Sunday, November 22, 2020

نعت

 ہِ دو جَہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہی ہے ۔ ان کے ملیح چہرے کو ہوا نے جب تکا تو صبا کہلائی جانے لگی ۔ صبا نے جب چھُوا تو خوشبوئے گُلاب بن گئی ۔ گُلاب تو خالی کاغذ تھا اور جب کاغذ کو خوشبو نے چھوا، وہ لطافت کا حامل ہوتا گیا اور جب چھونے والے نے چھُوا، اس کا لگا گلاب ہی اصل شے ہے اور وہ مرکز تک پہنچ نہ پایا ۔ دکھ کی بات ہے سامنے والا دکھ جاتا ہے اور اندر دفینہ ء دل کیا، یہ دیکھا نَہیں جاتا ۔ ان کی مہک کی جاودانی ہے کہ دل میں ان کی کہانی ہے، یہ دل بڑا داستانی ہے اور کہنے والے نے کہاں سنانی ہے کہ بات بھی پُرانی ہے ۔ یہ پرانی بات نئی ہوکے چل کے کسی کسی بشر کے پاس آجاتی، کسی نے کہا ان کو دیکھا اور پھر ان کو دیکھنے والے نے جہاں کو دیکھا ۔ جدھر جدھر دیکھا وہی نظارہ مکمل ہوا ۔ کسی نے کہا اللہ مگر جس نے سنا تو اس نے کہا یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔۔۔ جب آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پائے مبارک کو مٹی نے ادب سے چھوا تو وہ صحرا سے گلستان بن گئی ۔ شاہ کے جلوے سے مٹی کو زینت دے دی گئی اور مٹی نے فخر سے نقش نقش دل میں اتار کے کہا "یا محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔ آپ سا کہاں؟ کہاں آپ سا؟ کہاں آپ سا؟