Monday, October 12, 2020

بیقراری کا پرندہ

بیقراری اک پرندہ ہے جس کے پر پھڑپھڑاتے رہتے ہیں اور سنگ در جاناں جب تک بن نہ جائے،  یہ اپنی اڑان سے زخمی ہوجاتا ہے ـ ہوا تکیہ بن جائے، تخییل اندھا ہو کے بھی محو ہو جائے اور گائے پریم کی نَیا میں الوہی گیت اور راگ سُر ماتا ـ یہ راگ ایسا جس سے پہاڑ جیسے دل ٹوٹ کے ریزہ ریزہ ہو جائیں اور آنکھ سے نہر بہہ جائے ـ مثل یعقوب دیدہ ء دل کن کے بعد سے نابینا رہا اور بینائی کے لیے محبوب کی خوشبو چاہیے تھی. جا بجا اس اک پوشاکِ یوسف کی مثل ڈھونڈا ہے ہم نے اس ملاحت آمیز خوشبو کو ـ جس کی مہک سے کھلے غنچہ ء دل اور نیم واہی میں جلوہ دیکھیں گے اور کھل کے دیکھنے کے لیے سر نہ ہم کبھی اٹھائیں گے ـ ان کے ملنے سے پہلے کبھی دہلیز سے نہ اٹھیں گے ـ اے موت!  ٹھہر جا!  ابھی رک جا!  ابھی ان سے ملنا ہے اور ملنے کے بعد لے جا خاکِ دل کو محبوب کے در پر کہ نہ رہے نشان اور ہونشان دل پر محبت کےنقش ـ یہ غزل ہے اور غزل صدا ہے