Sunday, November 22, 2020

خوش وصال گھڑیاں

 سوچتی ہوں اُن خوش وصال گھڑیوں کو، عہدِ محمدی صلی اللہ علیہ والہِ وسّلم اور حضرت سلمان فارسی کی تَلاش کا سفر ..... آگ کی پَرستش کرتے ہیں مگر ان کا دِل ایسی پرستش سے خالی تھا، ان کو جستجو تھی ایسی ہستی کو چاہا جائے جو واقعی اللہ کہلائے جانے کی مستحق ہو ....




فالھمھا فجورھا واتقوھا



حضرت سلمان فارسی سفر میں رہنے لگے تاکّہ اصل کی جستجو کی جاسکے. راہب سے ملے، اس کی خدمت کی تو علم ہوا، خدا اَلوہی اَلوہی ہستی ہے اور ان حضرات سے اللہ کا پتا ملتا ہے جو خود الہیات کے جامے پہنے ہوئے ہوتی ہیں ... راہب نے مرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خبر دی، ساتھ مہر نبّوت کی خبر دی....، فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ، جستجو لیے مدینہ منّورہ پُہنچے اور کھجور کے جھنڈ دیکھے. دل کے اُن کے قرار آیا کہ وُہی ہے سرزمین ہے جسکی عید جیسی خبر ملی ان کو، خُدا کی تلاش کو ایسے شخص کی تلاش کی جس کے پشت پر مہر نبّوت ہو، صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..... فارس کے سلمان رضی تعالیٰ عنہ نے جب آیتِ نبوت دیکھی تو وجود خشیت سے لَرزنے لگا، اشک گرنے لگے، خوشی کے آنسو، تلاش مکمل ہونے کے بیحال آنسو ......، نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نبوت پر ایمان لے آئے ....... اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ...



سلمان منا اھل بیت ....



تلاش و جستجو کا سفر، حضرت ابو ذَر غفاری کا جناب سلمان فارسی سے بڑھ کے لگا، دور جاہلیت میں فرمایا کرتے تھے، اللہ ہر جگہ موجود ہے، قبلہ بھی جس جانب وہ، اسی جانب وہ! دل میں موجود خانہ کعبہ مقدس سمجھ کے خدا کو چاہے جاتے اور ایسی نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا انتظار کرنے لگے، جو ان کو حق سے واصل کرے ... ،



فالھمھا فجورھا واتقوھا



حقیقت میں اللہ نے بَدی و نیکی ملحم کردی ہے مگر اِس کا اِحساس ایسے چند نفوسی کے لیے مثبّت ہوا، جنہوں نے دورِ جاہلیت میں حضور پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی طرح خود کو پاک و صاف رکھے. حضرت ابوذر غفاری تو اس حد تک پہنچ گئے، قبیلہ ء غفار کے منکرین کے بُت توڑ ڈالے .... تلاش ان کو درِ اقدس صلی اللہ علیہ والہ وسلم لے گئی، یقین ایسا تھا بنا کسی نشانی کے کلمہ پڑھ لیا ....

لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ



آپ صلی نے فرمایا اس سفر کو اخفاء رکھنا، مگر حق جس کو ظاہر کردے وہ رُکے نَہ رُکے، یہی حال جناب ابو ذر کا ہُوا، خانہ کعبہ گئے بُلند آواز میں کلمہ پڑھ آئے بنا کسی احتیاط کے پتھر برسیں گے، گھونسوں سے لاتوں سے مارا جائے گا، غرض جتنا مار کھاتے، اسی جوش سے کلمہ جاری رہتا تھا ....یہاں تک کہ مدہوش ہوگئے ....اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی .... شیر دلاور کیسے چھپ چھپ کے اسلام کو رکھتا ... !



ان ہستیوں کو سوچتے اُویس قرنی کا خیّال آیا، روح کا ربط روح سے کیسے جدا تھا، دور بیٹھے بھی کوئی بندہ ء خدا تھا، سینے میں چلتا رہا قران کا علم، انتقال کا یہ سلسلہ جُدا تھا!



محبت کے یہ سلاسل سوچنے پر مجبور کرتے ہیں ذات بہت حقیر ہے. ذات کے تکبر کو نفی کیا جانا چاہیے تاکہ کسی اک صفت سے اللہ نواز دے اور مسلمان ہونے کی غیرت جاگ جائے، تاکہ عمل کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے ..... پھر محبت ہو ایسی کہ حضرت بلال رضی تعالی کا سوز و گداز نصیب ہو، روح کو اذن ملے تو سفر ہو