تقلید اندھی نہیں ہوتی ..........!!!
ایک عرصے سے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے مارتے دل کچھ تھک سا گیا ہے کہ تقلید اندھی ہے اور مجھے تقلید نہیں کرنی ہے . دراصل تقلید کے لفظی معانی میں اتنی الجھی ذات میری کہ تقلید کے وسیع معانی کی طرف دھیان ہی نہیں گیا . تقلید ، مقلد ... ان لفظوں کی مارو ...!! اور یہ لفظ ہمیں ماریں ... جواب میں لفظوں کا کچھ نہیں گیا مگر ذات اندھی ہوگئی ہے . اندھے کو ''نور'' ایک دفعہ مل جائے تو رفتہ رفتہ وہ سمجھ جاتا ہے کہ تقلید اندھی نہیں ہوتی بلکہ تقلید کے پیچھے بھی ایک فکر چھپی ہے . مجھے تقلید سے ایک بات یاد آرہی ہے . میں نے کسی جگہ کہیں پڑھا تھا .
حضرت نظام الدین اولیاء رح کو اپنے دو مرید بہت عزیز تھے یا یہ کہ ان میں سے بھی ایک زیادہ عزیز تھا.حضرت نصرت چراغ دھلوی رح اور دوسرے حضرت امیر خسرو رح .... دونوں لاڈلے مگر زیادہ پیار ان کو'' طوطی ِ ہند '' سے تھا . جب اپنا جانشین مقرر کرنا چاہا تو آپ فیصلہ کرنے میں تامل کرتے رہے کہ کس کو مقرر کروں . دونوں حاضرِ خدمت تھے . دونوں کو کہا: فلاں فلاں جگہ پر جا کر یہ کھیر فلاں شخص کو دے آؤ. دونوں چلے اور اس جگہ پہنچ گئے . جب ادھر پہنچے تو دیکھا کہ کوئی حضرت اینٹ کی ایک بنیاد رکھتے کہ دیوار تعمیر ہو سکے . اسکی بنیاد پر تعمیر کا کام خود ہوتا جاتا . جب ان دونوں کو دیکھا ، تو حضرت نصرت چراغ دہلوی نے کھیر کا برتن ان کو تھما دیا. اور ان حضرت کو کیا جی میں سمائی کہ انہوں نے مٹی کھیر میں ڈال کر دونوں کو دے دی کہ کھا لیں . طوطی ہند نے ذرا تامل کیا جبکہ حضرت نصرت چراغ دہلوی نے بلا تامل کھا لی. اس کے بعد وہ حضرت کام میں مشغول ہوگئے اور یہ دونوں شخصیات واپس حضرت نظام الدین اولیاء کے پاس آئیں . آپ نے نہ چاہتے ہوئے بھی خلعت ِ فاخرہ حضرت نصرت چراغ دہلوی کو مرحمت کر دی .
زندگی میں اسی طرح ہم اندھے ہوکر حقیقت کے پردوں کو سمجھ نہیں پاتے . ہمیں جو نظر آتا ہے وہی حقیقت لگتا ہے . لیکن ...! لیکن ہر کڑوی شے بھی زہر نہیں ہوتی . کبھی کبھی کڑوی شے سے وہ اثر نکلتا ہے جس سے تن من سے میٹھے سرمدی نغمے نکلتے ہیں . یہ نغمے درد سے مخمور ہونے کے باوجود سہارا بن جاتے ہیں . ''تن'' کا فلسفہ ہے کہ تقلید ''اندھی '' ہے جبکہ من کا فلسفہ ہے '' تقلید '' عقل سے گزر جانے کا مرحلہ ہے . یہ مقام عقل سے ملتا ہے مگر عقل پر مستقیم لوگ تقلید پر استوار نہیں ہو پاتے ہیں جبکہ عقل سے گزر جانے والے تقلید پر ایمان لے آتے ہیں . یہ وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں روشنی سے تن و من و لباس سے روشن روشن کرنیں گزرنے والوں کے لیے مشعل ِ راہ بن جاتی ہیں .
