Monday, February 28, 2022

عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا

 عشق نصیب ہو جسے ، مر کے بھی چین پائے کیا 

درد جسے سکون دے، نازِ دوا اٹھائے کیا



مرگ ہو جسکی زندگی، چوٹ اجل کی کھائے کیا

میں ہوں بجھا ہوا چراغ، کوئی مُجھے بُجھائے کیا


ٹوٹا ہے دل کا آئنہ، عکسِ خیال لائے کیا

شعر کوئی بنائے کیا؟  مایہ ء فن لُٹائے کیا


غم سے مفر کِسے یَہاں، دیکھے جِگر کے زخم کون

کس کو سنائیں حال ہم،  اپنے ہی کیا؟  پرائے کیا؟


ساعتِ وصل حشر تھی  صدمہ ء زندگی بنی

بیٹھے ہیں روتے رہتے ہم، کوئی ہمیں رلائے کیا 


تاب نہیں سنانے کی،  دل کی تمہیں بتانے کی 

حالِ ستم زدہ کوئی غیر کو پھر سنائے کیا 


سخت ہے منزلِ سفر، رستہ نہ کوئی نقشِ پا

 تُو جو ہے میرا رہنما، رستہ مجھے تھکائے کیا

Tuesday, February 8, 2022

احساس کہاں ہے ، لباس کہاں ہے ؟

 احساس کہاں ہے ، لباس کہاں ہے ؟

زندگی ہے جسکا اقتباس، وہ کہاں ہے؟
لہو کی بوندوں میں یار کا آئنہ ہے
تشنگی بڑھی بے انتہا ، قیاس کہاں ہے؟
ربط احساس سے ٹوٹا سجدے کے بعد
ڈھونڈو میرا نشان ، اساس کہاں ہے؟
جُنون کو خسارے نے دیا پتا منزل کا
حساب چھوڑو  ،دل  شناس کہاں ہے؟
-----------------------
---
جواب میں ، احساس میں کیا الجھے
پھولوں کو نئی خوشبو ملتی  جائے
رنگ بکھرتے ہیں بارش کے بعد
وصال کے  بعد ملال ہیں مٹتے
بہاراں ہے ! یار شکوے کیسے
قبا میں بند پھول پر جگنو کیسے
صبا میں پتے ہیں کھلتے رہتے
شجر کو ملے سندیسے کیسے کیسے
----------------------

صدائے نغمہ ھو جب گونجتا ہے ، جبل میں کہرام آجاتا ہے ۔زمین پر اساس پاتے یہ جبل بُلندی کا حامل ہوجاتا ہے ۔ ذاکر کے ذکر پر خوش ہوتے شرابِ طور عطا کردیتی ہے ۔ نور سے ہستی کا رُواں رُواں کھو بیٹھے ہستی ، فرق ختم ہوجائے ، تو مشاہدہ بھی ایک ہوجاتا ہے ۔

تکمیل کا سفر قربانی کی دھوپ میں کاٹا جاتا ہے ۔ لوحِ محفوظ پر لکھے حُروف کی سیاہی وقت کو تھما دی جاتی ہے ۔ لٹکا دیے جاتے ہیں نیزے پر سر ، نعش سولی پر ، مٹی کے بُت سے نغمہِ ھو بول اٹھتا ہے ۔ موت کی زندگی کی عطا ہوجاتی ہے ۔

اندھیروں کو رُوشنی کو ہدیہ دینا ہوتا ہے ۔ احسان پر بسمل کو تڑپنا بھی سرِ عام ہوتا ہے ۔ کان کُنی کا عمل وسیلوں سے شروع ہوجاتا ہے ، فیض عام ہوجاتا ہے ، چھید در چھید کیے جانے کے بعد اندھیروں میں روشنی سے محفلِ نور کی ابتدا ہوجاتی ہے

محفلِ نور ساقی کے دم سے چلے
بادہِ مے سے سب داغ دلِ کے دُھلے


آئنہِ جمال ، اصل ُالاصل جمال میں مدغم اصل ہوجاتا ہے ۔ مقامِ فنائے عشق میں حیات دوامی ، اسم لافانی کی عطا پر شکر کا کلمہ واجب ہوجاتا ہے ، خوشبو کا بکھر جانا کِسے کہتے ہیں ، صبا کو سندیسے کیسے دیے جاتے ہیں ، غاروں میں اندھیرا ختم ہوجانے کے بعد سب در وا ہوجاتے ہیں ۔


مرا وجود تیرے عشق کی جو خانقاہ ہے
ہوں آئنہ جمال ،تیرے ُحسن کا کمال ہے


۔ صدائے ہست کے میٹھے میٹھے نغموں کا سلسلہ جاری رہنا ہے ، سجدہ در سجدہ سلسلہ جاری رہنا ہے ، سویرا ہوجانے کے سویرا پھر کیا جانا ہے ۔


سجدے میں ایک اور سجدہ کریں
سر اٹھنے پر ہم نیا سویرا کریں 
مہِ تاباں کی سُرخ پلکوں پر
تلوں کے بل پہ رقص کریں 

مصور نے عبد کی تصویر میں جمال کے نگینوں سے سجایا ہے ۔اسکا احسان ہے کہ جمال دیا ، اسکا احسان کہ کمال کی رفعت دی ۔ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے ۔جہاں جمال بسا دیا جاتا ہے ، رسمِ شبیری کو نیا وقت دیا جاتا ہے۔نماز کے لیے قبلہ مقرر کر دیا جاتا ہے ۔سرِ طور سُحاب روشنیوں کی برسات کرتے ہیں ، اقصیٰ کے میناروں میں جگہ دے دی جاتی ہے ۔

اے سرِ زمینِ حجاز ! تجھے سَلام ! سینہ مکے سے مدینہ کردیا جاتا ہے ۔محبوب کے محبوب کی جانب متوجہ کردیا جاتا ہے ۔ یہ مساجد ، یہ جبل ، یہ مینارے ، تیرے روشنی کے استعارے ، لہو ان سے گردش مارے ، کہاں جائیں غم کے مارے ، کرم ہو مرجائیں گے دکھیارے ۔ کپڑا جل کے راکھ ہوجائے تو ہوا کو اوپر اٹھنے نہیں دیا جاتا ہے ، چنگاری سلامت رہتی ہے ، راکھ بکھرتی نہیں ہے ، خوشبو دھیمی دھیمی بکھرتی ہے ۔

خیال کی اہمیت

 کاش پوچھے کوئی لطف محبت،

 لمحوں میں ہوتی ہے شَناسائی



انسان انسان سے مخاطب ہوتا ہے اور پتا نہیں چلتا ہمیں کہ درمیان میں حجاب ہے اور خدا کلام کرتا ہے ـ جب نفس کا حجاب اٹھتا ہے یا اٹھتا چلا جاتا ہے یا وہ خود چلمنوں سے جھانکے تو لطفِ آشنائی سے واسطہ پڑجاتا ہے. خدا سے ہمکلامی گرچہ عام نہیں مگر یہ یہ محیط مکان سے لامحیط لامکان تک چلتی ہے. انسان چاہے جتنا گنہگار ہو، جس پر لطافت کی باریکیاں عیاں ہوجاتی ہیں وہ جان لیتا ہے ـــ ایسے اوقات جب وہ عیاں ہو تب تب کیفیات استعارہ بن جاتی ہیں ـــ ذات خود صاحبِ استعارہ ہوجاتی ہے ـــ کتنے اداکار ہیں جو کھیل میں شامل ہیں ... دیکھو مگر جب تک اداکاروں میں سچ چھپا نہ ہو تو فریب ہو جاتا سب کام اور اللہ فرماتا ہے 


واللہ خیر الماکرین

خیال ملنے لگ جاتے ہیں، حق کے خیالات صورت صورت مل جاتے ہیں ــ کسی کو جذب صابر پیا کلیری سے مل جاتا ہے تو کسی کے قلم میں ہجر کی آتش رومی سے کہیں خسرو سے مل جاتی ہے ... خیال فیض ہوتے ہیں.  جب برتن صاف کردیا جاتا ہے تب منسلک کا اتصال ہوجاتا ہے یعنی کہ نسبتوں کا فیض، نسبتوں کو مکمل کردیتا ہے ـــــ فیض کیسے مکمل ہوتا ہے؟ جب نفس پر روح کا خیال غالب آجائے ـــ نفس کہتا ہے لا الہ ـــ روح کہتی ہے الا اللہ ــــ فنا مکمل ہوجاتا ہے جب یہ خیال کو شاہِ دو جہاں صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کچھ مل جاتا ہے ـــــ 

