Thursday, May 19, 2022

نوری ‏ریکھائیں

 بہرحال سلطان پیش رو قبلہ ماتمی قبا پہنے زندہ درگور حیات میں بقا کا پرندہ لافانی ہے  یہ جذبات کی روانی میں نکلا آبجو جس کو مانند بحر سمجھ کے رقم کردیا. یہ شاہ نسیان ہے. سلاست کے قائم مقام اللہ کے ہادی ہیں جن پر دل کا کہا ہے وجی اللہ کی تار 
یہ میم کی رخسار 
بات میں ہے اختصار 
دل میں بسے اغیار
کیسا کیا میں نے پیار 
بج رہا ہے میرا ستار 
ہوئی لیل میں نہار 
کوبہ کو ریشمی فضا 
اللہ اللہ کی ہے ردا 
دل میں کس کا جلوہ 
اللہ کا ہے وہ نور یزدان
 سلطانی قبا کو پہن کے روح ہاشمی کے سامنے لب سمیٹ کے کریم سے فہم کے دھاگے مانگ کے لطیف ہوگئے اور اسم ناتوانی سے اک الف نے توانائ کی آبشار دی اور مجھ میں ذات کا اظہار کسی برقی رو سے مانند مثل نور ہے اور جانب طور سے جانب جبل النور ہے. کسی سدرہ والے نے آواز دی ہے کہ طائران حرم کے پیشوا حاضر ہیں
 مقبران طیور پر زندہ باقی ہے 
وہی زندہ جو مثل نور قدیم ہے اسکی بات طوفانی ہے اور حق کی روانی میں کسی آبشار کے سلام کو اسم قہار سے تعلق جوڑنے والے بے ھو کا اشارہ دیا گویا بحر کو کنارے کی ضرورت نہ تھی مگر موج بن گیا بحر اوراستعاراتا موت واقع ہوگئی اور جنبش مژگان سے موتی ٹپکتے رہے اور ہاتھ کی روانی میں کسی نور سے آنکھ ملی. یہ ید بیضائی ہالہ ہے
  اسکو اجالا کہیں گے کہ کسی اجالے والے سے پوچھو کہ کس طرز سے راگ چھیڑا جاتا ہے. کس طرز سے  صدائے نو بہار کو بلایا جائے یا صدائے جرس کی گھڑی کو بھگایا جائے یا نغمہ آہو کو رفع کیا جائے. میں شمع ہوں اور پروانہ مجھ میں متوف ہے. کیسا رشتہ ہے یکتائ میں دوئی ہے اور اسم وحدت ھو بن کے چمک رہا ہے گویا تو بن کے دمک رہا ہے
  وہ افلاک سے قندیل بلائی گئی ہے جس میں نور سجایا گیا ہے .نور مکمل ہوگا جب مکمل ہوگا تب نہ ہوش ہوگا نہ ذوق ہوگا تب وہ ہوگا صاحب وڈا میں نیوی آں 
صاحب ہادی میں مندی آں 
صاحب نال رشتہ ازلوں اے 
صاحب نال ازلوں منگی آں 
میں اوہدی راہ انج تکدی آں
جیویں نور وچ سیاہی لکی ہے
جیویں روشنی دے اجیارے 
جیویں روشنی وچ استعارے
  کس طرز نو بہا سے سجایا گیا ہے. کس طرز سے افلاک کو سجایا گیا ہے. کس طرز سے ابحار کو ریکھا نے لکھا ہے مجھ میِں. وقت کی قید میں مثل شعر ہوں. میں اسکی پوری غزل ہوں اور خود منعم کا انعام ہوں. صراط مستقیم پر اجالا ہے. گزرنے والے نے کہا 
اللہ سے رنگ لیا ہے 
میم سے واج اٹھی ہے 
میم نے ردا ڈالی یے 
میم سے سویرا ہوا ہے 
میم  برحق برمثل شمع
میم رخسار دل پر رقم 
میم افکار میں قائم ہے
 : وہ نور جو مجھے میں دائم ہے میں اس پر صائم ہے. میں ناعم ہوں وہ قائم ہے. میں ناعم ہوں وہ ثُبات ہے. میں ناعم ہوں وہ حیات ہے. میں ناعم ہوں وہ لا اضداد ہے. میں ناعم ہوں وہ بے حساب ہے. میں ناعم ہوں وہ غنی ہے. میں ناعم ہوں وہ رواں مثل آبشار ہے. میں ناعم ہوں وہ دائم ہے. میں ناعم ہوں وہ الحی القیوم یے ..میں ناعم ہوں وہ یوم حشر کی توانائی ہے .میں ناعم ہوں وہ دیدار بقا ہے. میں ناعم ہوں وہ ابہار حیا ہے. میں ناعم ہوں وہ رب زوالجلال ہے. میں ناعم ہوں وہ رب پر جلال ہے
 میں ناعم ہوں وہ پیشوائے رنداں ہے. میں ناعم ہوں بزم شوق کی نوری قندیل ہے. میں ناعم ہوں وہ جنبش موجہِ ندیم کی بات سے لب دل سے افکار سے مختصر ہے. قصہ گو نے مجھے لکھنا چاہا ہے میں نے قصہ لکھنا چاہا ہے. قصہ مجھے لکھ رہا ہے. میں نے اسے دیکھ رکھا یے. ہاں وہ رب جس کی وحدت کی چمک سے جہاں روشن ہے. ہاں وہ رب جس کی شان الوہیت سے قلب مطہر ہیں. ہاں وہ رب جو سب میں ہے. ہاں وہ رب جو سب میں بقائے حیات ہے. ہاں وہ رب جو کرسی پر فائز ہے. ہاں وہ رب جو ندی سے بحر کا سفر کراتا ہے. ہاں وہ رب جو قطرے کو دریا بناتا ہے. ہاں وہ رب جو دریا کو بحر میں لیجاتا یے. وہ مجھے ملا ہے مرا دل ہلا ہے مجھ میں کچھ ہلا ہے. کہو اللہ اللہ
  سنو یہ حرف مقام شوق سے پربیان دل پر طاری افکار ندیم ہیں. سنو یہ دل کی ازلی عطا پر رفتگی کا سایہ شمیم ہے سنو یہ فلاں ابن فلاں کی روحی ترمیم ہے. سنو یہ اللہ سے اللہ کی باد نسیم ہے. سنو یہ تمنائے حرم کی شوق صمیم ہے. سنو یہ کوئے جاناں کی طواف نسیم ہے. خاک کو بہ کو ہے روشنی چار سو ہے رگ رگ میں وہی تار ہے کہو اشھد ان الا الہ الا اللہ
  تشہد پر قائم دل ہو تو رخ سے حجاب ہٹ جاتے ہیں  رخ سے حجاب اٹھا تو لگا تم بھی نور قدیم ہو. تم ازل کی باد نسیم ہو تم موجہ کریم ہو. تم رومی کے ندیم ہو. تم شمس سے منسلک کسی  ستار کا تار ہو. تم پر غازی لکھا گیا ہے غازی جس نے لکھا اس نے کہا ہے اسم غازی سے غازہ دل سے سرخ رنگ تمھارا ہے لعل تمھارا روشن ہے تم چراغ حسینی کے اک احساس ہو. جب جب احساس کی تلوار اترتی ہےتم رو پڑتے ہو
  رخ عنبر سے عنابی پن میں آپ کے لیکھ روشن. آپ کے ہاتھ میں وہ ہالے ہیں جس سے شاہ کنعان نے چابیاں لے کے بحر طلسم توڑا. محبت کا الوہی احساس ہے جس میں کسی تار حریر سے ریشمی قبا کا سوال کیا گیا. کسی احسن ندیم نے مجھے زعیم کیا اور کہا رنگ لگا ہے سرکاری. سرکار والے آئے ہیں اور سرکار سے سلیمانی ٹوپی لائے ہیں. آپ کے احساس سے ڈوبی تلوار نے ناوک دل پر گھاؤ لگایا ایسا کہ ٹوٹ گیا صبر کا قفل. روشنی کا ستم اشتہار ہوا اور خبر کا انتشار ہوا. مخبر کو بتایا گیا 
الحاقہ ماالحاقہ