Sunday, November 22, 2020

بھنور کی کیا مجال یہ ہمیں ڈبو چلے

 


خبر نہیں تھی جانے کیسے لہروں میں گھرے
بھنور کی کیا مجال یہ ہمیں ڈبو چلے

کہاں کہاں تلک مجھے اڑان مل سکے
ترے یہ صید جال بچھنے چار سو لگے!

یہ کیسا دھوکہ زندگی ہے! کون جانے ہے !
دکھاوا یہ خوشی کا جانے کب تلک چلے !

کمان سے جو تیر نکلا ، سینے میں کھبا
تری نگہ سے کتنے دل فگار ہو چلے

قصور روشنی کا تو ہے، جو اندھیروں میں
اجالے کی تلاش میں ادھر ادھر پھرے

پہاڑوں پہ چڑھنے کی لگن نے مات دی
مگر لو عشق کی بھی دھیمی دھیمی ہے جلے

ہمارے حصے دشت کی لکھی سیاہی ہے
اسی لیے بھی تارکِ رہ ہونے ہیں لگے

سیاہ رات میں ہی آگہی کے چاند سے
بجھے چراغ ذات کے ستارے تھے بنے