Saturday, June 26, 2021

عین ‏عین ‏میں ‏ہے ‏کیا ‏

اک تار "اللہ " مجھ میں ہے. اک ساز "محبت " مجھ میں ہے اور یہ کسی شہنائی والی رات بج رہا ہے. میں تمام تاروں کو اجتماع ہوں 
میں کون ہوں؟
اللہ والی تار 
میں کہاں سے آئی 
جہاں سے تار آئی 
میں اک صدا ہوں 
کہاں سے آئی ہے؟
ازل کے نورِ قدیم سے  

مجھ میں نور قدامت بول رہا ہے اور تن، من میں اک بات ہے کہ الوہیت کا جامہ پہنے دل سلگ رہا ہے جبکہ جذب مجھے مدہوش کیے دے رہا ہے. آنکھ رو رہی ہے اور دل میں آگ نے تمام منظر اجیار دیے ہیں .... 

میں کون ہوں؟  
اللہ والی تار ہوں 
میں کہاں سے آئی 
نور قدیم ہوں 
راز قدیم ہوں 

مجھے وہ فاش کردے گا!
کون؟
اللہ، اللہ،  اللہ 

مجھ میں ھو ھو کا ستار بج رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ سب اللہ ہے، باقی مایا ہے. سب اللہ ہے، باقی مایا ہے. سب مٹی میں اصل تم ہو. میں کون ہوں؟  میں نور قدیم ہوں، نورِ قدامت مجھ میں جل رہا ہے اور رات سج رہی ہے. میں رات کی چاندنی میں "اللہ "اللہ " اللہ " کہہ رہی ہوں ...اک شعاع دل پر پڑتی ہے اور عین ہوش غائب!  
عین عین عین میں غین غین کیا؟
عین عین عین میں میم میم ہے 
عین عین عین میں نون، نون ہے 
عین عین عین میں قلم قلم ہے 
عین عین عین میں کتاب کتاب ہے 
عین عین عین میں راقم و مرقوم 
عین عین عین میں کــھــــیــــعـــص
عین عین عین میں رخِ تاباں ہے 
عین عین عین میں غین غین کیا 
عین عین عین میں شین میم ہے 
عین عین عین میں ستارہ سحری 
عین عین عین میں رجب کا ماہ ہے 
عین عین عین میں اللہ اللہ اللہ ہے 
عین عین عین میں قل کفایتنا ہے 
عین عین عین میں الف الف ہے 

عین سے الف ہے،  عین سے میم ہے،  عین سے نون ہے،  عین سے وجہ اللہ ہے،  عین سے کلیم اللہ ہے،  عین سے شمس اللہ ہے،  عین سے راگ میں اللہ ہے،  عین سے بات میں اللہ ہے،  عین سے وہ لکھ رہا ہے،  عین سے چل رہی بات سے بات اور بات میں دل دیا مانندِ سوغات اور قبول کرلی قطرے کی اوقات، کردی میں نے مناجات کہ دید کی ہے حاجات اور روایت سے جاری ہے آغاز ....

سُنو 
رموز عشق کا آئنہ عین و العین ہے کون؟
رموز عشق کا آئنہ عین العین ہے  کہاں؟  
رموز عشق کا آئنہ عین عین عین عین ہے 
رموز عشق کا آئنہ مصطــــــفوی چــــراغ 
رموزِ عشق کا آئنہ جنابِ سیــــــدہ جانم 
زموز عشق کا آئنہ جناب شــــــــــاہِ حسن 
رموز عشق کا آئنہ امام عالی وقار حسین 
رموز عشق کا آئنہ امام علی اکبر سلام علیہ 
رموز عشق کا آئنہ صاحب الرائے فاروقِ اعظم 
رموز عشق کا آئنہ صدیقِ اکبر، رفیق اکبر 
رموز عشق کا آئنہ منم امامِ عــــــلی، یا عـلی 

عین عین سے علی علی ہے 
عین عین سے علی ولی ہے 
عین عین سے حق جلی ہے 
عین عین سے صورہِ علی ہے 

نسبت سے چلو، نسبت ہو جاؤ اور نصیب ہو جاؤ. بس نصیب میں ہو تو دل سے کہو، "علی علی علی علی علی علی "احساس کی تیغِ حیدری دل میں اترتے پاؤ ----- احساس کے دیپ جلاؤ .... حی علی الفلاح کی بات کرو

