Friday, January 29, 2021

حبیب ‏جان ‏قرین ‏ہے

حبیب دل میں رہا ہے 
قرینِ جاں وہ رہا ہے 
کون ہے وہ پتا بتاؤ؟
نَہیں!  حجاب اچھا 
نہیں اچھا نقاب!  
پاگل ہو تم،  سب دید میں ہیں 
محو لقا ہیں 
گم دیوانے ہیں 
مے خانے پیمانے میں ہو 
تم کو دیوانے کہتے ہیں 
میخانے پیمانے میں ہیں 
دل میں رہتے مستانے ہیں 
یہ دل مکین جانب اطہر ہے 
شاہ دو جہاں کا یہ اثر ہے 
دنیا کی دل میں اک قبر ہے 
دنیا نبھانی اب اک  جبر ہے 
دنیا میں رہنا؟  ارے حذر ہے 
دنیا مٹی ہے اور دل پاؤں ہے 
رکھی کسی نے یہ چھاؤں ہے 
رحمت کی بدلی چھائی ہے 
رحمت سے دنیا پاؤں میں ہے 
کملی والے نے لاج رکھی ہے 
صدائے دل میں بات رکھی ہے 
وہ کون ہے جس میں جلوہ حق نما ہے 
وہ کون ہے جس کو غازہ کہا دنیا نے 
غازہ حق لیے وہ شہپر جبرئیل لیے ہے 
دل کو دیکھو یہ بابرکت قندیل لیے ہے 
وہ محمد کا نور ہے دل پر نوری ہالہ ہے 
یہ شیریں درود ہے کہ درود کا پیالہ ہے 
دل میرا جھکا ہے  کہتا ہے شہ والا  ہے 
دل کی زمینیں ہیں 
دل کے افلاک ہیں 
دل پر رحمت کی بدلی ہے 
دل پر جنبشِ مژگان نے نم کردیا یے 
نم ڈالتے ہیں وصل کرتے ہیں ہم 

میں نے محبوب سے پوچھا تم کہاں تھے؟  کیوں نہیں ملے اس سے قبل؟ کتنا رلایا تھا ...رات جگایا تھا مگر نہ آئے تم ...اب تم آئے ہو جب دجلہ سوکھ گیا ہے جب بادل پانی کھوچکے ہیں جب بینائی نے آنکھ کھودی ... ظلم ہوا نا مجھ پر ... محبوب پیارا ہوتا ہے محبوب آنکھ ہوتا ہے آنکھ ہے روشنی ہے ...آنکھ اسم ذات ہے محبوب اسم ذات ہے محبوب بندگی کی وہ روشنی ہے جو ھو بن کے دل میں جل.رہی ہے. رحمت کی جل تھل ہے کہ جل جل بجھ بجھ کے جل رہی ہوں. کملی.والے نے پناہ دے رکھی ہے میری ذات میں شام رکھی ہے دل رات کی ہتھیلی میں ہےاور سورج کی تابش میں جلن نے دل جلا دیا 

جل گیا دل.اور بچا کیا؟ 

تو بچائے کیا آئنہِ دل؟  دل تو بچا ہی نہیں ہے دل کسی کی یاد میں فنا ہے ... فنا ہونے کے لیے محبوب چاہیے ہوتا ہے اور جس دل کو طالب نہ ملے وہ مطلوب نہیں ہو سکتا ...
جس.کو.مطلوب نہ ملے وہ طالب نہیں اچھا 

طالب بن جا مطلوب پاس ہو 
مطلوب ہو جا کہ طالب پاس ہو 

یہ قاب قوسین کی.رمز نرالی ہے ...ہم ان کے سائے میں ہیں یہ حکمت نرالی ہے ...یہ ثمہ دنا کی.رفعت بن مطلوب حاصل نہیں ہوتی ہے ...مرشد کا سینہ.قران ہے جس کو سینہ نہ ملے اسکو پناہ نہیں ملے گی ... اپنے آپ کو بچالو محبت سے ...

اے محبوب تم نے کتنے واسطوں، کتنے سلسلوں میں بات کی؟
تم کو دوئ میں جا بجا دیکھا 
تم کو خود میں نہاں دیکھا 
اے محبوب بتاؤ کہاں کہاں نہیں دیکھا .. باہر ہو تم ..اندر بھی تم ... تمھارے نام کی شمع جلتی ہے دل میں تو نام اللہ نکلتا ہے. تسبیح دل والی پڑھو. تسبیح کیا ہے؟

محبوب کہتا ہے کہ تسبیح دھیان ہے دھیان میں آجاو ..دھیان فکر ہے اور افکار میں وسعت ہے وسیع ہوجاؤ لامحدود ہو جاؤ عشق لامحدود ہے اور تم کیسے دھیان محدود کیسے کرسکتے. تم کو رفعت پر جانا ہے اور بے انتہا کی شدت میں گم ہونا 

اے  بیخودی ہم کو تھام لے 
اے خودی تجھ میں گم ہیں 
یہ خودی سے ابھرتا جنون ہے 
روح گم ہے اور گم کس جہان میں ہے 

اچھا.محبوب کہتا ہے کہ جام وحدت پی لے اور کہہ دے دوئی نقش ہے جھوٹا اور کردے عشق سچا. 

دل بتا تو سہی کہ عشق سچا میں کیسے کروں؟  تو خود اسم دعا بن کے مٹا دے جھوٹ دل کا اور ہو جا مجھ میں بس اک تو سچا 

حق سچا اللہ ہے 
محبوب میرا اللہ ہے 
محبوب وہ ہے جو اللہ سے ملا دے 
اللہ.اللہ اللہ کہو 
اللہ.سے اللہ ملے گا 
اللہ کہنے میں رمز پوشیدہ ہے 
ذات خود میں پہچان کرچکی ہے 
یہ معرفت وہ حاصل کرچکی ہے ...

محبوب ‏قاتل ‏ادا ‏ہوتا ‏ہے

"������محبوب قاتل ادا ہوتا ہے . اسکا حُسن ایسا ہوتا ہے.  مصور نے محبوب کو تراشا ہوتا ہے ایسی طرز سے کہ اسے دیکھ کے خدا یاد آتا ہے. جو اللہ کہتا ہے اسکو قلم مل جاتا ہے اور تعریف مل جاتی ہے ..   

سوال یہ ہے کہ محبوب قاتل ادا کیوں ہوتا ہے؟  

وہ پیدا ہی دلوں کو گھائل کرنے کے لیے ہوتا ہے. دل اس کو چاہنے لگ جاتے بنا کسی واسطے کے اور بنا کسی لیل لعت کے. اس چاہت پر روک ٹوک������������������� کے کس لیے ... قاتل ادا کیونکر ہوتی ہے کیونکہ حسن رکھتی ہے. جہاں جہاں حسن ہے وہاں وہاں اللہ اللہ .. گویا حسن حسن میں اللہ ہے ..اللہ حسین ہے اور اللہ کسی جبین پر چمکتا ہے وہ جبین کونسی ہے؟  وہ جبین ایسی ہے کہ ہر قندیل نے ان کو سجدہ کیا اور ساجد ہوگئے ... 

وہ قندیل پاک محمد ص کی ذات ہے، محبوب کی ذات جلوہ گر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کسی دل کی قندیل ساجد ہے. یہ آیت سجدہ کی تلاوت ہے. دل جب تلک آیت نہیں ہو تب تک بات روایت نہیں ہوتی اور لب پر شکایت نہیں ہوتی  ... اس قندیل پاک سے بات روایت نہیں ہوتی ہے. وہ مجسم ہیں وہ منور ہیں. منور کون ہوتا ہے جو سورج ہوتا ہے.  

الشمس کی زمین ہے،  
دل میرا رگِ التین ہے 


شمس کی بات ہے اور شمس کی بات جب ہوگی حسن بنٹنا شروع ہوجاتا ہے. وہ پیارا جان دینے والا جان دیتا ہے .. سادات دل میں جمع ہے کہ سید دل میں جان قرین ہے ..

جمعہ کا نزول ہوگیا اور جمعہ نازل ہوجائے تو بات بن جاتی ہے. جمعہ ایسا دن ہوتا ہے جو رات سے مبراء ہوتا ہے اس میں چاند ستارے وحدت میں ہوتے سورج میں حجاب لیتے ہیں .. سورج وہ ہے جس کا نور مکمل.ہوگیا .. جس کا نور مکمل ہوگیا اس نے قرات قرانی سے حاصل کیا ... قرات خود خدا کراتا ہے وہ ایسی قرات کراتا ہے کہ کچھ بھولتا ہی نہیں ہے ... 

Tuesday, January 26, 2021

سوال

کون زمین کا حال پوچھنے نیچے آتا ہے۔۔اور جو ہمارے ساتھ ہے وہ پھر کون ہے جو کہتا ہے میں تمہاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔
Tahir Nazeer

آپ کا جواب جوابی تبصرہ کے کیریکڑز پار کرچکا تھا اس لیے الگ اسٹیٹس میں جواب دینا پڑا 

ہماری شہ رگ سے قرین اللہ ہے مگر حکم کیا دیا گیا ہے 

سورة الحديد, آیات: ۴

هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِى ٱلْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنزِلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ

وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔ جو چیز زمین میں داخل ہوتی اور جو اس سے نکلتی ہے اور جو آسمان سے اُترتی اور جو اس کی طرف چڑھتی ہے سب اس کو معلوم ہے۔ اور تم جہاں کہیں ہو وہ تمہارے ساتھ ہے۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھ رہا ہے

مومن کا دل عرش الہی ہے ....  وہ فرماتا ہے دل میں وہ سماتا ہے اس لیے دل میں یا تو اللہ سما سکتا ہے یا دنیا ...

