Sunday, November 22, 2020

عہدِ وفا کی آشا تجھ سے دوام سی تھی

 

عہدِ وفا کی آشا تجھ سے دوام سی تھی
لیکن تری محبت بالکل ہی عام سی تھی

مسکن مرا تمھارا دل تھا، یہی رہے گا
چاہت تمام میری حبشی غلام سی تھی

چاہا ہے تجھ کو دل سے اور چاہتی رہوں گی
چاہے مجھے تُو ایسے حسرت یہ خام سی تھی

کیسے تجھے بلاتی، ہونٹوں کو میں ہلاتی؟
سانسیں رکی رکی تھیں آواز جام سی تھی

اے نورؔ دے گیا جو تجھ کو کڑی رفاقت
اس کے لئے فقط تُو لگتا ہے عام سی تھی