کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
ایک بادل کے کئی ٹکرے ہیں
ہر ٹکرا پھر ایک بادل ہے
اور ہر بادل کے پاس آسمان ہے
سیلاب بہتا رہا یہاں وہاں
لوگ سمجھتے رہے مکاں بہا ہے
میں کہتی سب خاک خاک ہوگیا
جو دنیا درد سمجھ رہی ہے
اس کو میں نے ہنس کے پینا
جو درد مجھے ملا ہے
اس کو کوئی نہیں جانا
میرا اندر خالی ہے
اس میں کون سمانا
اس رمز کو وہ جانا
جس کے پاس سب نے جانا
یہ دنیا بڑی بے مایا
کون یہاں پر چھایا
ہم نے بوریا سنبھالا
سمجھا کہ روگ پالا
ہم ہوتے روگی تو اچھا ہوتا!
بنتے ہم جوگی تو اچھا ہوتا!
یہ دنیا بڑی بے ثمر ہے
میرا پاؤں اس کی نظر ہے
میں کیا کہوں جواب میں،
کچھ نہیں اس کتاب میں،
دل درد کے لکھ نہ پائے گا!
یہ درد کیا کون سمجھ پائے گا!
جو سمجھے وہ چپ رہ جائے گا!
جو نہ سمجھے وہ مجھے تڑپائے گا!
میں نے کہا بڑا برا کردیا!
ڈ رتو میری نظر سے گر گیا ہے
میرا تعصب مجھے کھا گیا!
میری حرص نے دغا دیا!
میری آنکھ میں ریا کاری،
دل !دل شرم سے عاری،
کیسے ہو دور اب گنہ گاری؟
ہم کو اُس دنیا جانا ہے!
جہاں انسان بستے ہوں!
وہاں مکان گر جانے سے،
کوئی فرق نہ پڑتا ہو!
دلوں میں چراغ جلتے ہوں!
ان چراغوں کی لو سے،
خود کو جلا جانا ہے،
ہم کو اس دنیا میں جانا ہے!
جہاں سے روشنی بن کے نور،
ذات کو نور کردے،
میرے من کے اندھیروں کو
دور کردے ۔۔۔!
اندھیرا دور ہوجانے کے بعد
ہمیں سب سمجھ آئے گا!
اب کہ کوئی سوال نہ ہو،
یاس کو اب جواز نہیں!
درد کا اب حساب نہیں!
یہ مجاز کی رمز کی بات نہیں!
جل کے مرنا اس میں پیاس نہیں!
غلطی سے دل کی بات لکھی!
اس کی سزا میں نے چکھی!
مجھے معاف احباب کردو،
میرے الفاظ میں ندامت ہے
ان کو اب نظر انداز کردو
یہ سمجھ ، وہ سمجھ اور نہ سمجھی!
سمجھ کر بھی جہاں میں نہ سمجھی!
دنیا میں آتے جاتے رہیے
آنے جانا ایک میلا ہے
کون اس دنیا میں اکیلا ہے
وہ ذات جو کمال حق ہے
وہ نصیب کی بات ہے
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے