انسانیت کی معراج
انسان کی زندگی میں لا تعداد واقعات ایسے آتے ہیں جو اس کو موت سے قبل موت کی حقیقت سے درکنار کرتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح زندگی ایسے مراحل کی آمد گاہ ہے جو ہمیں مرگ کی کیفیت میں زندگی بخش دیتے ہیں ۔ ہماری زندگی کبھی خواب بن جاتی ہے اور کبھی خواب سے نکل جاتی ہے ۔ کبھی جاگتے ہوئے ہم کسی اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جس کا زمان و مکان سے تعلق نہیں ہوتا اور کبھی زمانے ہماری سوچ میں قید ہوجاتے ہیں ۔ انسان کے پیٹ میں مچھلی جاتی ہے مگر کبھی مچھلی کے پیٹ میں انسان بھی ہوتا ہے ۔ درختوں کو انسان چیرتا ہے اور کبھی درخت انسان کو اپنے اندر سمولیتا ہے ۔ انسان کو موت آتی ہے تو کبھی عدم سے زندگی وجود لانے والا بھی انسان ہوتا ہے ۔ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے انسان کو موت آلیتی ہے تو کبھی نور کی ایک تجلی پہاڑ کو سرمہ کردیتی ہے ۔ سب انسان خالق کا آئینہ ہوتے ہیں مگر آئینہ کے آئینے کی پرواہ کون کرتے ہیں ۔ کثرت سے وحدت کی طرف جانا مشکل ہے اس لیے لوگ وحدت کا نعرہ لگاتے ہیں ۔ آئینہ سب میں خدا ہے کا مگر ہم سب کے دل میں اپنے بُت تراش دیتے ہیں ۔ جوں جوں انسان بت تراشی ختم کرجاتا ہے اس پر نور کی حقیقت کھلتی جاتی ہے ۔علم کی حقیقت لفظوں سے کھلتی ہے یعنی لفظ علم کی کنجی ہیں مگر ان کا ابلاغ ہر کسی پر مکمل نہیں ہوتا ۔ سورج کو کسی کی طلب نہیں ہوتی مگر سورج کی سب طلب کرتے ہیں ۔ اس لیے سورج کی محبتیں پھیکیں ہوتی ہے جبکہ چاند سورج کی روشنی کا محتاج ہے اور اس کی محبت کی قسمیں کھائی جاتی ہیں ۔ مستعار لیا ہوا حسن کس نے دیا ہے کبھی کسی نے پروا نہیں کی مگر حسن کس جگہ مکمل نظر آرہا ہے سب کو اسی کی پرواہ ہوتی ۔
یہی کائنات کی اصل حقیقت ہے کہ موت کے روبرو ہے ۔ جنازہ پڑا ہوا اور لوگوں کا ہجوم رو رہا ہے ۔ اللہ اکبر کی تکبیریں پڑھی جارہی ہیں ۔ ایسے چیخیں ماری جارہی ہیں جیسے جانے والا بہت عزیز ہے اور تھوڑی دیر بعد ہم انسان کی صفات بتانے میں محو ہوجاتے ہیں ۔ مرنے والے چلے جاتے ہیں ۔ ان کے نشان دل میں بس جاتے ہیں ۔ ان کے نشانات سے مشک و کافور کی سی خوشبو ہوتی ہے جن کی قبروں کی گیلی مٹی بھی وجود کو فنا نہیں کرتی اور نا ہی ان سے سرانڈ کی بُو اٹھتی ہے ۔ موت کی حقیقت محسوس کرو تو روح کانپ اٹھتی ہے اور خوشی کی انتہا پر جاؤ تو وہ بھی موت ہے ۔ انسان خیال میں گم ہوتا ہے تو کئی جہانوں کی سیر کرتا ہے اور بعض اوقات ایک جگہ رہتے ہوئے اس کے بارے میں لا علم ہوتا ہے ۔ لاعلمی ہی علم کی اساس ہے جس نے سمجھا اس نے علم حاصل کرلیا ہے اس نے گویا علم پر مہر لگادی ۔