ذات کی پریتم اچھی ہے اور خود کی نفی ذات کیجانب لیجاتی ہے ـــــ تب وجدان رہنما ہوجاتا ہے ... تحت الشعور کی روشنی پھیلنے لگ جاتی ہے ــــ وجدان مانند عرق نیساں کا موتی ـــ جس پر نور کے چھینٹے اسکو ایسی روشنی دیتے کہ سب حجابات ہٹا دیے جاتے ہیں ــــ  یہ مقام ایسا ہے کہ افلاک کے گرد زمین کی گردش تھم جاتی ہے  اور سکتہ حیرت میں وہ وہ دکھا دیا جاتا ہے جسے کبھی شعور دیکھ نہیں سکتا


وسعی کرسیہ السماوات والارض 

اسکی کُرسی کیا ہے؟  جب کہ وہ یہ بھی فرماتا ہے کہ 


اللہ نور السماوات والارض 


کرسی ـــ استعارہ ہے اسکے اختیار کا کہ جَہاں چاہے جیسے چاہے وہ چلائے کہ ہرشے میں نور اسکا ہے ـــ ہر شے میں خیال اسکا ہے ـــ ہر شے میں اختیار اسکا ہے ـــ  کرسی کا درک و فہم ان پر کھلتا ہے جن کو وہ صاحب امر و دلِ بینا عطا کردیتا ہے ــ دل بینا کا شعور ایسی فراست عطا کرتا ہے جس کے لیے فرمایا گیا 


مومن کی فراست سے ڈرو ـــ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے 


تب بادل کا گرجنا الگ اور برسنا یعنی رحمان و رحیم سے قہاری وجباری کی فہم مل جاتی ہے تو کہیں بجلیاں نشیمن گرادیتی ہیں ..کتنے دل ٹوٹ کے تسلیم کا وضو کرلیتے ہیں ..چاہے وہ شہد جیسا میٹھا گھونٹ بن کے ملے.یا نیزے پر سرکٹانا پڑے ـــ بندہ اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا ہے.


انسانوں کی کہیں مثال پہاڑ سے دی جاتی ہے تو کہیں شجر سے دی جاتی ہے ــــ شجر زیتون ایسا درخت ہے جسکو الہام سے شبیہ دی جاتی ہے ـــ جب انسان کا قطبی ستارہ تاریکی سے سحر میں طلوع ہوجاتا ہے یعنی کہ رابطہ مکمل پختہ ہو جاتا ہے تب الہام ذرائع سے ملتا جاتا ہے ــــ جب ذریعہ ذریعہ رہنما ہونے لگتا ہے تب یہ سمجھ لگتا ہے کہ آیت اللہ ـــ اصل میں وجہ اللہ ہے ـــــ جس کو صورت صورت میں یار کی جلوہ گری مل جائے تو اس سے بڑی کامیابی کیا ہو!اس لیے عارفوں کی زمین کا آسمان خدا بذات خود ہوتا ہے 


اللہ نور السماوات والارض 



لن ترانی سے من رانی کا سفر طے ہوجاتا ہے اور آنکھ کو بینائی مل جاتی ہے جب دیکھنے والے ہمیں دیکھیں ... آنکھیں اسکو پہنچ نہیں سکتیں مگر وہ آنکھوں کو پالیتا ہے اور نور.عطا کرتا ہے ــــ جس سے دل دید کے قابل ہو جاتا ہے



انسان کا دل عرش جیسا ہے اور جب جلوے کا احساس ہو تو علم ہوتا ہے وہی محرمِ راز ہے ـــ جہاں جہاں الہام ہے ـــ جب وہ پرواز دیتا ہے تو بیضائی ہالے دل پر کیے رکھتا ہے...جہاں جہاں اسکا جلوہ ہو ـــ وہ مانند پانی.شفاف ہوتی ہے ـــ دراصل یہ راستے وہ خود طے کرتا ہے تاکہ وہ اپنی دید کرے ـــ اسلیے اسکا دل پر مجلی ہونا.راز ہے!  یہ راز کی بات ہے نا وہ محرم راز ہے! وہ دکھ سکھ کا ساجھی ہے ــ وہی ماہی ہے ــــ  ذریعہ ذریعہ اس سے نور چھلکتا ہے چاہے یہ صورت ہو،  چاہے کوئی تحریر ہو، چاہے پتھر ہو   چاہے تصویر ــ  جب نور ملتا ہے تب دل وضو کرتا ہے، پانی مل جاتا ہے اور بندہ کہتا ہے کہ پانی ہے!  پاکیزگی ہے!  طہارت ہے! 


قران کا لفظ لفظ آیت ہے اور روح خود اک آیت ہے ـ  آیت آیت سے مل جائے تو نور علی النور کی مثال سب در وا ہونے لگتے ہیں ..

دید

لوگ بھاگ رہے ہیں،  
بلکہ مانگ رہے ہیں،
کیا مانگ رہے ہیں،  
دید کی بھیک،  
ممکن نہ تھی دید آسان،
جب  حاجرہ کے چکروں کا لگنا
اسماعیل کے پا سے زم زم کا نکلنا،  
موسی کا خود شجر سے سراپا آگ بن جانا 
اللہ نور سماوات کی تمثیل تھے 
یقینا ہم نے سبھی سرداروں کو اسی برق سے نمو دی،  یہ شہ رگ سے قلبی رشتہ تھا ... .
جس پہ مقرر اک فرشتہ تھا.   
جس نے جان کنی کا عالم دو عالم میں سمو دیا،  
یہ عالم موت تھا،  یا عالم ھُو تھا 
دونوں عالمین کے رب کی کرسی نے الحی القیوم کے زینے دکھائے،  
باقی وہی ہے،  فانی تھا کیا؟
یقینا فانی کچھ نہیں،  
مٹی تو اک کھیل ہے،  
روح کے ٹکروں کا کٹھ پتلی بننا تھا 
قالو بلی کا آواز کن کے آوازے سے پہلے،  
تخلیق آدم اور اسماء کا القا ء 
ذات کی تجلی،  صفات کی تجلیات 
دونوں آدم کو مل گئیں اور  شیطین کو کہا،  
ساجد ہو جا،  سجدہ میرا تھا،  قضا کرکے،  منصف بنا؟  
نہیں،  خطا تو آدم نے کی تھی،  آدم کی توبہ اور شیطین کا تکبر،  در سے در ملنا،  بند ہونا،  قفل لگنا،  
یہی لوگ شرالدواب ہیں،  
صم بکم عمی کے تالے ہیں ان کے دل میں،  
ہم نے بدترین کو کیسے کھڑا کیا،  اپنے سامنے کہ للکارے ہمیں اور ہم نے کیسے اسکو اُس تماشے کے پیچھے رسوا کردیا، جس کا آخر زیاں تھا، جس کی ابتدا بھی زیاں ..... افسوس شیطین نے زیانی کا سودا کیا اور آدم کو ہم نے نور نبوت کے فیض سے نوازا،  
پہلے عارف کی معرفت محمد صلی اللہ  علیہ والہ وسلم پہ مکمل ہوئ،
یہی توبہ کی مقبولیت کا وقت تھا،  
حوا کی زمین سے کیسے کیسے عارف نکالے،  
آدم کی پشت میں،  کتنے پیامبر تھے،  جن کو حوا نے دیکھا،  .
آدم کو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جد ہونے پہ فخر ہوا،  یہی ہمارے حکمت ہے کہ کسی کو کم،  کسی کو زیادہ سے نوازتے ہیں!  
اے وہ ذات،  آگ لگی ہے!
اے وہ ذات، جس نے مجھے چراغوں سے تبسم دیا،  
اے وہ ذات،  جس نے روشنی سے تیرگی کا فرق دیا 
اے وہ ذات،  مقصد کیا تھا میرا؟  
سلسلہ ء ہدایت کے واسطے، میں تو خود ہدایت کی متمنی،  میں تو خود اوج معرفت کی خواہش مند ...
اے دل،  دل کے واسطے کائنات ہے،
دل، محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  اس دل کے  کتنے حصے پھیلے؟  
جتنے حجاز مقدس کے گگن سے رشتے تھے،  
جتنے کربل کے  شاہ نجف سے رشتے تھے،  
جتنے لاھوتی کے ملکوتی سے سلسلے،  
جتنے عجائبات کا،  عالم سے سلسلے،  
رابطے ہوتے ہیں،  نور کے نور نبوت صلی اللہ.علیہ والہ وسلم ہے،  جس کو ملے ہدایت،  اسکو ملتی ہے اس نور تک رسائی

