خواب میں کوئی اشارہ تو ملے
بحر کو کوئی کنارا تو ملے
دیپ الفت کےتو جلنے ہیں سدا
رات کو کوئی ستارہ تو ملے
پھول کھلتے ہیں، صبا چلتی ہے
اس جنوں میں بھی خسارہ تو ملے
زخمِ دِل اُن کو دکھائیں بھی تو کیوں!
حشر برپا ہے ، کنارا تو ملے
جب دوا نورؔ نہ کام آئی کوئی
زہر دو! کوئی سہارا تو ملے
حق کا نعرہ میں لگاتی ہوں سدا
دل جلے! مجھ کو کنارا تو ملے
مے کشوں کو تو اجل مست کرے
ماہ کے رخ کا اشارہ تو ملے!
جب ملے خاکِ نجف کا سُرمہ
وصل ہو میرا !وہ پیارا تو ملے