Friday, June 25, 2021

طواف

لا ریب! 
دل میں تُو،  لاریب!  
ہاں کون ہے دل میں؟  
لاریب،  وہی ہے 
وہ جس نے من میں نمی دی 
وہ جس نے عشق کی بوٹی دی 
وہ جس کا رنگ کالا ہے 
وہ کالا رنگ اوڑھے کہتا ہے 
بکل دے وچ چور 

میں نے لکا چھپی کرتے پایا خود کو 
وہ چھپے تو دیکھوں میں 
میں لکاں تے ویکھے او 
بس یہ جنم بھومی سے لکھا ساتھ ہے 

جنم بھومی!  جندڑی رلی 
جنما جنم جنم نے 
جنما جنم کرتی ازلی کوک نے 
جنما ابدی رہنے والی تال و سر نے 
نغمہِ گل ہوں 
آواز سنو 
ہاں سنو آواز 
بہت ضروری ہے تم سنو 
تم محبت ہو 
تم نے محبت لی ہے 
قرض سمیت واپسی ضروری ہے 
چکھا ہے عشق؟
مرض العشق!  تن کا روگ 
مرض العشق!  روح کا سنجوگ 
مرض العشق!  انشراح بعد تو ہی تو رہا،
قلب تو تیرا ہے،  میں کون ہوں؟

سمندر کی آنکھ میں محبت 
میری محبت؟
ہاں میری محبت 
العشق حب من 
ھذ عشق؟
عشق فسانہ ء حیات 
عشق حقیقت ممات

جو چھپ جاتا ہے اس کو تلاشنا نہ چاہیے. جو ساتھ رہے اسکو ڈھونڈنا کیسا؟  وہ جو ازل کا ساتھ ہے وہ ابد تک ہے. اسکو ڈھونڈنا چاہا تو گم خود کو پایا 

من روحی من روحی 
الروح عشق 
لاریب!  یہ عشق روح میں پنپتا ہے 
لاریب!  قلب میں اترتا ہے 
لاریب!  آئنہ بدلتا ہے 
لاریب!  اندر محبوب رہتا ہے 
لاریب!  طواف ہوتا ہے اور عاشق کرتا ہے طواف

اللہ ‏کا ‏ساتھ

اللہ کے نور کی شعاعیں بدن سے نکل رہی ہے معبد بدن میں اللہ ہے. ہر شعاع نے نکل کے ڈھونڈا تو کہا کہ ھو ..تو. میرے وجود سے نکلنے والی شعاع کو یہ شناخت کس نے دی؟  یہ تو وہ ہے جس نے مجھے نیم واہی میں مست کرکے کہا تجھے مست میں نے کیا ہے. اب بتا تجھے تحدیث نعمت کے طور پر کیا چاہیے. میں نے کہا دوئ تو تھی نہیں تھی. میں لم یزل کا وہ وجود روح ہوں جس نے نہ جانے کتنے ہیر پھیر باوجود رگ رگ سے نگاہ رکھی ہے. میں نگاہ ہوں اور نگاہیں مجھ میں ہیں. میں اپنا آپ آئنہ ہوں. مجھے کسے کے آئنے کی کیا ضرورت ہے! میں اپنی ذات میں خود انجمن.ہوں مجھے کسی کے ساتھ کی کیا ضرورت ہے. میں کہ ساجد جس کی جندری رلی

اس نے کتاب روشنی کی مجھے دی ہے. یہ نور کی کتاب ہے جس کے پہلے ورقے میں الم لکھا ہے جس کے ن میں مجھے قلم رکھا گیا ہے. میں اسکا قلم.ہوں جس سے وہ زمانہ رقم کرتا ہے اور میں زمانہ ہورہا ہوں. وجود میرا گھلتا جارہا ہے اور چکر نے بدن کو لاچار کردیا ہے. عرش کے پاس نور کا مسکن ہے. نور کو اس نے چاہا ہے اور چاہت میں نور مگن ہے. یہ کیسا الوہی رقص ہے جس میں میں نے کچھ کہا نہیں ہے میں نے ارادہ کیا ہے اور وہ ہوا ہے. کن کی تعبیر کا توشہ میرے پاس ہے. میں کہاں نہیں ہوں. میں ہر جہاں ہوں. میں جا بجا.ہوں. میں بسمل.کی طرح رقص کرتی ہوں. میری کوکاں مار دی واج میں کیسی خاموشی ہے

پیاری ‏زہرا ‏رضی ‏تعالی ‏عنہ ‏

دِل بارِدگر بَرسنا چاہے 
بس اک تُجھے دیکھنا چاہے
تو جلوہ بَہ کمال ایں نیستی
تو پیش مظہر مانند حق شد