ایلف اور سیپ

 حصہ اول 

پسِ تحریر


ماؤنٹ حینا میں اک غار میں نو سو سال کی بڑھیا رہتی تھی، اسکا اک مشغلہ تھا!  اس کی ماں جو تین سو پینسٹھ سال کی تھی روز اس کا مشغلہ دیکھا کرتی تھی ... غار سے باہر جاکے آسمان کو دیکھنا اور کہنا



"ابھی صبح نہیں ہُوئی "


یہ کہتے وہ بُڑھیا واپس دم سادھ کے بیٹھ جایا کرتی تھی .... اک دن وہ اسی سکتے میں تھی،  اس کی ماں نے اسکو جھنجھوڑ کے اُٹھایا ... اس نے آنکھ کھولی تو حیرانی سی حیرانی تھی ... وہاں اسکی ماں نہیں کھڑی تھی،  وہ کھڑی تھی .... اس نے ماں کی شکل میں خود کو دیکھا تھا .. وہ اک بڑھیا کی شکل میں خود کو دیکھ رہی تھی ..اس نے خود پر نظر ڈالی، بڑھیا کا نام سیپ تھا اور اسکی ماں کا نام ایلف  تھا .


.. ایلف اور سیپ میں کوئی فرق نہ رہا تھا، نو سو سال گزر چکے تھے ....


"آج میں تمہیں برسوں کا راز بتاؤں گی " ایلف  بولی

"کیا؟  " سیپ نے کہا


ایلف اٹھی اور گول بیضوی کرسی سے چھری اٹھا کے دیوار پر دے ماری،  وہاں پر سوراخ ہوگیا ....!  نیلا پانی نکل شُروع ہوا اور غار کی ساری دیواریں سبز ہوگئیں ... ایلف اور سیپ اک انجانے جہاں میں داخل ہوگئیں ...  وہ جہاں دُنیا تھی .... گویا وہ دنیا میں نہیں رہتی تھیں.

❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️❤️


اسکی اور ماں کی ہمیشہ سے لڑائی رہی ہے، ماں کہتی تھی کہ روٹی گول ہے اور وہ کہتی تھی " نہیں، یہ چوکور ہے!  ماں  کہتی کہ انڈا نیلا ہوتا ہے مگر وہ کہتی سبز ہوتا ہے!  ماں کہتی درخت سیاہ ہوتے اور وہ کہتی درخت نیلے ہوتے ہیں .....


جب اس نے جنم نہیں لیا تھا، تب بھی وہ اپنی ماں کے ساتھ رہا کرتی تھی. اک دن ماں نیلے آکاش تلے بیٹھی تھی اور کچھ کاغذ پکڑ کے بنا رہی تھی


اس نے پوچھا "کیا بنا رہی ہو؟  "

ماں بولی " سیپ "

اس  نے کہا سیپ کیا ہوتا؟


وہ بولی "سیب اک پنجرہ ہے، جس کے اندر درد قید ہوتا ہے "


اسے تب سے لگنے لگا کہ وہ اپنی ماں کے اندر قید ہے،وہ  اسکی وہ روح ہے، جو اس سے پہلے پیدا ہوگئی تھی تاکہ اس کے اندر وجود رہتے اپنی شناخت کے دھن کو کالے سے سفید کرسکے  ....


اس نے اپنی ماں کو بولا "ماں، تم کو مصوری سے کیا ملتا ہے؟  "


ماں بولی " وہ کاشی ہے نا،  وہ مسکراتا ہے جب میں رنگ کینوس پہ اتارتی ہوں "

 

اس  نے پھر کینوس پر اک سیپ ابھرتا پایا جو کہ زرد رنگ کا تھا، جس کے ارد گرد سفید ہالہ تھا، جس کے اک حصہ کھلا ہوا تھا اس میں سے سرمئی سی روشنی نکل رہی تھی....!


ماں نے قربانی دے دی!  اس نے وہ سیپ اسے دے دیا اور کہا اس کی حفاظت کرنا ورنہ کاشی ناراض ہوگا! سیپ  اور ایلف دونوں میں تب سے دوستی ہوگئی!  وہ کہتی کہ  انڈا گول ہے توسیپ  کہتی ،  "ہاں، ماں تو ٹھیک کہتی ہے!  وہ کہتی  کہ درخت سبز ہے تو  جوابا وہ بھی کہتی کہ  ہاں ماں سب اچھا ہے!


جب وہ اپنی ماں کی وجود میں ہلکورے لے رہی تھی،  وہ  تب بھی اس سے بات کیا کرتی تھی! 

اک دن  ماں  نے اس سے کہا "ظلم کا زمانہ ہے،  ستم کی آندھیاں ہیں، تم اس دنیا میں آکے کیا کرو گی؟  "


اس نے  اسکے وجود کو جھٹکا دے دیا،  ماں  نے ہنستے ہوئے اسے دیکھا اور کہا کہ ماں برداشت کرلیتی ہے،  دنیا بُہت ظالم ہے! 



 مائیں سچ کہتی ہیں  کہ  دنیا بُہت ظالم ہے!


 لوگ اس کے گرد بیٹھے تھے جیسے وہ کوئی دیوی ہو ...مگر لوگ اسکو سراہ نہیں رہے تھے بلکہ پتھر مار رہے تھے!  سیپ تب اک سال کی تھی!  اس  نے آنکھوں سے اس کو اشارہ کیا مگر وہ تو پتھر بنی ہوئی تھی!  اک پتھر اسکی پیشانی پہ لگا اور خون نیچے بہنے لگا ..جب وہ نیچے بہا، جو اس نے دیکھا  وہ لوگوں نے نہ دیکھا ...خون میں اللہ کا نقش تھا!  اسے  یقین ہوگیا کہ اسکی ماں اللہ والی ہے!  ظلم ہو رہا تھا .. شیطان کا حج تھا وہ،  لوگ پتھر اک مقدس دیوی پر پھینک رہے تھے!    جب وہ مدہوش سی ہونی لگی تو یہ حج مکمل سا ہوگیا .... ہجوم ختم ہوا تو اس نے ماں سے پوچھا


"تم نے کیا کیا؟  "

وہ بولی "چوری پکڑی تھی "

اس نے کہا کہ کیسی چوری؟

جوابا اس نے کہا " دو کھلاڑی جوا بازی میں جیتنے لگے، میں نے ان کی بازی پلٹ دی "


وہ بولی "پھر کیا ہوا؟


ماں نے کہا کہ  شیطان نے مرے ہاتھ باندھ دیے اور کہا ہمارے رسوم کے خلاف چلنے والے  پر "کرو " کی رسم واجب ہوجاتی "


میں نے پوچھا "کرو کیا ہوتی؟


وہ بولی "شیطان کہتا ہے  کہ چوری اک مقدس کام ہے اور جو ولی اسکو روکے گا،  اس پہ پتھر پڑیں گے ... "


تب مجھے احساس ہوا "کرو " کی رسم کیا ہوتی ہے!  یہ شاید ابن آدم سے چلی رسم ہے جو روحوں کے ساتھ جنم لیتی ہے


 ....!

سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے. ...

 سر زمینِ حشر سے خاک کے پتلے کو ہّوا دے.  ...

موتی سمجھے کوئی، آبِ نیساں سے جِلا دے.  ..

