تجسیمِ وفا ،الفت سرِراز، ماہناز ہیں
جو شہرِ دل میں حال پر قائم ہیں
وہ تقدیر پر نائم ،تدبر میں پائیم
شمیشیر جن کے ہاتھ میں نازاں
قلم برنگ تجلی صدہا زماں لیے
نور قدیم، نور لطیف کی شفافیت لیے
میم کی عطا پر قائم و صائم شجر
حجر کا نقطہ، شجر کی الف پر قائم
زمانے صدیاں بنتے چلتے گئے
جنبشِ خاماں سے قفلِ نازش ستم زدہ
دل حرف کنندہ پر لام کا نام
اتمامِ حجت:کلیہِ درویشاِں ....
حرف تسبیحات
نقطے تجلیات
لفظ شبیہات
خط سایہِ دلبری
منقش ہالہِ نوری
قندیل نور کی ترمیم
تفریق میں کرم حدوث
کبریائی میں جبلی دھاگے کا نزول
الف کے دھاگے
نقطے کے وعدے
خطوطِ شبیہات و تجلیات و انوارت کی ہستیاں
مدحت نامہ لکھیے
لکھوا دیجیے
وجہِ المنیر کی شاہکار رویت کی ازبر کہانی ہے
طٰہ کی ترتیل شدہ وادی میں جبری آزادی ہے
قدیم راویان نے شام کو سرحد کی مقفل سرحدیں کھول دیں
رات نے اقتدار سنبھال کے شمس الدحی کے گرد تنویر کے ہالے سنبھالے
بشر نے جامہ الحسن میں نور کو وجہِ شاہ بنا دیا
چکر میں صوم و صلوت کے روا رواج رکھے گئے
افسانے لکھے گئے
فسانے بن گئے
نذرانے بقا کے
احتیاج نہیں کسی کے
سرکار کی لاگ میں لگن کی چنر سنبھالی نہ گئی کہ آگ میں آگ کا رکھدیا بالن
یہ وہ احتیاجی خط ہے جس کو نقطہ بہ نقطہ قلب میں تصویر کیا جاتا ہے.اس کے بعد لامثل کل شئی کی مثال خط سے خطوط یعنی صورت سے صورتیں ترویج پاتی ہیں. الف لام میم کے امکانی نقطے کی وسعت کئی صدیوں سے نہیں بلکہ ازل سے نقطہ پذیر ہے....