Tuesday, December 8, 2020

یوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ​





یونہی ہنس کے نبھا دو زیست کو مسلسل​
محسوس کرو گے تو مسلسل عذاب ہے​

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ جسم سیال بن کر بہنا شروع کر دیتا ہے. روح کا ذرہ ذرہ کانپتا ہے. اور درد کی سوغات کی گرمائش سے گھبرا کر دل درد کی کمی کی دعا مانگنے لگتا ہے. درد کا کام ہے۔۔۔! کیا ! شعلے کو بڑھکانا! شعلہ بڑھکتا ہے اور روح کو لپک لپک کر بانہوں میں لپیٹ کر وار کرتا ہے.۔۔۔۔۔۔۔!!! درد بذات خود کچھ نہیں، اس کا ماخذ اندر کی تخریب در تخریب کرکے مٹی کی گوڈی کرتا ہے۔۔۔!!! اور مٹی جب تک نرم نہیں ہوتی یہ وار کرتا ہے!!!. اس نرم زمین پر پھول کھلنا ہوتا ہے . اس پھول کی خوشبو کا عالم دیوانہ ہے اور بلبل اس کی پروانہ وار متوفی ہے. جگنو کا رنگ و روشنی اس خوشبو کے آگے ماند پڑجاتا ہے. کون جانے محبت کے درد میں چھپی خوشبو۔۔۔!!! جو! جو جان جائے وہ جھک جائے، وہ مٹ جائے۔۔۔۔۔۔۔!!!​

درد کے ہونے کے احساس کئی سوالات کو جنم دیتا ہے! جب درد وجود بن جاتا ہے تو وجود کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔؟ اس سوال کی تلاش اور کھوج میں ایک بات ذہن میں آئی ۔۔۔۔! میں نے ایک کینگرو کے بچے کو زمین پر بھاگتے ہوئے پایامگر اس کے پاؤں زمین پر بھی نہ تھے ۔ مجھے لگا اس کو کوئی اٹھائے ہوئے ہے ۔میں نے غور کیا تو محسوس ہوا کہ اس حجم زمین سے سے پانچ انچ اوپر ہے اور کبھی لگا کہ وہ کسی کی آغوش میں ہے مگر مجھے اس طرح کی آغوش کی سمجھ نہیں آئی جو نظر نہیں آتی ۔ کیا کینگرو جس نے بچے کو اٹھایا ہوا اور اس کو وجود ختم ہوگیا ؟؟؟؟ یا یہ کہ وہ ایک دائرہ لطافت میں داخل ہوگیا ہے۔۔۔! کیا پھر میں یہ مان لوں کہ کینگرو ہی نہیں رہا ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ اس کا وجود نہیں ہے۔۔۔۔؟؟ مگر اس کے درد کا وجود تو ہے ۔ ہم گزشتہ سے پیوستہ ہیں اور جس رشتے سے پیوست ہیں وہ ایک درد کا اور تخلیق کا رشتہ ہے ۔۔۔۔۔!!! مگر کون جانے اس تخلیق کی اذیت ۔۔؟​


کون جانے گا ؟ کوئی تو ہو جو روک لے ! جب کوئی روکے گا نہیں تو اذیت بڑھتی جائے گی اور لامتناہی ہوگی ۔ اللہ ہم کو نظر نہیں آتا مگر اللہ سے ہمارا رشتہ درد کا ہے! تخلیق کا ہے ! خالق کو مخلوق سے محبت ہے ! مگر ہم کو اس کا احساس جب ہوتا ہے جب ہم درد میں ہوتے ہیں۔سارے رشتے اللہ جی سے درد کے ہیں ! ہم جھکتے اللہ کے آگے درد میں ہے مگر میرا درد اتنا نہیں کہ میں جھکوں ! میں تو دنیاوی سہارے لے کر درد کو سُلا دیتی ہو۔۔۔دل میرا صنم خانہ بن جاتا ہے ! اور کبھی اس میں بُت رکھ دیتی ہوں ! اقبال کو بھی یہی درد محسوس ہوا ہوگا۔۔!!!​


جو میں سر بسجدہ ہوا کبھی، تو زمیں سے آنے لگی صدا​
تیرا دل تو ہے صنم آشنا ،تجھے کیا ملےگا نماز میں​