یہ فلک، یہ ماہ، یہ آفتاب، یہ جَہان، یہ عالم رنگ و بو ...  یہ دُکھی ہیں، انہوں نے میرے دکھ کو محسوس کیا ہے. میں نے چاند کو سرخ سرخ دیکھا ہے،  سورج تو جانے کس اوٹ میں ہے مگر بادل  آکاش کے نیل میں دامن گیر پناہ لیے ہوئے، کچھ بھرے بھرے بادل برسنے کو تیار ہیں، کچھ شجر جن کے پتے چُرمراتے آپ کے(پیاری زہرا) آنے کا پتا دیں مگر آپ نَہیں وہاں بھی ... کچھ مٹی کے ذرے جن کی دھول اڑتی ہے، جب اوپر اٹھ کے آنکھ میں پڑے تو اشکوں کا پھندہ بنتے بتاتے ہیں یہ تو ہے جو دِلاسے کو اشک بندی کرے ہے .... یہ جو چند ندیاں پہاڑوں سے جاری ہوئیں ہیں ..ان کی قیمت فرہاد کی دودھ کی نہر سے زیادہ ہے کیونکہ اس میں خونِ جگر کی آمیزش ہے.  یہ جسم کیا، ہزار جسم بھی ہوں تو نثار ہو جائیں، یہ روح کیا ہزار روحیں بھی ہوں تو وار دوں ... پھر کہوں کہ مالک کیسے اقرار دوں؟ 

یوم الست کو جس نگاہ نے دیکھا، وہ یہی تھی
یوم الست کو جس نے سوال کیا،  وہ یہی تھی
یوم الست کو جس کو جواب دیا،  وہ یہی تھی
یوم الست سے قالو بلی کی تجدید،  وہ یہی تھی
یوم الست میں کچھ قبل عشق کی تمہید،  وہ اور تھی
یوم الست سے کچھ بعد عشق کی تمجید،  وہ یہی تھی
یوم الست میں کچھ طواف، کچھ متوف،  مطاف کیا تھا؟
یوم الست میں کچھ دیوانے، کچھ مجذوب، وہ کون تھے؟
یوم الست میں پیکر جمال میں شامل پری کا کمال کیا تھا؟
یوم الست وعدہ ہوا تھا! یاد ہے مجھے مگر کس صورت میں؟
یوم الست میں چکر پہ چکر تھے اور یہی تو تھا سب
یوم الست کے ان چکروں میں بھولا تو خود کو، باقی تو تھا
یوم الست سے اب تلک نہ بھولا خود کو، باقی تو وہی ہے، تو ہے
یوم الست کی چیخ! ہاں چیخ!  سنی تھی نا میری؟ جب جدا کیا گیا تھا
کیوں جدا کیا گیا تھا؟ 
کیوں نیزے جدائ کے؟
کیوں برچھیاں یادوں کی؟
کیوں اشک عشق والے؟
دل کو کربل،  سے نسبت
دل کو حرم سے نسبت
میرا حرم بھلا کیا ہے؟
میرا عشق بھلا کیا ہے!
فرق نہیں نا کچھ بھی تو فرق نہ رکھیں گے
یہ اضداد تو کھیل تماشا ہے
یہ زوجین کے مابین رشتے
ہر روح کا زوج الگ،
ہر مادے کا زوج الگ،
ہر روح کا دوگ الگ،
ہر روح کا امر تو اک
ہر روح کی صورت الگ
ہر صورت کی شہ رگ تو
ہر صورت کی صدا الگ
صدائے ربی ربی میں نے کہا

پتا ہے خالق ... اندھے تھے ہم، ہاں اندھے ... تری روشنی اتنی تھی کہ دکھا نہ کچھ، پھر تیرگی کا وجود آیا اور ہم زمین پہ لائے گئے کہ نفس کے شہتیر سے چلائے گئے. جرم اذنی ربی سے خلا دل میں ہوا تھا کہ رب ارنی ارنی کی صدا میں تو نے لن ترانی کی بات کی تو پھر ہوا وہی خاکی مصدر کے ہوش اڑ گئے اور کچھ کو لگا زمین زائل ہو رہی ہے، کچھ کو لگا زمین گہری ہو رہی ہے، کچھ کو لگا تو مل رہا ہے، کچھ کو لگا کہ تو ہی تو ہے کچھ نہیں ہے، کچھ کو لگا کہ سید امام حُسین ہیں دل میں بستے ہیں، کچھ مکرم ترے سید حسنین کے لیے ، کچھ غلام تھے ازل سے سوہنے سے مکھڑے کے،  صلی اللہ علیہ والہ وسلم، کچھ کو تو نے روشنی سے جلا بخشی تھی، کچھ تری ذات کے وہ حصے تھے جن کو  شناسائی نہ تھا کہ تو ہی ذات،  تو خود اعلی ہے،  تو ظاہر حق باشی،  تو جانب چار سو ...کوئ ذات مکمل نہیں ماسوا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ... اس لیے ماسوا ان کے ناتمامی کی سوزش چار سو ہے ..وہی نور تو ہے ہر سو ...وہی تری جگہ ہے تو کہیں محمد محمد کی صدا ہے تو کہیں احمد احمد سے لگن ہے ...

