اللہ آسمانوں زمینوں کا نور
اللہ نور السموت ولارض
وہ نور زمین و زمانے کا ہے
کام حقیقت کو پہچاننے کا ہے
جو اندر بھی موجود ،باہر بھی موجود
اسی کا کام راز افشاں کرنے کا ہے
انسان میں اس کا نور خاص ہے
نائب کا کام اس کو جاننے کا ہے
ساجد بھی انسان ہے ،مسجود بھی ہے
عشق کی سلطنت میں کام قربان ہونے کا ہے
اللہ نور السموت ولارض
ملائک میں اس کا نور ہے
خلائق میں اس کا نور ہے
دِلوں کو پھیرتا ہے غرور
تکبر لے جاتا ہے پھر نور
ڈھونڈتے رہتے ہیں ہم سرور
دیدار کروں گی اس کا میں ضرور
میں نے دیدار کرنا ہے اس کا ضرور
میخانے میں جام پینے سے ملا ہے نور
جلوہ نور دل میں ، کیا کروں غرور
سجدہ کرتے ہوتے رہنا نور نے مسرور
اس کا جلوہ پاتے پاتے جلوہ ہورہی ہوں
سجدہ عشق ادا کرنا عاشق کا کام ہے
ھو کا اندر سما جانا اسی کا کام ہے
اندر باہر کون ہے؟
میں کیا جانوں!
اوپر نیچے کیا ہے؟
میں کیا جانوں!
زمین کی گردش کا ردھم
جس میں چھپا ہجرت کا غم
زمین بڑی گردش میں ہے
اس کی گردش کو کس نے تھام رکھا ہے؟
میں کیا جانوں؟
میں ہوا کے دوش میں اڑتی رہوں
فضاؤں میں بسیرا میرا رہے
اس کے پاس جانے لگی ہوں
میں خود میں خود سمانے لگی ہوں
کیسے جلوہ خود کا میں خود کروں
کیسے سجدہ میں خود کو خود کروں
کیسے نماز خود کی خود پڑھوں
کیسے ذکر میں اپنے محو رہوں
اپنی حقیقت ''میں '' کے سوا کچھ نہیں !
میں ایک حقیقت لیے ہوں
میں حقیت کی ترجمان ہوں
میں خود اس کا فرمان ہوں
''کن '' سے تخلیق کی ہے
انما امرہ اذا ارادہ شیا ان یقول لہ کن فیکون !
اس کے ارادے سے ترتیل ہوئی
تخریب سے تعمیر ہے ہوئی
اس نے اپنے لیے چن لیا ہے
مجھے خود ہادی کردیا ہے
اس کے لیے بھاگوں چار سو
اندر جستجو محو رکھے کو بہ کو
میں اس کی یاد میں غرق ہورہی ہوں
وہ مجھے کہے جارہا ہے: فاذکرونی اذکرکم
اس کا ذکر میں کیے جارہی ہوں
اپنے ملائک سے کہے جارہا ہے
نور کا ذکر بُلند کرو !
مجھ پر سجدہ واجب ہوا
میرے ہادی نے میرا ذکر کیا
اس نے خودی میں جلوہ کردیا
وہ چار سو نظر آتا ہے
اندر اس کو کیسے دیکھوں
میں خود میں گم ہو چلی ہوں
میں محبت کی گمشدہ بستی
میری پاک ہوگئی ہستی
اس نے چنا مجھے یہ اس کی مرضی
میں نے ڈالی نہیں اس کو کوئی عرضی