ہم چونکہ پیدائشی مسلمان ہیں اس لیے ہمارے لیے تقلید کا مفہوم وہی ہے کہ اندھا رہ ....! جبکہ ایک کافر ، ملحد جب ایمان لاتا ہے اس کی تقلید عقل کے مرحلے سے گزر چکی ہوتی ہے . اس لیے کافر ہم پیدائشی مسلمانوں پر سبقت لے جاتا ہے . بالکل اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد صاحب پیدایشی تقلید کے عادی تھی مگر تھے وہ سچے ، ان کے افکار بھی صوفیانہ تھے مگر لوگ ان کو سُن نہ سکے . لیکن ایک مغرب زدہ انسان جس کے کچھ عقائد باطل تھے کچھ بہت روشن تھے اس سے لوگ متاثر ہوگئے . کیونکہ اس کی ذات میں پیدا ہونے والے باطنی تغیرات میں لوک ذات چھپی تھی . وہ لوگ جو اپنا آئینہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہ انسان ہمارے ہی جیسا ہے ، یہ کبھی ہم پر کفر کا فتوٰی نہیں لگا سکتا ہے اور اگر لگائے گا تو اس پر ہم خود بڑھ چڑھ کر الزامات لگا دیں۔۔۔۔۔!!! . وہ شخص اقبال تھے جن کی ذات میں پیدا ہونے والے تغیرات نے ایک مسلمان کو کافر اور پھر کافر سے مومن بنادیا. اقبال عقل سے گرز کے اس مقام پر آگئے جہاں اجتہاد بھی تقلید کا حصہ تھا ، جہاں سنت بھی .۔۔۔۔!. جہاں حدیث بھی اور جہاں فقہ بھی تقلید کا حصہ تھا۔۔۔۔!. ایک مسلمان نے ''شکوہ'' لکھ کر اللہ کی ذات کو للکارا کہ ہم سے صرف وعدہ حور کیا ہے ، دیکھو مسلمانوں کی حالت کتنی دل گرفتہ ہے ،.... کافروں کو نوازنے والے کبھی مسلمانوں کو بھی نواز دے ۔۔۔۔!. اس للکار سے رحمت باری تعالیٰ نے کافر کو اپنے اور قریب کر لیا اور اس نے کہ دیا
پا کر مجھے بے کس تری رحمت یہ پکاری
یہ بندہ بے برگ و نوا صرف ترے لیے ہے
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب انسان مومن کا درجہ پالیتا ہے تو وہ 'اسوہ حسنہ '' کا نمونہ بن جاتا ہے . مومن جو حقیقت میں قران پاک کی قرات میں مصروف ہوتے ہیں وہ خود ہئ چلتے پھرتے نمونے بن جاتے ہیں ..۔۔ یہ چلتے پھرتے آئینے ہوتے ہیں اور ان آئینوں میں جھانکوں تو بس ایک ذات نظر آتی ہے ۔ کوئی آئینہ دل کو ظاہر کرکے حلاج بن جاتے ہیں اور کوئی ابو الحسن نوری ، یا بایزید بسطامی ۔۔۔ کچھ پوشیدہ رہتے ہیں ۔ اللہ کی ذات اخفاء رہتی ہے اور اس کو پوشیدگی پسند ہے ۔ اور ظاہر ہو بھی جائیں تو وہ ذات باری تعالی کے داعی ہوتے ہیں۔ ان کے اندر قران مشک کی طرح گھول دیا جاتا ہے ۔ اس کی خوشبو چہار سو پھیل جاتی ہے ۔بس ایک ذرا سے ۔۔۔۔ ایک غوطے کی دیر ہوتی ہے ۔ غریقِ قران ِ کلامِ باری تعالیٰ والے اصحاب دراصل غوطہ ور ہوتے ہوئے بھی دنیا میں رہ کر ''نور'' کو پھیلا رہےہوتے ہیں
قرآن میں غوطہ زن ہو اے مرد مسلماں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اﷲ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
یہ راز کسی کونہیں معلوم کہ مومن۔۔۔۔۔۔۔۔ قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
مجھے یہ لکھتے ہوئے ایک درد کا احساس ہو رہا ہے کہ ذات ہماری کتنی بری ہے ۔ ہم پر سوار ہمارے شیطان نے ملعون شیطان کو خوش کر دیا ہے ۔ ہم اپنے نفس کے حصار سے نکل سکیں ، اپنے حساب و شمار سے نکل سکیں تو بات بھی ہو۔ ہم تو خود میں کھوئے ہوئے ہیں ، اور کھو کر بھی ، غرق ہو کر بھی اگر احساس نہیں ہوتا ہے تو ہمارے ہونے کا فائدہ ۔۔۔؟ کوئی فائدہ نہیں ہے جب تک اندھی تقلید کو عقل کی کسوٹی سے پرکھ کر ، اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دیں ۔ ایسا کرنے میں ہماری مٹی سب سے بڑی دشمن ہے ۔ خاکی پتلے کی حقیقت جس طرح بابا فرید نے عیاں کی وہ مٹی کی کشمکش ہے ، اور بالآخر ہم سب کو جانا تو اسی مٹی میں ہے ، جہاں سے ہمارا خمیرا اٹھایا گیا ہے اور اس کے پاس جانا ہے ، جس نے ہم میں روح پھونکی ہے ۔ اس کی ''پھونک '' سے ہم میں غرور پیدا ہوا ہے ، اس غرور و تکبر کو عجز و انکساری کے پیکر میں ڈھلنا ہے
ویکھ فریدا مٹی کھلی
مٹی اتے مٹی ڈلی
مٹی ہنسے مٹی روے
انت مٹی دا مٹی ہوے
نہ کر بندیا میری میری
نہ اے تیری نہ اے میری
چار دن دا میلا دنیا
فیر مٹی دی بن گءی ڈھیری
نہ کر ایتھے ہیرا پھیری
مٹی نال نہ دھوکا کر تو
تو وی مٹی، او وی مٹی
ذات پات دی گل نہ کر تو
ذات وی مٹی، تو وی مٹی
ذات صرف خدا دی چنگی
باقی سب کچھ مٹی مٹی
یہ راز بہت دیر سے جا کر معلوم ہوتا کہ مٹی کی حقیقت صرف ایک دھوکا اور سراب ہے ۔ اس مٹی نے مٹی میں جانا ہے تو کیوں نا! کیوں نا ۔۔!! ہم جاتے کوئی کام ایسا کر جائیں کہ ''انت'' بھی اگر ہو جائے تو چنگی ذات خدا دی ، ساڈے نال نال ہی روے ۔ کیا تفرقے میں الجھ کر خود کو تباہ کرتے جارہے ہیں ۔ اپنے نفس کے جہاد کی تقلید کر لیتے تو معلوم ہوتا کہ تقلید کبھی بھی اندھی نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔۔!!! نفس سے جہاد کرنے کے بعد انسان چلتا پھرتا قران بن جاتا ہے ، جہاں ظاہر و باطن ، روح و مٹی کے درمیان کی کشمکش ایک ہو کر سارے اختلافات ختم کر دیتی ہے ۔۔ہمیں اپنے اندر کی مٹی کو ختم کرنا پڑے گا ، اس خاک کو جس نے ہم کو حواس کے ذریعے بھٹکا دیا ہے