شراب جاودانی ملے، درد ہجر کو ایسا مزّا دے ..

اَحد کی زَمین سے جبل النور تک منظر  دکھا دے ......

حِرا ہی آخری مقام ٹھہرے، مسجد حرم میں جگہ دے ....

جو ہو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبت سے معتبر 

اس کو اعتبار کی آخری حدّ تک پُہنچا دے ....

شام ہجر کی سحر میں پل پل وصل کا مزّا دے .... 

آہ!  وہ لطفِ چاشنی ....  مرگِ وصل میں، دکھ کا نشہ دے ......

مئے عشق ہے! آسانی سے نَہیں ملتی ..... 

مسافت کے اندھیروں کو صبح نُو سے مِلا دے


یہ  آئینِ نو کی شمع! یہ دلِ حزین ملال سے پُر .... 


فضا میں خوشبو ہو، آنکھ میں نَمی ہو،کسی بات کا گلہ باقی رہے، کچھ گلہ باقی ہے؟


اوج دے، بندگی کے جوہر خاک میں بَسا دے ..... 


مقدر لکھا جاتا ہے خیالات سے، منور ہوتا ہے جہاں دل کی کائنات سے، جہاں زَخموں سے نَڈھال، ہر آنکھ شَرر بار،ہر دل مشکبار ....کیا جلوہ کی تاب  نَہیں؟  


گناہ گار ہستی کے درد بھی بیشمار، ہجرت بھی نہیں، لذت وصلت بھی نہیں،  جبلِ رحمت کسی نعمت سے کم نہیں 



ایک صدا پردہ ء تخیل چاک کرتی ہے،  حجابات بے ردا کرتی ہے اور تابانی سے عالم منور کرتی ہے اور رخِ لیلِ کو بے نقاب کرتی صبح کا عندیہ دیتی ہے. 



ضوئے شمس سے زمانہ روشن ہے .... نئی شام کا ماہتاب مدام شوق سے منور ہے ... نئی صبحیں تارِ حریر ریشم کی ، نئے جلوے یقین کے ....بگڑی بنتی ہے،  آنکھ دیکھتی ہے، مستی ء الست کا نشہ، دائم جسکا جلوہ، احساس کا تلاطم برپا...


جام جم پلائیے، بادہ خوار بنائیے ،سادہ قصہ ہے اور درد والی بات، ساتھ بس ساتھ کی نوید سے آہنگ نو سے ملا دیجیے


ُحسن کی نُمو ہورہی ہے اور ضو سے مو مو میں روشنی کو بَہ کو ......، وادی ء حِرا میں ایسے مثال کو لایا گیا کہ حُسنِ بے مثال کے سامنے مثال ہیچ!  وہ عالم لامثال سے باکمال حُسن کے مالک اور ملکوتی حُسن نے اندھیرے میں جگہ جگہ ایسے مطالع روشن کیے کہ جہاں جہاں کرن وہاں وہاں سورج تھا. یہ سورج جس کے دھارے سے تمام ستارے کرنوں کی صورت بکھیر رہے تھے .. وہ کائنات ہے اتنی بڑی ہے کہ تمام کائناتوں کو سموئے ہُوئے ہے.اس حسن میں تاب کتنی ہے کہ کہیں دل شق ہوکے پڑا رہے اور انگشت کے اشارے سے جڑ جائے پھر، کہیں مسکراہٹ سے دل میں کھائیاں اور کھائیوں میں روشنی کے انبار ...



رنگ نے رنگ سے مانگا اور دیا گیا رنگ 

.رنگ تو اللہ کا  بہترین ہے. یہ  اپنے جذبات کا رنگ ہے.. مصور نے بَرش کینوس پہ ڈالے تو رنگ سات تھے مگر بکھرا انبار گویا قوس قزح ہو .... اس نے کینوس پر خصائل کے رنگ ایسے بھرے کہ خصائل مجموعہ ہائے خوش خصال مثال باکمال ہے . اسی سے نکلے باقی تمام رنگ،  جذبات کے،  احساسات کے رنگ.  


رنگ کی مانگت 

رنگ کی پہچان 

وہ ملے جو اپنا  

اپنا تو ہے سچا 





.

فقیر مرد حرم سے مری ملاقات ہوئی

 جب انسانی ہستی قرب کی متمنی ہو اور خواہش کی لگام بے زور ہوگئی تو وجہِ شوق کچھ بھی باقی نہیں رہتا ہے.



کھو جائیں گے کیا؟ بحر ہو جائیں کیا؟ہستی کھوئی ہے ، زندگی سوئی ہے! آدمیت سے ناطہ کچا دھاگا ہے اور ٹوٹ جاتا ہے. ایک یاد ہےجو سنبھال لیتی ہے ورنہ کیا بے سکونی کی لہروں کا تموج!  یہی جینے کا کمال ہے . ہمنشین،  دیکھ رنگ میرا،  ڈھنگ میرا، چال میری، حال میرا



نور سے ملنا، کیا سعادت ہے! نور سے ملنا ہے بس اسلیے زندہ ہیں، زندہ ہیں کب کے مرگئے ہیں آرزو میں، آرزوئے ہستی سے بکھر رہے ہیں سندیسے،  جہاں چلے وہیں پر رکے اور وا لبوں سے ادا ہوا ...

 

تم  سے لذت وصال، میں حیرت وصال

تم دودِ ہستی ہو، میں ہوں شوقِ کمال

 یہ آرزو کی کتاب، دل کفن مانند گلاب

یہ سحاب آرزو ہے،  باردگر برسنا چاہے گا

یہ دل کی زمین ہے، ترے ابر کی منتظر 

میری ہستی میں خوشبوئے لعل و زر ہے

میں مانند کافور جلتی شمع کا دھواں

میں رزم گاہ کا ترانہ، جذبات سے نڈھال


اسی شوق میں اجنبی سرزمین سے تعلق رکھنے والے مل جاتے ہیں ..اور پکار ابھر آتی ہے، لفظوں کے بھیس میں نمودار ہوتی ہے اور حقیقت آشکار ہوجاتی ہے


فقیر مرد حرم سے مری ملاقات ہوئی، یوں ہوئی کہ بیشتر سر ِ مناجات میں کھوئی ہوئی تھی  روح ضربوں میں ...، مضراب ہستی اول، عشق کی لو پیش پیش ، میں خواہش شوق نور، تو خواہش شوق حضور، ترا دل حجابات سے ماورا، مرا دل حجابات کی زمین، تو شوق  قدیم ہے، میں رستگان رفعت مشعل، میں طفل مکتب، تو مشعلِ نور .. تری حقیقت کامل کیا ہے؟ یہ جاننا ہے کہ جانتے ہیں!



اے نورِ ازل، تو روحِ رواں، تو  سالارِ قافلہ ، میں ترے حلقہ عشق کا وہ روشن دیا، نہیں جس کے ساتھ سے مفر شب نور کو، دائم تیرا سفر،  قائم ترا وصال، تری باکمال ہستی، مری نیم شبی..... تو پیش حق ہے میں شوق منظر، ترا عشق ازل ہے تو حق ابد ہے ، تو جلتا دیا ہے چراغ الوہی ہے،تو معبود حق کی آیتوں کی خاص  آیت،تو حق کا تراشیدہ قلم، سخن ور تو، پیامبر تو.....! 

میں خاک! تو خاک میں سجی افلاک کی شمع


سنو!

یہ مشعلِ میم!  یہ سرمہ ء وجدانی، طوفان روپ بدل بدل کے آتے نہیں ... طوفان ہجرت کے،  تیر جدائی کے ... سہارا ہے مشعلِ میم ...


سن شعر گو! 

حکایات بہت ہیں!  اضطراب کم ہے

داستان سن!  دھمال کے ساتھ! 

اب مرا عشق ضربوں سے آگے ہے

مجھے کہنے کو اک ھو  کافی ہے

میرا عشق  مگر سرمدی ہے


حریمِ اول سے حریمِ دوامت لے لیں، کچھ اور قدامت کا نور لے لیں.  کچھ حکایات سے منور سینہ کرلیں. کچھ تو روشنی لے لیں.  خواہش یہ رہی  کہ شعور شعور نہ رہے،  لاشعور لاشعور نہ رہے.  روحی ہو، صبوحی ہو،  شبنم ہو!  رفعت ہو. پیش حق لکھوں ایسے کہ وہ مسکرائے!  بس اجازت خامہِ سخن درکار ہے. دل تو کب سے فگار ہے آنکھ بھی اشکبار ہے.


 گگن کب سے لال ہے، سایہ افگن محبوب کے بال ہیں،  وہ محبوب جن کے میم سے  تراشا گیا زمن در زمن وقت کو،  وہ محبوب جن کی میم سے زمانہ شناسا ہے.......

Monday, February 7, 2022

پری چہرہ

 جتنے الیکڑانز کائنات کے مدار میں ہیں، 

جتنے سورج کہکشاؤں میں ہے، 

جتنے دل زمین پر ہے 

اے دل!  قسم اس دل کہ سب کے سب انہی کے محور میں یے 

جتنی روشنی ہے، وہ جہان میں انہی کے  دم سے ہے 

لکھا ہے نا، دل، دل کو رقم کرتا ہے 

لکھا ہے نا، جَبین سے کَشش کے تیر پھینکے جاتے ہیں

لکھا ہے نا،  سجدہ فنا کے بعد ملتا ہے 

اے سفید ملبوس میں شامل کُن کے نفخ سے نکلی وہ  روشنی

جس روشنی سے لامتناہی کائناتوں کے دَر وا ہوتے ہیں 

تو سُن لیجیے!  


ان سے نسبتیں ایسی روشن ہیں، جیسے زَمانہ روشن ہے 

جنکی قندیل میں رنگ و نور کے وہ سیلاب ہیں کہ سورج کا گہن بھی چھپ سکتا ہے اور چاند اس حسن پر شرما سکتا ہے


وہ ا روشن صورت درد کے بندھن میں باندھے  اور خیالِ یار کے سائے محو رکھتے اور کبھی کبھی فنا میں دھکیل دیتے ہیں


تو سُن لیجیے! 

تو سُنیے، خاک مدینہ کی چمک کا اسرار

مہک و رنگ و نور سے نگہ سرشار 

روئے دل میں آئے صورتِ یار بار بار 

کرے کوئی کیسے پھر اظہار 

وہ مصور کا شہکار   


جب کوئی خیال میں جھک کے قدم بوسی کرے تو فَلک کو  جھک کے سَلام کرتا پائے!     

محبت میں کوئی نہیں تھا، وہی تھا ..

یہ خاک کچھ نہیں،  وہ عین شَہود ہے 


ہم نے مٹنے کی کوشش نہیں کی کہ  یاد کرنے کو وہ پانی زمین میں شگاف نہیں کرسکا ہے وگرنہ کیا تھا فنائیت میں "تو باقییست "کا نعرہ لگاتے رہتے ....


اے زاہدہ، عالیہ، واجدہ، مطاہرہ، سیدہ، خاتون جنت! 

کتنی عقدیتوِں کے افلاک وار کے کہتی ہوں .... سلام 

اے آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم 

کتنے دل یکجا ہوتے ہیں، کڑی در کڑی در سلسلے سے مل کے سلام بھیجتے کہتے ہیں کہ جلوہ جاناں پر لاکھوں سلام


مصطفوی چراغوں کی تجلیات دِیے، شبیر و شبر کی کنجی

 

کتنے مومنین کی بنات آپ کے  پاس آنے کو بیقرار ہیں،  روح صدقہ ء جاری پانے لگے گی اور کہے گی کہ نواز دیجیے، 


جب کوئی چہرہ ماہناز کو دیکھے  تو جذب کتنی کائناتوں کے در وا کرتا ہے ... وہ کائناتیں لیے ہیں 

وہ حجاب میں عین نمود ہیں........

لن ترانی سے رب ارنی کے درمیان ہستیاں بدل دی گئیں تھیں مگر اے نور حزین! فرق نہ دیکھا گیا، جب زمین میں شگاف پڑتا ہے تب کچھ نیا ہوتا ہے ...میرے ہر شگاف میں  نمود ہے،


یہ  کمال کے سلاسل میں تمثیل جاودانی ہے کہ رخ زیبا نے دل مضطر کے تار ہلا دیے ہیں، مضراب دل ہو تو کتنے گیت ہونٹوں  پر سُر دھرنے لگتے ہیں، کتنے دل جلتے گلنار ہوتے یقین کی منزل پالیتے ہیں اور دوستی پہ فائز ہوجاتے ہیں ..


صورت شیث میں موجود   یعنی کہ حق کا جمال کتنا لازوال ہے، تحفہ ء نَذر بعد حاصل اک دوا ہے ... 


میں نے ساری کائناتوں سے پوچھا کون مالک 

کہا اللہ 

میں نے پوچھا کون میرا دل؟

کَہا بس وہ، بس وہ، بس وہ


بس میں نے فرق سیکھ لیا ہے مگر فرق تو وہی ہے جسکو میں نے کہا ہے، درحقیقت اک رخ سے تصویر دیکھی کہاں جاتی ہے.


یہ دل جھک جاتا ہے تو اٹھتا نہیں ہے 

پاس دل کے اک نذر کے کچھ نہیں کہ یہ لفظ ادعا ہیں ..یہ دل سے نکلتے ہیں تو دعا بن کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ...


میری آنکھ سے دل کے نیل دیکھے؟

دل کے نیل پہ افلاک گواہ ہیں 

جی ان سے خون رس رس کے ختم ہوا کہ جدائی کی تیغ نے جان نکال دی ہے اور سارے وہ پل،  جن سے کھڑا رہنا تھا، بیٹھ گئے ہیں 

وہ کشتی جس کے بادبان طوفان لے جائے وہ کیسے چلے 

بس کشتگان رہ وفا نے لکھی ہے تحریر کہ بتادے بنام دل حیدری آواز یے کہ وہ ہیں،  ہاں وہ نقش رو ہیں،  پری چہرہ روبرو ہے ...

Thursday, February 3, 2022

بی ‏بی ‏مریم ‏کے ‏نام ‏خط ‏

خط،  نمبر ۷ 
بسلسلہ ء قلندری،
بہ تارِ حریر مادرِ قلندر 
کیف آور لہر ہے، سکون بخش چاشنی ہے  ... ہیولا نورانی ...مادر،  آپ کی رُوشنی سے دل میں تجرید کی ابتدا ہوتی ہے  .یوں لگتا ہے، روح آپ کی روح کے ہیولے سے ایسے وجود ہوئ جیسے اک وجود کے دو ٹکرے ہوں    ...
مادر،  آپ کے نور سے شاخ حرم پہ بیٹھی بلبل کو ساز نگر سُر ملا ہے    ... پیاری مادر، آپ کی صورت، مری صورت ہے! آپ بہت خوبصورت ہے ...ارض حرم کی مٹی کتنی زرخیز ہے، عیسوی نور ارض مقدس میں تخلیق کیا گیا.    مادر آپ کا سایہ مسلسل چاہیے، آپ کا حوصلہ دائم چاہیے!  اے مومنین بنات کی مادر، اب مجھے وہ قوت پرواز دیں، جس سے اک عیسوی روح قندیل پاک سے نئے وجود کا شرف پائے تو موجود ہو،  آپ حوصلہ ہوجائیے،  مجھے جو نوید جانفزاں سنائی گئی بار بار، اسکو مقبول ٹھہرنے کا وقت آچکا ہے، آپ رب کعبہ سے کہیے کہ نور کو ہمت دینے کو،  نور کے ساتھ کیجیے .... اب ہجرت کا اذن ہے .. بی بی مکرم،  اپنی روشنی کی چادر اوڑھا کے نیند سی نیند کردیجیے ...جواب ضرور دیجیے گا 
آپ کی نور 
آپ کے جواب کی منتظت

بنام ‏زوجہ ‏اطہر ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم ‏

خط نمبر ۴ 
سیدہ خدیجتہ الکبری زوجہ ہادی برحق ختم الرسل شہِ ابرار جمالِ کائنات مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ..

