Monday, October 12, 2020

درد لافانی ہو رہا ہے

وُضو کا طریقہ تھا اک سلیقہ تھا. وہ تھا دل کو نیت کے وضو سے پانی کرا دیا جائے ... پانی تو اخلاص سے ملتا ہے پر کچا ترا گھڑا ہے. جس سے پانی گر جائے ...برتن پکا ہو تو بات بنتی ہے ... یہ باتیں کہنے والے سے کہہ دو کہ کہہ دیا جائے اسکو سن لیا جانا چاہیے ورنہ بات سنائی جاتی کہ ضرب لگا دی جاتی یے. ہھر بسمل بن کے شور مچاتے ہیں کہ منوں پچھو ماں نی، میرا حال نہ کوئی ہے ... زمین پہ گلاب سجے ہیں خوشبو سے مہک رہے ہیں ہر شجر اور پتے لہریے دار بل کھاتے سلام عشق سلام عشق سلام عشق کہی جارہے ہیں ..وہ آجائیں تو وہ یہاں موجود ہوں گے وہ خود یہیں ہیں میں بس فنا نہیں یوں ..اے خدا فنا کی مٹی چھکا دے مجھے اپنا بنا لے ....یہ لگن سے چلی اک وادی یے جس میں می رقصم مانند شرر بودم والا یے ...مقام دل کہاں یے؟

لافانی ہو رہا ہے 
روحانی ہو ریا ہے 
دل دیکھیے مترجم کی کہانی ہو رہا ہے 
شمس کی طولانی ہو رہا ہے 
آنکھ کی زبانی ہو رہا یے 
جلے دل کی نشانی ہو رہا ہے.
یہ دل مانند پیشانی ہو رہا ہے 
اچھا کلام ربانی ہو رہا ہے 
کعبہ میں اترے گا دل کبھی 
کعبہ دل سے طواف طولانی ہو رہا یے 
کاجل لاگ گئے ـــ لاگی من دیپک کی نشانی ہو رہا ہے 
دھواں موم سے اٹھ رہا ہے
لہریہ ہوائیں ـــــ جذب عشق مستانی ہو رہا یے 
نعرہ ء دل میں عشق کی گرانی 
مرا دل وجود کی دھانی ہو رہا ہے