Monday, October 12, 2020

ہتھیلی میں جگنو

میری ہتھیلی پر اک جگنو چمک رہا ہے ـ یہ جگنو تو بس عکس ہے، اُس اصل کا جو دل میں قرار پائی ہے ـ میں اس نگر سے اس نگر اک تلاش کے سفر میں اور میری من کی سوئی اس روشنی سے پاتی دیپ بناتی جاتی ہے ـ میں کس سمت جستجو کے چکر لگاؤں؟ کس سمت سے پکاروں؟  غرض لامکان سے صدا مکان میں آتی ہے تو زمان و مکان سے نکل جانے کی سبیل بھی موجود ہوگی ـ اب تو لگتا ہے دل پتھر کا ہوگیا اور کیسے اس سے چشمہ پھوٹے گا؟  جب چشمہ نہیں رہے گا تو زمین بنجر ریے گی ـ دل کی زمین بنجر ہو تو ذکر اک وسیلہ بن جاتا ہے مگر ذکر کیساتھ روشنی کا انعکاس ضروری اور دل شفاف ہو جائے تو انعطاف بھی ضروری ـ غرض یا نہ عکس ہے نا کوئی شاہد ہے ـ نہ کوئی قرارِ مشہود ہے. ـ دل ایسے خالی ہے جیسے سونی زمین کو کسی ریتلے تھل سے مناسبت ہو ــــ 

کبھی موسم ہو تو بہار بھلی لگتی ہے ـ بہار میں اشجار کے گیت اور ہوتے ہیں ـ جو پتے لہلہاتے ہیں کبھی ان کی خوشی محسوس کرو ـ جسطرح وہ سر جھکائے شاخچے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو اس ذکر خیر کو رائیگاں نہ سمجھو ـ تم بھی یہیں بہار کا نظارہ کرلو تاکہ دل وحدت کی جانب چلے ـ جب وحدت نہ ہو تو کثرت کی جامعیت سے کیا سروکار ہے ـ میں تو اپنے ہاتھ نہ دیکھ سکوں پاؤں نہ دیکھ سکوں،  تو کیسے اپنا سراپا مکمل دیکھو ـ مجھے اپنے ہاتھوں میں ہی تجلی نہیں ملی ـ