Sunday, November 22, 2020

کالا رنگ اترنے میں دیر کتنی لگتی ہے

 زندگی میں سب کچھ لُٹا چکنے کے بعد امید کے پہلو میں بیٹھے محبت کے نئے رنگوں سے کھیل رہی ہوں .افق پر قزح کے رنگوں نے دُنیا کی خوبصورتی بڑھا دی ہو جیسے ۔۔۔! امنگوں کے جاگنے سے من کے سمندر نے سپیوں کو پالیا ہو جیسے ۔۔۔! کچھ ایسے گمانوں میں جھومتی روح نے اداسی کو چادر کو سلیقے سے اوڑھنے کا سلیقہ سیکھ لیا ہے . ایک نئی ہستی کی تکمیل پرانے اجزاء ترکیبی سے ہو جائے اور اسکو نئے رنگوں سے گوندھا جائے تو کالا رنگ اترتے دیر نہیں لگتی . کائنات کی ناتمامی کو کالے رنگ کی چادر سے پردہ ڈال دیا ہے اور کہیں تکمیل شدہ اجزائے ترکیبی پر کالا رنگ چڑھا دیا گیا ہے . اس رنگ کے مابین یقین اور بے یقینی کی فضا پھیلا دی گئی . جب حجاب اٹھتا ہے تو ست رنگی بہار وجود کو چار اوڑھ لپیٹ لیتی ہے جبکہ امید کو استقلال میں ڈھلنے، صبر کو عزم کی تصویر بننے ، عشق کو تعبیر بننے کے لیے خاک کو جس خمیر سے گوندھا گیا ہے وہ خمیر بھی حجاب رکھتا ہے . ایسا حجاب جس کے چار اوڑھ اندھیرا ہے اور اندھیرے پر مٹی کا لباس ... زندگی میں سب کچھ لٹا چکنے کے بعد میرے پاس ایک ہی سرمایہ بچا ہے وہ سرمایہ حیات محبت کی تقسیم ہے جس کو ہر انس کی فطرت میں رکھا گیا ہے مگر تقسیم امید کے چراغ اپنانے سے ملتی ہے ... میں ان چراغوں سے افق پر قزح کے رنگوں کو دیکھ رہی ہوں اور طمانیت کا احساس رگ وپے میں سرائیت کرگیا ہے​



انسان اپنی دُھن ، لگن کی خاطر نفع لینے سے نقصان ملتا چلا جائے تاہم ہستی اسی سمت پر جستجو کے رنگ بکھیرتی چلی جائے تو بس مقصد حیات فوت ہوجاتا ہے . ہمیں معلوم نہیں ہوسکتا ہے کہ ہستی کیوں ادھوری ہے تو کیونکر معلوم ہو کہ تکمیل کے ثمرات کیا ہیں ۔ناتمامی پہ ماتم ! اپنی تکمیل کس لیے ہو؟ تکمیل وصل سے ہوتی ہے۔وصل کی گھڑی سے پہلے اُداسی کی انتہا سے گزرنا پڑتا ہے .اسی اداسی کی مثال موسم خزاں کی سی ہے جیسے خزاں میں پتے چر چراتے ہیں اور ہُو کے عالم میں کالا رنگ اوڑھے خاکی پتلا گھومے جا رہا ہے ! اپنی ناتمامی کا ماتم ! کیسا ماتم؟ تکمیل کے دائرے سے اختلاف مقاصد کو سمت دیتا ہے اور پرواز کے بعد آزمائش ہوتی ہے . اس آزمائش کے بعد وصل مل جاتا ہے ! خاک کی موت ہوجاتی ہے اور حیات دوامی ،وجود فانی کی منزلیں عطا ہوجاتی ہیں تب زبان پر 'اسم َ حق ' لا فانی ذات کا ذکر شروع ہوجاتا ہے .آنکھ تب تک روتی ہے جب تک اس کو موت کی سند عطا نہیں ہوتی ہے .

جن جذبات کو قرطاس پہ تحریر دیکھنا چاہتی ہے ، قرطاس اس معیار پر پورا اتر نہیں رہا ہے ! قرطاس کو چاندی کے ورق میں ڈھالا جاتا ہے اور چاند کی روشنی میں رکھے جانے کے بعد ماہتاب کے سائے میں پرورش کی جاتی ہے یہاں تک کہ خورشید مثل خورشید ، چاند مثل چاند اور چاندنی چار سُو اوراق سے پھیلنے لگتی ہے . ان اجزائے ترکیبی کو نمود ہستی تب سہ سکتی ہے جب بھنور میں رہنا سیکھ لے اور بات اس نہج کو پہنچے کہ بھنور کی کیا مجال ہمیں ڈبو چلے !

قندیل کی روشنی نرم نرم سبز پتوں کی ودیعت ہے ! وہ پتے جن کو زیتون کے درخت سے نسبت ہے ! یہ ارواح کی قندیل اس سر سبز سدا بہار نور کے چراغ سے وصال کے بعد روشن رہتی ہے ! یہ ابد کا سفر ہے جو بعد فنا کے عطا ہوتا ہے جس پر قرطاس سے لکھوایا گیا کہ ازل نے کی ابد کی جستجو مقام ھو تلک ، جنوں کو مل ہے جائے آبرو مقام ھو تلک ............................... یہ آئنے جو دھندا لا جاتے ہیں ! یہ آئنے جو ٹوٹ جاتے ہیں ، یہ آئنے جن کی روشنی کھونے لگتی ہے مگر جستجو جاری رہتی ہے ! ایسے آئنے ازل کے نور سے سیراب کیے جاتے ہیں اور ان کو اوج فنا کے بعد بقا ، حیات دوامی کی وہ منزل مل جاتی ہے جس کے بعد نہ تو تو رہا ، نہ میں میں رہا............ کا تذکرہ کیا جاتا ہے ......... ایسا کیوں ہے ! ایسا کیوں ہے ؟منزلیں فنا ہوجاتی ہیں ،جستجو مٹتی نہیں ہے، سکندری مل بھی جائے تو گداگری کی طلب رہتی ہے ! کون جانے کے ازل نے ، ازل کے ٹکرے کو ادھورا کردیا ! وچھوڑا دے کے اس کی کمر توڑ دی ! عجز کی لاٹھی عطا کردی ، بڑھاپے نے فقر سے پناہ پکڑ لی اور مسافر کو پڑاؤ کی جگہ پر پڑاؤ کرنے سے روک دیا ! اسے کہا گیا کہ ابھی سفر کر ! اے میرے ہمنشیں ! ابھی سفر کر ! ابھی کوزہ گر سے ملنا ہے !​