انسان جو ہے وہ اک یونٹ ہے یا نینو ڈسک ہے پوری کائنات کی. جو کائنات میں موجودات ہیں وہ اس نینو ڈسک میں بھی ہے .. یعنی باہر تو وہ ہے پر اندر بھی ہے. اللہ درحقیقت خیال ہے  خیال بذات خود اک نور ہے. سوچ و خیال میں فرق ہوتا ہے  باہر جو تجسیمی اشیاء آپ کو دکھائی دے رہی ہیں یہ سب کا سب اسکے خیالات کی کرشمہ سازی ہے اس نے ارادہ کیا یعنی خیال تھا وہ وجود میں آئی اشیاء ..  یہ تو ظاہر ہوگیئں اشیاء ... ظاہر کے درون میں کون ہے؟ جب سب کارخانہ ء قدرت اس کے خیال کی تجسیم ہے تو سب اشیاء میں کس کا خیال موجود ہے 

سورة الحديد, آیات: ۳

هُوَ ٱلْأَوَّلُ وَٱلْءَاخِرُ وَٱلظَّٰهِرُ وَٱلْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ

وہ (سب سے) پہلا اور (سب سے) پچھلا اور (اپنی قدرتوں سے سب پر) ظاہر اور (اپنی ذات سے) پوشیدہ ہے اور وہ تمام چیزوں کو جانتا ہے

وہ ظاہر ہے 
وہ باطن ہے 
آپ ظاہر ہو یا میں ظاہر ہوں اور میں کاریگری کس کی ہوں؟ میں اس کے خیال کی تجسیم ہوں. یعنی مجھ میں اسکا خیال موجود ہے ..

کائنات کی ہر شے اس کی تسبیح بیان کرتی ہے. یعنی ہر شے اللہ کی وحدانیت میں گم ہے 

سورة الحديد, آیات: ۱

سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ

جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے۔ اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
ہر شے محویت میں ہے. ہر شے کا دھیان اللہ ہے. اس لیے کائنات کا نظام آٹومیٹک طریقے سے چل رہا ہے. حضرت انسان کو اس نے نفس دیا. باقی اشیاء جو اس میں محو ہیں ان کے پاس نفس نہیں ماسوا جانوروں کے ..... اس نفس کی وجہ انسان کے باطن میں موجود خیالات کی لطافت مٹی کی کثافت میں دب جاتی ہے. اس سبب اشغالات کروائے جاتے .. مگر بوقت تہجد اللہ کثافتِ دل کو خود ہٹا کے یا حجابات ہٹا کے جلوہ افروز ہوتا ہے اس لیے فرماتا ہے 

سورة المزّمّل, آیات: ۲

قُمِ ٱلَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا

رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات

رات کا قیام تہجد کا ..اس وقت اللہ انسان کے قریب ہوتا ہے اس لیے انسان کا اللہ سے ربط بہت آسانی سے بن جاتا ہے ... اس وقت کرنا کیا چاہیے 
سورة المزّمّل, آیات: ۸

وَٱذْكُرِ ٱسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا

تو اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو اور ہر طرف سے بےتعلق ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہوجاؤ

اسکو اس کے ناموں سے یاد کرو ...وہ نام کیا ہیں. اک تو اسم ذات اللہ ہے 

سورة الحشْر, آیات: ۲۲

هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ هُوَ ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ

وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے

سورة الحشْر, آیات: ۲۲

هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ عَٰلِمُ ٱلْغَيْبِ وَٱلشَّهَٰدَةِ هُوَ ٱلرَّحْمَٰنُ ٱلرَّحِيمُ

وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا ہے وہ بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے
سورة الحشْر, آیات: ۲۳

هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِى لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ٱلْمَلِكُ ٱلْقُدُّوسُ ٱلسَّلَٰمُ ٱلْمُؤْمِنُ ٱلْمُهَيْمِنُ ٱلْعَزِيزُ ٱلْجَبَّارُ ٱلْمُتَكَبِّرُ سُبْحَٰنَ ٱللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ

وہی خدا ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ بادشاہ (حقیقی) پاک ذات (ہر عیب سے) سلامتی امن دینے والا نگہبان غالب زبردست بڑائی والا۔ خدا ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے

سورة الحشْر, آیات: ۲۴

هُوَ ٱللَّهُ ٱلْخَٰلِقُ ٱلْبَارِئُ ٱلْمُصَوِّرُ لَهُ ٱلْأَسْمَآءُ ٱلْحُسْنَىٰ يُسَبِّحُ لَهُۥ مَا فِى ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ

وہی خدا (تمام مخلوقات کا) خالق۔ ایجاد واختراع کرنے والا صورتیں بنانے والا اس کے سب اچھے سے اچھے نام ہیں۔ جتنی چیزیں آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اس کی تسبیح کرتی ہیں اور وہ غالب حکمت والا ہے

پھر وہ یہ بھی فرماتا ہے 

اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم 

ھو اک جانب اشارہ ہے ذات کی طرف 
ھو ہمیں فکر/ دھیان کی تعلیم.دے رہا ہے کہ اللہ کو سوچیں کہ اس کی ذات کہاں کہاں کن صفات سے جلوہ گر ہے 

دھیان کا مقام دل ہے 
دھیان کبھی بھی دماغ سے نہیں ہوتا 
یعنی اس کے تصور میں کھو جانا ہے 

جب انسان اس کے تصور میں کھوجاتا ہے تو انسان اس کی تصویر ہوجاتا ہے اور وہ مصور 
ھو المصور 
پھر وہ انسان کو وہ بناتا ہے جیسا اس نے اللہ کے ذاتی ناموں سے اسکو سوچا ہوتا ہے
یہاں پر آکے یہ بات مکمل ہوجاتی ہے 
ھو الظاہر ھو الباطن 

اللہ ہرجگہ ہے اللہ کہاں کہاں نہیں ہے 

کسی بات میں کوتاہی ہوئ ہو تو معافی چاہتی ہوں. آپ خود اہل علم ہیں اور ہم جیسے آپ سب سے سیکھ سیکھ کے جواب دے پاتے ورنہ آتا جاتا کچھ نہیں

Monday, January 25, 2021

افکار

چل اس نہج کہ زمین کی گردش تھم جائے اور افکار کے سلاسل مل جائیں. کچھ مل جائے تو دل ہِل جائے. دل کو صدا سنائی دے یا چہک اس بلبل کی جو زمن در زمن ساتھ میرے ہے. زمانہ تو میرے ساتھ ہے تو میں کون ہوِں. مجھے افلاک کا سینہ چیر کر دکھایا جائے تو دل گویا ظاہر ہوجائے. ایسے ممکن نہ تھا کہ مکان گویا مکین کے بنا.ہو. مکین ساتھ ہو.تو زمانے ساتھ ہوتے ہیں ..  مکین سے پوچھا جائے کہ زمانے ساتھ ہیں تو اس مکان کی حیثیت کیا ہوگی. مکان والے بڑی شان والے ہوتے ہیں اور شان کریمی سے پردہ بڑا رہ جاتا ہے. فہم سے مدبر ہوتا انسان خود میں دربار ہوجاتا ہے. دل میں مکین ہو شاہ اور حجاب رہے تو حضرت انسان پردے سے ہچکچاتا ہے  ہچکی لگی رہے گی تو زمین خالی نہ رہے گی. سیلاب زندگی کا عندیہ ہیں اور تخریب کا صدقہ بھی  یہ تلاطم وجود میں جب بھرپور ہوتے ہیں اور شور میں ہیجان آتا ہے  شور کہتا ہے کہ  چل جانب منزل  چل اس متناہی سلاسل سے لامکان کی منزل پر جہاں تجھ پر حقائق ہائے ھو کھلیں  جہاں شور میں سکوت اور سکوت میں شور ہوجائے  دل میں بس اک صدا ہو بس جناب وہ کہیں گے 

یا محب و محبوب 
یا مطوب و طالب 
یا عاشق و معشوق
اے طواف والی ہستی 
مطاف میں بٹھا 
مطاف میں نور ہے 
نور جانے کس کا ہے 
نورِ من تو سن!
طورِ دل بتا تو 
کہ انگلیاں کٹ گئیں 
بنا دیکھے حسن کی تابش 
دیکھیں گے تو حال کیا ہوگا 
یہ جلوہ حضور 
مجھے کرے مہجور 
وادی عشق میں طیور 
ان کی جانب ہیں ضرور 
مٹ جائیں دل کے فتور 
دل کو مل جائے صبوری 
راقم سے ہو بات ضروری

عشق ‏تے ‏عطر ‏ہن ‏رلن ‏ھو ‏

عشق مشک دی خوشبو !ھو!
عشق  تے عطر ہن رلن! ھو!
عشق  کستوری توں ودھ کے! ھو!
عشق گلُ گلُ لبیندا !ھو!
عشق عاشق نوں سجیندا! ھو!
عشق رفعت دی نشانی! ھو!
عشق سچی ذات دی کہانی! ھو!
ایڈا عطر بازاروں لبدا نہیں!
جیہڑا انہوں لا لوے
ہوش خود دا رہندا نئیں
عشق پردیس کٹن دا نم ہے
درد نوں سینا کٹھن کم ہے

جنگل میں دُور دُور چلی جارہی ہوں ۔مستی مجھے گھُمائے جارہی ہے ۔  اپنے راہ چلے جارہی ہوں ۔عشق کی مستی میں گھما دیتی ہے!  گمان یہی ہے کہ رنگ و بُو کی محفل سجنے جارہی ہے خانہ کعبہ ! میں خود کو خود میں  سجدہ کرتی ہوں !  اندر ایک کعبہ ہے راس کو سجدہ کیے جارہی ہوں ! شاید یہی نماز عشق ہوتی ہے جو چین چھین لیتی ہے .. یہ نور محمد صلی علیہ والہ وسلم کا ٹھنڈا ٹھنڈا احساس ہے جو رگ و پے میں سرائیت کیے ہوئے ہے !  

