حصہ دوم
تو ایک مست قلندر ہوں
خود میں ایک سمندر ہوں
دنیا کو اپنی سلطنت بناتے ہو
'کن' سے سب کو تخلیق فرماتے ہو
سب میں خود سما کے،
خود کو چھپا لیتے ہو
دنیا تجھے تلاشے ،
میں تجھے خود میں پالوں
فلک کو دیکھوں
یا زمین پر رہوں
بارش میں بھیگوں
یا دھوپ میں جلوں
پھول کی خوشبو بنوں ،
کانٹوں سے لہو بہاؤں،
تم معرفت کی روشنی ہو،
تم میرے اندر کی روشنی ہو،
عارف کو لا الہ کا رقص کراتے،
من میں الا اللہ کی صدا دیتے ہو!
تم کون ہو ؟ تم کیا ہو؟
خلق کو خود حجاز بلوا کے ،
محروم رکھتے ہو حاجیوں کو،
عاشق کےدِل کو حاجی بناتے ہو
نمازِ عشق پڑھوا کے ،
مناجات کی دنیا سجاتے ہو،
جمالِ یار میں جلوہ نما ہوکے ،
نگاہ تیری جانب لگی ہوئی ہے
''الا اللہ ''کی تسبیح ملی ہوئی ہے
اوجِ بقا کی منتظر ہوں،
فنا میں غرق ہوں،
راستے دشوار ہیں ،
طوفان ہم کنار ہیں،
قدم ، قدم موت کا تماشا ہے
مر مر کے جینا عاشق کا شیوہ ہے
میں درد کی انتہا میں ہوں،
میں اضطرابی میں ہوں،
میں بے تابی میں ہوں،
نشاطِ درد کی مئے پلا تےہو ،
گمشدگی کی پھرسند عطا کرتے ہو،
میں شہرت میں گُم ہوں،
میں خود میں ایک سمندر ہوں،
میں مست قلندر ہوں،
عشق کی تسبیح سے عشاق کو پُروتے ہو،
دِلوں میں 'ھو ھو ' کی صدائیں پھر لگاتے ہو،
احد ، احد کرتے توحید کی مئے پلاتے ہو،
دل کو اپنا مسکن ، کعبہ وقبلہ بناتے ہو،
مدہوش کرتے ہو اپنے عاشق کو خود،
پاؤں میں تلاش کی زنجیر پہناتے ہو،
اِس میں بیٹھ کر تم سوچوں میں الجھاتے ہو،
پھر خود اس عاقل کا چرچا کرواتے ہو،
کیسا کیسا کھیل تم رچا تے ہو
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
کیاخُوب رنگ سجایا دُنیا کا،
کیا خوب تماشا ہے دنیا،
آدم کو خلیفہ بنا تے ہی ،
ابلیس کو ذلیل کراتے ہو،
معبود اور عبد کا فرق بتاتے ہو،
نذر، قربانی کے چکر میں ،
ہابیل کو قابیل سے مروا دیتے ہو،
حکم دے کے واعتصمو بحبل اللہ '' کا
اپنی رَسی سے باندھ لیتے ہو
بعد اس کے زمین و آسمان میں معلق کراتے ہو
گھُماتے ہو اپنے یاد میں اِدھر ،اُدھر
نام سے اپنے جلا دیتے ہو ،
مظالم کے سیلاب میں،
سر مستی کی کیفیت جگا دیتے ہو،
تمھیں جانوں کیسے ؟ خود کو پہچانوں کیسے
تم کون ہو؟ تم کیا ہو؟
میں عاشق ہوں کہ معشوق !
میں پستی ہوں کہ بلندی !
میں شمس کی درخشانی ہوں!
میں قمر کی ضوفشانی ہو!
میں مست قلندر ہوں!
میں خود میں سمندر ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کیا ہوں؟
جو نہیں جانتا عشق کیا ہے ،
وہی جانتا ہے عشق کیا ہے
لباس ِ مجازمیں وہی چار سو ہے
کشش کا نظام بکھرا ہر سو ہے
میں نہیں جانتی میں کون ہوں
جب سے تجھے دیکھا ،
بھولی میں کون ہوں،
خاک کو تسلی جذبہ عشق دیتا ہے
سانحوں میں جینے کا حوصلہ دیتا ہے
تم جانتی نہیں تم عشق میں ہو
مسکراتی پھراتے ہو جو ہر بات میں
کیا اسی سے مل کے آئی ہو ،جو ہے دل میں؟
ادب بن عشق کہاں ؟
مستی ملے تو ہست کہاں؟
میں اپنے ہوش میں کہاں ہوں؟
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے
میں اس کے پاس ہوں؟
یا وہ میرے پاس ہے ؟
فلک زمین پر ہے ؟
یا زمین فلک پر ہے؟
میں فضا ہوں کہ بادل ؟
میں بارش ہوں کہ نغمہ ؟
میں ایک مست قلندر ہوں!
