بات اُسکی سمجھائی جاتی ہے، جو سمجھ رکھتا ہو.سمجھدار جانتا ہے.عقلِ کُل، علم و فن میں یکتا ایک قوت ہے جس نے میرے باطن کو اپنے نورِ سے بھرپور کردیا.جب وساوس کے جال، خدشات کے تانے بانے مکڑی کے جالے بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا لیس ختم ہوجاتا ہے. کہنے کو ہر شے باطل ہے ماسوا نور کے جو جسم میں قید ہے، روح میں مکین ہے. یہی دہکتی گلنار روشنی ہے جو بےخطر آگ میں کودنے پر مجبور کرتی ہے. یہی ہے جس نے ہر رگ میں یاد کے دس دروازے رکھے ہیں. ہر در پر اللہ لکھا ہے. جیسے جیسے ذکرِ یار میں وجدان سلجھنے لگتا ہے، شمع کو احساس مل جاتا ہے. وہ احساس کہ وہی مکین دل سے لامکان کی بلندیوں پر ہے. وہ پہنچ سے ہوتے پہنچ سے باہر ہے. وہ بصارت میں ہوتے بصیرت سے باہر ہے. وہ ادراک کے پنجرے میں علم کا وہ بحر ہے جسکی حد نہیں ہے. بے حد، لامحدود ذات کے آگے کم مایہ ذات سربسجود ہوجاتی ہے. یوں لگتا ہے وہی باقی ہے باقی سب ختم شُد ... یہیں سے صدیوں کے فاصلے سمٹنے لگتے ہیں. قافلے چلتے رکنے لگتے ہیں. یہی مقام ہے جہاں خبر کونے کھدرے سے اکثر نمودار ہونے لگتی ہے. احساس لکھنے بیٹھ جاؤں تو شاید اک صدی بیت جائے یا اس سے زائد تو کون لکھنے میں وقت کو کاٹے. احساس بھی شمع کی مانند جلتا رہتا ہے روشن کیے رکھتا ہے. یہی سجدہ ہے