Friday, December 4, 2020

شدم ‏چوں ‏مبتلائے ‏اُو ‏،نہادم ‏سر ‏بَہ ‏پائے ‏اُو

شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُو۔۔۔

برگد کے درخت کے پاس ایک اللہ کا بندہ بیٹھا ہوا آہیں بھر رہا تھا۔ بانسری بجائے جارہا تھا اس کی بانسری کی درد سے پُر آواز قافلے والوں نے سُن لی۔جنگل میں رات کے وقت کے بانسری کی آواز نے چار سُو چاندنی بکھیر رکھی تھی ۔سالارِ قافلہ نوجوان تھا اور موسیقی کا دلدادہ تھا۔ اُس کے پاس آلتی پالتی مار کے بیٹھا اور کہا کہ :اُس آواز میں جو درد بھری چاشنی ہے ۔وہ مجھے کسی ساز سے نہ سُنائی دی ۔ اس کا راز کیا ہے ؟

عجب نشاطِ درد و کیف و مستی کے عالم نوجوان کو یک سکت دیکھ کر نگاہ دور پیپل کے درخت پر جمالی : سازندگی میرے تن کے ساز سے ہے اور گھپ اندھیرا من کا سانس روکی رکھے میرا ۔ جب تک سانس رُکے میری تب تک ساز چلتا رہے ۔ سازندگی میرا شیوہ ہے اور میراث بھی ۔

سالارِ قافلہ نے سوچا کہ بندہ سٹھیا گیا مگر باوجود اس کے اس کے پاس بیٹھا آسمان کو تاکتے ہوئے بولا اور کہا آسمان پر سب اچھے ستارے ہیں اور ان کی روشنی سے جہاں رُوشن ہے ۔ کاش ! میں بھی رُوشن ستارہ ہوتا !!!

ستارہ ! اُس نے گول دائرہ بنایا اور بولا کہ اس دائرے میں آجا تاکہ میں سازندگی کی قصہ سُنا سکوں اور جو یہ نغمہ سن لے! وہ یہ کہ '' کاش '' کی 'ک' کو مٹا کر ، ''الف'' کے ساتھ وصل کرکے دنیا میں شفقت کرکے ، آخرت میں شافعی ہوجاتا ہے ۔اس کے چہرہ کی طرف آنے والے سوال کو روک دیا اور کہا کہ دائرے میں آجانے کے بعد تماشا دیکھنے کی اجازت ہے مگر نہ زبان کھولنے کی اور نہ سوال کرنے کی ۔۔۔ قصہ سازندگی کہاں سے شروع اور ختم ہو ؟ یہ میں اے سالار ! تجھ کو بتانے سے قاصر ہوں !!! مگر کچھ بچا کچھا میرے پاس سرمایہ سازندگی کا تجربہ ہے ، اس کو میں سُنائے دیتا ہے ۔

سالار قافلہ بڑے غور سے سے اُس سازندے کی بات سننے میں محو ہوگیا کہ اتنی اس کی آواز پر اس کو حضرت داؤد علیہ اسلام کی آواز کا گمان ہوا کہ کہیں وہ جنت میں بیٹھا اس شیریں آواز سے قرانِ پاک کی کسی آیت کی ، کسی نشانی کی بابت کچھ پوچھ رہا ہے اور وہ بتائے جا رہے ہیں ۔ سازندہ ِبرگد نے اسے غور سے دیکھا کہ جیسے اس کے خیال کو جان لیا ہو۔ اور بولا کہ بے شک وہ جنت کے حُدی خواں ہوں گے کہ ان جیسا نغمہ سرا اس دنیا میں ماسوا ایک کے کوئی بھی نہیں آیا۔ یہ تو ایک بادشاہ کی بات تھی مگر کچھ سازندے صرف اپنے لیے بجتے ہیں اور کچھ دنیا کے لیے۔۔ مگر جاتے جاتے ہوئے بادشاہِ وقت کو بیٹے روپ میں سبق سکھا جاتے ہیں ۔