سلام بی بی زہرا کے  نور کو، 
انکی پارسائی کے تیر دل میں چلے
سلام اس ماہتاب  چندے آفتاب کو
جس سے زمن در زمن چلتا آیا یے
سلام اس با حیا پاک صورت کو
جنکی غلامی سے جی بھرتا نہیں
سلام اس سیدہ عالی نسب کو.
جن کی نسبت ِ غلامی معتبر ہے
سلام اس چراغ ہست کو جس نے
چراغ کشتہ کو روشن کردیا یے
جنکی جدائ نے فنائیت کا احساس دیا
سلام اس پری چہرہ مثل بدیع الجمال
جن سے دم دم میں  صدا ہے
اب تو بس اک دھن باقی ہے
میری ذات کو وہی ہی کافی ہے
میں جو کہوں وہ کیا بلھے کی کافی ہے؟
میں جو بولوں وہ شاہ حسین کا گیت ہے؟
میں جو کہتی وہ شاہ لطیف کا ڈھنگ ہے؟
میں جو کہتی وہ سچل سر مست کا نغمہ ہے؟
میں جو کہتی وہ امیر خسرو کی غزل ہے؟ 
میں جو کہتی وہ  سراج کی عالم نیستی ہے؟
میں جو کہتی وہ بیدم وارثی کی شوخی ہے؟
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں وہ رب کا عشق ہے
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں اسکے ہجر کا ملال ہے
میں جو کہتی وہ کچھ نہیں وہ اسکا حسن ہے
میں نہیں کہتی کچھ یہ وہ کہتا ہے سب
تو نہیں چار سو، وہی ہے چار سو ہے

جتنے ‏الیکٹرانز ‏کائنات ‏کے ‏مدار ‏میں ‏ہیں ‏

جتنے الیکڑانز کائنات کے مدار میں ہیں، 
جتنے سورج کہکشاؤں میں ہے، 
جتنے دل زمین پر ہے 
اے دل!  قسم اس دل کہ سب کے سب انہی کے محور میں یے 
جتنی روشنی ہے، وہ جہان میں انہی کے  دم سے ہے 
لکھا ہے نا، دل، دل کو رقم کرتا ہے 
لکھا ہے نا، جَبین سے کَشش کے تیر پھینکے جاتے ہیں
لکھا ہے نا،  سجدہ فنا کے بعد ملتا ہے 
اے سفید ملبوس میں شامل کُن کے نفخ سے نکلی وہ سرخ روشنی
جس کی لالی نے مری کائنات میں جانے کتنی  اُجالوں کو نَوید دی ہے 
تو سُنیے! 

جن سے نسبتیں ایسی روشن ہیں، جیسے زَمانہ روشن ہے 
جنکی قندیل میں رنگ و نور کے وہ سیلاب ہیں کہ سورج کا گہن بھی چھپ سکتا ہے اور چاند اس حسن پر شرما سکتا ہے

مجھے اس روشن صورت نے درد کے بندھن میں باندھ دیا ہے اور خیالِ یار کے سائے محو رکھتے اور کبھی کبھی فنا میں دھکیل دیتے ہیں

تو سُنیے
تو سُنیے، خاک مدینہ  سے چلتے اسرار کے  عنصر، جس میں مقید افلاک کے بحر،  
 شاہِ غازی کے در سے بنٹتے لنگر سے جاری دُعا کا سلسلہ اک ہی ہے
 بُخارا کے قدماء میں امام زین العابدین سے منجمد  جمتی سرخ لکیر،  یہ خون فلک سے اتر رہا ہے اور زمین پہ جم رہا ہے .... یہ سلسلہ اک ہے 

وہ جو شاہ مٹھن نے رنگ رنگ کے رنگ لگائے، اسکی مہندی میں  نمود کی قسم،  
گویا یہ زندگی چند دن کی مہمان ہے 

جب میں نے جھک کے قدم بوسی کی تھی، فَلک نے بھی جھک کے سَلام کیا تھا    
محبت میں کوئی نہیں تھا، وہی تھا ..
یہ خاک کچھ نہیں،  وہ عین شَہود ہے 
ہم نے مٹنے کی کوشش نہیں کی کہ  یاد کرنے کو وہ پانی زمین میں شگاف نہیں کرسکا ہے وگرنہ کیا تھا فنائیت میں "تو بود، تو شدی منم" کا نعرہ لگاتے رہتے ....

