Friday, November 20, 2020

تو ‏اک ‏مست ‏قلندر ‏ہے ‏ـ ‏پارٹ ‏۱

تو ایک مست قلندر ہے ،
خود میں اک سمندر یے،
مجھے دعوی ہے کہ میں عشق میں ہوں
مجھے دعوی ہے کہ عقل ، ہوش میں ہوں
مجھے دعوی ہے وہ مجھ میں ہے
میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں ؟
دعوی تو خود ایک فہم ہے
عقل کی نشانی ہے
میں عقل بھی ہوں !
میں فہم بھی ہوں !
میں عشق ، عاشق کا نعرہ ہوں!
میں تجھ میں بھی ہوں ،
میں اس میں بھی ہوں،
میں کہاں کہاں نہیں ہوں؟
میں ہی تو نمانے عقل ہوں!!

یہ کیسا عشق ہے کہ میرے محبوب نے مجھ سے بتائے بغیر سب خالی کرالیا ۔۔وہ کہتا میرے ہوتے تجھے اب کسی اور کیا ضرورت ہے ۔۔۔ !!!مجھے ادب نہیں آتا ۔۔۔۔۔۔!میں کہتی ہوں

مجھے نظر تو آو۔۔۔۔!
جلوہ تو کراؤ ۔۔۔!

وہ نظر تو نہیں آتا ہے  مگر وہ کہتا ہے میں دل میں سمایا ہوں ، دل کی سلطنت اس نے  لے لی ہے۔!اب میں خالی ہاتھ ہوں ۔۔!کیا کروں۔۔۔۔اور کچھ نظر نہیں آرہا ہے ۔۔۔۔۔!عشق آسان نہیں ہے ،مت کرو دعوی عشق کا!!!جس نے دعوی  وہ نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا رہا۔۔! اس کی زندگی موسیقیت بھر دی گئی مگر اس کی زندگی معلق ہوگئ۔! معلق ایسی ہوئی کہ کسی دنیا اچھی نہیں لگتی مگر دنیا اچھی بھی لگتی ہے کہ میرا محبوب اس دنیا میں ہے ۔۔۔!

میں بے تابی میں ہوں ،
اضطرابی میں ہوں ،
اس کی دید کی منتظر ہوں ،
اسے دیکھنا چاہتی ہوں
!میں اس کے عشق میں سدھ بدھ کھو بیٹھی ہوں ۔۔۔۔
وہ میرے اندر کی روشنی ہے ،
''میں 'بن کے صدائیں لگاتا ہے ۔۔۔۔۔۔!

تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟تم کہاں ہوں؟
کہاں ہو ؟ سامنے تو آو؟ اپنا جلوہ تو کراؤ!
چھپ کے من میں کیوں لگاتے ہو صدائیں ۔۔۔۔؟
میں، تو۔۔!تو، میں ۔۔! مجھ میں، تجھ میں فرق کیا ہے؟
''تو حسن مجسم ہے ،  جمال کی انتہا ہے،
اپنی دید کر ، اور مجھے دیکھے جا ،
مت کر بے تابی اتنی ، بڑی جلد باز ہے تو،
میں تیرا یار ہو، رقص کر میرے ساتھ تو،
تری ہست میں مستی میرے دم سے ہے،
غم ، درد ، تڑپ ، اضطراب تری دوا ہے،
تو  میراساز ہے ،  کیامیں تجھ میں صدا نہ دوں ؟

عشق کی بات نہ کر ، یہ بڑا ہرجائی ہے
اس میں پڑتے ہی ملتی رسوائی ہے
گرم کوئلوں پر عاشق کو لٹا دیتا ہے
احد احد کی نعرہ  تب عاشق لگادیتا ہے
!زمانے نے عشق کی حقیقت کب سمجھی
!زمانے اس کو نہ سمجھے، جس نے  سمجھی