پُھول میرے ہاتھ میں دیا گیا ہے ! یہ خاص پھول ہے جس کے عطر سے کستوری کی مہک آتی ہے ! مہک میں نے کبھی محسوس نہیں کی مگر آج تو محسوس ہو رہی ہے !

عشق نے عنبر کردیا
مجھے خود میں عطر کردیا
جذب عطائے ربی ہے
عشق کی ازلی نشانی ہے
وہ کشش کا اصل منبع
مل رہا ہے نور کو نفع
رنگ و نور سے سینہ بھرا
ہر روح کا محل دِل میں بنا
ِدل جگمگ تارہ نگینوں کا!
حقیقت کو جو بھی پائے گا
چھوڑ جھگڑوں کو پیار کمائے گا
آج رنگ کی محفل لاگے ہے
سبھی چشمے مجھے میں بہے ہیں
رنگوں نے دل کو سجا ڈالا ہے
روح کو اپنے یار سے ملا دیا ہے

روح میری بہت تڑپتی رہی جب اصل سے جدا ہوئی تھی ۔ یہ بہت تشنہ بہ لب  ہے ! اپنے اصل کی طرف لوٹ کے جانا چاہتی تھی ! بڑا عرصہ گزرگیا ، یہ احساس موت جیسا جان لیوا ہے!
یہ محض خیالات نہیں ہوتے جب اہل وطن دیار غیر میں دکھائی دیتے ہیں ... ! جب میں ان کو دیکھتی ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ آج رنگ و نور کی برسات ہے ! 

دل مانند اندھیرے غار کی طرح ہے اور روشنی داخل ہوا چاہتی ہے....یہ محسوس ہوتا کہ پہاڑوں پر قندیل رکھی گئی ہے جس سے ہلکا ہلکا دُھواں  کسی  چھوٹے سے سوراخ سے نِکل رہا ہے ! یہ دُھواں اوپر کی جانب اُٹھ رہا ہے ... گمان تو یہی ہوتا ہے کہ  یہ قندیل میرا دِل ہے !
دل مانند اگر بتی جل رہا ہے اور مہک رہا ہے  !  کیا خبر تھی کہ دِل خوشبوؤں کا مسکن بنا دیا جانا ہے ! میری ذات عِطر عِطر کر دی جائے گی !

عشق دی بوٹی رچ مچ گئی اے میرے اندر
پنڈا اندروں ایویں ہلدا جیوں پتر ہلدےہوا نال
ایس عشق دا بالن جدوں اندر اے بلدا
میرا رواں رواں ایدھے نال اے بلدا
ہر ویلے تسبیح عشق دی پڑھیندی آں
مرشد مرا عشق  اے سچا کہندی آں
دیوا عشق تیرے دا خورے میرے اندر بلدا
سب نوں لگدا نوراے میرے لفظاں توں ڈلڈا
قران تیرا جد لایا سینے نال
لگیا نور مدینے دا سینے نال
نال نگاہ دے دل میرا رنگیا ای
تجلی ہکوں نالوں سینہ مدینہ کیتا ای
جھلی بن تیری ہن نگر نگر پھردی آں
نور ہن کدی نہ چھٹے اے در کہندی آں

Sunday, January 24, 2021

سچی ‏الوہی ‏کیفیت

یہ سچی الوہی کیفیت ہے جو ازل سے عطا کردہ ہے!  دھیان کی قوت ہے نا اس سے ناجانے کتنی تمناؤں کا سینے چاک ہوئے تو کتنے یار فنائیت سے دار بقا کو چلے. دل تو  نور  ہوتا ہے، یہ خود اک تجلی  کی  طرح ہے،  دل کا دھیان مٹی میں کیسے ہوسکتا ہے؟   مٹی سے ہو تو اس میں دل ٹوٹ جاتا ہے بار بار .... اب کہ  دل کی یکجائی کا پیالہ ٹوٹ گیا کہ حق کے سوا کچھ سچا نہیں!  یہ حق کی موج!  یہ موجِ حق جو سینے میں پیوست ہے.... یہ نشان جو مجھے کھینچ رہا ہے یہ تو  "ھو " ہے. یہ نجانے کس میں ظاہر ہے... ذات کی فنائیت یونہی ہوتی ہے
 

عشق کا قصہ صدیوں سے سُنتے آئے ہیں.  محبت کی یہ داستان اتنی مقدس ہے جتنا اک مجذوب کا دل!  عشق ماشاءاللہ قصہ ہے کٹھ پُتلیوں کا ہے مگر تماشائے الفت سر بازار کون لگاتا ہے؟  یہ ہم ہیں جو دھاگے گھُماتے ہیں، دوڑیاں ہلاتے ہیں تو بو علی کا نقارہ بجتا ہے تو کبھی امیر خسرو کی بات سُنی جاتی ہے تو کوئی صابر کلیری کی طرح عالمِ سکر میں گُزر جاتے ہیں. کچھ ایسے ہیں جن کے لیے زمانہ کٹھ پتلی کی مانند رقص کرتا ہے یہ شہباز قلندر پرواز کرتے ہیں ... عشق کا کلمہ کسی تسکین کی اوسط نہیں مگر یہ ساز سوز صدیوں سے قلندروں سے بجتا آیا ہے
 
 یہ جو  قلندر ہوتے، یہ  مثل نور ہستم ہوتے.  یہ مجاز کے پرندہ ، مٹی میں قید ہوتے .... جذب ان کو مسحور کرتا ہے، یہ اللہ  کے نور میں روشن زیتون سے بنا اک نسخہ ہوتے ہیں،  جسکو اس نے انجیر کی خشک بوٹی سے توانا کیا ہوتا ہے .. سودا،  جنون خاکی کو سُلگاتا ہے.  باہر کی آگ کچھ بھی نہیں  جو باطن میں آگ لگ جائے ... باہر کے آبلے کچھ نہیں اگر اندر کا.شیشہ چور چور ہو ....
 
 کسی کو عشق میں فنائیت کیسے ملتی ہے؟   جب تک ایک سچی آیت نہ ملے.. وہ آیت رہنما ہوتی ہے .. وہ راستہ جو حقیقت کی جانب لیجاتا ہے، یہ آیت اس سے ملاتی ہے .. یہ سیال جو آگ بن کے راہی کو جلاتا ہے یہ پارہ جو تھر تھر  کانپنے پر مجبور کیے دیتا ہے،  یہ  استاد کی ہستی سے ملتا ہے .
 
استاد کیا کرتا ہے؟ وہ غلامی کے اصول ازبر کراتا ہت  .... دل زنگ آلود کو صیقل کرتا ہے... رمز ہے پوشیدہ ہے کہ وہ علم جو ظاہر سے ہو، وہ سارا لُٹ جاتا ہے،  وہ جو استاد کا علم ہوتا اس کا قطرہ مل جاتا،   اس قطرے میں کتنا اضطراب ہے!  اس میں کتنی تپش ہے!  یہ صحرا کی دھوپ میں کوئلے کو ہیرا کرتا ہے!  روشنی پھر وجود کا حصہ بنتی ہے اور  کہا جاتا ہے
 
 حیدری ہیں! قلندر ہیں!  غلام ہیں!  غلام ابن غلام ہیں ...  خون کے قطرے قطرے میں لا الہ کی تسبیح ہے!   دل میں شاہا کی تسبیح ہے!  کہیں یسین! کہیں حم!  کہیں طسم!  کہیں مزمل!  کہیں مدثر تو کہیں الم!  کہیں طس!  ہر حرف راز میں پوشیدہ راز اک خاص ہستی سے منسلک ہے !  
 
 عشق مانند برق لہو بن کے دوڑتا ہے!  یہ اصل مقناطیس کی قطبی کشش ہوتی ہے! ہر انسان کا قطبی ستارہ نایاب ہوتا ہے مگر جب وہ مل جاتا  ہے تو راستہ سیدھا ہوجاتا ہے!  یہ سمت دیتا ہے اورکہا جاتا ہے:  تو قطب ہے!  تو شاہ ہے!  تو عالی ہے!  

 قربانی کا وقت مقرر ہوتا ہے اور وقت کے مذبح خانے میں اپنا قیمتی جوہر لٹانا ہوتا ہے اور یہی کہا جاتا ہے
 
 حیدری ہیں!  حسینی چراغ ہیں، جسکی لُو علی(رضی تعالی عنہ)  سے جلا پائی اب وہ لو ایسی روشن ہے کہ سر تا پا مجسم شمع جل رہی ہے گویا دل اس سے اتنا جلایا جاتا ہے کہ کوئلہ ہوجاتا ہے!  دل کو روشنی اتنی ملتی ہے کہ منظر جو اندھیرے میں ہوتے ہیں  روشن ہوجاتے ہیں 

آپ نے سوچا طسم کیا ہے لباس بندگی میں دید کے بعد طلوع آفتاب کی روشنی لیے مجلی ہستی جسکو پیامبری دی گئی،  موسی علیہ سلام کا آگ لینے جانا،  دید میں گم لوٹ آنا، آگ کو خود میں لپیٹ لینا!  مگر رحمن کی رحمت وہ ہے جس کے درمیان "ت " اور " ن " کا فرق ہے!  
 