لوگ حج کو ترستے ہیں تو کوئی مدینے کو ترستا ہے ۔ کوئی اپنے خیال کی وایوں میں ان جگہوں سے ہوتا جانے کہاں کہاں پرواز کرتا ہے ۔۔ کبھی حال اس پر آشکارا ہوتا ہے تو کبھی ماضی قدیم اس کے سامنے آجاتا ہے جس طرح لفظ قدیم ہے اسی طرح ابوالبشر بھی قدیم ہیں۔ ہر انسان جب اس دنیا میں آیا تھا یا آیا ہے وہ قدیم ہے ۔ بچہ اس دنیا میں بن ماں باپ کے بھی دنیا کی پہچان کرلیتا ہے کیونکہ وہ قدیم ہے ۔ اسی طرح کبھی قدیم کی طرف جاتے مسجد الاقصی پر نظر پڑ جاتی ہیں جہاں پر نمازیوں کی امام جناب رسول اکرم صلی علیہ والہ وسلم ہوتے تو کبھی بیت اللہ کا ہجوم نظروں میں گھومتا ہے تو کبھی نور کی شعاعیں آسمان کی جانب جاتیں محسوس ہوتی ہیں ۔۔ کبھی ملائک کا نور پر گمان ہوتا ہے تو کبھی نور ملائک کی صورت جھلکتا ہے ۔ کبھی حقیقت خواب کے ذریعے کھلتی ہے تو کبھی حقیقت ایک خواب بن جاتی ہیں ۔ مستقبل کے لیے بنائے ارادے مٹی کی طرح ڈھیر ہوجاتے ہیں تو کبھی تقدیر انسان سے اس کی مرضی پوچھتی ہے ۔ کبھی آنحضرت صلی علیہ والہ وسلم سے روح قبض کرنے کی اجازت چاہی جاتی ہے تو کبھی شداد کو لمحہ بھر بھی نہیں دیا جاتا ہے ۔
انسان انسان سے محبت کا دعوی کرتا ہے اور کبھی محبت کی حقیقت نفرت میں بدل جاتی ہے ۔ کبھی اولاد ماں باپ کی نافرنبردار ہوجاتی ہے تو کبھی ماں باپ اولاد سے لا پرواہی برتتے ہیں ۔ کائنات کا ازل سے اصول اختلاف ۔۔۔ میں حسن کا منبع ہے ۔ ایک انسان کو معراج کا تحفہ ملتا ہے تو ایک انسان کو اسفل سافلین کا مقام ملتا ہے ۔ ہر انسان اپنے عمل لیے دنیا میں آتا ہے اور اپنے عمل کے ساتھ اپنی آخرت کو دائمی کردیتا ہے ۔ اسی تضاد میں اللہ کی چھپی نشانیاں ہیں ۔ اس کو ڈھونڈنا اللہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کہتے کہ بے شک اس کے ذکر سے قلوب میں سکون آجاتا ہے ۔ جب قلب سکون پاتا ہے تو اللہ کی نشانیاں ڈھونڈنے کی طلب کرتے قربت کا درجہ پاتا ہے ۔ انسانیت کی بقاء انہی پہیلیوں میں رکھ دی گئی ہے جس نے ان پہلیوں کا امتحان پاس کرلیا تو گویا اس نے اللہ کا قرب حاصل کرلیا ہے ۔ راضی بہ رضا ایک درجہ ہے جو ہر شاکر وصابر کرتا ہے مگر محبوب ہونا اس سے بھی بڑا درجہ ہے ۔ نبی صلی علیہ والہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں اللہ کی رضا میں رضا ، اس کی ناراضی سے پناہ اور دوستی بھی اسی کے لیے رکھنی چاہیے ۔۔ جب ہم اس کو راضی رکھتے ہیں تو وہ بھی راضی ہوجاتا ہے ۔ نبی کریم صلی علیہ والہ وسلم کا امتی ہونا اس لیے فضیلیت کا درجہ رکھتا ہے کیونکہ میرے نبی کریم ﷺ تمام انبیاء اور رُسل سے اللہ کی رضا حاصل کرنے میں سبقت لے گئے اور جب انسان بازی لے جاتا ہے اس کی روح کی پرواز بُلند ہوجاتی ہے ۔ وہ کہیں اقبال کا شاہین بن جاتا ہے تو کہیں وارث کی ہیر ۔۔۔ کہیں اناالحق کا نعرہ بُلند ہوجاتا ہے تو کہیں انسان خود کو کعبہ کہنے کا درجہ دے دیتا ہے ۔
رضا کا درجہ حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا ہے ۔ یہ خاص الخاص قلب کو میسر ہوتا ہے جب دل خالص ہوجاتا ہے تب انسان کہتا ہے
''ھو احدا''
'' ھو الصمد''
انسانی قلب جب یہ کلمہ پڑھتا ہے تو اس کا اخلاص کامل ہوچکا ہوتا ہے جو اللہ کی قربت کی نشانی ہے ۔ اس کا دل 'احد ' احد ' کی صدائیں لگاتا ہے اور جب وہ اپنے رب کو واحد و یکتا مانتا ہے تو تب رب ء کائنات بھی اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ اس کا ارشاد ہے میری طرف ایک قدم بڑھاؤ تو میں عنایات کی بارش کردوں گا۔ انسان کا رب کا محب ہوجانا ہی انسانیت کی معراج ہے