آپ سیدوں میں سید ہیں،  آپ کا احساس شفقت سے بھرپور ہے جیسے مری نادانی پہ مسکراتے شفقت فرماتی ہیں اور اس سے دل کو ڈھارس ہوجاتی ہے کہ بری سہی مگر آپ کی نظر کرم سے سیکھ جاؤں گی اور قابل ہوجاؤں گی .... آپ میری تڑپ سے خوب واقف ہے،  یوں لگتا ہے آگ نے روح وجود کو پکڑ لیا ہے اور سینے سے بڑھتے وجود تمام اس کی لپیٹ میں ہے اور سینہ جل جل کے مَدینہ ہوا چاہتا ہے ...سیدہ بی بی جان!  مجھے غار حرا میں محفل  حضوری چاہیے سیدی مجھ کو استاد عطا کیجیے  کہ استاد  بنا مری حضوری نامکمل ہے کہ استاد کے بنا شاگرد کا داخلہ ادھوارا ہے ...مری بے چینی کو قرار دے دیں ...مجھے خرید لیں اور رکھ لیں غلامی میں.   غلامی کی سند درکار  ہے ...
آپ کے جواب کی منتظر 
آپ کی نور

اپنی ‏تحریر ‏

اپنی تحریر اُٹھا،  اٹھا کے ورق ورق گردانی کر .یہ مصحف داؤدی ہے جس کو ترنگ مل گیا ہے. یوم الست کسی روح کو ملا ہے قرآن پاک  .اسکا سینہ تجلیات کا مسکن ہوا ہے. تجھ کو علم مگر نَہیں کہ خُدا تُجھ سے کیا چاہتا ہے جب تک کہ نوری قندیل ترے سینے میں ہے. یہ قندیل ایسی ہے جو شرقی ہے نہ غربی ہے. یہی ذات کا ستارہ!  
مبارک ہو تجھ کو چُنا گیا ہے 
مُبارک ہو تو نیک ساعت کی پیدائش ہے 
مُبارک ہو تجھ میں خاص نور ہے 
تجھ کو علم ہے کہ خدا نے کچھ انس و جن ایسے رکھے ہیں، جو کہ اس کے لیے مخصوص ہیں  خدا کی خاص ارواح ہیں.

میں اگر ترے کن کی محتاج نہ تھی تو کن فیکون سے پہلے کی پہچان کو عدم سے وجود میں لایا کیوں گیا؟  بتا؟ مجھے چاہا کیوں گیا؟  مجھ میں تری چاہت کے نیلے چھینٹے ہیں!  یہ خاص تری الوہیت کے ساز ہیں جو مجھ میں بج رہے ہیں!  بتا کہ تو چاہتا کیا ہے مجھ سے؟


تجھے علم نہیں کیا؟
تجھے علم نہیں ترا مقصدِ حیات؟
تجھے علم نہیں کہ تونے مجھے چاہنا ہے اور پہچان کو معلوم کرنا ہے .. کیا تو نے فنا کو سیکھا نہیں ہے!  تو محبت کے خمیر میں ڈوبا زیتون کا وہ نسخہ ہے جس کو شاخِ انجیر سے توانا کیا گیا ہے.    اب چل!  ترے ہونے سے تری تخلیق کا مقصد پتا چلے

میں نے مقصدِ حیات میں فقط تجھے تو مانگا ہے اور تو نے مجھے کسی اور جگہ پھنسا دیا. میں نے تجھے دیکھنا چاہا ہر جگہ تو شجر سے تو بول پڑا 

میں تری پاک وادی میں ہوں اور نفس کا مقام تجھ پر کیسا ہے؟  
حجاب میں نہیں ہے کوئی مگر افکار میں تو نے ہمیں پایا ہے. دھیان ہے نا تری قوت اور قوت سے تو نے چاک گریبان کرکے مجنون کہلوانا پسند کرلیا جبکہ تجھے تو چاہا گیا. تجھ کو مگر علم نہیں ہے!  اب تو علم تو ہونا تھا تجھ کو

یہ اچھا کھیل ہے جو مری ذات سے چل رہا ہے! کبھی سامنے تو کبھی پہاڑ اوجھل مصداق ہو تم. تم ہو کے بھی ساتھ نہیں میرے تو کہاں ہو تم؟
کھیل کہاں ہے آتشِ نمرود میں کود جانا؟  
کھیل کہاں ہے خود سے ملنے کے لیے ہر حد پار کرجانا 
محبوب کی تسبیح آسان کہاں ہے؟ .
چل کر میری تسبیح

تسبیح دل کے پھڑ کے کہا جارہا ہے 
اللہ سوہنا سائیں 
اللہ مٹھن سائیں 
اللہ پیارے موہن پیا 
اللہ رگ رگ میں روشن آیت 

تسبیح عمل کی ممکن نہیں نا


تسبیح مناجات بھی ہے 
تسبیح گردش حادثات میں ممات سے گزر کے شکر بجا لانا بھی ہے 
تسبیح موت سے گزر کے پاس آنا بھی ہے 
تسبیح میں حاضر ہونا ضروری ہے 
تسبیح میں عادت نہیں،  فطرت ضروری ہے 
تسبیح میں کھڑے ہیں دوستان علی 
عمل میں کھڑے ہیں دوستا نِ بکر 
صدیقیت مثال طٰہ کی تجلیات لیے سیدنا ابو بکر  
وہ عثمان غنی حیا کی مکمل تصویر کی تاثیر لیے

تسبیح میں علی عالم کی کائنات کا اجالا ہیں 
تسبیح میں اللہ والے ہیں 
تسبیح سے ملا اک پیام کہ ذاکر ہوتا ہے اللہ کا پیارا اور مذکور ہوجاتا ہے 
تسبیح ذاکر و مذکور کی کہانی ہے

محب و محبوب اور تم کون ہو؟

الہیاتی تسلسل میں اک بات غور طلب ہے. وہ یہ بشر بشر کا آئنہ ہے. نقطہ وری میں مہارت اس آئنے سے ہے. تم سب آئنے ہوجاؤ تو وہ بچے گا کیا؟ حجاب ذات سے اٹھ سکتا ہے مگر اندھے بہرے دل کو سنائی دکھائی کیا دے جو سوچ نادم کرے اسکو پڑھ لو دل میں اس کو کافی ہے. ہر شے میں اسکی دید کے علاوہ کیا ہوگا ...

منجمد نقاط کے دائروں سے بے کلی دل میں وجود لیتی ہے. اپنے دائروں کو بھی حرکت دو تاکہ نقاط تحریک پکڑیں دل کی کتاب میں ایک سکہ ہے. وہ سکہ قفل میں ہے اس سکے میں جو لکھا ہے اسکو پڑھو تم میں سے ہر اک پاس جوہر ہے. وہ جوہر ذات کے قریب لیجائے گا
بس جذبات تھم جانے دو
بس احساسات کی رو پر قلم کو دھیما کرو. بس روانی میں بحر دل سے آبشاریں وجود دو.بس خلق الانسان...تم کو جود دیا گیا اور تم مجھے نہیں جانتے. بس سوچ سے سوچ مل جانی ہے. دھیان سے دھیان تو بے دھیانی کا وجود، موجود کی مدھانی سے جانا ہے. دھیان اللہ ہے.اللہ دھیان میں ہے. وہ فکر بن کے نمود پائے ہوئے. یکتا کے پاس چلو
چلو دل میں
تم سب قلم ہو ..
ن! والقلم یسطرون
قلم کو دیکھو تو اللہ یاد آجانا
: قلم پر لکھا ہے
وہ سطور جو تم پر لکھی گئی ہیں راکب اسکو پڑھے تو ثاقب بنے
راقب ثاقب کیسے بنے؟
یہ سب محسوس پر وار ہوگا قران کی اس اک آیت کو خود پر بیتنے کے لیے عرصہ چاہیے عمر چاہیے عمل تک
[ اللہ والے کہتے ،یہ محب و محبوب کے درمیان کا کلام ہے محب ومحبوب کی سرگوشی ہوجاؤ
تم میں محب و محبوب کا اجتماع ہوگا تو کلمہ مکمل ہوگا تب سمجھ آئے گی الم کیا ہے
بس چلو جانب طور
تمھارے دل موسویت کا چراغ لیے ہیں عیسویت کی قندیل لیے ہیں اور محمدی تجسیم لیے ہیں
یہی نور مکمل ہونے کا بارہا ذکر ہے قران پاک میں.
یہیں قسم ہے والتین! والزیتون! والطور سنین
پھر کہا واھذ البلد
اس شہر مکہ کی قسم
] چار نشان جلیں ...بس پھر
ثمہ رددنہ اسفل سافلین سے لقد خلقنا الانسان فی احسن التقویم کی سمجھ لگے
چلو جانب طور. طور ہے مخمور
اللہ ہم سب کے حجاب میں نقاب ہے
حجاب کی اوڑھنی اترے گی تو کہو لیل کا حجاب اٹھا ہے مگر لیل میں
گواہی دو گے سورج رات میں موجود ہو
: گواہ ہو جاؤ گے رات ہمیں دکھتی ہے مگر روشنی کے آگے اندھیرا حجاب ہے. اندھیرا حجاب ہے
انکار کے اندر اقرار کی روشنی موجود ہے
بس اسکو ماننا ہے ..انکار کے اندر اقرار ہے اندھیرے میں روشنی ہے
[ تو وادی طوی جس وادی کا تم کو کہا گیا جوتے اتار دو
تو پھر جوتے اتارنے نہیں پڑیں گے
جس کے لیے تضاد ختم اس کے لیے دوئ ختم
بس عشق جلوہ نما. عشق رونما. عشق جنم در جنم کی پوٹلی سے نکلا دھاگہ. عشق کھیل کے کٹھ پتلیوں کا