 احترام کے پانی سے وضو کرتے استاد سے ملا جاتا ہے اور  سر بہ قدم چلا جاتا ہوں کہ فنائیت   ہستی کی ہوتی ہے!  یہ قاف جو عشق کا ہے جس میں دل قبلہ بن جاتا ہے!  منزل نماز کے بعد منزل جہاد ہے!  نفس سے لڑنا!  مگر اے دل تو ہے تو پہچان ہے!   

لکھنا تو بہانہ ہوا وگرنہ میں تو اِظہار میں مجسم ہوجاتی ہُوں.  میری محبت میں کھوٹ نہیں ہے!  میں تو بس اپنے یار کی آمد پر رقص کروں گی!  جس وقت مجھ پر نظر کی جارہی تھی اسوقت میرا خیال تو خدا تھا. یہ حادثہ ہوا میں خُدا تلاشنے نکلنے نکل پڑی ....
 
 خدا کہاں ملے گا؟  عرش معلی پر و عرشِ حجاز پر؟  عرش کے پاس جو پانی ہے اس پانی میں عکس کس کا تلاش کروں؟  انسان تو پہلے ہی خدا کے زیرِ سایہ ہے بس پہچان کا دُھوکا ہوتا ہے!  وہ روح ہے اور میِں اُسے ڈھونڈ رہی ہے پتھر  سے برق نمودار ہو اور مجھے اُچک نہ لے!  وہ شجر جس پر خود وہ ایستادہ ہوا تھا کہیں وہ شجر میں تو نہیں ِ؟  

 وہ بی بی مریم!  پاکباز،  پاک طینت!  ایسی کشش ہے ان میں لگتا ہے کہ میں انہی سے نکلی ہوں!  انہی کا خمیر ہوِں!  انہی کے سائے میں چلتی ہوں!  وہ جب جب میرے من کے دریچوں سے جھانکتی ہیں تب میں خوش بختی پر نازاں ہوتی ہوں!  اک عجیب سا احساس ہے ان کا جیسے ان کا تبسم مجھے اپنی جانب کھینچ رہا ہے یا لگ رہا ہے اپنا دل ان کے دل سے لگا دیا ہے جیسے دو روحوں کا ملن ہو تو عجب ہو ان کے ساتھ لگ کے ان کو محسوس کررہی ہوں اور روتی ہوں ... ان کا لباس سفید ہے بالکل سفید!  وہ خدا سے عشق کرتی ہیں انہوں نے مجھے بتایا خدا دل میں موجود ہے میں نے ان سے سوال کیا ہے جلوہ کہاں ہوگا؟  جلوہ جب ہوگا تب پوچھنے کی نوبت کہاں ہوگی!

احساس ‏کلیمی

احساس کلیمی کو دیکھنا چاہو تو لال لباس میں کبھی موسی علیہ سلام سے ملو!  ان کو دیکھو تو لگتا ہے وہ اک ایسی ہستی ہے جن کی جلال سے بھرپور ہستی ہے!  مگر یہ تبسم ان کا اک عنایت ہے وہ جو میں نے ان سے پوچھا خدا کہاں ہے؟  تو بولے کہ خُدا سچ کے پیچھے ہے . خُدا سچی داستانوں میں پوشیدہ ہے!  لعل رنگ کے لباس میں گھنگھریالے بال لیے ہاتھ میں عصائے الہی الیے،  وہ دراز قد بزرگی کی چادر پہنے تھے!  میں نے کہا آپ نے تو جلوہ کیا ہے خُدا کا؟  یہ لباس جو لعل ہے یہ اس کے دید کے حامیوں کو ملا ہے!  خُدا کیسے ملے گا؟  بتائیے!  خُدا انسان میں پوشیدہ نورانی آیات میں ملے گا!   خدا خضر سے رستہ پُوچھ کے ملے گا!  دست شفقت سر پر رکھتے جب میں اس باریش بزرگ کی جانب گئی جسکے جسم سے نکلنے والا نور آنکھ چندھیائے دے رہا تھا ... ـ میں قدم بڑھاؤں تو پاؤں جلتے محسوس ہوں!  ان کے جلال سے دل جلتا سا محسوس ہو!  ان کے رعب سے غلبہِ ہیبت نے مدہوشی سی طاری کردی .... یوں لگا موت واقع ہوگئی!  میں نے مست نگاہی سے پوچھا!  یا عیسی علیہ سلام!  خُدا کہاں ملے گا؟  خُدا "الم " کی ہستی میں الوہی نُور ہے!  خدا مجسم نہیں مگر مجسم محمد صلی علیہ والہ وسلم میں ہے!  وہ خاکی لبادہ! خدا نور سے پرنور گنجینہ!  تو میں مدینہ کیسے جاؤں؟   وجدان کے پَر قوی ہوں تو پرواز کرتے کرتے

 یہ عشق جس کی طاقت خیال ہے گویا دل خود میں اک طور ہے!  یہ طور خیال کے سینے کے نور سے پہنچا جب خیالات باہم مل جاتے ہیں!  خیال جس نے  اپنے نور سے جلا دیا جانے کتنی دفعہ اور جلال میں سے ناسوت کو علیحدہ  کردیا .... میں نے  پوچھا خدا کہاں ملے گا تم نے مجھے بتایا الم کی ہستی میں .....، جب حـــــــم کی حــــــ سے قربانی بعد حج کرو تو دل میں حیرت بھی حـــــــم کی تجســـــــیم ہوتی ہے! الـــــــم ............. کُنجی ہے! یہ خزانـــــــہ ہــــے

عشق ‏کی ‏الف ‏میں ‏کیا ‏کیا ‏ہے


جوگ پالنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے رانجھے کو ڈھونڈنا پڑتا ہے ، رانجھا مل جائے تو اُس کے لیے رانجھا ہونا پڑتا ہے ۔خاک چھانیے یا دربدر پھریے ! نگر نگر بھٹکیے ، اُس کو مظاہر میں ڈھونڈیے ۔۔۔۔ ہر مظہر کے باطن میں جھانکیے ، گویائی نا ہونے کے باوجود ہرشے  اس سے باتوں میں مصروف ہوں ۔ درخت کی لکڑی زمین کی نیچے بھی اتنی ہے ،جتنی زمین کے اوپر ہے ، سورج اور زمین کی کشش میں درخت برابر قوت سے نمو کرتا ہے ۔رانجھا ڈھونڈیے ! اندر کی مٹی ، باہر کی مٹی سے ربط کیجے ! کسی کو باہر کی مٹی سے مل جاتا تو کسی  کو اندر مٹی سے! کشش دونوں جانب متوازن ہو تو محبت کے دَرخت پر عشق کی بیلیں پھوٹتی ہیں ، سچائی کی تلاش میں ،سچ کا کڑوا گھوانٹ ، دھیمی آنچ پر پکنا چاہیے ! دھیمی لوُ پر چلتی ہانڈی کا ذائقہ بڑے سواد کا ہوتا ہے ، تن کی ہانڈی میں جذبات کی آگ کی دھیمی آگ سے ، عشق کے اظہاریے  کو اُبھاریں یا ابھریں تو ایک مصور کی ذات بذات خود تصویر ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔جب تصویر کی روشنی ملے تو جانیے کہ وصل ہوگیا !

وصل گوکہ لطف و کیف کی سرشاری عطا کرتا ہے مگر عُشاق کے لیے ہر قدم سلگنا ، ہر قدم امتحان بن جاتا ہے ۔ گومگو کی کیفیت عشق میں کبھی پیدا نہیں ہوتی ہے اس لیے عاشق کے قدم آہستہ آہستہ بُلندی کی جانب اٹھتے ہیں ! جب اٹھتے ہیں تو تھمتے نہیں !جب تار ہلایا جاتا ہے تو درد سے راگ چھڑ جاتا ہے ، عاشق کی ذات بھی ایک ساز کی مانند ہوتی ہے ، عشق سرمدی نغمہ ، سُر جس کو دینے والی ذات صاحبِ امر ٹھہری ! وہ چاہے تو قربان کردے ، وہ چاہے تو قربانی لے ! وہ چاہے تو وصل دے ! وہ چاہے تو ہجر سے کبھی نکالے ہی نا ! وہ چاہے تو بس ایک ''کُن '' کی محتاج ساعت اپنی منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہے ۔ عشق  اکی پہلی منزل عبادت ہے مگر  ایسی عبادت جس کا ظاہر نہیں ! ایسی جو دکھتی نہیں ہے ! ایسی جس سے خلق کو فائدہ ملتا ہے ! ایسی جس سے انسان پھر سے جی اٹھتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں عاشق عابد بہت کم ہیں ! دنیا میں معلم عالم بہت کم ہیں ، دنیا زاہد و عابد اور مبلغ عالم سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔ عشق کے سوت تو باطنی ہیں ، اس لیے عبادت عشق کا ظاہر وہی دیکھ سکتے ہیں جو عشق میں ہیں

کبھی کبھی ہم سوچتے ہیں کہ اس عبادت سے فائدہ کیا جس سے مخلوق کو فائدہ نہیں ملے۔ ہمیں سُنانے والے منبر پر بیٹھ کے اچھی باتیں سناتے ہیں ، وہ بھلائی میں مصروف ہے کیونکہ دل پھر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر آپ نے اسی ایک رات کے سیکھے کو آگے پھیلایا تو آپ کامیاب ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بندہ بھی جس نے اچھا سبق دیا مگر آپ پھیلا نہیں سکے اور اصرار پر رہے تو جان لیجئے کہ آپ کے استاد کی بات کی تاثیر کھوچکی ہے ۔۔۔۔۔۔۔بات میں تاثیر ہو تو لفظ ''الف'' ایسی ضرب لگاتا ہے کہ ''ب '' کی ضرورت نہیں ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اور الف ۔ ب کا علم نہیں تو ''م ، د '' کا علم کیسے لو گے ، اگر تم نے علم نہیں حاصل کیا تو مجھے پہچانو گے کیسے ؟ اگر پہچانو گے نہیں تو میری طرف کیا خالی لوٹو گے ؟ اُس نے امت محمد صلی علیہ والہ وسلم کی امت میں عشق کو مرشد بنا دیا ہے ،


