اکرام
''اے میرے ہم شناس ! تجھے اپنی مٹی کی قسم ! تجھے اپنی ہجرت کی قسم ! تجھے اپنی بینائی کی قسم ! تجھے اپنی بصیرت کی قسم !''
''میں تجھے تجھ سے بڑھ کے چاہتا ہوں ۔تیری تکلیف تجھے بصارت دے رہی ہے ۔ انسان اضطرابِ مسلسل سے سیکھتا ہے ۔ مجھے اپنی غفاری کی قسم ! میں انسان کو اس کی حد سے زیادہ نہیں آزماتا ۔''
''میرے دلنشیں ! سن ! میری عطاؤں کی حد کی انتہا نہیں ہے ۔ میں نوازنے پر آؤں تو دوں زمانہ ! میری قدرت سے کچھ نہیں بعید نہیں ! کبھی سورہ القلم کو غور سے پڑھا ہے ؟ اگر پڑھا ہوتا تو میرے در پر سوال لانے کے بجائے حکمت کو سمجھتے سجدہ شکر ادا کرتی ۔۔''
''میں اس جہاں کو خالق ہوں ۔میں نے یہ جہاں سیر و تفریح کے لیے پیدا کیا کیا ؟قسم اس نور کی جس کو روح کی صورت امر کیا ہے اور قسم مجھے اپنے قلم جس کی سبب میں نے تقدیر کو رقم کیا اور قسم اس قلم کی جس کی سبب انسان کو لکھنا سکھایا ۔۔انسان نہیں جانتا ہے مگر اس کے اندر میرا نور چھُپا ہے ۔ وہ جو مشاہدات کرتا ہے اور اس کی زندگی جن تجربات سے سے گزرتی ہے اگر اس میں مجھے پاتا ہے تو میں بھی اس کو پاتا ہے ۔ آئنے کا آنئے سے کیا حجاب ؟ سوچنے والے سوچتے ہیں ! میں چھپا ہوا خزانہ ہوں کسی صورت مل جاتا ہے مگر میرے جلوے کے بغیر عبدیت کا حق ادا نہیں ہوسکتا ہے ۔۔۔''
''اے نور ازل !
آپ سے کتنے آئنے نکلے !
ایک آئنہ نور علی نور کی مثال
ترا جلوہ لیے ہوئے ۔۔۔
میرے نصیب کی محفلیں ؟
اے مولا کریم !
وہ محفلیں ! بڑی یاد آتی ہیں
میری قدامت مجھے رلاتی ہے''
سُن خاکی !
سن ذرا غور سے !
کیا میں نے نہیں کہا ہے کہ میں نے قلم سے علم سکھایا!
سب کچھ تیرے اندر ہے
کبھی غور تو کر !
سوال نہ کر اور حجاب نہ کر !
تو میرا اور میں تیرا ہوں
''مولا کریم ! آنکھوں کی اشک بیانی ! یہ سمندر کی طولانی ! یہ مقام تحیر ! یہ عبرت کدہ ہائے دنیا ! یہ رنجشوں کی بیانی ! ہائے مولا !
وقت ضائع کردیا ! میں اپنے جلوے میں مگن ہوں اور مجھے اس سے دوری تڑپاتی ہے ! اپنے حسن میں مست ہوں ! اپنی بصیرت کی کمی رلاتی ہے ! میں تیری آواز سنتی ہوں مگر آواز کی دوستی نہیں ہوتی مجھ سے ! ہائے یہ دوریاں ! ہائے یہ مجبوریاں ! کب یہ بیٹریاں دور ہوں گی !
سن خاکی !
لوح و قلم پر جو لکھا ہے وہ پورا ہوکے رہتا ہے ! اس میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگنی ! تیرے باغ میں مسرت کے پھول کھلیں ! کتنی دیر لگے گی ؟ وقت کی گردش دائرے میں مقید ہے اور سب پرانا تجھے بمع سود مل رہا ہے ! کیا یہ اکرام کم ہے ؟ تجھ پر انعام کم ہے کیا ؟ صبر و حوصلے ! ان کے ساتھ میرے راستے پر چل ! میں تجھے وہ سب دوں گا جو تیری چاہت ہے کہ تو نے پورا کرنا ہے جو میری چاہت ہے ۔۔۔۔ جتنا فرق مٹتا جائے گا ! خاکی تو میرے قریب ہوتا جائے گا ! پھر عالمِ حیرت میں داخل ہوتے تجھ پر وہ راز منکشف ہوں گے کہ تو بھی انگشت بہ دنداں ہو جائے گا ! سنبھل سنبھل کے چل اے زائر !
انسان جب اس دنیا میں داخل ہوتا ہے تو اس کی معصومیت مجھ سے قریب کیے ہوئے ہوتی ہے ۔جنت و دوذخ کا قریب سے مشاہدہ کرتا ہے ۔ وہ مجھے سوچتا ہے کہ اس کا خالق کون ہے ؟ یہ سوال اس کے دل میں ''ہم '' ڈالتے ہیں ۔ اس طرح کسی کو کچھ دینا ہو تو اس کی ''خواہش '' بھی ہم ہی پیدا کرتے ہونا ہے ۔ میری مملکت کے دائرے میرے قاعدے و اصول کے مطابق چلتے ہیں مگر اگر سب انسانوں کو ایک ہی اصول پر چلا دوں تو میری عطا ! میری جزا ! میری غفاری ! میری ستاری ! میری کریمی ! کون جان پائے گا ؟
کسی کو میں عفو سے ملتا ہوں کسی کی عیب پوشی سے تو کسی کو عطا سے ۔۔۔! میرا قانون کسی اٹل دائرے میں نہیں چلتا ہے بلکہ اس میں ''کمی و بیشی '' سے فرق پیدا کرنا کائنات کا اصول ازل ہے ! میں مالک ہوں تو عبد ! سب سے بڑا فرق تو یہی ہے ! پر دیکھ میں تجھے ستر ماؤں سے بڑھ کے چاہتا ہوں ! تو مجھے اسی طرح چاہے تو کیا حجاب رہے گا ؟ کیا نقاب رہے گا ؟ فراقِ یار بھی وصال ہے اگر تو مجھ سے محبت میں ہے اور وصال یار بھی فراق ہے اگر تو مجھےسے دور ہے ۔