Monday, November 23, 2020

اقربیت

ارواح قریب ہوتی ہیں تو محبت بڑھتی ہے کیونکہ تضاد ختم ہونے لگتا ہے ـ اخلاص یہی ہے تسلیم کیا جائے ـ قطب نما سینے میں پیوست ہے اور کشش سمت بنائے جارہی ہے ـ کشش کا منبع سب اندر ہے اور لاگے کہ ہم کو موسم سہانے ہے ـ یار ایسا نہیں ہے کہ محبت میں محبت نہ رہے ـ یہ جذبہ تو وجود سے خالی کر دیتا ہے جیسے جام پیالے سے نکل جائے ـ جام کو پیالہ چاہیے اور اک پیالہ،  دو جام ... دو جام اور کرلو اطمینان 

سکوت اشارہ ہے 
تو، بس  ہمارا ہے 
راز بحر بے کنار 
قطرہ استعارہ ہے
یار نے بلایا پاس 
یار تو ستارہ ہے 
جانِ قرین سن لے 
تو اول،  تو آخر 
تو ابتدا، تو انتہا 
تو دائرہ، میں نقطہ 
تو قلزم، میں قطرہ 
تو روایت،میں راوی 
 

خدا کے پاس جانے سے جایا نہیں جاتا ـ وہ بلاتا ہے ـ وہ بلاتا ہے تو کہلوایا جاتا ہے اور جب کہا جاتا ہے تو راز تھمایا جاتا ہے ـ خدا اقربیت میں ملتا ہے ـ

 نحن اقرب تو اک استعارہ ہے
تمھاری غیبت اسکا اشارہ ہے 
حاضر وہ ہے،  نمایاں وہ ہے 
الہیات کا بشر اک کنارہ ہے 

بندہ قریب کیسے ہوتا ہے؟  وہ ہاتھ میں قلم تھما کے سب کے بھیج تو چکا ہے نا ـ 

علم القران 
خلق الانسان 
علم البیان 

علم البیان کی نعمت ملی ہے
حمد و ثنا کی دولت ملی ہے 
دید نے اس کی دی اضطرابی 
پل پل میں نئی ہے یہ بیباکی 
عشق شوخ ہو، نہ کر گستاخی 

 ساکنان بغداد، والی انس و جان،  قربت میں شہادت دے جان کہ جام ہے تو ہے جہان ـ


پردہِ غیاب سے ہاتھ نمودار ہوتا ہے ـ ہاتھ جب نمودار ہو تو صدا بن جاتا ہے ـ صدا میں کئی اک راز ہوتے ہیں ـ مست الست عہد کن کے وقت سے جذب ہوتا ہے اور مستی وہیں سے لاتا ہے ـ وہ مست الست جب کچھ کہتا ہے تو وہ ہوجاتا ہے ـ مست ساجد ہوتا ہے ـ یہ وہ مست وہی ہے جس کو سجدہ کیا گیا ـ آدم کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ـ اس کی صورت روحی ہے ـ وہ ہے تو تم کون ہو؟  تم نور مکانی ہو، وہ نور زمانی ہے ـ جب نور مکانی، نور زمانی سے مربوط ہوجاتا ہے تو سورہ اخلاص کی عملی تفسیر میں ڈھل جاتا ہے ـ وہ تنہا ہے!  وہ تنہا ہے!  وہ تنہا!  مطلب کہ کچھ اور ہے ہی نہیں ـ مطلب وہی ہے اور کچھ نہیں ہے ـ مطلب اب دیدار کرو ـ دیدار کے لیے تو پیدا کیا گیا ہے ـ اس نے کہا چھپا ہوا خزانہ ہوں. اس کو تلاشو تو اقربیت یہی ہے زمان کو مکان سے ملا دو یا مکان چھوڑ کے زمان کے ہو جاؤ ـ پھر الحاشر ترتیب وار طریق سے ذات ترتیل کرتا ہے ـ ہم کلامی مخلوق سے ہوتی ہے ـ جب  اونٹ  شکایت کیا کرتا تھا تو وہ شکوہ ایسے سنا جاتا تھا کہ نور زمانی و مکانی نے کسی کے مکان کے نور کو چھوا ـ یہ لہر داخل ہوئی اور لہر سے لہر سے مل گئی ـ عیاں نہاں اور نہاں عیاں 
.وہ عرش کا رازدان ہے ـ اس نے جانے کس کو بہت عزیز رکھا ہے ـ وہ جس کو محبوب کرلے،  وہ خود اس سے ملتا ہے ـ زمانے مکان میں جلوہ کرتے ہیں اور مکان خوشبو سے بھر جاتا ہے 

ورود!  وردو!  وردو 
درود!  درود!  درود!