نذر

جس کا دل خالص تھا اس کی نذر جلا دی گئی. خدا کی راہ پر چلنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ہابیل و قابیل دل میں بیٹھے ہوِں. خدا دل میں کسی شیثؑ کو نہیں بھیجے گا جب تک دل جلے گا نَہیں. دل جَلے گا تو وہ ملے گا۔۔۔۔۔۔. اس دل کے پاس اس کے ہونے کا دھواں جہان میں پھیلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. وہ تم میں سے جس کا چناؤ کرتا ہے اس کو جلا ڈالتا ہے. پھر اس دل میں صورت شیثؑ وہ خود ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! جب نوحؑ کی کشتی میں تم سوار ہوگے تو تمھارے مویشی بھی ساتھ جاتے ہیں سامان زیست چل سکے ورنہ کشتی نہ ہوتی بلکہ زمین و بحر میں کچھ نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔. جب تارے زمین پر ٹوٹ کے گرتے ہیں جب اندھیرے سے روشنی کو نکالنا ہوتا ہے تو کسی اسماعیل کو پدرانہ شفقت سے محروم رہنا پڑتا ہے. پھر تمھارے اندر درون میں تمھاری ماں سرزمین حرم میں چکر کاٹتی ہے. وہ جہاں جہاں چکر کاٹتی ہے وہاں سے آب زم زم نکل آتا ہے. زمین سے پانی کا نکل آنا آب شفا ہے .. اس آب شفاء سے دل دھل جاتا ہے. خدا غم کی انتہائی گھڑی میں تم میں "ہونے " کی چشمے دیتا ہے یہ چشمیں آئنہ ہوتے ہیں. اس چشمان دل سے تم جہان کو دیکھتے ہو وہ کہتا ہے کچھ پتھر فقط سجدہ کرتے ہیں کہ وہ ہوتے سجدے کے لیے ہیں. کچھ سے چشمے ابل پڑتے ہیں تو کچھ سے ابلنے ہی ہوتے.

پتھر دل کو خدا کے قریب جانے کے لیے قربان ہونا پڑتا ہے. اسکو باپ بھی بیابان میں چھوڑ دیتا ہے اور جب ملتا ہے تو کہتا ہے قربانی کا وقت ہے. جب باپ ملتا ہے تو باپ بروپ خدا ہوتا ہے اور بیٹا چل پڑتا ہے مگر خدا دنبہ بھیج دیتا ہے مگر مقام حسینی یہ ہے ان کے پیروکاروں کے لیے وہ سر لیتا ہے اور سجدے میں وہ خود ہوتا ہے

سجدے میں وہ ظاہر ہوجاتا ہے. اسماعیل(علیہ سلام) کی آزمائش اس لیے تھی اس نسل سے ایسے بچے نکلنے ہیں جنہوں نے قربان ہونا. بچے جن کا عکس حسینی ہو. انہوں نے قربان ہی ہونا ہے. ان کے دل میں حسینی چراغ کی لو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس سے مقام تشہد قائم ہوتا ہے اس کے قیام پر قربانی ہے ۔۔۔ قربانی میں لے لیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جتنا آپ دیا جاتا ہے اتنا وہ مل جاتا ہے. اتنا وہ ظاہر ہوتا ہے. اتنا جمال سے وہ محو ہوتا ہے کہ خود پر گمان ہو جاتا ہے کہ حؔسین ہو مگر خدا جب کسی پر فریقتہ ہوتا ہے اس میں وصف محمدیﷺ ہونا چاہیے اگر نہیں تو خدا ہوتا نہیں وہاں خدا وہاں ہوگا جہاں پر محمدیﷺ شان ملے گی. فنا فی اللہ ہے فنا فی الرسول ہے. اللہ آسمان پر اور رسول زمین پر

وہ کہتا ہے شعائر اللہ ہیں یہ چیزیں ...خانہ کعبہ حجر اسود وغیرہ ...جب مٹی کی چیزین شعائر اللہ ہیں تو سب سے پاک مٹی تو انسان کی ہے جس مٹی کی صورت اللہ نے بنائی اور کہا آدمؑ کو اپنی صورت پر پیدا کیا
اس صورت سے وہ تمھیں خود سے ملا دیتا ہے اور خود کی ملاقات میں وہ ملتا ہے روپ بہروپ. کہیں کسی روپ میں وہ موسویتؑ کی چادر لیے ہے، تو کسی میں عیسویتؑ کی قندیل لیے ہے تو کہیں ابراہیمیؑ تشبیب لیے ہے تو کہیں داؤدی ترمیم لیے ہے تو کہیں محمدیﷺ تجسیم لیے ہے
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
لاالہ الا اللہ ابراہیم خلیل اللہ
لا الہ الا اللہ داود خلیفتہ اللہ
لا الہ الا اللہ موسی کلیم اللہ
لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ
کسی پر یہ سارے مقامات گزر جاتے ہیں تو کسی کو اک عطا کردیا جاتا ہے ان مقامات توحید کا چناؤ وہ خود کرتا ہے جہاں ہے وہ خؤد ہے چہار سوؑ ہے

میاں ‏میر ‏سرکار

نور: رقص ہے الوہی
ساز جامہِ الوہیت
تار جانِ حدیثِ وقت!
ذیشان سے بات کریں گے، مہرِ آفتاب سے رنگ ملا ہے ... عشق کی بات کب چھپی ہے عطر سے خوش لحن نور نے احدیت کا نغمہ اٹھایا ہے . یہ شخص جس نے حدیث ذات کی بات کی ہے، وہ شخص بقا پر فائز ہوگیا کیونکہ اس نے اپنی بات نَہیں کی، بلکہ اُس نے تو جانِ تمنا کی بات کی ہے. دل میں لگن کی بات چلی ہے

اللہ کے بندے احرام پوش بھی ہوتے ہیں
اس کے بندے احرام پوش ہوتے ہیں جو راز ہوتے ہیں کون ہے جو کسی کا راز افشاء کرے

جلال جانے حسن ہے کہ چنر لعل ہو یا سنہری ہو فرق نہیں پڑتا ۔۔۔ سنہری و لعل سے کیا غرض کہ رنگ بس اللہ کا ہوتا ہے ہر رنگ میں ۔۔جب مخاطب کو خطیب سامنے کیا جاتا ہے تب دوئی نہیں رہتی ہے ۔مخاطب جانتا نہیں کہ تخاطب کیا ہے ۔۔۔۔ کیسی لاعلمی ہے ! لوگ حج کعبے کو جائیں ، لوگ زیارت کو جا ئیں پر عشق کی جانن نہ پانے پائیں کہ پرواز عشق یک گام ہے ۔۔۔۔ہاں عشق ہے جس نے رگ رگ میں یاد کے دروازے وا کیے ہیں ۔۔۔۔ رنگ اور ست رنگی میں دوئی کہیں نہیں ہے۔۔اس لیے جب سلام کسی کو دیا جائے تو گھنگھرو پہن کے رقص مہندی و حنا سے لعل و لعل لباس میں واقف کردیتا ہے اور واقف کہتا رہتا ہے کہ وہ ناواقف ہے
..

