Sunday, November 22, 2020

بند کاغذ کتاب ہو جیسے

 بند کاغذ کتاب ہو جیسے

تیری خوشبو گلاب ہو جیسے

جیل نےدی کبھی رہائی ہے
خواب لمحہ سراب ہو جیسے

کھول کھاتے شمار کرتے رہے
گزرا ماضی عذاب ہو جیسے

قتل کرکے شہیدوں میں لکھا
خون نکلا کہ آب ہو جیسے

موت بادل کے جیسے برسی ہے
غم کا دائم سحاب ہو جیسے

حشر میں درد سے گزر گئے ہیں
لمحہ لمحہ عذاب ہو جیسے