خود میں ایک سمندر ہوں!
میں کیا جانوں میں کون ہوں؟
اب میں ہوش میں کہاں ہوں؟
ہر کسی کے بس میں عشق کی بات نہیں
مدہوشی میں ہوں کہ میری کوئی اوقات نہیں،
کبھی گُل تو کبھی بلبل کے ترنم میں ملے
شجر ، حجر کی باتوں میں اس کے قصے سنے
پتا ،پتا بوٹا ، بوٹا اُس کے ذکر میں مسجود ہوا
کائنات بھی ابھی سجدے میں ہے ،
میں رکوع سے اٹھوں تو سجدہ کروں،
کیسے سجدہ میں کروں ؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
نماز کا سلیقہ مجھ میں نہیں ،
رکوع کو ہی سجدہ مانوں؟
سجدہ کیسے کروں میں ؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
!تو ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے
حسن سمجھنے والے نایاب نہیں!
جذبات سمجھنے والے کمیاب ہوئے!
جو نہیں جانتا عشق کو ،
وہی عشق کو جانتا ہے
جو نہیں مانتا احد کو ،
وہی اس سے مل جاتا ہے
عشق سے دور ہوئے ،
عشق میں پھنس گئے
ہم کو اپنی خبر نہیں
کہ کیسے ، کہاں لٹ گئے
میں کچھ کہوں مگر سوچوں
کہ ہوش میں کہاں ہوں
پھربن سوچ کہتی جاؤں
کہ ہوش میں کہاں ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندرہے
رنج و آلام نے مستی ِنشاط میں مبتلا کر دیا ہے
اس نے مجھے مجذوبیت کا خرقہ عطا کر رکھا ہے
میں اب کچھ کہوں تو سوچوں میں کہاں ہوں؟
مگر بن سوچ کہے جاؤں کہ ہوش میں کہاں ہوں
منکرینِ محبت کے دل کو شیش محل محبتوں کا بناتا ہے
پھر اس کے دل میں ہر اک نقش اِن کا مٹا دیتا ہے
پھر اپنے عشق کی خلافت میں جگہ دیتا ہے
میں کیسے کہوں کہ میں عشق میں ہوں،
کہ میں ابھی ہوش میں نہیں ہوں!
میں اور کیا کیا کہوں کہ وہی مجھ میں ہوں!
میں کچھ نہیں کہتی ہوں ،
وہی مجھ میں کہتا ہے
میں کہیں نہیں ہوں مگر وہ مجھ میں رہتا ہے
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
!تو ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے
میں لامکانی میں ہوں !
میں ہوش میں کہاں ہوں!
میں اسکا کیف اور مستی ہوں!
کہ جذب میری ہستی ہے،
میں اس کی پاس ہوں،
یا وہ میرے پاس ہوں،
میں اس کے حضور سرجھکائے ہوں،
کائنات ابھی سجدے میں ہے ،
میں ساجد کیسے بنوں،
میں زمین چوموں کیسے؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں!
میں نے اسے اپنے اندر جانا ہے،
مگر فلک پر اس کا ٹھکانہ ہے!
نماز کا سلیقہ نہیں مجھ میں ،
عشق نے مجھے کیا دیوانہ ہے،
میں بن سوچ کے کہتی رہوں،
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے
میں ایک صدا ہوں ،
میں مہک و بُو ہوں ،
میں رنگ و روشنی ہوں
میں سرمستی ِ سرمد ہوں ،
میں نعرہ انا الحق ہوں
میں رازِ کن فکان ہوں ،
میں ازل کا نورِ قدیم ہوں
میں اب کیا کیا کہوں؟
کہ میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں اس کی نشانی ہوں !
میں نور ہست ہوں ،
میں شاہد ہوں ،
میں ہی مشہود ہوں ،
میں ہوش میں کہاں ہوں؟
میں اس میں گم ہوں !
میں کون ہوں ؟میں کہاں ہو؟
تو مست قلندر ہوں!
خود میں ایک سمندر ہوں ! تو
میں اس میں گم ، جذب میں ہوں ،
میں مستی ہوں !
میں عشق ہوں !
میں معشوق ہوں !
میں مستی ہوں!
