Thursday, December 3, 2020

میخوار ‏کو ‏میخانہ ‏لایا ‏گیا ‏ہے

مئے خوار کو میخانہ لایا گیا ہے
شہِ ابرار کا سوالی بنایا گیا ہے
باب العلم نے اسے تھام رکھا ہے
سیدالعشاق کے کے ساتھ چلنا ہے
حیدار کرار کی زمین پر حسین پھول
جس کی چمن، چمن نگر، نگر دھول
ان کا خون عشق حقیقی کی نشانی
تاریخ نے لکھی شاہد کی کہانی
طیبہ کی زمین پر آنکھ کھولی
ان کا چرچہ کیے یاں واں  ہولی
تیغ وسناں میں ماہر ، خلقِ عظیم کا حامل
عاشقِ کن فکاں کی ہستی ہے کامل
نور نے ان کے ہاتھ بیعت کر رکھی ہے
ان سے عشق کی خلعت لے رکھی ہے
محسنِ ہستی پیار کرنے کے ہیں قائل
بھیجتے نہیں سوالی کو بنا کے سائل
ان کے ہمراہ کربل کے میدان چلی
گلاب کی خوشبو ان کے فیضان سے ملی
کھلا چمنِ بہاراں میں اک اک پھول
دہن پھول ، لب پھول ، دل پھول
حسینؑ میرے دل کی کائنات ہیں
لا الہ اللہ کی سلطنت پر تعینات ہیں
حسین علم و الم کی حکمت ہیں
حسینؑ لا الہ اللہ کی شہادت ہیں
ان کی باتوں میں چھپی روایت ہے
ان کا حلم ، علم ، قلم عبادت ہے
خاکِ حسینؑ خود میں طبیب ہے
خاکِ حسینؑ عشق کی تشبیب ہے
حسینؑ ، حسنؑ علی کے چمن کے لالہ زار
جن سے نکلے عیسیؑ، موسیؑ جیسے بار بار
حسنؑ نورِ حقیقی کی جمالی نشانی
حسینؑ نور حقیقی کی جلالی نشانی
علیؑ نورِ یزدانی کی مکمل کہانی
فاطمہ ؑ کا نورانی سارا گھرانہ
ان سے پایا عالم نے دانا دانا
محمد ان شہسواروں کے سردار
محمد غمخواروں کے ہوئے میخوار
محمد سے دین الہی ہوا مکمل
محمد خلق حسنہ کی نشانیِ اکمل
اللہ ھو اللہ ھو اللہ اللہ ھو
اللہ ھو اللہ اللہ ھو اللہ ھو اللہ
ھو کی سدا دل نے لگا دی
ھو نے دل میں دھوم مچادی
ھو مجھ میں آج بہت بول رہی ہے
ھو مجھ سے آج کچھ کہہ رہی ہے
ھو کی محبت سے میں لکھ رہی ہوں
ھو کی حکمت کہ میں یا ھو ! یاھو !
اللہ ! اللہ کیا کمال کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! مجھے مست حال کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! مجھے شوخ و چنگ کردیا ہے !
اللہ ! اللہ ! ساز سخت کردیا ہے
اللہ ! اللہ ! میں تیری تلاش میں نکلی
اللہ ! اللہ ! میری اندر تیری شبیہ نکلی
میں تیری گمشدہ بستی بنتی گئی
میرا پتا گمشدگی لکھتی گئی
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میں تیرے دم سے ہوں ،میں تیرا ساز ہوں
ایک جام میں مکمل میخانہ تھما دیا
میخانے کو پھر نیا جام پلا دیا
ایک جام کی نشانی حسینؑ سے ملی
ایک جام کی نشانی حسنؑ سے ملی
ایک جام ؑعلی کے دم سے ملا ہے
اک جام جہاں محمد ص نے دینا ہے
ان کے در سے در نہ چھوٹے گا میرا
محمد کے در پر کاسہ تھامے کھڑی
ان کی سوالی سنا رہی قوالی
مجھے دیکھ کے وہ مسکرا دیے
!بولے ! کیا ہے تیری مست حالی
تنگیِ حال پر کیا کیا شوخیاں اپنالیں
ان کی مسکراہٹ سے دل کے غنچے کھلے
چمن در چمن خوشبو کی جھونکے ملے
ان کی خوشبو ابر بن کے برس رہی ہے
ان کی محبت سے نور مہک رہی ہے
وہ پیارے شہ ابرار ، میرے مرشد حق ہیں
وہ پیار مئے خوار ، میرے غم خوار ہیں
وہ پیارے شہسوار ، حسین کے نانا ہیں
وہ پیارے شہسوار فاطمہ کے بابا ہیں
صدیق رض کو ان کے دم سے ملے کاسہ
وہ کاسہ جہاں کے دے رہا آسرا
محمد کی حیا کا عکس عثمان رض کو ملا
محمد کے جلال کا آئنہ عمر  رض میں پایا
علی رض نے آپ سے علم کا کاسہ پایا
عشقِ اویس کی شہادت محمد نے دی
بلال رض کی محبت سے زمانہ ہوا گھائل
حمزہ رض نے دلوں میں گھر بنا لیے
عضو عضو سے سینکڑوں گواہ بنا لیے
آئنہ ساز ہستی اصحاب کو ملی
ہر آئنہ خود میں اپنا اصل نکلا
عباس رض نے علم کی دستار سنبھالی
عمار  رض نے فقر میں شہنشاہی کی
زید نے بیٹے کی نشت سنبھالی
غلامی سے کیسی فضیلیت پالی
محمد کے غلاموں کا شمار نہیں
ان کا یاروں سا کوئی یار نہیں
آزادی کا پروانہ غلامی کے سر کیا
جو آپ کی صحبت میں ہوکے رہ گیا​