Thursday, November 26, 2020

متلاشی

''میں نے اپنے ارد گرد جنگیں دیکھیں ہیں ۔ کبھی کبھی ارد گرد بکھرا خون مجھے اپنا سا لگنے لگتا ہے ۔ چند دنوں سے اس جاری جنگ کے احساس نے مجھ میں اتنے خون کر دیے ہیں کہ یوں لگتا ہے باہر کی دنیا شفاف ہے اور اس پر بکھرا خون میرا ہے اور اسکو میرے من نے جذب کرلیا ہے ''

''یہ جنگ کس کے درمیان ہوتی ہے؟ ''میرے قریب بیٹھے سفید پروں والی عجیب الخلقت مخلوق نے سوال کیا ۔

''پتھروں کے درمیان ۔۔۔! ''میں نے اس کے سوال سے بھی مختصر جواب اس کو دیا ۔

'' پتھروں کی لڑائی تم نے کہاں دیکھی ہے ؟ اور کیا پتھروں کا خون تمہارے من نے جذب کر لیا ہے ؟ '' اس نے دھیمے لہجے میں شائستگی سے پوچھا ۔

ہاں ! آج کل پتھروں کی لڑائی ہی ہوتی ہے ۔ کبھی تم نے شفاف ، نیلے، سبز ، سرخ ، ست رنگی پتھر دیکھے ہیں ؟

''کل دو پتھر ایک دوسرے سے تلوار اٹھائے لڑ رہے تھے ۔ ان میں سے ایک زخمی ہو کر زمین کے نیچے چلا گیا اور دسرا زمین کے اوپر ۔۔۔!!
اور پھر جب میں بھی اس کے پیچھے زمین کے نیچے گئی تو وہاں مجھے یاقوت چمکتا ہوا ملا ۔ ''

سفید پروں سے نور کے دھارے میرے چہرے سے ٹکرا کر روشنی بکھیرنے لگے جس نے مجھے مزید کچھ کہنے سے روک دیا اور اس نے پوچھا :

''گویا تم کان کن ہو ۔۔؟

'' نہیں '' !!!
'' میرا نام متلاشی ہے ، مقدر میں سفر لکھا ہے۔۔۔!! ایک دم میری دست شہادت سے سرخ روشنی نکلنے لگی اور اس کی سفیدی سے مل ہلکا نارنجی بنانے لگی ۔

''وہ عجیب الخلقت مخلوق مجھ سے دور ہوگئ اور کہا یہ پتھر تم نے پہن کر سوراخ بھر دیا ۔ سوراخ کو پتھروں سے بھرنے کا ہنر اچھا ہے ، کسی خاکی نے یہ کیا عجب تماشہ کیا ہے مگر چھید بھرنے کا طریقہ اور ہوتا ہے ''

مجھے اس کی باتوں میں پراسراریت محسوس ہوئی اور میں خود بھی اس سے دور ہٹ گئ ۔

'' تم نے یاقوت کو پہن کر اچھا نہیں کیا ، کیا اچھا ہوتا ہے کہ اس کو پگھلا کر چھید بھرتی ۔ پہننے سے صرف روشنی منعکس ہوتی ہے جبکہ اس کو حصہ بنانے سے روشنی وجود سے نکل کر چار سو بکھرتی ہے اور جہاں کے مظاہر اس کو منعکس کرتے ہیں ''

''گھاٹے یا منافع کا سودا کیا ؟
اے نیک صفت !
مجھے تو سوراخ سے مطلب !

