لم یاتی نظیر .... کون ثانی ہےتمھارا؟
اس بات کو ماننے میں حرج کہاں مگر اے نور لطیف!
جو کثافتیں دھو ڈالے
دلوں میں الوہیت کے چراغ روشن کرے.
اے لاثانی!
وہ آسمان پر ....!
اور نور لطیف زمیں پر ...
تم سے کتنے آئینے نکلے
تمھارے آئینے سے نکلا "نور " اور آسمانی "نور " ایک جیسا ہے. اس سلسلے میں مرکز "تم " اور مرشد بھی تم اور قبلہ نما بھی تم، میرا قطب نما بھی تم.میرے دل کی دھڑکن سے پیدا ہونے والی آواز بھی تم ہو اور موت کی آخری ساعت کا انتظار بھی تم ہو ۔اس کےباوجود ۔۔۔اے دو جہانوں کے سردار !
اے ذی وقار !
اے آئینہ دو جہاں
اے شیش نگر ۔۔۔ محل بنانے والے میرے زباں پر اک سوال آیا ہے ۔ ہمت کرکے محفل مقدس میں پوچھنا چاہتی ہوں ۔ مجھے امید ہے لاچار کی آواز پر اعتراض نہ ہوگا۔ ایک گناہ گار ہوں ۔ کہے دنیا سیاہ کار ہوں
ایک سوال کرنا ہے؟
''کرو، شوق سے کرو، اجازت ہے.۔۔۔۔۔!!!
میں کسی آئینے میں "یہ " عکس پاتی. میرا شوق بڑھتا ہے کہ میں تمھارا آئینہ ہوتی اور ہر سو مجھ میں "یہ " دیکھتی. مگر میں ہوتی تو۔......؟ مجھے آئینہ ہونے کی خواہش ہے.میرے پاس وضو کے لیے پانی نہیں، بنجر زمین ہے، ہرہالی کا نام و نشان نہیں ہے۔
""یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تم میں چھپا ہے۔.ہر روح آئینہ ہے جس کا وعدہ "قالو بلیٰ " کی صورت میں ملا. اس عہد کی ہر ذی نفس کو ضرورت کو تجدید کی ضرورت ہے کیا ہر بچہ دین فطرت پر پیدا نہیں کیا گیا ۔ ؟ جب تم من میں جھانکتے نہیں تو سوال تو اٹھیں گے. خود کے سمندر میں ڈوب کر دیکھو.من میں غوطہ زن ہو کر غوطہ خور بن جاؤ اور اس گیان کے ساتھ جہاں کی دید کرو ۔ سارے سوالات ختم ہوجائیں گے۔
مرشدی!
سیدی!
''میری روح نے یہ وعدہ خاکی بستر میں آنے سے پہلے کیا اور جیسے ہی لطافت کے اوپر گرد چڑھی . کچھ نظر نہیں آیا. مجھ میں بصیرت ہے نہ بصارت!!! کیا کروں ... ؟ تجدید کی ہی طلب گار ہوں ۔۔۔ !
میری حالت تو ایسی ہے کہ مجھے خود پر یہ گمان ہوتا کہ :
صم بکم عمی فہم لا یر جعون.۔۔
اندھے، بہرے ،گونگے جن کے دل طلاق کھا چکے. تالے کھلتے نہیں ہیں . ہائے! کون کھولے گا یہ تالے؟ ۔دکھ دکھ دکھ، ان کو کھول دیں ..آزادی میں حیاتی ہے. مجھے میری اسفلیت سے نکال دیں. اسفل سافلین سے بچا لیں.
"سنو "
''سفل .... لفظ۔۔۔۔۔ ''
خاک کو زیب نہیں کہ وہ سفل کا مقام خود دے. یہ وہ مقام جو "عین " سے دور ہوجانے والے کو ملا یہ اس کے حواریوں کو۔ یہ مقام ابلیس کا ہے ۔ یہ مقام فرعون کا ہے اور اسی مقام پر نمرود و شداد نے اپنی زندگیاں گزاریں اور قارون ہو یا ابو لہب ۔ ۔۔ یہ مقام انہوں نے اپنے لیے خود چنا ہے ۔
خاکی۔۔۔
تجدید کی کنجی توحید ہے ۔ ''احد '' کو اپنے دل میں بسا لے اور صنم خانہ مٹادے ۔ تیرے صنم خانے میں جب ایک ہی قسم کی شراب کی نہر جاری ہوگی تب تجدید کے سوال و جواب کی ضرورت نہیں رہے گی
تم اپنا مقام خود چننا چاہو گے تو رسوا ہوجاؤ گے انہی کی طرح ۔۔۔ !!
تم نے اپنا مقام عقل و شعور کے دائرے سے اخذ کرنا ہے نہ کہ اس طرح کے گمان پال کر ۔خود کو سفل کہ کر اپنا مقام مت گرا. تیرے اندر بسا نور ہے. اس نور کا تقاضہ اس بات کے مانع ہے ........۔جب اس گمان سے نکل کر شہادتوِں کو دیکھ کر شاہد بنو تو واحد کو پہچانو گی اور اس معرفت میں جو شہادت تمھارے من سے ابھرے گی وہ تیری پہچان بن جائے گی. جتنا شاہد انسان بنتا جاتا ہے آئینہ پر عکس منعکس ہو جاتا ہے جتنی شہادتیں شدت سے نکل کر تیرے وجود سے منقسم ہوں گی اور تیرا قطرہ قطرہ شہود کا عکس ہوگا، تب تیرا دل آئینہ ہوگا. تم کو تب مانگنے کے بجائے دینا ہوگا.