ہر روح آئنہ ہے اور آئنے میں جھانکو تو عکس دکھتا ہے ـ یہ عکس اگر سامنے میں دکھ جائے تو فائدہ؟ یہ من مندر "یار جھاتی پا لے، سوانگ بھریا اس نے " میں کیوں دکھ نہیں سکتا ہے؟ اللہ نور السماوات والارض ـ زمین اپنے افلاک کو نہ پہچان سکے تو طالعِ انوار، مثل البدر، جمیل لسان، بلیغ البیان، حمید الاوصاف جیسے شمس سے اسکا واسطہ کیسے ہوگا؟ حقیقت کو کیسے جانا جائے؟ حقیقت کو کیسے مانا جائے؟
طالب کو چاہیے کہ شب دراز میں جھانکے اور شب دراز کی طوالت سے گھبرائے نہیں ـ شب دراز وہی حقیقت ہے جس کی تپتی صبح کو طٰہ کو شرفِ پیامبری دی گئی ـ اللہ چارد کتنے رنگوں میں ڈھلی اور مکمل تصویر صبغتہ اللہ کی ہوئی ـ جب اللہ کی تصویر میں ڈھل جاؤ ـ تو گویا تمھاری وہی صورت جو آدم کی ہے یعنی آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ـ گویا تم نے جد کی پشت میں خود کو شناخت کرلیا ـ وہ پشت تو مٹی کا لباس تھی، درحقیقت جس نے یہ بوقت نفخ پہچان کی، وہی مٹی میں جان پائی
عہد الست ایسا زمانہ تھا جس میں ہر روح نے قالو بلی نہیں کہا تھا ـ یہ تو ماننے والی ارواح جو دم سادھ گئی ـ جاننے والی ارواح مدارج اعلی کے مختلف دائروں اور حلقوں میں قیام کر گئیں ـ جن کو جتنا جاننا تھا وہ وہی پا سکیں ـ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں! جو جان گیا وہ تضاد سے نکلا
کسی نے کہا کہ ہم الوہیت کے جاموں میں ڈھلے ہیں ـ تیری صورت ہیں ـ کسی نے کہا کہ تجھ بن چین نہ آئے، سوال کیا، جواب کیا ہم جانن نہ رے، کسی نے کہا نماز وصلت اصل عین ہے ـ کسی نے عشق ترا حجاب ہے ـ غرض ہر کسی نے وہی بولا، جو وہ چاہ رہا تھا
انما امرہ اذا ارداہ شئیا ان یقول لہ کن فیکون
کسی نے کن سے فیکون کو ویسے جانا، جیسا اس نے اس کو خیال کیا ـ گویا وہ، سمجھ گئیں کہ وہ وہ نہیں ہے بلکہ وہ وہ ہیں ـ نہیں رخ بھی اک ہے ـ نقاب نہیں ہے. حجاب نہیں ہے ـ تو دید کرتی رہیں وہ ـ وہ اپنے من کا آپ آئنہ ہوئی تو دوئی کا سفر وہیں ختم ہوگیا ـ وہ عارفین کی ارواح تھیں