Sunday, November 22, 2020

تخلیق وجہِ بشر

 تخلیق وجہِ بشر


وہ جو روح کی اساس ہے
اسی سے بجھتی پیاس ہے
لا الہ سے بنائی گئی ہے کائنات
الا اللہ سے سجائی گئی کائنات
محمد رسول اللہ سے جلا پائی کائنات
انسان سوچتا ہے کہ کائنات کا جھمیلا ، رولا کیا ہے ؟ اس کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ وہ اوپر مسند پر بیٹھا ہے اس کو کیا ضرورت ہے انسان کی ؟ ملائک کی اس کی رکوع ، سجود ، قیام کی مختلف حالتوں میں عبدیت کا حق ادا کر رہے ہیں ۔ انسان کیوں خلیفہ بنایا گیا جبکہ تحقیق کا مادہ تو جنات کے پاس بھی تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مادہِ تحقیق و شک --- جس کی بنا پر ابلیس نے تکبر کیا اور بارگاہ ایزدی میں ملعون و محجور ہوا ۔۔۔ آدم علیہ سلام کو خلافت دی گئی اور تمام مخلوقات میں نیابت کی تلوار تمھا دی گئی ۔۔۔۔۔ابلیس جس نے ہزار ہا سال رکوع میں تو ہزار ہا سال سجدے میں ، ہزار ہا سال قیام کی حالت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا تو کیا وجہ تھی وہ آدم علیہ سلام کو دیکھ کے متکبر ہوگیا کہ وہ عبادت میں آگے ہے ۔ آدم علیہ سلام کو سب ملائک نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے انکار کردیا ۔۔۔ سوچ ، خیال ، وہم ، شک کا مادہ تو ابلیس کو دیا گیا مگر وہ اپنے رب کو پہچان نہیں سکا ۔۔۔اگر وہ عارف ہوتا تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ساتھ انکار کیسے کرتا ؟ سالہا سال کی عبادت نے خالق کی پہچان نہ کرائی اور آدم علیہ سلام تخلیق کے وقت بھی عارف تھے ۔۔۔۔۔۔۔ جب حضرت آدم علیہ سلام نے ممنوعہ شجر کو چکھا تو غلطی کا ادراک بھی ہوگیا ۔۔۔۔ ان کی غلطی میں تکبر میں نہیں تھا اس لیے توبہ کی گنجائش رکھ دی گئی اور توبہ بارگاہ خداوندی میں مقبول بھی ہوگئی جبکہ ابلیس کو ہمیشہ کے لیے جہنم واصل کردیا گیا ۔۔تکبر اتنا بڑا جرم ہے کہ یہ شرک تک لے جاتا ہے ۔ ابلیس نے یہی غلطی کی کہ اس نے سمجھا کہ اس کی عبادت سے اس کو بھی خدائی مل گئی ہے جبکہ وہ تو بہت چھوٹا ثابت ہوا ۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل نے سب گناہوں کا کفارہ رکھا ہے مگر شرک کا نہیں رکھا اور نہ ہی اس کی کوئی معافی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔


انسان کے اندر شک و یقین دونوں کے مادے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ ہیں ۔۔۔۔۔۔ شک کا مادہ انسان کے اندر رکھا گیا ۔۔۔۔۔۔۔ یہی انسان کو بے سمت خلا کا مسافر بنا دیتا ہے اور جب یقین کو مستحکم کرتا ہے تو یہی انسان کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پہچان کرا دیتا ہے ۔۔۔۔۔۔ کائنات کا سیاپا انسان کے لیے سجایا گیا ۔۔۔۔۔۔اللہ کی تلاش کے لیے ادھر ادھر بھاگنے سے نہیں بلکہ خود کی ذات میں محو رہنے سے ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ ذات خدا باری تعالیٰ کا جلوہ ، خود میں معجزن ہے ۔۔۔ اس کے لیے کسی در سے بھیگ مانگنے کی ضرورت نہیں کہ جب آپ کے اندر سوال اٹھنے شروع ہوجائیں تو سمجھ لیجئے کہ علم کی جانب سفر کا آغاز کرلیا ہے ۔ جب سوالات کے جواب ملنا شروع ہوجائیں تو جان لیجیے کہ معرفت کے راستے پر قدم رکھ لیا ہے ۔۔ اپنے اندر کے سوالات پر غور کرنے سے انسان نئی دنیا تلاش لیتا ہے ۔۔۔جبکہ اپنی ذات میں موجود سوالات کے چراغ بجھانے سے نور الہی کی جانب کے سبھی راستے تاریک ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہائے ! انسان اس دنیا میں دنیا کو فتح کرلے تو کیا حاصل کہ سکندر دو گز زمین کا ٹکرا ہی بوقت موت لے پایا جبکہ علم ذات سے نفع حاصل کرنے کے بعد قلندر دنیا کو پاؤں کے نیچے رکھتا ہے ۔۔۔۔۔قلندر کے دل کی دنیا کی اتنی وسیع و روشن ہوتی کہ دنیا سے رخصت کے وقت اس کے پاس وسعتوں کا جہاں ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔بلاشک ! انسان اس دنیا سے کچھ نہیں لے کے جائے گا مگر اپنی ذات کے علاوہ !

کائنات کا سیاپا انسان کی پہچان سے شروع ہوا ۔۔۔۔۔جوں جوں احساس کی مٹی سے محبت کے سوتے خالق کل کی جانب رواں دواں ہونے لگتے ہیں تو اس رولے و سیاپے کی سمجھ آنا شروع ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔اندر بڑا نور ہے ! اندر بڑا جلوہ ہے ! اندر رہنمائی ہے ! اندر کبریائی ہے ! کائنات کی ابتدا و انتہا کے سبھی سوالات کا جواب ''اندر'' سے ملتا ہے ! بندے باہر کی دنیا بناتے ہیں ۔ بنگلے ، گاڑی ، نوکر چاکر اور تعیشات زندگی حاصل کرنے کے لیے عمر گنوا دیتے ہیں ، نور خدا کو بجھادیتے ہیں ! حاصل ذات ! ان کے پاس دم رخصت جاتے وقت اس جہاں سے کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حسرت بھری نگاہ سے پیاروں کو دیکھتے ہیں کہ یہی پیارے ان سے منہ موڑے بیٹھے ہیں کہ جن کے لیے زندگی میں رشوت لی ، چوری کی ، برے کام کیے ! آج وہی بھول گئے ! خالق کے لیے کیا کیا ؟ اپنے لیے کیا کیا ؟ کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر بسی کائنات کی مسند پر ''نور الھدی'' جلوہ گر ہے جب انسانی ذات اپنے سارے وہم و شکوک ختم کرکے اللہ کی جانب رجوع کرلیتی ہے تو جان لیتی ہے کہ حقیقت اصلی و بشری کیا ہے ؟ انسانی نیابت و خلافت کا احساس -------وہ احساس جو سید البشر بوقت تخلیق لے کے پیدا ہوئے تھے کہ ان کی روح اللہ کی قربت میں تھی ---- انسانی روح جوں جوں اللہ کے قریب جاتی ہے تو اس کو ''قالو بلی '' کا عہد تازہ ہوجاتا ہے ۔۔۔وہ عہد جو اللہ سبحانہ نے تمام ارواح سے لیا تھا ! اللہ چھپا ہوا خزانہ ہے ! جب ایک پہچان کا در وا ہوتا ہے تو شیطان ''سو وہم'' انسان دل میں جگا دیتا ہے اور جب بشر ان اوہام کو مارتے اللہ کی جانب دوسری پہچان کی سیڑھی پر قدم رکھتا ہے تو شیطان ہزار قسم کے وساوس اس کے دل میں بھر دیتا ہے !