Monday, October 12, 2020

دل کو لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے؟

تمہیں دل کہوں؟
دِل کو لفظوں کی ضرورت ہوتی ہے؟
تم کو مگر خیال پر دسترس نہیں 
خیال پر تم کو حضوری حاصل نہیں 
جب مرا خیال مجھ میں حضور نہیں اور کورے کاغذ جیسا سیال ہوں جسکا ہر حرف نگاہ سے بنتا ہے، مجھے لفظ بانٹنے کا کہنے سے کیا جائے گا مین حرف دل کی پجاری --- میم----حے ------میم----دال -- الف نہیں یے اس لیے دو دفعہ میم یعنی میم کے اوپر میم ..گویا نور علی النور --- گویا زیتون کا شجر بھی ہم رنگ ہے گویا شاخ انجیر میں مجلی ہتے "حے " جیسے ہیں گویا "دال " ایسی یے جیسے کلام کرے. تم نے محبوب کا حسن دیکھا میرے؟ اگر کبھی دیکھو تو پاگل ہو کے کہو میں مجذوبِ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہو ... دِل تو دِل کی سنتا ہے تو بوجھ ہلکا ہوتا اگر تم ان کی زلفِ پوشیدہ کا نور دیکھو تو سمجھ آئے گی غشی سی طاری رہتی یہ صدائے غنود --- جسطرح لیل میں شمس موجود ہوتا ہے اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی رات میں موجود ہوتے ہیں اور اپنی کملی کا زلفِ نور کا سایہ کیے رکھتے ہیں اس لیے ہم چین کو سوجاتے ہیں مگر وہ لوگ جن کو جلوے کی تابش میں جلنا یوتا ان کو اس سے چین نَہیں آتا، پھر جب کملی ہٹاتے ہیں کائنات سے تو صبح ہوجاتی یہ سحر خیزی ..اس لیے پرندے اللہ ھو -- کرتے جبکہ چڑیاں چہچہاتی،  جبکہ پتے لہلہاتے، شبنم گرتی یہ آنسو خوشبو سے جدا ہونے کا جان لیوا ہوتا ہے .... ان کے چہرے کو جب دیکھو تو نگاہ جھک جائے جبکہ دیکھا ہے نہیں یہ تو گمان سے نکلتا نور ہے جو مرے سینے میں معجزن یے کہ شاید وہ دیکھ رہے ہیں --- اللہ آنکھوں کو پالیتا ہے اسیطرح وہ بھی آنکھوں کو پالیتے ہیں ...یہ حسن ملکوتی ہے جس کی مثال ملے گی نہیں اور بندہ گم صم ہو جائے گا --- دل کی فصل میں لالہ ء جنون کھل گیا ---- دل کو عندیہ ء بہار مل گیا

نور ہے! چار سو نور ہے!  نور کی پوشاک ہے! نوری ہالے ہیں!  یہ اسماء کیفیت والے ہیں!  یہ حرف پیامِ شوق والے ہیں! یہ نگاہِ شوق کا بیان ہے دل میں معجز بیانی کہ کہاں سے چلے ہم اور کہاں تلک ہم جائیں گے ... سیاہی بھی محجوب ہوگئی -- شرم سے -- حیا سے --- ردائیں، نوری دوشالے میں صحنِ نور ہے جس پر مجلی آیات ہیں .... یہ استعارہ ہے یا نقشِ علی پاک جس سے میرا ستارہ منور ہورہا ہے....   ستارہ سحری جسکو صبح کو نوید ملی یے --- آشیانہ تنکا تنکا کرکے جمع ہو تو ضائع ہو جاتا اور بنا بنایا زمین بوس مگر جو شہر دل ھو کے ویرانے میں رہے --- وہیں کاشانہ ء رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود ہوتے ہیں --- وحدتِ کل،  امامت کل،  تاجدار کل،  علمِ کل،  قدسی سلام بھیجتے ہیں 
یہ ترے قدسی کے ان کے قدسی سے ربط ہیں 
کتنا شاداں بخت ہے تمام جن و انس کے قدسی بہ نسبت اسی صورت وہاں موجود ہوتے جس قدر یہاں 
جس کے دل کا تار مل جائے تو کہے 
وجی میم دی تار 
سانوں مکایا مار 
اشکاں دے اے ہار 
ہوئے دل دے آر پار 
شمع دل اچ وسدی اے 
ہور نہیں کوئ دسدا سے

تم پتھر نہیں ہو 
تم نوری ہالہ ہو 
کبھی خود کا حسن دیکھا؟  
تم دیکھو صورت تو مخمور ہو جاؤ 
وہ درون سے نکلا تو بہنے لگا نور 
یہی بہنے لگا ہے پھر بین السطور 
تم نے جانا ہوگا کہ عشق میں معشوق وہ خود یے 
لازم یے دل!  اگر تم ہالہ دل سے پری مثال خود کو دیکھو تو کھو جاؤ 
تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟
آسمان کی چھایا یے.
برسات ہے!  برسات ہے!  برسات ہے!  گگن برسے،  لالی نے دی تنہائی اور تنہائ میں شہِ کربل ہیں 
وہ مری تنہائیوں میں رہنے والے عین روئے علی ہیں 
وہ عکسِ فاطمہ رضی تعالی عنہ ہیں 
یہ وہ خاتون ہیں جن کی قدموں کی خاک کہیں سے مل جائے تو چوم چوم کے مر جائیں گے وہ اس قدر لائق محبت ہیں!  وہ ہمیشہ سفید چادر میں رہتی ہیں جن سے کشش کے تیر نکلتے رہتے ییں