کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک پل میں شمع جل کر راکھ ہوگئ ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ دل پر بوجھ سا پڑجاتا ہے کہ اب کچھ کرنا ہے اور کچھ قرض ہے ۔ اس ادراک کی افہام سے دل میں زلزلے آجاتے ہیں ۔ سیلاب اور زلزے اور پھر بھی خاموشی ۔۔۔۔
یہ آگہی کا عذاب بڑا عجیب ہوتا ہے مگر جب بھی ملتا ہے وہ خوش نصییب ہوتا ہے ۔
آگہی ایک عرفان
آگہی تو پہچان
اس سے ہو ایقان
یہ ذات کا وجدان
دل کہتا کہ اب مان
محبوب کی نہ ٹال
بس اس کے آگے زبان کو تالے لگ جاتے ہیں ، انسان جو مست خرامی ۔۔۔۔ خراماں خراماں باد صبا کی طرح مہک رہا ہوتا ہے اس کا دل جل اٹھتا ہے ، خوشبو بن کر جلنا کیسا ہوتا ہے َ
خوشبو بھی ، روشنی بھی
جستجو میں مدہوشی بھی
اس آڑ میں اک بے بسی بھی
پھیل کر رہے گی روشنی بھی
تن کو چھوڑ دو۔۔۔ من بڑا اداس ہوگیا ہے ، سارا سمندر آنکھ کے بند میں بندھ گیا ہے ۔ ہائے ! بند کیسے کھلے گا، ہچکیاں کب لگیں گی ، روئی بدن کا ذرہ کب اڑے گا۔ اور ذرہ کب ، کہاں کہاں اڑے گا۔ اس کی بساط ، مگر اڑے گا اور مہک کر روشنی دے گا۔ اس میں تن کا جلنا شرط ہے تو شرط سہی ، ہم کو تو یہ شرط بھی ماننی ہے کہ تن ، من کا جلا ایک دروازے سے کھڑا اس کو کھول چکا ہے اور دروازے کھلنے پر ایک لق و دق صحرا ہے ، مگر یہ صحرا دروازے پر کھڑے رہنے سے اچھا ہے ، صحرا کے طویل مسافت کے بعد ایک اور دروازہ اور آگہی و عرفان کے در کھلتے جائیں گے ۔ درد کا راستہ و سفر شروع ہے ۔ ساری شوخی و مستی ہیچ ہوگئ ہے ۔ اب بے بسی میں مزہ ہے اور اس میں اک نشہ ہے ، شراب کا نشہ کون چھوڑے گاَ؟ اس کی لت جس کو لگ جائے تو بس چھوٹتی نہیں ۔ قطرہ قطرہ قلزہ لگتا ہے اور اس قطرے میں ڈوب جانے کو من بھی کرتا ہے جبکہ ذات رل جاتی ہے اور رل بھی جائے تو اس کو رل جانے دو۔۔۔۔ یہ سفر بھی ایک اعجاز ہے اور رب کا شکریہ اس نے کسی ذرے کو روشنی دی ۔ ورنہ ذرہ کیا حیثت رکھے ۔