دل تو صنم خانہ بنا مانگتا ہے سہارا۔۔۔۔۔۔۔ ! اور ہے یہ بڑا بیچارہ۔۔۔۔ ! روتا ہے۔۔۔ ! رونے دو ۔۔۔! ہنستا ہے۔۔۔ ! ہنس لینے دو۔۔۔ ! کرنے دو اس کو ! ہنسے یہ کھیل کر ۔۔۔۔! کہ ہے تو رونا اس کو ۔۔۔۔۔! تو تھوڑا سا ہنس لے۔۔۔۔۔۔۔ ! مستی کرلے ! مستی کرکے کیا کرے گا ! ہے یہ بڑا بیچارہ ! ناہجاز! دل کی تڑپ اگر تمثیل بن جائے اور غلامی کا تاج پہن لیا جائے تو کیا ہوتا ہے ! وہی ہوتا ہے جو شاعر کہتا ہے​

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا​
صبر ایوب کیا، گریہ یعقوب کیا​

جب دل درد سے معمور ہوجائے تو میخانہ بن جاتا ہے ! میخانہ چھلکتا ہے ! چھلک کر ٹوٹ جاتا ہے ! آواز تک نہیں آتی ! ایسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ !کیا ہے دل شکستہ رب کو عزیز بھی بڑا ہوتا ہے ۔۔۔۔۔!! اللہ دلوں کوتوڑتا ہے اپنے اصل سے جوڑنے کے لیے ۔۔۔۔۔!! مکمل دل میں دنیا اور ٹوٹا ہوئے میں اللہ کا بسیرا ہوتا ہے ! کرچی کرچی ہوتا ہے ! ہونے دو ! توٹتا ہے ! توٹ جانے دو ! مگر کیا ہے احساس ہونے دو کہ درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔! لوگ احساس بھی ہونے نہیں دیتے ۔۔ہم نےدرد کے آئینے کو سنبھال کر رکھا۔۔۔۔۔۔ ! غم ہوتا بھی تو انمول ہے نا! جب ہم دکھوں کو انمول کرکے ان کو بے مول ہونے سے بچالیتے ہیں تو اللہ جی ! اللہ جی ! خود کہتے ہیں ۔۔۔۔! کیا کہتے ہیں ؟؟؟ وہی جو ابھی لکھا ہے ! کیا لکھا ہے !​

تو بچا بچا کہ نہ رکھ اسے، تیرا آئینہ ہے وہ آئینہ​
جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئینہ ساز میں​

یہ لکھا ہم نے تو نہیں ! مگر یاد آیا ہے بڑا ! کہیں ہمارے دل ٹوٹا ہو تو نہیں ! مگر یہ بڑا سالم و قوی ہے ! اس میں بسا دنیا کا درد ہے درد ہے ! ارے !!! اس میں دنیا کی خاطر تو کوئی درد نہیں لیا ہوا۔۔۔۔ہم شروع سے اپنی دھنی اور خوش رہنے والے ! دھن تھی کہ مارکس اچھے ہیں کبھی ٹاپ کرنے کو سوچا نہیں تھا! ہمارے مارکس اچھے آئے ہم تو خوش۔۔۔ ! مگر ہمارے اساتذہ ہم سے خوش نہیں۔۔۔ ! ان بقول ہم کوٹاپ کرنا تھا ! سو ہم نے ان کے دکھ کا سوچا ہی نہیں ! اور کبھی سوچا نہیں انسان کو دوسرے کے دکھ کے لیے پیدا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔!!! درد دل میں پیدا ہوتا تو اپنے ہم عمروں کے لیے ! کہ چلو ۔۔۔۔۔! چلو ۔!!! آئنے سے پیار کا تقاضہ تو نبھ رہا ہے مگر تھی تو کرپشن ! ہم سب سے بڑے نقل خورے ! ہم نقل کروا کے اپنا اصل چھپا لیا کرتے تھے۔۔۔لوگ ہم سے آگے نکل جاتے مگر ہم کو اصل سے زیادہ ان کی پرواہ ہوتی ۔۔۔! اگر میں اور آپ ! سب مل کر آئینوں سے ، سبزے سے ! صحرا سے ! درختوں کی بریدہ شاخوں سے ! خزاں کے زرد پتوں سے ! بہار کی اولین خوشبو سے ! سرمئی آنچل پر بادلوں کے نقاب سے ! زمین پر پھیلے اشجار سے ! اُس کی تخلیق کے ہر روپ میں پنہاں درد کو سمجھنا شروع کردیں گے تب ہمارا شجر تخلیق سے رشتہ اور پیوستہ ہوجائے گا۔۔۔!​