Thursday, October 15, 2020

سر ‏دست ‏میرے ‏لفظ ‏خالی.ہیں

سر دست میرے میرے لفظ ہیں. خالی لفظ ہیں نہیں یہ خالی نہیں. ان میں اشک ہیں. یہ حرف دل ہیں.  ظاہر سے رنگ ان کا گہرا نہیں مگر اندر سرسبز ہے. ہدیہ اک ہے یعنی دل اک ہے جو نذر میں جاچکا ہے تو باقی بچتا ہے خالی دل. نَذر مانو تو پوری کرو 
نَذر کیسے پوری ہو؟
میرا دھیان بدل گیا 
میرا گیان بدل گیا 
حرف ترجمان میرا 
حرف نگہبان میرا 
میں نے لکھا صنم کو خط 
خالی تھے لفظ، حروف کے جام لیے 
لوگ سمجھے خالی کاغذ ہے 
دل سے جس جس نے دیکھا تو جذبات سے سینہ منور پایا 
گویا روئے احمر کو پایا 
تم کو پتا روئے احمر کیا ہے؟
وہ جس کے یاقوتی لب ہیں 
کس کے لب ہیں یاقوت جیسے
وہ جن کی زلف کے صبا ناز اٹھائے 
وہ جن کے کاندھے پر جھلکتی نور کی پوشاک کسی بیان میں نہ ہو 
وہ روئے یار امام حسین!  جن کی غایت نظر سے چاند چھپ جاتا ہے! بھلا اک سینے میں دو دل کیسے ہوں؟  سو زمانہ سمجھتا ہے زمین نے لکھا ہے جبکہ حرف بتاتے ہیں مطلعِ انوار بدلا ہے!  کسو سمجھاؤ کہ ہم نے جانے یہ انداز کس سے سیکھا ہے کہ نہ جانے ہم کو کونسی زمین میں جائے پناہ ملے یا ہم کسی فلک سے معلق زیست گزارن گے مگر دیکھیو صبا!  ہم راہ تکا کریں گے اس راہ کی جس راہ پر خونِ بہ لعل بہ جواہر گرا اور زمین نے جذب کیا تو حسرت دل کو ملے کہ زمین ہماری کس کام کی!  کاش دل پر گرا ہوتا!  کاش کہ یہ رقص سر بازار نہ ہوتا ہے کاش دینے والا ہاتھ میرا ہوتا، کاش کبھی لیا نہ ہوتا کاش دعا میری عرش سے ٹکرا جاتی،  کاش خدا کا جلال،  جمال مجھے باکمال کردیتا، کاش رویت کا عکس مجھے آئنہ کر.دیتا کاش میں! یہ کاش سے نکلے لفظ کانچ ہوئے!  ٹوٹ گئے اور پھر بھی رہا ترا وجود. تری ہست!  تری نمود! میں رہا سنگ اور قرار پایا ترا وجود 

چلیں اشک بندی کریں! محفل سجے گی!  چلو نعت کہیں محفل ہوگی. چلو خدمت کریں محفل ہوگی چلو پیار تقسیم کریں محفل ہوگی چلو کہ محبوب بلائے گا! چلو چلو ورنہ چلا نہ جائے رحمت افلاک سے برسے گی اور جواب نہ ہوگا!  چلو اظہار میں نہ پڑو!  چلو رنگ سے بچو!  چلو اک رنگ میں ڈھل جاؤ چلو اک چاہت والی کی چاہت اپنا لو 

چلو درود پڑھیں!  چلو آشنا سے آشنائی کو بہ آواز بلند پڑھیں!  چلو دل کے مالک کو تعریف کہنے دیں یا محمد کہتے اور نکل جائیں نفس کے حجابات سے!  چلو مالک جانے اس کا محبوب جانے مگر غافل تو نے مانا نہیں مجھے!  ارے غافل تو نے پہچانا نہیں مجھے!  ارے غافل تونے چال پہ نظر کی،  حال پہ دھیان کر!  غافل کو غفلت نہ لے ڈوبے!  غافل کا خیال خیال الوہی سے ملا جائے گا!  غافل پھر نہ غافل ہوگا اور عقل کا چولا ساتھ نہ ہوگا 

چلیں ہم چلے!  ناز بہ ندا اس کے پاس. اس کے ہاتھوں میں شہنائی ہے اور شہنائی محبت والی ہے اس نے کنگن پہنا ہے اور وہ کنگن محبت والا ہے. بجے گی شہنائی اندھیرا مٹے گا اور سویرا ہوگا. کیوں ہے تجھے مہجوری کہ تری مری کیا دوری. ترا مرا ساتھ ضروری اور خودی میں جانا ضروری!  تو چل!  تو چل دل میں جھانک!  اندر تو نور ہے اور رولا ڈالا ہے کہ اندھیرا ہے!  ارے غافل اٹھ!  اٹھ   اسکا ذکر پکڑ لے!  اس نے تجھے تھاما ہے تو بھی تھام لے اسکو. تو رہ کے رینا سیکھ لے.
احساس!  احساس نے دلاسہ دیا!  محبت کا کاسہ دیا!