میں عشق میں ہوں ،
میں اس جہاں میں کہاں ہوں
میں حسنِ بے حجابی ہوں ،
میں نور شفافی ہوں
میں ذات میں قلندر ہوں،
خود میں ایک سمندر ہوں
میں ازل کی تپش ہوں ،
میں الوہی چمک ہوں
میں نہ جانوں میں کون ہوں
میں جانوں میرا یار کون ہے

میں جذب میں ہوں ،
میں مستی میں ہو
میں تجھ میں محو ہوں ،
کہ ابھی ہوش میں کہاں ہےمیں تجھے کیسے پاؤں ،
میں تجھے سے دور کیسے جاؤں کہ ہوش میں کہاں ہو
میں تجھے  دیکھوں  کیسےکہ ہوش میں کہاں ہوں
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟ تم کہاں ہو ؟

''دیوانی ! تو میری دیوانی،
نا کر اتنی طوالانی''
مستیِ ہست کو جان میری مہربانی
سمندر میں ڈوبی رہ ،
تو خود  میں ایک سمندر ہے
تو ایک مست قلندر ہے ،
خود میں ایک سمندر ہے
میں مست قلندر ہوں ،
خود میں ایک سمندر ہوں

میں تندو تیز شوخ لہر ہوں ،
میں برقِ طوفان ہوں
کیسے نہ جذب میں آؤں
کیسے طوفان میں  نہ لاؤں
بحر کو لازم  موجوں کی طغیانی
گھروندے مٹاؤں ،
لہروں میں سماؤں
یا طوفان لاؤں ،
سیلاب بن کے مٹاؤں
بارش بن کے برسوں
یا بادل بن کےچھاؤں
میں  تیری ہوئی ،
میں نے سدھ بدھ کھوئی
میں کون ہوں ؟ میں کیا ہوں ؟
!تو ایک مست قلندر ہے
خود میں اک سمندر ہے

کس کس جگہ نہیں تو ،
کس کس جگہ ہے تو ،
خوشبو تیری پھیلی چار سو،
ہر سو دِکھے ''تو ہی تو''
طور پر موجود تھے پہلے  یا تجلی فرمائی
مست موسی ہوئے  تھے
یا طور نے ہستی کھوئی!
میں کون ہوں ؟
میں تو ہوں یا تو  ہی میں ہوں
میں تیری متلاشی ،
اِدھر بھٹکوں ، اُدھر بھٹکوں
کبھی مجاز میں دیکھوں ،
تو کبھی حقیقت کو کھوجوں
کہیں نہ ملے تم مگر دل کے اسرار خانوں میں!
کب ہوگا تیرا نظارا   کہ دعوی
بشر کی ناقص العقلی کا  تم کو ہے
زندگی سے پہلے ،
موت کے بعد ،
کیوں دیدار کرا دیتے ہو؟
لاکھوں حجابات میں چھپے ہے ،
مگر بے حجاب بھی تو ہو!
کیسی بے حجابی لامکانی میں ؟
کیسا ہے حجاب مکان میں ؟
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟

!قربانی کے کیسے کیسے انداز اپناتے ہو
!سجدے میں سر نیزے پر چڑھواتے ہو
کہیں خلیل اللہ ع کو نار میں ڈلوا دیتے ہو!
اسماعیل ع کو دے کے ذبیح کا حُکم،
عرش سے مینڈھا بھجوا دیتے ہو!
چڑھوا کہ عیسی کو سولی پر خود ہی،
پھر آسمان پر  بلوا لیتے ہو !
سرمد کو نفی میں گُم رکھتے ہو!
سر کٹواتے ہی اثبات کرا دیتے ہو!
عشق کی مئے جسے پلاتے ہو!
نعرہِ انا لحق کا  لگوا دیتے ہو!
فتوی عشاق پر کفر کا لگوا تے ہو!
قربانی کی کیا خوب تم سزا دیتے ہو
عشق کی بات میں قربانی کا کیا سوچوں!
جذب دے کے، کیوں عقل میں اُلجھا دیتے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