میں تمہں ایک ایسے غار میں لے چلتا ہوں جہاں پر تمہاری طلب کی حد ختم ہوجائے گی اور تم شاید اور کی تمنا نہیں کروگی ۔ اس کے ساتھ میں اس غار میں چل دی ۔ غار کا دہانہ کرسٹل کی شکل میں آسمانی رنگ کی شعاعیں بکھیر رہا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی میں نے وہاں ڈھیر سارے نیلے سیفائرز کو پایا جن کی آب وتاب سے تاریک غار روشن تھا ۔ تب عجیب الخلقت مخلوق آگے بڑھی جس کے پروں سے وہی نیلے رنگ کا انعکاس ہونے لگا تھا۔ ان میں سے ایک بڑا پتھر اٹھایا اور اس کو ہاتھ میں پکڑا ۔ جیسے ہی اس نے پتھر پکڑا ، وہ پتھر ریزہ ریزہ ہوگیا ۔پھر میری طرف متوجہ ہوا

'' یہ لو ''
'' ان ٹوٹے ریزہ ریزہ پتھروں کا میں کیا کروں گی ؟ اگر دینا تھا تو آب و تاب سے بھرپور مکمل پتھر دیتے ۔۔!!!''


پہلی بار اس کے چہرے پر مسکراہٹ آئی اور مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا جیسے میرے اندر جھانک رہا ہوں اور پھر بولا۔

'' لال جو باہر انگشت شہادت میں پہنا ہوا ہے اس کا اصل تو انگشہت شہادت کے زیریں ہے ۔اس نے '' گرد'' کو خود میں جمع کر لیا ہے اور
تمام کثافتوں کو اپنے اندر مدغم کرلیا ہے ۔۔۔۔ ''

اس نے اشارہ کیا اور اس کے ہاتھ سے نکلے پتھر کے نیلے ریزے جیلی کی شکل اختیار کرتے گئے اور وہ جیلی ایک ہی جھماکے سے اندر کہیں جم گئی ۔''

میرے اندر طمانیت کی لہر اتر گئی اور مجھے محسوس ہوا کہ خاکی ارض پر وجودیت نے نیا روپ دھار لیا ہے مگر کس طرح ہوا ، اس کا اسرار جاننا مشکل تر کام ہے۔

'' تمہارے اندر '' یاقوت '' ہے اور تمہارے خون میں '' سیفائر '' ہے ۔ ہاں ایک بات یاد رکھنا : تمھیں 'زمرد ' کے قابل بن کر ''ہیرے '' کا متلاشی بننا ہے اور ۔۔۔ اگر تم نے '' سونا'' ڈھونڈنا شروع کردیا پھر کچھ بعید نہیں کہ دھوکہ میں رہو اور دھوکہ دو۔ ایک ایسا پتھر ' ہیرا' جس کو '' خالص ہونے کے لیے کڑوڑوں سال کی سورج جیسی تپش اور کشش کے دباؤ نے بنایا اس کو تلاش کرچکنے کے بعد تمہیں میری ضرورت نہیں رہے گی ۔ کڑوڑوں سال کا فاصلہ تم سالوں میں طے کرنا کا موقع مل رہا ہے ۔

میں سوچ رہی تھی کہ '' ست رنگی '' ہوگا تو شفاف بھی ہوگا ۔میں اپنے سفر پر نکلی تھی اور یہ عجیب راہیں بتا رہیں ہیں ۔

اُس نے میری سوچ شاید بھانپ لی : ''ست رنگی تمھی ''زیفرقستان'' میں ملے گا اور امید تیقن کے ساتھ '' ہیرا'' انہی خاردار راہوں میں چھپا ہے ۔انسان کی اصل پہچان ست رنگی سے ہوتی یک رنگی ہوجاتی ہے ''

'' میری سمجھ سے سرخ ، سبز ، نیلا ، ست رنگی اور یک رنگی باہر ہے ، بالکل ایسے جیسے کوئی دوسری زبان ہو ''

'' سفر شروع کرنے سے پہلے سوال کرتے نہیں ، کہ یہ سفر بذات خود ایک 'سوال' ہے اور سوال کے اوپر سوال جچتا نہیں ۔ سفر کے دوران سارے سوال ایک ہی سوال میں ختم ہوجائیں گے بس اس سوال کا جواب منزل تک پہنچا دے گا ۔

اس کے بعد میں نے سوال کرنا چاہا مگر وہ غائب ہوگیا ۔ اس نے ہونا ہی تھا کیونکہ سحر کی آمد آمد تھی ،مرغ بانگ دے رہے تھے ۔ میں نے آسمان پر ستاروں کو دیکھا اور وضو شروع کردیا۔