[CENTER]عشق مرشد تو ہست نابود ،
عشق مرشد تو مستی کا جمود ۔۔۔۔۔۔۔۔۔[/CENTER]

آپ کیوں لباس کی طرف توجہ دیتے ہو ، اس کو صاف کرتے ہو مگر یہ خیال نہیں کرتے کہ لباس تو خود تمھارے جسم کا محتاج ہے ، اگر تمھیں جسم کی صفائی مقصود نہیں تو شریعت کا لباس فائدہ دینے کے بجائے ،دین کو خشک کردے گی ، جب لباس معطر نہیں ہو ، اس کی خوشبو بدبُو کھینچ لے تو باقی پہننے والی قُبا بھی بدبودار ہوجاتی ہے ۔۔۔۔۔۔آج کے دور میں منافع پرستوں نے دین کو کاروبار بناتے ، دین اسلامی کی قُبا کو میلا ، بد بو دار کردیا ہے ۔۔۔

خدشہ بیٹھا ہے دل میں .. جو مجھے خوفزدہ کر رہا ہے کہ اگر ''الف'' کا علم حاصل نہیں کیا تو اس کی طرف لوٹو گی کیسے؟ اگر لوٹ گئ تو دنیا میں جس مقصد کے لیے وہی فوت ہوگئ ..کیا انسان مقصد کے فوت ہونے کے بعد زندہ رہتا ہے؟ اررے! جب حق دل میں سما جآئے تو کسی کی اور ضرورت نہیں رہتی ..یہی ''الف ''کا علم.ہے ....یہی عشق کی ابتدا ہے؟ اسی'' الف ''سے آدم کو ملی بقا ہے ..''.الف ''کو جانو گو تو جو عیاں وہ کتنا نہاں ہے ..وہ جو ظاہر ہے اس "الف " کا پردہ " ب " ہے .... تب رانجھا رانجھا کہتے بندی خود ہی رانجھا بن جاتی یے تب شیرین کا آئنہ فرہاد اور فرہاد کا آئنہ.شیریں ...کیا فرق باقی؟ نہیں نا جب دو پرتیں کھلتی ہے تو محمد صلی علیہ والہ وسلم کی حقیقت کھلتی ہے .... حقائق کب کہاں کسی پہ عیاں ہوتے ہیں؟ حقائق انسان کے دل میں ہیں ان کو دریافت کرنا پڑتا ہے .....روح کو ظاہر کیسے سبق دے گا؟ مٹی کے پوست کو مٹی سبق دے سکتی ہے مگر روح کا علم روح سے مشروط ہے ...کون جانے گا اس کو؟ حق تو دل میں ہے؟ حق کے کلمہ نے خون کو رواں کیا ہے! ہمارا عہد، قالو بلی کا، ہمارا لاشعور چلا رہا ہے ...ہم فطرتا نیک ہیں ..جب فطرت نہیں تلاش کریں گے تو جھگڑیں گے، قیل و قال میں پڑیں گے نا!!


''الف'' کا الٹ ''ب'' اور ''ب ''سے نکلی'' پ ،ت'' ۔۔۔۔۔۔۔۔'' الف'' ہمارا قیام ہے ، حالت نماز میں'' قیام ''کی حالت ہمارا عشق ہے اور ''رکوع'' کی حالت میں '' حمد ' کی بات نکلتی ہے ، ہمارا سجدہ ہمارے ''مرکز '' سے ''محبت '' کی گواہی ہے ۔''مرکز'' سے محبت کی گواہی کے بعد ''حالت تشہد'' اس کی فنا میں غرق ہوکے گواہی دینے کا نام  ہے ۔ نماز عشق کبھی کسی نے اد ا کی ہے ؟ چُنیدہ لوگ ایسی نماز پڑھتے ہیں ، چُنیدہ لوگ حج کی '' فنا'' میں لوٹنے کے بعد ''بقا'' کو پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہ رحمتِ خاص ہے جس کے بار ے میں پروردگار عالم نے فرمایا ہے

هل جزاء الإحسان إلا الإحسان..

احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے ؟ اس نے تم پر کرم کیا تم اس کے بندوں کے لیے رحمت ہوجاؤ ۔۔۔۔۔۔۔رحمن و رحیم کا یہ مفہوم ہمیں قران پاک کی ہر سورہ میں ملے گا ۔۔۔۔۔۔۔ذات اُحد نے اپنے بندوں کے لیے رحمت عام کردی اور کچھ پر اس کی عنایت خاص ہوئی ! اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی  خاص رحمت  سیدنا  حضرت محمد صلی علیہ والہ وسلم  پر کی اور ان کو تمام زمانے کے لیے رحمت العالمین بنا دیا  ۔ احسان کے بدلہ دیتے فرماتا ہے کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔۔۔۔۔اس کی رحیمی و رحمانی بذاتِ خود  نعمتیں ہیں

قلم

لکھتا رہے ہے مجھے قلم، سیاہی جانے کس بخت سے نصیب ہے. شام کے دھندلکے میں القران سے جاری وصیت ہے .یہ کائنات کی مجھے نصیحت ہے کہ قائم رہنا ہوتا ہے جب تک کوئ خبر منشور الہی سے نشر نہ ہو. دل کے سودے ہوجائیں تو دل اپنا نہیں رہتا  دل جسکا ہوتا ہے اس کے سامنے سر بہ خم ہوتا ہے. یہ وظیفہ ہے یہ صحیفہ ہے اور میں نے اپنی ذات کی قرات شروع کردی    ... یہ ٹھہر ٹھہر کے پڑھا قران ہے، یہ جو عمل مجھے حکمت کی جانب لیے جارہا ہے. حکیم قران پاک ہے. مجھے قران پاک نے یہ نصیحت کی ہے کہ قران پاک محبت ہے. قران کی آیت آیت محبت سے لبریز ہے. افسوس کیا گیا حضرت انسان پر کہ وہ کیوں جاہل اور نادان ہے ... اللہ نے وقت کی سب سے برگزیدہ ہستی کو کہا 

یا ایھا المدثر 

اے کمبل اوڑھنے والے ....  درون میں کملی کون سی ہوئی. کملی تھی حجاب کی. جب حجاب درز درز روشنی سے اقراء کا پیام لایا تو الہیات سے جسم مبارک لرزنے لگا ... اللہ کی شام بے نیازی والی ہے جبکہ بہترین عبد کو نیاز میں رہنا اسطرح کہ نیاز اللہ کے لیے بطور خیر ہدیہ تقسیم کی جائے. یہ الہیات کا نزول اپنی ذات کے لیے نہیں ہے. یہ ملحم آیت وارد ہوتی ہیں. وارد آیت نشان بن کے دل میں چمکتی ہے. جس دل میں اللہ کے نشان پڑجائے اللہ کے قدم تو نور حادث نور قدیم سے جا ملتا ہے اور مکمل ہونے لگتا ہے .... یہ نور وقت کے  ساتھ ساتھ مکمل ہوتا جاتا ہے ..  یہ نور جب مکمل ہوتا ہے تو کہتا ہے دل 

اللہ ہے خیال،  مجاز میں رحمن 
اللہ ہے حق،  مجاز میں رحمن 

خشیت سے جسم ایسے لرزتا ہے جیسے پتے تیز ہوا سے بکھرنے لگتے ہیں.    انسان خود میں سمٹنے لگتا ہے ..جب کملی بدل دی جاتی ہے،  روشنی مل جاتی ہے تب انسان کے لیے منصب ہوتا ہے اور اسکو عہد نبھانا ہوتا ہے ... فرمایا جاتا ہے 
قم فانذر 

اللہ کریم محبت ہے محبت بانٹنے کا حکم مل جاتا ہے. حق و باطل کے معرکے ہوتے ہیں اور حق کی جیت ہوجاتی ہے. حق سچ ہے اور سچ لازوال ہے .... قلم نے لکھا ہے کہ خدا محبت ہے. خدا کی پہچان محبت سے ہے. خدا ماں کی وہ لوری ہے جو نور قدامت کی پہچان ہے  ہم قدیم نور ازل سے اسکی تلاش میں ہے. یہ کھیل کھیلا جاتا ہے تاکہ کھوجی روح کھوج کرے اور جذب حق میں دھیان سے اس کی لگن قائم رکھے ... اللہ تو قائم ہے مگر عارف اللہ کو قائم رکھتا ہے. یہ پہچان ہے کہ اللہ العالی ہے مگر عارف ذات سے اسکی رفعت کو مذکور کرتا ہے توصیف کرتا ہے. جس کی رفعت کا تذکرہ ہوتا ہے وہ کون کررہا ہے یہ دیکھا جاتا ہے .. عارف اللہ کی وہ زمین ہے جس کو شمس کی سی تابناکی حاصل ہوتی ہے 

سنو ... خدا قدیم ہے مگر جس کے لیے نور حادث ہے اس نے نقطے کی جانب سفر شروع کردیا ہے  اس نے ع اور غ کا فرق مٹا دیا گویا نقطہ اس کی ذات ہے. یہی پہچان ہے کہ نقطے ہو جاؤ اور نقطے مٹادو ...نقطہ جس کو مل گیا اس پر الم کا نشان بطور قدم واجب ہے  یہ آیات قدم ہیں جو دل پر ایسے پڑتے جیسے گرم پگھلا لوہا ہو دل ... نشان ہوتا ہی منور ہے

