجائے گی ۔


تیرا جلوہ ہوجائے ، جلالِ حشمت ہے
تیری محبت مل جائے ، رحمت ہے
تیری صفات میں تیری اکملیت ہے
تو بھی ہے ، ھو کی صدا بھی ہے
ویرانہ دل میں اک تری رونق ہے
ھو کی صداؤں میں بکھر ا ہے نور
یہ سندیسہ ہے کہ تیرا دل ہے طور
ذکر جس کا عالی وہ ہے عالی مقام
اسکی صفت کرنا ہے تیرا ہے کام
--------------
یا نبی ﷺ یانبی ﷺ یا نبی ﷺ یا نبی ﷺ
یہ زمانے میرے مکان میں سمائے ہیں
آپ ﷺ جب سے تشریف لائے ہوئے ہیں
ھو ! محمد ﷺ ھو ! محمد ﷺ ھو ! محمد ﷺ
دو نورانی تجلیات کے بادل ہیں چار سو
ھو کی صدا پھیل رہی ہے کو بہ کو
یا نبی ﷺ ہر آدم کے دل کے مالک
یا نبی ﷺ تیری واری جائے بالک
تیری خوشبو بکھر رہی ہے مجھ میں
تیرا ذکر بُلند ہو رہا ہے مجھ میں
یا نبی ﷺ دل سے نگاہ مت اٹھایے
یا نبی ﷺ حجابِ ازل اب اٹھایے
چشم نم ، دل میں غم ، لب خاموش
آپ ﷺ کی محفل میں گردن جھکی
محمد حق ! محمد حق ! محمد حق ! حق !
وہ تیرا مسکرانا ، میرا چوٹ کھانا
سوہنا مکھڑا یونہی بار بار دکھانا
مقامِ دل میں عالی مقام محمد ﷺ
ہیں ساری دنیا کے والی محمد ﷺ


دل جب تھام لیا جاتا ہے ، اس کو نرم کر دیا جاتا ہے ، اسکی مٹی کی نرمی سے فصلِ گُل چلتی ہے ۔اسکی مٹی میں شاہی رکھ دی گئی ہے ۔ وہ جب کرم کرتا ہے تو ایسے کرتا ہے ، وہ نور ازل ہے ، وہ حقیقت ہے وہ نور الہی ہے جس نے مجھ پر اپنی مامتا نچھاور کردی ہے ، اسنے اپنی رحمت کی انتہا کردی ہے ! وہ حق ! وہ عالی نوازتا جارہا ہے اور دل اسے پکارتے ھو ھو ھو کہے جارہا ہے ۔

جس دل میں وہ بس جاتا ہے اسکو خود پہ اختیار جاتا رہتا ہے ، وہ احساس کی میٹھی میٹھی پھوار سے دل کو گُداز کیے جارہا ہے اور میں اس کو کہے جارہی ہوں کہ لامکانی میں ہوں ، کب دید کراؤ گے ! جلوہ کب ہوگا ، عید کب ہوگی ، کب چلوں گی حج کرنے ، کب کعبے کا کعبے دیکھوں گی ، وہ کہتا ہے کہ جب میرا امر ہوگا ، تب ! میں کہتی ہوں امر کی محتاج ہوں ، وہ کہتا ہے بسمل کی تڑپ دیکھنے کی چاہت ہے ۔میں تو کہتی ہوں تیری مرضی مالک تو جو چاہے ، وہ کہتا ہے ڈوبی رہ ! میں کہتی ہوں مالک جو تیری مرضی ! وہ کہتا عشق آسان نہیں ! میں کہتی ہوں مشکل کہاں نہیں ہے؟ وہ کہتا ہے حق، حق کیوں نہیں کہتی ! میں کہتی ہوں ھو ! ھو ! سے فرصت نہیں ملتی ! وہ کہتا ہے نغمہ ھو ، حق کی علامت ہے ، یہ عام نہیں ہے نعمت ! خاص نعمت کی حفاظت کی جاتی ہے ! میں کہتی ہوں ایک بس تیری محتاجی رہے ، وہ کہتا ہے کہ بس مجھے دیکھتی رہ ، میں کہتی ہوں دید کب ہوگی عید کب ہوگی ، وہ کہتا بسمل کی تڑپ قابلِ دید ہے ! جب ہوگی تب ہوش نہیں ہوگا ، خواہش ہوگی مگر تو نہیں ہوگی ۔میں کہتی ہوں انتظار کیوں طویل ہے ۔ وہ کہتا ہے حیات دوامی کا ظہور ہے ، جہاں کانٹوں پہ چلنا اصول ہے ۔ وہ کہتا ہے زندگی میں بس میری رہ ! مجھے چاہ ، میری چاہت کر ۔میں کہتی ہوں مجھے خود سے علیحدہ نہ کر