آؤ ! اس دائرہ میں ایک اور دائرہ میں نے کھینچا ہے ! تم کو اگلے دائرے میں آنا ہوگا۔ اس طرح سازندگی چلتی رہے گی ورنہ حق کی بات سننے والا کوئی نہ رہے گا اور جب آواز سُریانی نہ ہوگی تو دل کے نور سے جہاں میں کون نور پھیلائے گا؟

اب کے سالارِ قافلہ کی آنکھوں سے اشک رواں تھے اُس نے سازندگی کی ابتدا کی اس وقت سے اور بولا کہ اے برگد نشین! دلنشیں آواز کے مالک!!!! میرا دل ہے کہ جنگل میں برگد کے ساتھ لگ کر پیپل کے درخت کو تاکوں!!! اور دائرہ تیسرہ خود بناؤ !

خاموش ! دائرے کبھی بھی خود کھینچے نہیں جاتے جب تک کہ اجازت نہ ہو ! جتنے کی اجازت تھی تجھ کو وہ مل گیا مگر آج کے بعد اپنی مرضی سے لکیریں کھینچیں تو سمجھیں کہ یہ سازندگی اب تجھ پر ختم ! سب کی چاہتیں ہیں مگر ان چاہتوں کے دریا کو ایک سمندر میں ڈال کر اُس سمندر کا حصہ بن جا ! اس سمندر میں ڈوب کر اپنی ہستی کو فنا نہ کرنا ! مگر غوطہ خوری کرنا۔ پانی بھی زندگی اور خشکی بھی زندگی ہے ۔ خشک و تر دونوں کو ساتھ لے کر چل ! اسی میں بقا ہے ۔ اب اٹھ !

کہاں؟
میخانہ چلیں ! رند ساز بیٹھے ہیں کب کے !!! میں تیرے انتظار میں تھا ۔ جسم دائروں میں رہے۔۔۔!! دو روحیں جسم کو چھوڑ چکی تھیں ۔ جسم پھر بھی زندگی کے حامل تھے ۔ دونوں جنگل سے ہوتے ہوئے ، دریاؤں سے ہوتے ہوئے ، صحرا میں پہنچے ! یہاں رقص بسمل جاری تھا ، ساز کی لے جانے کس مطرب نے چھیڑ رکھی تھی مگر نغمہ سریانی تھا۔ ساقی پیمانے پے پیمانے  تقسیم کیے جارہا تھا ، اور جہاں کے رند شراب پی پی کر مست و بے خود رقص کر رہے تھے ۔ ساقی نے شراب میں نشاطِ درد کی افیون ڈال رکھی تھی ۔ برگد نشین تو داخل ہوگیا مگر سالارِ قافلہ وہاں کھڑا برگد نشین کو دیکھ رہا تھا جو باقیوں میں کھو چکا تھا ۔ اچانک اس کو ایک آواز آئی

حیدریم قلندرم مستم
بندہ مرتضی علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم
مَنَم محوِ جمالِ اُو،
نمی دانم کُجا رفتم
فنا گشتم فنا گشتم،
نمی دانم کجا رفتم

اس کے بعد سالار اس آواز کی لے پر ایک دھاگے پر چلتا ہوا ساقی کے پاس پہنچا کہ اس کے پاؤں دھاگے نے رنگین کر دیے تھے ۔ ساقی سے شراب کیا لیتا وہ اس کے جمال میں کھو گیا !!! ایسا کہ پاؤں کے زخم کے احساس نے اس کے دل سے چیخیں نکال دیں ۔ ساز کی لے پر اس نے رقص بسمل شروع کردیا ۔۔ بے خودی میں یہ کہتا رہا کہ ''' پیشوائے تمام رندانم ، منم محو جمالِ او ''' من ! من! من! کرتے ہوئے تمام مست و بے ہوش گرگئے مگر سالار کہتا رہا کہ '''شدم چوں مبتلائے اُو، نہادم سر بہ پائے اُو'''