محبت کی گمشدہ بستی ہوں !
میں شبنمی قطرہ ہوں!
میں سحر ہوں !
میں ستارہ ہوں !
میں سورج ہوں!
میں فلک ہوں !
میں فرش ہوں !
میں اسم لافانی ہوں!
میں سبحانی ہوں !
میں نوارنی ہوں ،!
میں عشق میں ہوں،
میں اور کیا کیا کہوں ،
کہ ہوش میں کہاں ہوں،
میں ازل کی صدا ہوں !
میں ابد کا نغمہ ہوں!
میں راز کن فکاں ہوں !
میں محبت کی بستی ہوں!
میں عشق ِقدیم مستی ہوں!
میں سرمدی نغمہ ہوں!
میں کون ہوں ،میں کہاں ہوں!
میں محبوب ہوں!
میں محبوب کے پاس ہوں!
میں رقص میں ہوں!
مگر سکتہ حیرت میں ہوں،
میں اس کے جلوے میں ہوں،
میں اس کی ہستی ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میری چیخ و پکار میں مٹھاس ہے !
میری پکار میں اسکی آواز ہے!
میں حقیقت ہوں !
میں ہی مجاز ہوں!
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں
میں اس کی مستی ہوں !
میں اس کی بستی ہوں!
میں کون ہوں؟ میں کہاں ہوں؟
!تو ایک مست قلندر ہے
!خود میں ایک سمندر ہے
میں عشق کی الوہی صدا ہوں!
چمکتی روشنی ہوں کہ چہکتی بلبل ہوں!
حجاب ہوں ، نقاب ہوں!
میں بے حجابی ہوں !
میں بے نقاب شفافی ہوں
میں مکان میں ہوں ،
کہ لامکانی میں ہو،
میں اس کے پاس ہوں ،
یا وہ میرے پاس ہے،
میرے ہاتھوں کی روانی ،
موجوں کی طولانی کو مات دے،
وہ میرا ہاتھ ہے ،
وہ میرا کان ہے ،
میں وصل میں ہوں ،
میں عشق میں ہوں
میں کیف میں ہوں ،
اس کی مستی ہوں،
اُس کی مستانی ہوں
اس کی دیوانی ہوں
میں اس کا عشق ہوں کہ،
میں اس کے عشق میں ہوں،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں حسن مجسم ہوں ،
میں نور مکمل ہوں
میں جذبِ ہستیِ کامل ہوں
خود ایک گورکھ دھندہ ہوں،
میں کون ہوں ؟میں کہاں ہوں،؟
تو ایک مست قلندر ہے!
خود میں ایک سمندر ہے!
میں رقص میں ہوں !
مگر سکتہ حیرت میں ہوں!
اس کے جلوے کی تابش ہوں،
یا میں خود تابش ہوں،
میں کیا کہوں کہ عشق میں ہوں!
بن سوچ کہوں کہ عشق میں ہوں!
میں کیا کیا کہوں ؟
میں راز کن فکاں ہوں!
مجذوب ، میں ولی ہوں کہ
اُس کے وصل میں ہوں
میں اُس کی ولایت میں ہوں ،
میں ُاس کی نیابت میں ہوں
میں اس کا نغمہ ہوں ،
میں کون ہوں؟ میں کیا ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے !
خود میں ایک سمندر ہے !
!میں اس کی بستی ہوں
میں اس کا جمال ہوں !
میں اس کا کمال ہوں!
مجھ پر جذب طاری ہے
میں اس میں ہوں!
یا وہ مجھ میں ہوں!
میں کیا کیا کہوں اب ،
کہ میں ہوش کہاں ہوں؟
میں وحدت میں ہوں ،
حق ھو ! حق ھو!
میں اس کو پکارتی ہوں،
یا وہ مجھے پکارتا ہے،
،میں اس کے پاس ہوں،
یا وہ میرے پاس ہے،
؟میں کون ہوں؟ میں کہاں ہوں
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے
میں اُس کی دید میں فنا ہوں
میں فنا کیسے ہوپاؤں؟
کہ بقا مجھ میں ہے!
خود میں حرم ہوں !
خود میں مسجد ہوں!
میں میخانہ ہوں !
میں ساز ہوں !
میں ہی نغمہ ہوں!
!اک سربستہ راز ہوں
میں مخفی ہوں!
مگر سب میں ظاہر ہوں!
میں ایک خیال ہوں !
میں ادراک کی بلندی ہوں!
میں عقلِ ُکل ہوں !
میں زمانی ہوں !