اے زاہدہ، عالیہ، واجدہ، مطاہرہ، سیدہ، خاتون جنت! 
کتنی عقدیتوِں کے افلاک وار کے کہتی ہوں .... سلام 
اے آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتنے دل یکجا ہوتے ہیں، کڑی در کڑی در سلسلے سے مل کے سلام بھیجتے کہتے ہیں کہ جلوہ جاناں پر لاکھوں سلام

مصطفوی چراغوں کی تجلیات دِیے، شبیر و شبر کی کنجی
 
کتنے مومنین کی بنات آپ کے   پاس آنے کو بیقرار ہیں،  روح صدقہ ء کوثر پانے لگے گی اور کہے گی کہ فرق نَہیں ہے، ہاں یہ لب و لہجہ و جلال کسی روپ میں بی بی زینب کا جلال لیے ہوئے ہے تو کہیں امام حسن سی مسکراہٹ لیے ہوئے، سلام سلام سلام

جب میں اس چہرہ ماہناز کو دیکھتی ہوں تو جذب مجھے کتنی کائناتوں کے در وا کرتا ہے ... وہ کائناتیں لیے ہیں 
وہ حجاب میں کبریائی نمود ہے 
بے حجابی میں دیکھیں سب فلک پر ..........
لن ترانی سے رب ارنی کے درمیان ہستیاں بدل دی گئیں تھیں مگر اے نور حزین! فرق نہ دیکھا گیا، جب زمین میں شگاف پڑتا ہے تب کچھ نیا ہوتا ہے ...میرے ہر شگاف میں کبریائی نمود ہے،

یہ  کمال کے سلاسل میں تمثیل جاودانی ہے کہ رخ زیبا نے دل مضطر کے تار ہلا دیے ہیں، مضراب دل ہو تو کتنے گیت ہونٹوں  پر سُر دھرنے لگتے ہیں، کتنے دل جلتے گلنار ہوتے یقین کی منزل پالیتے ہیں اور دوستی پہ فائز ہوجاتے ہیں ..

صورت شیث میں موجود ہیں  یعنی کہ حق کا جمال کتنا لازوال ہے،  وہ شیث  ہیں، جو تحفہ ء نَذر بعد حاصل اک دوا ہے ... 

میں نے ساری کائناتوں سے پوچھا کون مالک 
کہا اللہ 
میں نے پوچھا کون میرا دل؟
کَہا بس وہ، بس وہ، بس وہ

بس میں نے فرق سیکھ لیا ہے مگر فرق تو وہی ہے جسکو میں نے کہا ہے، درحقیقت اک رخ سے تصویر دیکھی کہاں جاتی ہے.

یہ دل جھک جاتا ہے تو اٹھتا نہیں ہے 
پاس دل کے اک نذر کے کچھ نہیں کہ یہ لفظ ادعا ہیں ..یہ دل سے نکلتے ہیں تو دعا بن کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ...

میری آنکھ سے دل کے نیل دیکھے؟
دل کے نیل پہ افلاک گواہ ہیں 
جی ان سے خون رس رس کے ختم ہوا کہ جدائی کی تیغ نے جان نکال دی ہے اور سارے وہ پل،  جن سے کھڑا رہنا تھا، بیٹھ گئے ہیں 
وہ کشتی جس کے بادبان طوفان لے جائے وہ کیسے چلے 
بس کشتگان رہ وفا نے لکھی ہے تحریر کہ بتادے بنام دل حیدری آواز یے کہ وہ ہیں،  ہاں وہ نقش رو ہیں، ہر پری چہرہ ہو بہو ہے ...

