Tuesday, October 20, 2020

کعبہ ‏تو ‏دیکھ ‏چکے ‏ہو ‏

کعبہ تو دیکھ چکے ہو، مجھے دیکھنے والے کم کم ہیں!  مجھے دیکھو گے؟  تجھے  نہ دیکھیں تو کسے دیکھیں ـــــ دکھ جائے گا تو، مٹ جائیں گے ہم. مستقبل کے مصدر حال میں ضم ہوں گے،  ماضی کے صیغہ مٹ جائیں گے اور سرر میں رقص کرے گا عالم. عالم میں معلوم تو میرا خدا ہے. میں کچھ نہیں،  میرا عشق معلوم ہے! میں کچھ نہیں،  مرشد معلوم ہے!  فنا کچھ نہیں، بقا کچھ نہیں.ـ اول حرف،  حرف بقا سے ملا ہے!  اک دھاگا دوجے میں پیوست ہے. وصال ہے!  حال ہے!  کمال ہے!  دل جاناں کے لیے بیحال ہے!  رت لگن کی ہے!  جلن نہیں ہے!  چاندنی والی رات ہے!  شامِ حنا کے سورج کو کہو کہ چاند کی بینائی لوٹ آئی ہے. چاند یک ٹک سو تجھے دیکھی جائے ہے. چہار سو ترا جلوہ ہے. عالم عالم میں تو ہمراز ہے. اک محفل میں وجی تار اللہ کی!  بس تار وجدی رووے گی اور سیر کرتا رہے گا جہاں جہاں میں یہ مکان. مکان بھلا سیر کیسے کرے گا؟  لامکان کی بلندی والا پرندہ ہے جو میرے ساتھ ہے!  میں حلقہ ء کامرانی میں ہوں!  گویا وجدان قرطاس بن چکا ہے اور قلم لفظ کو بکھیر رہا ہے


کون جانے حقیقت اس کی جس نے راز بشریت کو پالیا ہو!  دعائیں کے زیر سایہ جانے کتنے دل فیض یاب ہوئے ہوں جس کے. اے حقیقت سن!  وہ تو تری زمین کی کوکھ سے نکلا ہیرا،  تجھ میں آبسا. تو نے خیال کیا یکجائی سے پیچھے کچھ نہیں!  یکجائی بعید نہیں!  سن کے اللہ اکیلا ہے،  اللہ واحد ہے!  اللہ تنہا ہے!  اللہ کی گواہی کون دیتا ہے؟  انبیاء کرام،  ایسے جو احسن الخالقین ــ
بہ نیاز:  سید نایاب حسین نقوی