Saturday, January 23, 2021

محمد ‏کی ‏میم ‏

محمد کی میم

جو یاد رہتے ہیں ، ان کو بھولا کہاں جاتا ہے ۔ جو یار بنالیا جائے ، اسے چھوڑا کہاں جاتا ہے ۔ جسے عشق ہوجائے ، وہ خود میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ خود کا ہی یار ، خود کا جوگی، روگی ہوجاتا ہے ۔ اس کا رستہ گمشدگی میں ہے ۔

ڈھونڈنے والو ! مجھے ڈھونڈ کے تو دکھاؤ ! آؤ ! مجھے دیکھو ! میرا جلوہ تو کرو !میں تمھیں یہاں وہاں کہاں ملوں ۔جنگل ، پربت میں یا مسجد منبر میں ۔۔۔۔۔۔۔دل کی سرزمین پر ہریالی کے فصلوں میں محبت کے ابدی نغمے کا سر لگاتا ہوں، میں دل میں رہتا ہوں ۔لوگو ! اس گمشدگی کو ڈھونڈو ۔ اس سے ملو ،یہ میری نشانی ہے ! خالق کی قسم ! خالق اپنے بندوں پر گواہ ہوتا ہے ! خالق نور پر گواہ ہے اور یہ گواہی  عام نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو !
مجھے دیوانہ کردیا ہے
ھو کی ھو نے مست کردیا
اس ھو سے جذب مل گیا
میں مجذوب قلندر ہوں
میں اس کا شاہباز ہوں
پرواز میری آسمانوں پر ہے
کون میرا راستہ جانے
کوئی نہ جانے میرا راستہ

امتحان کی نشست لگی ہوئی ۔ میں اپنے خالق کے پاس محبت کا امتحان دے رہی ہوں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ میں دیوانی ہوگئی ہوں ۔ امتحان تو سبھی نے دینا ہے مگر یہ کیا کم ہے کہ خالق کے پاس اس کی صحبت میں بیٹھی ہوئی ۔ اس کا نور مجھ میں سماتا جارہا ہے میں خود میں گم ہوتی جارہی ہوں ۔ نور کی شعاع نور سے ٹکراتے نور کی ہوجاتی ہے ۔ نور کے دل کو کعبہ بنا دیا ہے ۔ نور اپنے دل کے گرد شمع کی مانند طواف کیے جاتی ہے ۔ کیا ہوں میں ؟ میں کچھ بھی نہیں میں کچھ بھی نہیں بلکہ جوبھی ہے وہ میرا خالق ہے ۔ نور نے خالق سے کہا کہ مجھے اپنے پاس رکھ لے۔ نور خالق کو کہتی ہے کہ دنیا کیوں بنائی ! یہ جال کیوں پھیلایا!  اس دنیا میں پہچان کا کھیل کیوں رچایا ؟میں سوالات کے جوابات کہاں سے لاؤں میرے علم کا منبع تو وہ خود ہے ۔۔۔۔۔۔ جواب دے نا میرا  محبوب کہ پہچان کا فرق کیوں رچایا

علم معرفت عارف کی پہچان
اس پہچان میں بپا نہ کر ہیجان
ہر کسی کو نہیں ملتی معرفت
عام نہیں ذروں پر اس کی لطافت
ذرہ نے اس سے فریاد کی
کیوں رچایا کھیل معرفت کا
کسی کو شاہ تو کسی کو فقیر بنا کے
کسی کو عالم تو کسی کو جاہل بنا کے
کسی کو عاقل  کسی کو کامل بنا کے
کسی کو غلام کسی کو مالک بنا کے
رسولوں، پیامبروں کو اپنا شاہد بنا کے
رسولوں کو نبیوں کا شاہد بنا کے
نبیوں کو ولیوں کا شاہد بنا کے
کیا ملا؟ کیوں کیا ؟

عارف کو حقیقت معرفت سے ملی
پیامبر کی حقیقت کنجی سے کھلی
پردہِ مجاز میں حقیقت کے رنگ دیکھ
حقیقت کا پتا گمشدگی میں دیکھ
حقیقت میں لطف زندگی ہے معرفت
حقیقت سے ملنے کا رستہ ہے  معرفت
عشق شناس بندوں کو عارف بنایا
حقیقت شناسی سے پائی معرفت
عارف کی پہلی سیڑھی  ہےولایت
سورج  کی جیسے ستاروں میں ہے روایت
باب عشق عیاں ہوا معرفت سے
لگی ہے دل میں لگن معرفت سے
ستم سہنے پڑے، قسمت کے یہ وچھوڑے
اس میدان میں آتے نہیں بھگوڑے
شدت اظہار سے روح، جسم میں ڈال
عشق کو پہچان کی لگام میں ڈال

مسیحائی کا پیشہ طبیب کے دم سے ہے
مریضِ عشق کا غم پتھر میں مدغم  ہے
شرمساری عصیاں کی بڑھتی جائے ہے
ندامت سے گردن جھکی جائے ہے

دل کی کیا حیثیت موم جیسی ہے جو پگھل پگھل کے بھی ختم نہیں ہوتی ہے ۔ اس موم میں اگربتی ، گلاب ، لوبان اور مشک کی خوشبوئیں ملائیں گئیں ۔ جب اس کو چنگاری ملی ۔ ایک تجلی نے جہاں میں جل تھل کردے ۔ برسات کا موسم آگیا ہے ۔ پھول کھلنے لگے ۔ پھول کی تسبیح لا الہ الا اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔اپنے مالک کو یاد کر رہے ہیں ۔خوشبو چمن میں پھیل کے اپنا پتا کھو رہی ہے اور بلبل اپنا گیت سنارہی ہے ۔۔۔ بلبل کی صدا ہے حق ھو حق !

تو ہی تو میرا سائیاں ، 
تو ہی تو میرا سائیاں
دل کردا ایہہ میرا دہائیاں

میرے تو لگیا جیہڑا جیہڑا
اونوں ملدا جاندا اے سویرا
میں سیاہ رات اچ اجلا سویرا

کوکاں مار دی میں جگاواں
لوکی سمجھن  کملی دیوانی
درد دیاں گلاں کوئی نہ جانڑے
کتھے لوکی حُسین حُسین کردے نیں
قربان غرض توں ایمان کر چھڑدے نیں
میں حسینی نور آں ! پھیلاں شوخ ہوکے
میرے ہتھ وچ حسینی چراغ اے
آبشاراں نوں رستے نوے ملدے نیں
ندیاں بہندیاں چنگیاں لگدیاں نیں
ایدھی واجاں تو کوئلاں چہکدیاں نیں
ایناں باغاں وچ گلابی پُھل اے محمد
جیہڑا شاخاں اچوں  روشنی اے  پھیلاندا
جیہڑا اوتھے جاوے خوشبو پاوے
میل لاوے ، تن اجیارے
مالی پھلاں دی حفاظت شوق نال کریندا اے
اوتھے بیٹھا  جیہڑا حسن دی شیدائی اے
اونہوں میں آکھیا مالک تو کی کمایا؟
کی کمایا لا کے دنیا دا تماشا؟

او آکھے !

محمد دی واسطے سوانگ رچایا
جا ! اس وانگر لب کے کوئی ہور لیا
اودھے جیا ہور ایتھے کوئی نہیں
محمد دی 'م' اچ چھپی اے کہانی
میم دا قصہ سن لوو مری زبانی
شب و روز گزرتے جاتے ہیں
غم ہجر  بھی ٹلتے جاتے ہیں
مراداں والے میرے کول آندے نیں
محبت دی مانگ دل.وچ بھرجاندے نیں
معراج دا تحفہ پاندے جاندے نیں
منور ، مطہر ، مزمل ، مدثر ، معجل
مجلی ، مصفی ، معطر ،  محمد دا سینہ
جیہڑا لگیاں اس نوں ، ملیا سفینہ
محبت دا امین ، معین ، مھیمن اے
محمد دی ''م '' وچ کیہ کیہ لکیا اے
ایڈھ وچ قران دا ہر اک صفحہ اے
محمد دی' م ' اچ کیا کیا چھپا ہے
محمد دی ''م'' اچ الہام چھپا ہے
وحیِ رسالت کی امین ہے جس طرح
محمد رسولوں میں معین ہیں جس طرح
محمد کی ''م '' میں کیا کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مکہ اور مدینہ چھپا ہے
محمد  کی ''م '' میں کیا چھیا ہے
محمد کی ''م'' میں مامتا چھپی ہے
محمد کی رحمت  کا بڑا اونچا قد ہے
محمد کی ''م'' محبت والی ہے
اس کے دم سے زندہ ہر سوالی ہے
محمد کی ''م '' موجوں کو طغیانی دے
محمد کی ''م'' مظاہر کو نشانی دے
محمد : مرشد ، مہدی برحق ہیں
محمد کی محبت میں کھڑی یہ سگ ہے
محبت کی ''م'' مستی والی ہے
محبت کی '' م'' مرادوں والی ہے
''م '' کے خزانے بے شمار ہیں

علمِ معرفت کی  '' دو میم' سرادر ہیں
حاجی کعبے آون ، شوق دے دیوے لاون
حج نہ ہووے جدتک مدینے نہ جاون
کعبہ وی مدینہ مدینہ کردا اے
دل اچ رنگ مدینہ توں لگدا اے
''میم '' دا رنگ سرخی آلا اے
''میم ''  سرخ جوڑا پوندای اے
''میم '' شوخی تے مستی چڑھاندی اے
'' حق ھو ! ''میم '' دے نال کریے
حق !  میم کی محبت میں نشرح نازل ہوئی
ورفعنا لک ذکرک کی چلیں باتیں
کرم کی  بارشوں سے پائیں سوغاتیں

