Sunday, November 22, 2020

فقیر مرد حرم

 جب انسانی ہستی قرب کی متمنی ہو اور خواہش کی لگام بے زور ہوگئی تو وجہِ شوق کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہے.



کھو جائیں گے کیا؟ بحر ہو جائیں کیا؟ہستی کھوئی ہے ، زندگی سوئی ہے! آدمیت سے ناطہ کچا دھاگا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے. ایک یاد ہےجو سنبھال لیتی ہے ورنہ کیا بے سکونی کی لہروں کا تموج! یہی جینے کا کمال ہے . ہمنشین، دیکھ رنگ میرا، ڈھنگ میرا، چال میری، حال میرا


نور سے ملنا، کیا سعادت ہے! نور سے ملنا ہے بس اسلیے زندہ ہیں، زندہ ہیں کب کے مرگئے ہیں آرزو میں، آرزوئے ہستی سے بکھر رہے ہیں سندیسے، جہاں چلے وہیں پر رکے اور وا لبوں سے ادا ہوا ...

تم سے لذت وصال، میں حیرت وصال
تم دودِ ہستی ہو، میں ہوں شوقِ کمال
یہ آرزو کی کتاب، دل کفن مانند گلاب
یہ سحاب آرزو ہے، باردگر برسنا چاہے گا
یہ دل کی زمین ہے، ترے ابر کی منتظر
میری ہستی میں خوشبوئے لعل و زر ہے
میں مانند کافور جلتی شمع کا دھواں
میں رزم گاہ کا ترانہ، جذبات سے نڈھال

اسی شوق میں اجنبی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مل جاتے ہیں ..اور پکار ابھر آتی ہے، لفظوں کے بھیس میں نمودار ہوتی ہے اور حقیقت آشکار ہوجاتی ہے

فقیر مرد حرم سے مری ملاقات ہوئی، یوں ہوئی کہ بیشتر سر ِ مناجات میں کھوئی ہوئی تھی روح ضربوں میں ...، مضراب ہستی اول، عشق کی لو پیش پیش ، میں خواہش شوق نور، تو خواہش شوق حضور، ترا دل حجابات سے ماورا، مرا دل حجابات کی زمین، تو شوق قدیم ہے، میں رستگان رفعت مشعل، میں طفل مکتب، تو مشعلِ نور .. تری حقیقت کامل کیا ہے؟ یہ جاننا ہے کہ جانتے ہیں!


اے نورِ ازل، تو روحِ رواں، تو سالارِ قافلہ ، میں ترے حلقہ عشق کا وہ روشن دیا، نہیں جس کے ساتھ سے مفر شب نور کو، دائم تیرا سفر، قائم ترا وصال، تری باکمال ہستی، مری نیم شبی..... تو پیش حق ہے میں شوق منظر، ترا عشق ازل ہے تو حق ابد ہے ، تو جلتا دیا ہے چراغ الوہی ہے،تو معبود حق کی آیتوں کی خاص آیت،تو حق کا تراشیدہ قلم، سخن ور تو، پیامبر تو.....!
میں خاک! تو خاک میں سجی افلاک کی شمع

سنو!
یہ مشعلِ میم! یہ سرمہ ء وجدانی، طوفان روپ بدل بدل کے آتے نہیں ... طوفان ہجرت کے، تیر جدائی کے ... سہارا ہے مشعلِ میم ...

سن شعر گو!
حکایات بہت ہیں! اضطراب کم ہے
داستان سن! دھمال کے ساتھ!
اب مرا عشق ضربوں سے آگے ہے
مجھے کہنے کو اک ھو کافی ہے
میرا عشق مگر سرمدی ہے

حریمِ اول سے حریمِ دوامت لے لیں، کچھ اور قدامت کا نور لے لیں. کچھ حکایات سے منور سینہ کرلیں. کچھ تو روشنی لے لیں. خواہش یہ رہی کہ شعور شعور نہ رہے، لاشعور لاشعور نہ رہے. روحی ہو، صبوحی ہو، شبنم ہو! رفعت ہو. پیش حق لکھوں ایسے کہ وہ مسکرائے! بس اجازت خامہِ سخن درکار ہے. دل تو کب سے فگار ہے آنکھ بھی اشکبار ہے.

گگن کب سے لال ہے، سایہ افگن محبوب کے بال ہیں، وہ محبوب جن کے میم سے تراشا گیا زمن در زمن وقت کو، وہ محبوب جن کی میم سے زمانہ شناسا ہے.......