منور ‏مطہر ‏محمد ‏کی ‏سیرت ***

منور، مطہر محمدﷺ کی سیرت
تصور سے بڑھ کےحسیں انکی صورت

وہ نبیوں کے سردار ، ولیوں کے رہبر
نہیں کوئی انسان ان کا ہے ہمسر

مقامِ حرا ، معرفت سے ضُو پائی
نبوت سے ظلمت جہاں کی مٹائی

خدیجہ نے کملی سے انہیں تھا ڈھانپا
خشیت کی اُس شب دیا تھا دلاسہ

منور ،منقی تجلی سے سینہ
پیامِ خدا سے ملا پھر سفینہ

چراغِ الوہی جلا مثلِ خورشید
تجلی میں اِس کی خدا کی دِکھے دید

احد کی حقیقت سبھی کو بتائی
نہیں شرک سے بڑھ کے کوئی برائی

سبھی میں یقیں کر دیا تم نے پیدا
زمانے کا ہر بندہ تم پر ہے شیدا

اویسی ، بلالی صحابہ کی نسبت
محمد کی الفت نے دی ان کو رفعت

محبت کا میٹھا کنواں ہے محمد
ترے ذکر میں ہر رواں ہے محمد

مرا دل بھی اسمِ محمد سے چمکے
سبھی تارے اسمِ محمد سے دمکے 

نور

Wednesday, June 23, 2021

حسین ‏رات ‏

کتنے حسین ہو تم، جو رات میں یک ٹک سو اللہ کی تسبیح سے صبح کر رہے ہو اور میں تو ہوگئی.ہوگئی پانی پانی --- "لا- فانی نے فانی - لا " کردیا ہے!  ایسی بابرکت گھڑی میں تمھارا، میرا ساتھ کسی رت جگے کا وصال ہے یا کمال ہے. میں تمھارا جلوہ خود میں دیکھ رہی. تم باہر زیادہ؟  یا اندر؟  بس یہی دیکھ رہی ..... جب اندر تم کو دیکھتی ہوں تو کھو سی جاتی ہوں اور کہتی ہوں "بتاؤ،  اتنے حسین کیوں ہو؟  " تم میں کھو کے میں کتنی حسین ہو رہی ہوں " میں تم سے کہنے لگتی ہوں مگر حق نے مہر رکھ دی کہ وحدت میں دوئی نہیں ہے "


ذکر کیا گیا ہے!  نور کا ذکر ہوا ہے! کون جانے گا کہ نُور کون ہے!  نور تو خود نہیں جانتی کہ وہ کون ہے اور بس کہہ رہی ہے " تو،  تو،  تو " مجھ میں ہے!  ولی نے مجھ دیکھا ہے اور میں دوست ہوگئی ہوں. قلم بن کے،  دوات قطرہ قطرہ مجھ میں سمونے والے اللہ،  تری سرمئی رنگت نے مجھے سب کچھ دکھا دیا  ہے. سید --- کی نگاہ نے معتبر کردیا ہے اور ----- سید --- کا ساتھ مِل جانا باکمال ہے. زندگی میں تم اور میں کبھی دور نہ تھے مگر تم وقت مقررہ پر ساتھ ہو .... وقت نے کہا مجھے تھم کے رہ اور دیکھ مجھے اور میں وقت کی قید میں وقت دیکھ رہی ..  اک بڑے زمانے میں چھوٹے چھوٹے زمانے مقید دیکھ رہی اور ہر اس زمانے، جو بیت گئے، میں تمھاری رہی ہوں اور رہتی رہی ہوں " آج میں تم کو "خود " ہوتا دیکھ رہی ہوں 

سنو 
یہ رات کی مہک ہے 
یہ لیلتہ القدر ہے 
یہ شہر رمضان یے 
یہ قدسی مہک ہے 
یہ عرشی داستان 
کسی فرشی نے کہا 

عرش کی رفعت پر مکین،  سدرہ سے آگے،  شب دراز کی زلف میں تار محمد صلی اللہ.علیہ وآلہ وسلم سے پایا نور ہو تم --- تم کو نہین بلکہ نور علی النور کا سلسلہ دیکھ رہی ہوں ..بابرکت قندیل ملحم شدہ اوراق پتے پتے میں ڈال رہی ہوں اور میں اللہ،  اللہ،  اللہ کہہ رہی ہوں اور "یقین " کو غیب سے ڈھلتا دیکھ رہی ہوں 

ہم غیب پر ایمان رکھتے ہیں 
غیب سب سے بڑا معلم ہے 
مگر تم جانتے نہیں،  تم جانو 
جاننے میں،  نہ جاننے میں فرق جانو

رجب ‏

میں ---- آج بھی اور کل بھی تُمھــاری ــــــ اور تُم سے نکلی ہوں ـــ بطنِ روح سے وجود پایا سیپ ہوں اور دل میں یاد کے دیپ، ساز کو دھن کی نئی اوور سکھا جارہے ہیں اور میں خانہِ کعبہ کا طواف کرتے کہے جارہی ہُوں 