دردو پڑھو ! پڑھو درود ۔۔۔م کی چاہت سے پالیں سوغاتیں

اللھم صلی علی محمد وعلی الہ محمد وبارک وسلم 

 

محمد کی محبت سے غلامی کی سند حاصل ہوئی
محمد کی غلامی سے یہ شان حاصل ہوئی
رنگی گئی نور اس محبت میں مکمل
اپنے رنگ لٹانے  چلی ہوں مکمل
میں رنگ گئی محمد کی محبت میں
پرواز کی طاقت سے ہوں رفعت میں
اڑتی ہوں فضاؤں میں شہبار کی مانند
اس محبت نے علم کی دولت عطا کی
عقلِ کل تک رسائی ہے  عطا کی

خزانے ''م'' کے مجھ پر لٹا دے حق۔ان کو پانے کو میں مضطرب ہوں ۔ مولا محبت میں مری جارہی ہوں ۔میرا سینہ مکہ مدینہ بنادے ۔ میرا سینہ فلک کی مانند بلند کردے ۔اوج رفعت ملی ہے مجھے یار کے نقش قدم سے ۔میرے ساتھ چلو جہاں جہاں میں چلوں ۔میں مستی میں چلی جارہی ہوں ۔مجھے ڈھونڈو مگر کیسے ڈھونڈو گے کہ میں تو گمشدہ محبت کی بستی ہوں ۔۔ میں نشے میں مست جارہی ہوں ۔۔جنگل کو خوشبو دیتی جارہی ہوں ۔ صحرا سے جنگل کا سفر میرا شروع ہوگیا ہے ۔۔۔۔۔

حق ھو ! حق ھو ! حق ھو! گمان ہوتا ہے کائنات مجھ میں سما گئیں ۔افلاک میرے اندر ہے اور پاتال بھی میرے اندر ہے ۔ قبرستان بھی اندر ہیں ، مسجد بھی میرے اندر ۔۔ سبھی رشتے میرے اندر ہیں میں کہاں ہوں ، کدھر جارہی ہوں میں تو مستی میں چلتی جارہی ہوں ۔۔ مستی جنگل  اور دریا کے سنگم میں ملی ہے ، یہ اوج مجھے یار  سے ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں وہ شہسوار ہوں جسے کوئی مات نہ دے پائے ۔۔میری رفتار کسی بھی گھڑسوار سے تیز تر ہے کہ یک مشت میں بلندیاں میری مقدر ہیں ۔میں ذات کی قلندر ہوں ! میں شہباز ہوں ! کون میرے پیچھے آسکتا ہے کہ میرا بسیرا بلند فضاؤں میں ہوگیا میں نے اڑنا سیکھ لیا ۔۔۔پنچھیوں کو اڑتے دیکھ کے اب آہیں نہیں بھرتی کیونکہ میری اڑان بہت بلند ہے ۔میری اڑان بلند ہے ۔۔میرے پاس ہفت اقلیم کی دولت ہے ۔میرے پاس دولت کے خزانے ہیں ۔علم کا خزانہ مجھے مل گیا ہے مجھے اپنا آپ مل گیا ۔مجھے اس نے مکمل کردیا ۔۔۔۔۔۔۔میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! میرا یار مجھ میں بس گیا ہے ! مجھ میں بیٹھ کے تار ہلاتا ہے ! میں تار پر لہو بہاتی ہوں اور سیاہی بنتے لکھا جاتا ہے ۔ درد دلاں داں کون جانے ! کوئی نہ جانے گا کہ یہ میں ہی جانوں 

درد کا سب سے خوبصورت چہرہ محبت ، عشق ہے ۔عشق کے جام مجھے دیے جارہے ہیں میں مستی میں ابھی ہوش میں ہوں ۔۔مجھے کیا معلوم میں کہاں جارہی ہوں میں بس چلتی جارہی ہوں ۔۔پہاڑ پر تو کبھی ندیوں پر تو کبھی آبشاروں سے تو کبھی ڈھلانوں سے تو کبھی دریاؤں سے کبھی درختوں کو چیرتے ہوئے ۔۔۔! مجھ سے ندیاں باتیں کرتی ہیں ! میں نے اسے پالیا ہے  ۔پہاّڑ میرے آگے جھکتے ہیں ! مجھے  آقائے دو جہاں کی محبت نے سورج کردیا ہے ۔ آسمان پر پڑے سورج کی میرے سامنے کیا حیثیت ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔

Saturday, January 16, 2021

در ‏نبی ‏صلی ‏اللہ ‏علیہ ‏وآلہ ‏وسلم

مکان مکینوں سے بنتا ہے اور انسان کے دل کا مکین رب ہے. اسے ربی ربی کہنا چاہیے مگر وہ دنیا دنیا کرتا رہتا ہے. جس نے ربی ربی کہا،  اس نے رب کو پالیا. یہ بہت آسان سی بات ہے جب ہم کو اس نے کہا نماز قائم کرو ... تم نے کہہ دیا ربی ربی ... نماز تو ہمہ وقت اس کی تسبیح ہے یعنی اس کا خیال ...اب یہ مشکل بات ہے دنیا میں رہتے اس کا خیال رہے. مجذوب کے لیے بات آسان ہے کہ وہ خیال ایک کرلے مگر دنیا دار کیا کرے کہ دنیا نبھانی ہے. یہ مشکل ہماری خیال و اعمال کے ربط سے آسان کردی گئی ہے . ہمارے خیال میں جب کائنات کی سب سے عظیم ہستی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگی تو ہمارے اعمال ان کے سانچے میں ڈھل جائیں گے.  ہم نے ان کے جلوے کو ایسے پانا ہے کہ ہمارا خیال اور ظاہر یعنی عمل ان کی سیرت میں ڈھل جائے. ہر جگہ ہمیں ان کا جلوہ دکھنے لگے گا. اس سے عظیم فنائیت انسان کو نہیں دی گئی. انسان نائب ہے اور نائب کے پاس اختیارات بہت. اختیارات کا استعمال نائب دنیا کے لیے کرتا ہے جبکہ کچھ لوگ بانگ سے بانگ سے ملاتے ہیں اور صدا بلند کرتے ہوئے کہتے ہیں 

میرا رب عظیم ہے 
دل میں وہ مقیم ہے 
اسکی شان کریم ہے 
اسکی بات رحیم ہے


یہ کاسہ ء فقیری پھینک دے اور دُر ہوجا درِ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا.  اے حضرت انسان!  تجھے تو میری شان بیان کرنی تھی اور تو اپنی شان بنانے میں لگ گیا. اے وہ نیک بخت! جس کے لیے میں نے کائنات بنائی، وہ اپنی کائنات بنانے میں لگ گیا.  شمس کی تسبیح دینا ہے اور رات میں روشنی دینی پڑتی ہے. شمس روشنی کا محتاج ہے اور شمس، شمس کی جستجو میں لگ گیا. رب نے فرمایا قم الیل ... قم حکم ہے اوررات میں قیام بڑا مشکل ہے. شمس کو رات میں قیام کرنا پڑتا ہے تاکہ اس کی تسبیح زمانے کی تسبیح ہوجائے. یہ دولت  اللہ عزوجل اور شاہ رسالت مہرنبوت،  امامِ انبیاء کی جانب سے اور توسط سے پہنچتی ہے اور خیر پہنچ کے رہتا ہے جبکہ شر نے مٹ جانا ہوتا ہے. رات کا قیام ضروری ہے ... قائم ہونا بالذات اس لحظ سے کہ ذات کی جلوہ گری ہے. انسان کو مگر اپنی پڑی ہے تو وہ جان لے کہ سزا بھی کڑی ہے. یہ مہرِ رسالت کی کڑی ہے جس سے ملی کڑی سے کڑی ہے اور رات جس کے سامنے کھڑی ہے،  وہ کوئی توشہ ء محبت کی لڑی ہے. سن کہ تو اللہ کے واسطہ بنایا گیا ہے نائب مگر تو نے اختیار کا ناجائز استعمال کیا ہے تو ہوگیا گھاٹے والوں میں ... رب کی شان بیان کرو 
ربی ربی،  ہر صدی رب کی ہے 
ربی ربی،  رب کی شان بڑی ہے

تسبیح

یہ خزانہ ہے جس نے خیال میں مہرِ رسالت، شمع نبوت سے دنیا سجالی. یہ خزانہ ہے اور بڑی دولت ہے  جس کو مل جائے اسکو خبر ہونی چاہیے کہ وہ خود اخبار ہے اور خدا کے منشور کا وسیلہ ہے. وسیلہ کیا ہوتا ہے؟ فیض سے انتقال کی صلاحیت مل جانا. صحرا کی دھوپ میں خیال کی چھاؤں مل جانا فیض ہے.  رقیب سے درد کا مداوا کرنے بیٹھ جانا فیض ہے. ان کی نگاہ میں آجانا فیض ہے. شب گزیدہ سے اٹھ کے کھڑے ہونا اور شور میں سکوت کا سامنا فیض ہے. فیض ہر اس کا سینہ ہے جس کا سینہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منسلک ہے. وہ جسم جس کے قلب کی روح کے میناروں میں گنج لامتناہی نور کے سلاسل ہے اس کی پہنچ سدرہ تلک ہوجاتی ہے.

