بند کاغذ کتاب ہو جیسے
تیری خوشبو گلاب ہو جیسےجیل نےدی کبھی رہائی ہے
خواب لمحہ سراب ہو جیسے
کھول کھاتے شمار کرتے رہے
گزرا ماضی عذاب ہو جیسے
قتل کرکے شہیدوں میں لکھا
خون نکلا کہ آب ہو جیسے
موت بادل کے جیسے برسی ہے
غم کا دائم سحاب ہو جیسے
حشر میں درد سے گزر گئے ہیں
لمحہ لمحہ عذاب ہو جیسے