میں تُمھیں چاہ رَہی ہوں 
تم بھی تو مجھے چاہو 
میں تمھیں دیکھ رہی ہوں 
تم میں ڈوبی نہیں، کیوں؟  
تم کو دیکھ، فنا نہیں ہوں 
فنا کو بقا دوام پیا کیا دے؟

میں نے رام نیّا میں "پریم پت " بَہا دیا اور خود میں پانی میں صورت محبت "تحلیل " ہو رہی ہوں. میں بھی پانی -- تم بھی پانی --- اب کون جانے گا کہ حیثیت،  پہچان کیا؟  بس ڈوب گئے میاں!  اُبھریں گے، جب وہ چاہے گا اور حج کو جانے میں طواف کے چکر پر چکر کاٹ کہے جائیں 

اللہ،  اللہ اللہ 
تو نے یاد کے دیپ جلائے 
اللہ،  اللہ،  اللہ 
تو نینوں کو آس دلائے 
اللہ،  اللہ،  اللہ 
مورا دل، توری آنکھ 
اللہ،  اللہ،  اللہ 
کن سے فیکون ہوئی میں 

تکبیر کہو " اللہ اکبر " غوطہ زن ہوجاؤ سب میں،  سب میں تُم بول رہے ہو. تم جو بول رہے ہو تو "کان " سن رہے ہیں،  تم کو جو دیکھ رہے ہیں،  آنکھ " ان کو  دیکھ رہی ہے --- تم جا بجا،  ہر جا عین حیات ہو --- ھو بول رہے باہر باہر،  اندر کہے جاؤ، تو،  تو



آج رجب کی چاند رات ہے اور اللہ ہر جگہ موجود دکھائی دے رَہا ہے. نبض کی رفتار تھم تھم گئی اور آنکھ رک رک ---- یک ٹک سو -- دیکھتی رہ گئی اور دل کہنے لگ گیا، "کہاں ہو تم؟  " میں تمھارے ُحسن میں جذب ہو کے گم ہو کے رہ گئی ہوں، اب نہیں جانتی میں کَہاں ہوں؟ ،  ہاں،  ہاں،  ہاں،  میں ہوں تُمھاری " 

یوم الست سے میں تری دیوانی 
بارشیں مجھ میں ہورہیں رحمانی 

آئنہ،  آئنے کے سامنے اور مدغم ہو گیا ہے --- چل اب جہاں کو دیکھو تمھاری نِگاہ سے،  حجاب سارے اٹھ رہے ہیں اور مجلی روشنی اسمِ طٰہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بابرکت قندیل سے مل رہا ہے 

مل رہا ہے کیا؟  
ہل رہا یے کیا؟  
پتا، پتا میں ہے 
جلوہ رحمانی 

دل پر مجلی --- اسمِ رحمٰن --- دل کی ہتھیلی پر اللہ نور السماوات والارض سے لکھا تخت ہے اور کتنا روشن جہاں، ہم دیکھتے ہی نہیں!  دیکھ لو سارے،  ابھی وقت ہے، کل کہو گے کچھ ہاتھ میں آجاتا --- رہ جانی اوقات کی پلیٹ میں دھری دنیا اور بقا پائے گی روح دوامی -- نام بہ نام تسبیح تو وہ خود پڑھ رہا یے * فاذکرونی اذکرکم --- تو بیت رہا ہے --- تن پر بیتے تو سمجھ آتا ہے کہ ہم بس محض کٹھ پتلیاں -- آزادی کے نام پر بہلائے گئے ہیں

قطرہ

تَصور تُمھارا اور روح میری، تمھاری! میں اور تُم کا چکر ختم کرتے ہیں اور باہم رقص کرتے ہیں. شدت سے رقص بدن کو کرچی کرچی کردے اور "میں - تم - یکجا " پرواز کرجائیں. مٹی کو چھوڑ دیں، ناسوتی قُبا کو چاک کرکے اپنے افلاک میں کھو جائیں .... زمین خیر باد!  زمین خیر باد!  زمین خیر باد!


