Thursday, October 15, 2020

کوئی ‏امکان ‏نہیں ‏: ‏چارہ ‏گرِ ‏شوق

کوئی امکان نہین صورت یار ہے کہ سورہِ قران جب تک قرات نہیں ہوگی، بھید بھید رہے گا.  روگ لگا ہے، مریض دیکھتا نہیں کوئی. ہم تو اسے ڈھونڈتے ہیں مگر ملتا نہیں کوئی  آہ!  دل چیرا دیا گیا اور دل خالی!  کوئی چیز تو خآلص ہوتی مگر بے مایا انمول کیسے ہو سکتا ہے.  جو ان کے در پر جانے کا خواہش مند ہو،  وہ در در رل کیسے سکتا ہے اور جو رُل جائے وہ دھل جائے اور جو دھل جائے دل مل جائے. میرا دکھڑا سنے نہ کوئی،  سنے نہ تو سمجھے نہ کوئی،  سمجھ تو نبض دیکھ کے معلوم ہوگا مگر طبیب چاہ ہے اور کوزہ گر کو دیکھیے سیراب کیے جاتا زخم ہرے ہیں اور پانی دے رہا. یہ بڑا دکھ ہے کہ حیاتی کو روگ لگا ہے اور حیات بھی حیاتی ہے. جیون کو روگ لگے ہے اور مجھے سوگ لگے ہے میں نمانی جاواں نہ چھڈا محبوب دا ویہڑا،  پے چھایا اکھ آگے انیرا،  اکھ پئیٰ روندی اے اور میں اشک وچ بہہ جاواں گی.  

چارہِ گرِ شوق کچھ کرو
نسیمِ صبح، جا محبوب کو بتلا دے 
مریض مر جائے گا، کچھ کر دیجیے 
چارہ گر شوق!  کچھ مرہم؟
چارہ گر شوق!  اور زخم؟  .چارہ گَرِ شوق!  کچھ نمی؟
چارہ گرِ شوق!  میں ہوں دکھی. 
چارہ گر شوق!  مجھے راز بتلا 
چارہ گر شوق!  مجھے الف الف سکھا 
چارہ گر شوق!  مجھے ب میں  مت الجھا 
چارہ گر شوق!  مجھے خونی رقص سکھا 
چارہ گر رقص! بسمل کی جاوداں حیاتی دیکھ. 
چارہ گر شوق!  کچھ کر،  کچھ کر 

مریض مر رہا ہے،  طبیب کے پاس شفا ہے. جس نے مار ڈالا،  وہ اس کی دید تھی، جو مارے گی،  وہ دید کیا ہوگی؟  جو مجھے دیکھے وہ تو میِں کسے دیکھوں؟  میں تجھے دیکھوں اے ذات!  نقشِ حریمانِ باغباں کے دیکھو،  جا بجا تن پر سر سبز نشان!  یہ روح کے نیل اور یہ جاوداں سر سبز نشان. ُ