Sunday, October 11, 2020

ماں

 ماں ایسی ہستی ہے جس نے تخلیق کا فرض نبھایا ہوتا ہے ، جس نے تخلیق کی خدمت کی ہوتی ہے مگر بدلے میں سرکشی ، خودسری خلقت کی سرشت ہوتی ہے ، ایسی بے مثال ہستی جس کی اپنی خلقت  بھی اسے برا، بھلا کہے تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ ہوتی ہے کہ خلافِ رحمت کام کرنا ماں کے شانِ شایان نہیں ہوتا


ماں! کیا ہوتی ہے ماں؟ آخر درد کو حاصل کرکے کتنا سکون پاتی ہے ماں؟ اس  ملال کو جو رکھے دوریوں پر، کتنا ترساتی ہے ماں، وہ جب جب قریب ہوتی ہے، فلک پر دنیا نصیب ہوتی ہے! ماں کی مامتا بڑی بے لوث ہے! بڑا دکھ سہا مامتا نے! تخلیق کے وقت موت سے گزر جانے والی ماں کی قدر اسکی اولاد نہیں جانتی مگر اسی نافرمان اولاد کے پیچھے بھاگ بھاگ کے جاتی ہے ۔ بچہ پیدا ہوتے ماں کا لفظ پکارتا ہے اور ماں خوشی سے پھولے نہیں سماتی ! بچہ اپنی پہچان کو ''ماں '' بلاتا ہے اور جب بڑا ہوتا ہے تو اسی ماں کو بھول جاتا ہے ، بچہ ماں ماں نہ کہے ، کتنا دکھ کرے ماں ۔پہچان اصل چیز ہے جو بڑے ہونے پر سب بھول جاتے ہیں


ماں کی دوری نے ہلکان کردیا جیسے ذرہ ذرہ پریشان کردیا، کتنا دکھ کرے تخلیق ؟ دکھڑا درد کا کیسے کہے تخلیق؟ جب سنے نہ کوئی تو کون سنے؟ جب دکھےنہ کوئی تو کون دکھے؟ جب چھپے نہ کوئی تو کون چھپے؟ جب اٹھے نہ کوئی تو کون اٹھے، ماں نے پورا وعدہ نبھایا پر سبق ملن کا نہ آیا


سبق ملن، جدائی اور ہجر نے جلادیا دل، جلا دیا دل، اس کی جانب نگاہ ہے، سجدے میں سر بھی جھکا ہے، اس کو پہچانوں ناں، کتنا دکھ کرے ماں؟ وہ جو قریب ہے؟ وہ جو حبیب ہے؟ وہ جو حسیب ہے، وہی نصیب ہے! 


ماں تو دوری بڑا ستاندی اے، 

اکھ ہن نیر وگاندی اے


ماں تجھے پہچان نہ سکوں تو کس کو پہچانوں؟ ماں  تجھے نہ مانوں تو کس کو مانوں، زمانے کے سرد و گرم سے بچایا، مجھے نور میں چھپایا، لہو لہو دل ہے، قلب میں جس کا جلوہ ہے جس کی قندیل ہے، وہی میرا وطن ہے، وہی میرا اصل ہے، وہی مرا مقصدِ حیات ہے جس کو پایا بعدِ ممات ہے! ماں توں دوری نے آزمایا، لوکی کہون مینوں پرایا، میں اس دنیا اچ کی کمایا جے ماں تینوں نہ پایا؟


یہ جذبات، یہ احساسات، یہ رگ رگ سے نکلے لہو کے ان دیکھے قطرے جو گر رہے قلب کے وجود پر، جن کا نشان نہیں ہے مگر ظاہر نے نمی سے منعکس کردیا جس کا جلوہ  عالی ذیشان ﷺ کی آنکھوں میں ہے، وہ مسیحا، وہ جس کو میں کہوں: میرے  عیسی ، قم باذن اللہ سے میرا دل جلایا،  دی زندگی، قلب کو منور کرایا ....  وہ مجسمِ نور ، وہ سراپاِ رحمت ، وہ عین رحمانی ، وہ نور یزدانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ طہٰﷺ ، جن کی تجلیات نے بطحا کی وادیوں کو روشن کردیا ہے ، جن کا احساس دائمی ہے ، دل جن کے آنے مجلی ، مطہر ، مطیب ، منور ، منقی  ہوجاتا ہے ، انہوں نے درد کو سہا ہے ، وہ محبت جو خالق نے اپنے محبوب ِ خاص ﷺ کو دی ، وہی محبت عام کردی آپ نے یعنی کہ بانٹ دی ، خالق کی عنایت تو خاص کر دیتی ہے ، نبی ﷺ کی نظر سب پر یکساں پڑتی ہے ، ذروں کو آفتاب کردیتی ہے ۔