Sunday, November 22, 2020

کشش

 کبھی کبھی رات بہت بابرکت لگتی ہے. ستاروں کی، چاند کی روشنی اس رات بہت تیز ہوتی ہے..کش. ...

.. کشش آج رات چاند رُوشن کِیے ہوئے ہے..سورہ النور کی آیت دیوار پر لگی دیکھی.. اللہ نور السموت ولارض کی منقش آیت نے آنکھ نم کردی ہے. آنکھ باوضو رہے تو ہجرت یاد رہتی ہے . .. ہجرت کی رات کاخالق سے بچھڑ جانے کا دکھ ، دوبارہ سے یاد آنے لگتا ہے. چاند کی اتنی روشنی اس رات ہے کہ فرق نہیں رہتا! یہ رات ہے کہ دن؟ رات کہ روشنی چاند کی ..چاند کہیے کہ طٰہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ! طٰہ کہیے کہ یٰسین ...یہ روشنی اصل روشنی کا پرتو ہے ... یہ سرمئی نور ہے جس سے رحمت اللعالمین کا نور وجود میں آیا . جب طٰہ کا خیال آئے تو سر سبز گنبد کا منظر بھی پر نور سا دکھتا ہے ایسے میں درود نہ پڑھنا کنجوسی ہوگی ....
الھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وسلم ... ...

وہ روشنی ہے افق کے پار، افق پہ جسے منور کیے دے ہے، بیخودی کی نیند میں زندگی مل جائے ہے . ابدیت کی چادر جسے ملے اسکا سفید کفن مانند گلاب خوشبو بکھیرے ہے ... نفی نفی سے زیرو ہوتا ہے زیرو سے نفی کا حساب ...نفی کا حساب شروع ہوتا رہتا ہے اور خوشبو بڑھتی رہتی ہے

اے نفس! اے زمین زاد ... دل جو کچھ ہے وہ روشنی ہے ...جس کی روشنی ہے، وہ دل ہی دل ہے، دل میں بستا ہے مگر دکھتا نہیں ....

مٹ جاتے اچھا تھا. فنا ہوجاتے اچھا تھا! لا .... لا کی ستون بنتی مٹی پر الا اللہ کا پہرا ہوتا تو اچھا تھا!

الست بربکم کی صدا کے بعد اس نے کہا ...

فاذکرونی اذکرکم

جب ذکر کرو تو معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کی صدا چار سو پھیل رہی ہے جب علم ہوتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ ورفعنا لک ذکرک کی صدا میں الہام کیا ہے! رنگ چڑھ جاتا ہے، جلوہ ہوجاتا ہے، روشنی مل جاتی ہے.
شبنم جب گلاب کی پتی پر گرتی ہے تب کلام کرتی ہے ... پھول نکھر جاتا ہے ... جب اس نے "میں ... تو " کا فرق نہیں رکھا ..نور کا رنگ بھی ایک ہے، نور کی اصل بھی ایک ہے، نور کی چادر بھی صفاتی بھی ہے، ذاتی بھی ہے! صفات کا کل " الرحمن " حرف میں مخفی ہے!

اک رنگ سے کئی رنگ نکلے، نور تقسیم ہوتا گیا ...کہیں نیلا ہوا تو کہیں زرد کہیں نیلگوں تو کہیں مرجان جیسا تو کبھی یاقوت کی مانند ... یہ جب نور تمام پیامبروں سے ہوتا یکجا ہوا تب میرے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نور نے خاکی وجود میں کرسی سنبھالی ... وہ نور جب ہوا ظہور تو فرمایا

الیوم اکملت ...... کامل آگیا ... کامل ہوگیا سب کچھ ... جو ذات سب پر پوشیدہ رہی ..وہ معراج کی رات عیاں ہوئی .... مالک نے کہا تھا کہ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گئی ... وہ جو گئے تو انہی کا نور جو ہم سینوں میں پوشیدہ رکھتے ہیں، وہ نور جو دلوں میں طٰہ کی تجلی سے درز درز سے ہوتا روشنی کیے دیتا ہے تو کہیں وہ مزمل کی تجلی سے سرنگ سرنگ وا ہوتا ہے، تب زمین زلزلوں میں آتی ہے تب وہ خشیت کی چادر سے ڈھانپ لیتا ہے تو کہیں وہ خود ظاہر ہوتا ہے تو مدثر کی مانند روشنی کرتا ہے تو جہاں جہاں وہ نظر کرتا ہے وہاں وہاں سویرا ہو جاتا ہے ... وہ روشن صبح ہو تو مدثر کہوں وہ رات اک روشن ہو تو مزمل کہوں ..وہ دوپہر کی روشنی ہو تو طٰہ کہوں وہ وصل کا شیریں شربت ہو تو یسین کہوں .... میں کیا کیا کہوں ایسے ...........


ملائک نے کہا کہ مالک گناہگار بندہ ...نائب کیا ہونا ...؟ مالک نے کہا جو میں جانتا وہ تم نہیں جانتے ... اس نے تجلیات سے منور کیا سارا جہاں تو صاحب الرحمن نے کسی کو الروف کی صفت دی تو کسی کو علم کے خزانے سے ملا ...کسی کو جلال کی روشنی نے مجنون کیا تو کوئی جمال میں پوشیدہ ہوا تو اس کو میرے نبی کا جلوہ مل گیا ... صلی اللہ علیہ والہ وسلم .... روشنی جمال یار کی ہے، یہ زمین سیاہ تھی .. زمین پر سورج کی روشنی کی ہے ...

خالق نے اسی روشنی کی قسم کھائی کہ یہی روشنی ہمارے سینوں میں ہے ... سینہ ہے کہ خزانہ ہے ... خزانہ ہے کہ کوئی فسانہ ... ہم کیا جانے بس وہ جانے وہ جانے .... وہ کہتا ہے کہ زندگی گزر جائے گی بصیرت میں ... تو گزر جانے دو .. وہ کہتا ہے موم پگھل جائے اک بار پھر ..روئی ذرہ کی مانند بکھر جائے گا تو کہیے کہ اچھا ہے! اچھا ہے! اچھا ہے کہ بکھر جائیں ..