سرورِ کونین جب اس دنیا میں تشریف لائے ، فلک ، زمین ، شجر و حجر نے مل کے یک بیک درود پڑھا ۔ درود کی صدائیں بکھرتے ایک نغمہ تشکیل دیا گیا ، یہ نغمہ ایسا تھا جس سے ہر نیا مولود پیداہوتے ہی اس ساز کو سن لیتا تھا ۔ یہ ساز قالو بلی کی مانند ، مگر روح کے امر کے بعد ایک نیا عہد تھا ۔ پہلا نغمہِ کُن تھا ، دوسرا نغمہ حُب تھا ۔ رحمت العالمین ﷺ کی مسند ہر دل میں بچھا دی گئی ۔روح نے پہلا نغمہ سُنا جبکہ دوسرا اُس نے ادا کیا۔ اے نبی ﷺ اے دو جہانوں کے سردار ، اے ذی وقار، اے محمد ﷺ اے احمدﷺ ، شہ ابرار ، اے ہادیِ برحق ، اے شافعی امم ﷺ ، اے جن و انس کے آقاﷺ ، اے اللہ کے حبیب ﷺ ! تم پہ کڑوڑوں درود ! تم پہ کڑوڑوں درود۔۔۔۔۔
نغمہِ صلی علی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گونجتے ہی روح کا رابطہ عالی سرور وقار سے ہوگیا ،اس پر رحمت کی ذمہ داری لے لی گئی ۔ آپ نے رحمت کی تقسیم شروع کردی ۔ وہ کلمہِ روح جس میں نور کی تجلیات ہیں ، اس کا رابطہ جب رحمت العالمین سے ہوا ، محبت کی خلعت سے نواز دیا گیا ۔ آپ کی محبت کی عطا کسی بھی عطا سے بڑی ہے ۔ جس سے جب نبی ﷺ محبت کریں ، رب العالمین بھی محبت کرتا ہے ۔ کلمہِ نور نور العرش پر لکھے کلموں میں سے ایک ہے یہ نورِ خاص کی ایک تجلی ہے ، جس کی روشنی مصفی ، مجلی ، معطر ، منور ہے ، جس کو دی جاتی ہے ،اسکی صورت مطاہر اور اسکو مسیحائی مل جاتی ہے ۔حضرت عیسی ؑ کو ذات میں نور کی تجلیات رکھی گئیں اور بعد اسکے مسیحائی عطا کی گئی۔ اسی طرح موسی ؑ کی روح کو محبوبیت کا شرف حاصل رہا ہے ،آپ کو عظمت کی تجلی سے نوازا گیا ، بزرگی کی روشنی دی گئی اور آپ کے ذکر کو بلند کردیا گیا ، حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی روح کو بہت سی تجلیات کا شرف حاصل ہے ، بعد محمدﷺ آپ ایسے نبی ہیں جن کی روح کثیر تجلیات رکھتی ہے ''ذو الجلالی بھی شان تھی ، کرم بھی ، رؤوف بھی تھے ،ٖغنی بھی تھے ، سراپا نور بھی تھے ،حکیم بھی تھے ، رشد و ہدایت کے درجے پر فائز تھے ، صابر و تسلیم و رضا والے تھے ، شبیر و شبر کو ان خاص صفات سے نواز گیا جو آپ سے ہوتی نبی محتشم ﷺ تک آئیں ۔
حضرت محمد ﷺ کی ذات میں اللہ کی تمام صفات جمیلہ ، کمالیہ ، جلالی کو سمو دیا گیا اور روح کی پیشانی پر رحمانیت کی تجلیِ خاص سے سرفراز کردیا گیا ۔ آپ کی روح کو کمال عطا کیے گئے اور کمال کی غفاری ہے ، کمال کی انکساری ہے ، کمال کی عاجزی ہے ، کمال کا اخلاق ہے ، کمال کا صبر ہے ، کمال کا محبت ہے ، کمال کے انسان ہیں ، کمال کے شوہر ہیں ، کمال کے ہمسائے ہیں ، کمال کے امین ہیں ، کمال کے صدیق ہیں۔ کاملیت کی انتہائیں نبیِ محتشم ﷺ کو عطا کر دی گئیں ۔ آپ کو جلال کی انتہائیں مل گئیں ، مہر و ماہ کی روشنی آپ کے آگے ماند ہیں ، بزرگی کی وہ رفعتیں دی گئیں کہ امامت کراتے ربِ العالمین کے پاس پہنچے ۔ معراج آپ کی روح سے ہر روح کو ملتی رہی ہے ، ملتی رہے گی ۔ جمال کی انتہائیں عطا کی گئیں ۔ رحمت العالمین بنا کے اللہ نے دنیا میں بھیجا ، آپ کی روح نے جتنا جمال ، جتنا ذوق ، جتنی لطافت ، جتنی شہادتیں دنیا والوں کو دیں ہیں وہ لا متناہی ہیں ۔ آپ کی رحمت میں بعدِ خدا ہیں
حضرت محمد ﷺ کی جس پر نظر ہوجائے ، درود اسکو عطا ہوجاتا ہے ۔ اسکا سینہ مدینہ کردیا جاتا ہے ، اسکا سینہ کشادہ کردیا جاتا ہے اور گاہے گاہے رحمت کی نظر رکھی جاتی ہے اور جب نگاہیں ادھر ہوتیں ہیں تو ساقی کو دیکھ کے میخوار بول اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
میخواری سے پیمانہ جب بھرا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے
جامِ جم کا ہے موسم
حوضِ کوثر کا ہے موسم
-----------
میخوار کو مدینے لایا گیا
شہ ابرار کا سوالی بنایا گیا
باب العلم نے اسے تھام رکھا ہے
سیدالعشاق کے کے ساتھ چلنا ہے
میخواری کو ساقی کی نگاہوں کی تلاش رہتی ہے ، ساقی رحیم ہے ۔ میخوار کو امید ہے وہ سینہ جسکو کائنات کیا گیا ہے ، اس پر نگاہ کیے رکھیں گے ۔ اے کعبہ کے بدر ، اے کعبہ کے شمس ! درود کی ایسی عطا میخواروں کی دے دی جائے کہ اسمِ حمد ہر وقت یکساں دل میں متحرک رہے ۔ آپ رحمت العالمین ﷺ ہیں ، جتنے سینے ہیں ، جتنے عالم ہیں ان پر مہربان ہیں ! اے کائناتوں ، اے عالمین کے مالک ! ایسی نگاہ ہو کہ ہست نہ رہے ، بیخودی میں عدم کا احساس رہے ، عدم میں مگر آپﷺ کا احساس ہو ! یہ منتہی کا سفر ہے ! یہ معراج ہے ! معراج کی عطا ہے ! اس عطا کو بے انتہا کردیں ۔