جتنے الیکڑانز کائنات کے مدار میں ہیں،
جتنے سورج کہکشاؤں میں ہے،
جتنے دل زمین پر ہے
اے دل! قسم اس دل کہ سب کے سب انہی کے محور میں یے
جتنی روشنی ہے، وہ جہان میں انہی کے دم سے ہے
لکھا ہے نا، دل، دل کو رقم کرتا ہے
لکھا ہے نا، جَبین سے کَشش کے تیر پھینکے جاتے ہیں
لکھا ہے نا، سجدہ فنا کے بعد ملتا ہے
اے سفید ملبوس میں شامل کُن کے نفخ سے نکلی وہ سرخ روشنی
جس کی لالی نے مری کائنات میں جانے کتنی اُجالوں کو نَوید دی ہے
تو سُنیے!
جن سے نسبتیں ایسی روشن ہیں، جیسے زَمانہ روشن ہے
جنکی قندیل میں رنگ و نور کے وہ سیلاب ہیں کہ سورج کا گہن بھی چھپ سکتا ہے اور چاند اس حسن پر شرما سکتا ہے
مجھے اس روشن صورت نے درد کے بندھن میں باندھ دیا ہے اور خیالِ یار کے سائے محو رکھتے اور کبھی کبھی فنا میں دھکیل دیتے ہیں
تو سُنیے
تو سُنیے، خاک مدینہ سے چلتے اسرار کے عنصر، جس میں مقید افلاک کے بحر،
شاہِ غازی کے در سے بنٹتے لنگر سے جاری دُعا کا سلسلہ اک ہی ہے
بُخارا کے قدماء میں امام زین العابدین سے منجمد جمتی سرخ لکیر، یہ خون فلک سے اتر رہا ہے اور زمین پہ جم رہا ہے .... یہ سلسلہ اک ہے
وہ جو شاہ مٹھن نے رنگ رنگ کے رنگ لگائے، اسکی مہندی میں نمود کی قسم،
گویا یہ زندگی چند دن کی مہمان ہے
جب میں نے جھک کے قدم بوسی کی تھی، فَلک نے بھی جھک کے سَلام کیا تھا
محبت میں کوئی نہیں تھا، وہی تھا ..
یہ خاک کچھ نہیں، وہ عین شَہود ہے
ہم نے مٹنے کی کوشش نہیں کی کہ یاد کرنے کو وہ پانی زمین میں شگاف نہیں کرسکا ہے وگرنہ کیا تھا فنائیت میں "تو بود، تو شدی منم" کا نعرہ لگاتے رہتے ....
اے زاہدہ، عالیہ، واجدہ، مطاہرہ، سیدہ، خاتون جنت!
کتنی عقدیتوِں کے افلاک وار کے کہتی ہوں .... سلام
اے آئنہ ء مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتنے دل یکجا ہوتے ہیں، کڑی در کڑی در سلسلے سے مل کے سلام بھیجتے کہتے ہیں کہ جلوہ جاناں پر لاکھوں سلام
مصطفوی چراغوں کی تجلیات دِیے، شبیر و شبر کی کنجی
کتنے مومنین کی بنات آپ کے پاس آنے کو بیقرار ہیں، روح صدقہ ء کوثر پانے لگے گی اور کہے گی کہ فرق نَہیں ہے، ہاں یہ لب و لہجہ و جلال کسی روپ میں بی بی زینب کا جلال لیے ہوئے ہے تو کہیں امام حسن سی مسکراہٹ لیے ہوئے، سلام سلام سلام
جب میں اس چہرہ ماہناز کو دیکھتی ہوں تو جذب مجھے کتنی کائناتوں کے در وا کرتا ہے ... وہ کائناتیں لیے ہیں
وہ حجاب میں کبریائی نمود ہے
بے حجابی میں دیکھیں سب فلک پر ..........
لن ترانی سے رب ارنی کے درمیان ہستیاں بدل دی گئیں تھیں مگر اے نور حزین! فرق نہ دیکھا گیا، جب زمین میں شگاف پڑتا ہے تب کچھ نیا ہوتا ہے ...میرے ہر شگاف میں کبریائی نمود ہے،
یہ کمال کے سلاسل میں تمثیل جاودانی ہے کہ رخ زیبا نے دل مضطر کے تار ہلا دیے ہیں، مضراب دل ہو تو کتنے گیت ہونٹوں پر سُر دھرنے لگتے ہیں، کتنے دل جلتے گلنار ہوتے یقین کی منزل پالیتے ہیں اور دوستی پہ فائز ہوجاتے ہیں ..
صورت شیث میں موجود ہیں یعنی کہ حق کا جمال کتنا لازوال ہے، وہ شیث ہیں، جو تحفہ ء نَذر بعد حاصل اک دوا ہے ...
میں نے ساری کائناتوں سے پوچھا کون مالک
کہا اللہ
میں نے پوچھا کون میرا دل؟
کَہا بس وہ، بس وہ، بس وہ
بس میں نے فرق سیکھ لیا ہے مگر فرق تو وہی ہے جسکو میں نے کہا ہے، درحقیقت اک رخ سے تصویر دیکھی کہاں جاتی ہے.
یہ دل جھک جاتا ہے تو اٹھتا نہیں ہے
پاس دل کے اک نذر کے کچھ نہیں کہ یہ لفظ ادعا ہیں ..یہ دل سے نکلتے ہیں تو دعا بن کے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں ...
میری آنکھ سے دل کے نیل دیکھے؟
دل کے نیل پہ افلاک گواہ ہیں
جی ان سے خون رس رس کے ختم ہوا کہ جدائی کی تیغ نے جان نکال دی ہے اور سارے وہ پل، جن سے کھڑا رہنا تھا، بیٹھ گئے ہیں
وہ کشتی جس کے بادبان طوفان لے جائے وہ کیسے چلے
بس کشتگان رہ وفا نے لکھی ہے تحریر کہ بتادے بنام دل حیدری آواز یے کہ وہ ہیں، ہاں وہ نقش رو ہیں، ہر پری چہرہ ہو بہو ہے ...