اک قطرہ اور دو بوندوں نے یکجا ہو کے اسے وسعت بخش دی. توانائی  کی صدا  "من کنتم " لگی اور صدا دھاگہِ ازل سے ابد تک مجھ میں عیاں ہوتا جارہا ہے. میں وسیع کائنات کو ِبوند میں دیکھ رہی ہوں کیونکہ  قطرہ جو سیپ پر گرا،  اسکو معتبر کرتا جارہا ہے. مرکز کو نیا رخ مل گیا ... خدا مصور ہے اور شاہکار تخلیق کر رہا ہے 
والقلم یسطرون 
وہ.لکھ رہا ہے اور میں ہو رہی ہوں. گویا کُن فیکون کی تکوین میں خدا نے اس شدت سے مجھے تھام لیا ہے کہ میں، میں نہیں رہی ... باقی کیا بچا؟

نور النور کی مثل ہو تم 
اللہ کی خوب مثل.ہو.تم 
مثال لہ سے پہلے "ھو "تم 
"ھو "سے نحن بن گئی ہو تم 
خود میں، بیخود ہو تم 
بیخود میں،  "وہ  "ہو تم 

شبِ انتظار فصیل گرا دے اور ہجرت کی دیوار چاک کردے. اب وصلت کی رات کو دوام دیدے. ترے ہوئے ہم،  ترے ہوئے ہم،  ترے ہوئے ہم

Monday, June 21, 2021

آنکھ ‏کھل ‏جائے ‏تو ‏..... ‏

آنکھ کھل جائے تو نَم رہتی ہے. اشک زیرِ زمین رہیں تو فصل کی ہریالی پر شہادت الا اللہ کی لگتی ہے اور ہر جانب اس کی بہار جلوہ گر ہو جاتی ہے. جمتی کائی میں سے اک صدا --- ھو اور  ذرہِ مٹی یا مٹی ذرہ بن کے بادِ صبا کے ساتھ پرواز کرتی ہے. جہان رنگ و بُو میں اک شخصیت اُبھرتی ہے. وہ صورتِ اشک جو کہ ہچکی پے در پے لیے اللہ کے حضور دُعا کو ہاتھ اُٹھائے ہُوئے ہے اور جذبات سے رندھی دعا ہے بھی کس نے مانگی!  سرکار نے امتی امتی کا چہرہ دیکھا،  اور دُعا مانگی. - ان گنت درود جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.......  اور جس جس نے نگاہِ نازش کو جنبشِ مژگانِ دل سے رکھا اس رخ کو دل تو دل نے امانت کا بار اُٹھا لیا. جس جس نے دید کی،  اس نے امانت کا بار اُٹھا لیا ..... اِمانت میں خیانت نَہیں کی جا سکتی کہ رب رب کہنے والے مصطفوی چراغ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیے دل میں اللہ اللہ اللہ کہتے ہیں اور جب اللہ نے درود بھیجا تو "محمد،  محمد " کی صدا لگتی رہی. دل کو کان بن جانا ہوتا --- ہستی کو مٹ جانا ہوتا تاکہ اکابرین کی بات سُنی جا سکے اور جس نے کلام سُن لیا وہ خود "کان " ہوگیا ... جو دل گویائی پاگیا اسکا سفر احسن التقویم کی جانب شُروع ہوگیا .... 

ثمہ رددنہ سے اسفل سافلین کی گہرائی میں مٹی،  پُکار روح کی،  چکر روح کے سُنے کون؟  
بچہ جس طرح بھیڑ میں گُمشدہ پکارے "ماں،  ماں " 
میں کون ہوں؟  
وہ روح کی بازگشت جب روح کے دالانوں میں گونجتی ہے اور روح کو چکر پر چکر نے اس رقص کی جانب لیجانا ہے جو اسکی پہچان کا سفر ہے .... احسن التقویم کی جانب 

والعصر ...ویل ... روح کہے تو احسن التقویم کی جانب دل گھومنے لگ جائے تو ماتم ختم ہو جاتا ہے کہ سفر شروع ہو جاتا ہے ...جذبات سے رندھی روح جان جاتی ہے کہ بلایا گیا ہے،  ہاں،  اسکو بُلایا گیا،  بلایا گیا ہے!  

اقراء کی صدا سے چلتا سلسلہ الیوم اکملت تلک نہ پہنچے،  بے چینی کا سورج گرم رکھتا ہے اور حرف اللہ کی تکرار سے رنگ ماند پڑجاتا ہے اور رنگ سے روشن روشن ہستیاں نمودار ہو جاتی ہے اور وہ فرماتا 
نحن اقرب 
محفل سجتی ہے تو کہا جاتا ہے 
نحن اقرب 
جب وصال کا شبہ ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے 
نحن اقرب. 
جب وصال کا شیریں شربت دیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے 
اقربیت کی منتہی!  المنتہی!  المنتہی!  المنتہی!  
یہ تقویم، یہ زمانہ جس میں لوٹائی جا رہی ہے اور دل کی تسبیح ہے 
انا للہ وانا الیہ رجعون 
میں لوٹ رہی ہوں اور وہ کہہ رہا ہے 
ارجعو!  ارجعو!  ارجعو