میں نوارنی ہوں
میں کون ہوں ،میں کہاں ہوں
،میں عشق کی منتہی
!محبت کا معجزہ ہوں
میں زندہ ہوں!
مگر اجل مجھے تھامے،
میں اجل ہوں !
مجھے موت کیسے تھامے!
میں اپنی ہستی کھو رہی ہوں
وہ شہ رگ سے قرین ہے ،
شہ رگ کلمہ لا ہے
نفی اثبات میں گُم ہوں ،
میں لا الہ کا کلمہ ہے!
وہ مجھ میں صدا ،
الا اللہ کی لگاتاہے
میں الا اللہ سنوں؟
یا لا الہ کہوں؟
میں کیا کیا کہوں ، کیا سناؤں
میں کیا کیا سناؤں اور کیا کیا سنوں
میں مستی جذب کی منزل میں ہوں،
میں اپنی ہستی کھو رہی ہے،
میرے اندر اس کا جلوہ ہے،
میں طور کی تجلی ہے ،
خود میں ایک طور ہوں
ہستی طور کھوئے
پھر''وہ '' طور ' میں دکھے
میں کون ہوں کیا ، میں کیا کہوں؟
میں جذب کی منتہی میں ہوں!
میں کیا جانوں میں کون ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے
اس نے مجھ سے کہا کہ اس کی محبوب ہوں!
!اس نے مجھ سے کہا کہ اس کے لیے بنائی گئی ہوں
اس نے مجھ سے کہا کہ اس کے تسبیح میں محو رہوں!
اس نے مجھ سے کہا کہ حمد کی بات بس کروں!
اس نے مجھ سے کہا کہ قربانی عشق میں ہے !
عشق قربانی نہیں!
یوم الست کی مستی چھائی ہے
قالو بلی کا عہد میں نے کیا ہے
میں تجدید کی کنجی میں ہوں،
میں نے اس کو دیکھا ہے
میں نے اس کا جلوہ کیا ہے ،
وہ۔۔ میں ، میں ۔۔وہ ہے!
تضاد ، تفریق کی بساط ک اس نے بچھائی
عاشق کو اس پر چلنا ہے پنجوں کے بل ،
چل کے جانا ہے اس کے پاس ،
کرنا ہے اس کا سجدہ
اس کے سجدے میں ہوں ،
میں اس کی فنا میں ہوں
بقا کی منزل میں ہوں ،
، فنا کی منتہی ہو
میں ہستی میں مستی میں ہوں ،
میں مستی میں ہستی ہوں
میں کون ہوں ؟
میں کیا ہوں ؟ میں کہاں ہوں؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے
میں الہام نہیں ، میں کشف نہیں۔۔
اُس کا ابدی نغمہ ہوں
نعرہِ مستانہ ہوں ،
اس کا شوخیِ حسن ہوں
میں کون ہوں ِ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں کس منزل پر ہوں؟
میں نے اپنی ہستی وصل میں کھوئی ہے
میں اب ہوش میں نہیں
میں جو کہتی ہوں ،
وہ کہتا ہے ،میں کچھ نہیں کہتی ،
میں کیا کیا کہوں ،
کہ اب میں ہوش میں کہاں ہوں
وہ مجھ میں ہے ،
وہ مجھ میں ہے ، وہی مجھ میں ہے !
''اللہ نور السموت ولارض ''
وہ نور سماوی ، وہ نورِ زمانی
۔۔۔میں نورِسماوی ،میں نورِ زمانی
میں نوری نشانی ہوں ،
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
تو ایک مست قلندر ہے
خود میں ایک سمندر ہے
میں اس کی مستی میں ہوں ،
میں اس کی ہستی ہوں،ہے
میں دریا ، سمندر ہوں،
کہ جنگل ، پربت ہوں،
میں فلک ، زمیں ہوں،
کہ شب وسحر ہوں،
میں شجر ، حجر کہ گُل ہوں !
،میں شاخ ، شبنم ہوں
کہ شمس و قمر ہوں
میں اس کی خلیفہ ہوں ؟
میں اس کی نائب ہوں
میں کون ہوں ؟ میں کہاں ہوں ؟
میں نفس نورانی ہوں ،
میں نفس انسانی ہوں
،جن و انس کی محبت ہوں
مصحف ، پاک کلمہ ہوں ،
روح کیمیا کا نسخہ ہوں،
میں کون ؟ میں کیا ہوں؟
نہیں جانتی میں کہاں ہوں
میں نورِ یزدانی ہوں ،
میں اسم لافانی ہوں
۲۰۱۶ بہ سال