اے جبین پر بہنے والے تیر
اے میری روح کی شناسائی
اے رنگ حنا! تو اماوس کا دیا ہے کہ ساز کی جولانی ہے وہ جہاں جہاں سے بات بنتی ہے اور کم سے کم اک بات تو طے ہے کہ فاصلے طے نہیں ہوتے بلکہ طے کروائے جاتے ہیں پھر بتایا جاتا ہے کہ فاصلہ تو ہے ہی نہں
جب ستم نوک سناں ملے ہجر کی داستان ملے تو ہوتا ہے یہی کہ نین سے نین مل جاتے ہیں نین کی بازی کھیلتے ہیں اور جو گھائل.ہو جائے وہ معشوق کو سر دیتا ہے. ہم نے سر دے دیا یے اس لیے گھائل ہیں جی گھائل ہیں ایسے کہ ذات میں آہنگ ہے آہنگ نو
نور: آہنگ نو.
تجدید نو.
عہد وفا
وحدت کی بات
جذبات ہیں
ہم سے کہا گیا ہے کہ احرام پوش کو سلام کرو. ہم نے کہا احرام پوش کون ہوتا ہے کہا گیا جس کی ہستی راز میں چھپ گئی ہو
اللہ اللہ تری گفتار
اللہ اللہ تری سرکار
اللہ اللہ ترا اظہار
اللہ اللہ میرا پالنہار.
سرکار نے کہا ہے

تو ذیشان سے پوچھ کہ رنگ کونسا یے ،کہا اللہ جانے کہاں جانا یے ؟کدھر ہے دل میرا؟ وہ کون ہے جس نے کہا کہ جس جس نے کہا اللہ وہ اللہ کہنے اللہ کا ہوگیا. کن فیکون. یہ احرام پوش نے کہا تو راز جان۔۔۔۔ کیا ہوگا کن فیکون؟ جب ان کی صدا لگے دل میں تو غلام سر جھکائے بندگی میں کھڑے رہتے ہیں ۔۔۔ رنگوں میں یار کے رنگ اور کہیں پر صدائے ہائے ھو ۔۔۔۔ درد کے سوت میں یار کا چہرہ

[ نور: رقص ہے الوہی
ساز جامہِ الوہیت
تار جانِ حدیثِ وقت!
ذیشان سے بات کریں گے، مہرِ آفتاب سے رنگ ملا ہے ... عشق کی بات کب چھپی ہے عطر سے خوش لحن نور نے احدیت کا نغمہ اٹھایا ہے . یہ شخص جس نے حدیث ذات کی بات کی ہے، وہ شخص بقا پر فائز ہوگیا کیونکہ اس نے اپنی بات نَہیں کی، بلکہ اُس نے تو جانِ تمنا کی بات کی ہے. دل میں لگن کی بات چلی ہے...بات کا ختم شد قربانی ہے اور داستان میں کہانی ازلوں پرانی ہے ۔۔۔ دیپ یاد کے ہوں تو دل میں اجالا بعد از قربانی روشنی کا ہوجانا کمال ہے۔۔۔ اسکو کیا چاہیے. کیا چاہیے

یہ تن کا اخبار نہیں ہے یہ روح کی جزیات ہیں جس کو ملا اظہار ..اظہار کے پرندے نے دریافت کیا کہ تو کون؟ میں نے کہا کون؟ کون نہیں یہاں بس اک ذات ہے وہ یار کی ذات ہے یہاں بس اللہ ہے اللہ کی بات اللہ والی سرکار

حسینیت کے لشکر کے سپاہ سارے ملتے ہیں غازی ہمارے. جیسے جیسے بات بڑھی تو مل گئے سب استعارے. یہ وضو کے کنارے یہ جسم کی شبیہ میں اللہ کے سرمدی دھارے. چلو اللہ اللہ کہو سارے کہ یہ ہیں شاخ حنا پر بلبل کی بات کہ بلبل نے کہا کہ وادی دل میں اللہ کی بات ہے وہ سوغات ہے جس میں رات ہے. وہ رات جس میں سورج چمکتا ہے جوگی بنا دیا یے
ٹوٹنے سے پایا دل میں ارادہ ارداہ سے ملا وعدہ کہ وعدہ نبھانا یے پریت نبھائی جاتی ہے آس کے بل پر. پوچھا جاتا ہے محبت کس سے ہوئ؟ کہا جاتا ہے تجھ سے تو جو ذات کا مکین ہے تو دلبرنشین یے تو رگ رگ میں ہے اور رگ رگ تری جانشین ہے کسی اللہ والے سے پوچھو کہ حسینیت کیا ہے وہ بتا دے گا کہ حسینیت وہ الوہیت کا نور ہے جس کے چھینٹے تن من کو نیلو نیل کیے دیتے ہیں تڑپ میں اوگن ہار پھرتے ہیِ مارے مارے اور کہتے ہیں چلو کربل.
اسکی شہنائی بجنے لگی.
ستار میں واج ابھری ہے
کدھر ہے میاں والی سرکار
حاضر ہے کون ان کے دربار
شاہ نوران کے پاس اسرار
غازی کو دیے گئے ہیں اظہار
شہنائی درد والی ہے.
شہنائی سے واؤ کی چشمہ بہتا ہے.
رنگ حنا ...؟
بہتا چشمہ؟
کیا ہے یہ چشمہ؟ کیا ہے حنا؟ حنا آس کی لگائی ہے دیپ سے وہ بات بتائی گئی ہے کہ بات میں بھید ہے کہ وہ بھید کبریاء جاناں کے پاس لے گیا. کبریاء جاناں کے قدم پر سر رکھ دیا میں نے کبریاء جاناں ساتھ ساتھ پرواز میں کبریاء جاناں سے ساتھ نہ چھوٹے چھوٹے کہ بات کبھی مجھ سے ٹؤٹے نہ ٹوٹے
دھاگہ؟ .کانچ کا دھاگہ ملا اور ٹوٹ گیا ہے
تیر چلا ہے
دل سے بہا ہے سرمہ
بج.گیا ہے نغمہ
اک.شناسا پاس ہے
اس سے پوچھو کہ رازدان کون ہے
وہ کہے گا کہ میں
میں اس سے پوچھوں گی کہ جانِ جاناں تم بہت دلنشین ہو
وہ جوابا کیا کہے؟ مسکرادے
بس مسکرانے کی دیر تھی
ایک.ہونا تھا
اک ہونے کے واسطے
میخانے میں جام.پی
خاموش رہ
ادب کر
جستجو میں رہ
کھوج نہ کر
دل والا بہت پیارا ہے
ہر طرف اسکا اجالا ہے
ستم کو زبان ملی ہے
یہ.آہ فغان میں حرف جلی ہے
ذات جس کی علی ہے، وہ مرا حرفِ جلی ہے
اٹھ جا شب بیدار، جاگ جا رنگ حنا لیے. اٹھ کے اب آذان دے
آذان فقر کی روایت ہے
ایسی باتوں سے یہ روایت
محبت کی صدا ہے عنایت
صداقت سے صدیقیت ہے
روایت سے روایان عشق
نظام سرکار سے بات بنی ہے کہ قلم چل رہا ہے،بھٹ شاہ سے چلی روایت ہے کہ نگاہ بھی سرکار کی ہے.،،، سیکھی سچل سائیں سے مستی. وہ الست کی مستی وہ راز سر بستہ. وہ جذبہ میں جب نہیں تھا اور وہ تھا. پھر اس نے جذبات اپنے بھر کے مجھے پھونک دیا. میں پھونکا گیا ہوں عشق سے