شمس کی دلاوری دیکھیے کہ دلاوروں کے پیچھے ہے ... شمس تم ہو جس کو دیکھ دیکھ کے یہ دل جیتا ہے. دل کا پیالہ عشق کی مے سے خمار آلود ہے اس میں رنگ و بو کا انتظام ہے  یہ نظام علی الصبح جاری ہے اور رات کا جاری نظام صبح صبح جانم جانم جلوہ افروز ہے  خیال اچھا ہے. کمال اچھا ہے. حال اچھا ہے


کمال کا انسان ہوا ہے آج میں جس نے قران پاک کو سینہ سے جانا ہے .مومن کو دل پڑھنے کو کس لیے کہا گیا ہے کہ سینہ لوح محفوظ سے متصل ہے.  ساری بات اس میں پوشیدہ ہے.  اس سینے کو یا قلب کو انسان ہاتھ نہیں لگا سکتا یعنی نگاہ نہیں کرسکتا. یہ باطن کی نگاہ ہے جب تک وہ طہارت اختیار نہ کرلے. طہارت لفظ جٍڑا ہے باطمن کی صفائی سے. جتنا باطن صاف ہوتا جاتا ہے فہم حاصل ہوتا ہے ... نور تو موجود ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہر لحظہ ہر جہت موجود ہو تو مفہوم انسان پر آشکار ہوتا ہے. اللہ کہتا ہے تو راز رکھ ورنہ راز ہستی کیا ہے؟  یہ جاننے والے بہتر جانتے

الف رکھ اور پاس اللہ کے رہ.  میم محمد سے سجا ذکر کی محفل. ان گنت درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ...ان کے نام کی تسبیح ہوجا. تسبیح عمل کی چکی ہے یا عمل کا لامتناہی دائرہ ہے. چاند کی گردش تسبیح ہے اور سورج کا روشنی دینا تسبیح ہے. شناخت کے بعد وہ کام کرنا جس کے لیے پیدا کیے گئے ہو اس میں محو ہوجانا تسبیح ہے .. کسی کا عمل لا لا لا کی تسبیح والا ہے تو کسی کا عمل الا اللہ کی تسبیح والا ہے تو کوئی سبحان اللہ کی تسبیح کرتا. ہوتا یہ ہے وہ کرتا ہے ایسے اچھے سبحانی کام اور لوگ کہتے ہیں سبحان اللہ. کسی نے قران کی قرات کی تسبیح کرنی ہے اور سننے والوں پر ترتیل سے نزول ہونا لکھا ہے قرات سے. اس سے خشیت کا دل میں اتر آنا قرات کا تسبیح ہے. کسی نے حسبی رب جل اللہ کہتے اس کے جلال کے سائے میں رہنا ہے یہ کسی مجذوب کی تسبیح ہے. کسی نے فلک پر بیٹھ کے نعت کہنا ہے .نعت کہنا بھی تسبیح اور نعت ہوجانا عظیم الشان تسبیح ہیں.  جو چلتی پھرتی نعت ہوجائے تو وہ درد کی چیخ مارتے جامی ہوجاتا ہے تو کہیں سعدی اذن سے نعت ہوتے ہیں تو کہیں مظفر وارثی کا دل حرا کی وادی ہوجانا توصیف کی تسبیح ہے. غرض کہ کرو عمل کی تسبیح.

زمین ‏،پانی ‏

زمین پانی سے بھر جائے تو پیاسے کو آنا چاہیے ورنہ سیلاب آجاتا ہے. سیلاب زندگی بھی ہے. سیلاب گلاب ہستی بھی ہے کہ درد کے مابعد کا تحفہ ہے. خوشبو کا احساس خوشبو کی جانب لیجاتا ہے. خوشبو عرش کے پانی سے وجود میں آئی ہے. یہ خاص خوشبو گلاب کی ہے جس سے بقیہ خوشبو محصور ہو جاتی ہے. شمع رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد میں آنسو بہانے والو. تم کو کیا ہوا،  تم تڑپ میں اویسی و بلالی ہو جاؤ تاکہ فاصلے معنویت کھو دیں. تم کو قربت کی روشنی فارس سے بحضور کیوں نہیں کرتی؟  تم پروانے کیوں نہیں بنتے؟  تم ستارے بن جاؤ کہ سورج کو تلاش ہوتی اندھیروں کو. مٹادو تم اندھیروں کو. زمینیں بہت سی ہیں جن کو نور علی نور کی مثال ہونا ہے. جن کو ایسی مثال ہونا ہے ان کے پاس سیادت ہے. یہ نسبی و نسبتی سادات جڑے ہوتے آیتِ کوثر سے. اللہ ھو کہتے یہ نسبتوں کے سلاسل میں مودب ہوتے ہیں

اقربیت کی انتہا کیا ہے؟ اس کے لیے قربت کا مقام متعین کرنا پڑے گا. خدا تو لامحدود ہے اور تم عقل کے گھوڑے دوڑانے لگے ہو. وہ بابرکت زیتون کا تیل جو ہر انسان کی رگ نسوید میں موجود ہے اسکو روشن ہونے کے دیر ہے اس کے بعد انسان نور علی النور کی مثال اندھیروں کو چیرتا نور کی مثال ہوگا. یہ ہالہ نور کہیں  بھی منتقل ہو جانا. یہ مصرف میں بے انتہا ہو جانا یہ کرم سے ہے. قران ایک ہے اور سینے بے تحاشا ہے. کوئ بشر چاہےبھی تو مکمل پیروی نہ کر سکے گا ... اکملیت اک بشر پر مکمل ہے باقی سب سائے ان کی تربیت میں ہیں. انسان نے کہانی نہیں لکھنی بلکہ کہانی نے اس کو لکھنا. انسان کے ہاتھ میں قلم ہے ہی نہیں یہ قلم تو چل چکا ہے. انسان تو آگہی پارہا ہے. آپ سب کیا آگہی پارہے ہو؟  آپ کو وجود سے بڑی بات کیا لگتی ہے؟  وجود میں قلب سے بڑی شے کیا ہوگی. یہ ہم نے سوچا نہیں کبھی کہ ہم خدا کے کتنے قریب ہیں اور ہم مانگتے ہیں اقربیت. نحن اقرب کہتے وہ اعلان کر چکا ہے اور ہم مثل عقرب اپنے مرکز سے دور جاتے ہیں من میں زہر انڈیلتے. زہر کیا ہے؟  برا گمان. گمان کرنا ہے کہ اس نے اچھا کیا یا برا کیا ... فعل اللہ کی جانب سے ہے  فعل پر ناقد ہونا نہیں بلکہ فعل کے اثرات بڑے دور پذیر ہوتے ہیں ... اک بچہ بن باپ پیدا ہوتا ہے اور نبی بن جاتا ہے ... ہم ناقد ہوجاتے ہیں جبکہ فعل تو اللہ کی جانب سے ہے. ہم جانتے ہیں زلیخا نے عشق کیا سچی طالب رہی. ہم اس کے فعل پر ناقد ہوگئے جبکہ فعل اللہ کی جانب سے ہے. یوسف علیہ سلام نے انسان سے مدد مانگی ... اک نبی نے اللہ سے نہیں مانگا یہ دکھانا تھا فعل اللہ کی جانب سے ہے. انسان لاکھ چاہے تو مفعولیت کے دائرے سے نکل نہیں سکتا. انسان نے ہدایت پانی ہے

کمال کا انسان ہوا ہے آج میں جس نے قران پاک کو سینہ سے جانا ہے .مومن کو دل پڑھنے کو کس لیے کہا گیا ہے کہ سینہ لوح محفوظ سے متصل ہے.  ساری بات اس میں پوشیدہ ہے.  اس سینے کو یا قلب کو انسان ہاتھ نہیں لگا سکتا یعنی نگاہ نہیں کرسکتا. یہ باطن کی نگاہ ہے جب تک وہ طہارت اختیار نہ کرلے. طہارت لفظ جٍڑا ہے باطمن کی صفائی سے. جتنا باطن صاف ہوتا جاتا ہے فہم حاصل ہوتا ہے ... نور تو موجود ہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خیال ہر لحظہ ہر جہت موجود ہو تو مفہوم انسان پر آشکار ہوتا ہے. اللہ کہتا ہے تو راز رکھ ورنہ راز ہستی کیا ہے؟  یہ جاننے والے بہتر جانتے

نگاہ ‏فیض

وہ نگاہ جس سے فیض ہو جائے وہ کیا ہے؟ وہ عشق جس کو ارشاد حاصل ہوجائے وہ کیا ہے؟ وہ رزق جس میں حلال کی برکات شامل ہو جائیں وہ کیا ہے؟ وہ طلسم جو حقیقت میں قید ہو جائے وہ کیا ہے؟ وہ قدم جس سے نشان ثابت ہوجائے وہ کیا ہے؟  
پہلے قدم ہوتا ہے اور پھر نشانِ قدم ہوتا ہے. اس قدم کی پیروی میں چلنا بھی اک قدم ہے. کارواں چلتا ہے قدموں کے زیر اثر. کہیں آفتاب زیر اثر ہے تو کہیں نشان زیر اثر. ریگزار حیات میں جو بات بے اثر ہے وہ ہے بنجر زمین. زمین خالی ہو جائے تو پانی کی سیرابی بھی کیا اہم ... اہم بات یہی ہے کہ فیض رساں بات ہو. وہ بات جس سے نگاہ دل کا راز آشکار ہو. وہ حقیقت ہے. وہ موتی جس سے دل چیر دے افلاک کو. وہ تو دل میں موجود ہے. اب بھلا بتاؤ کہ موتی کیا ہے؟ یہ احسن مخلوق ہونے کا شرف پانا. اس میں انسانیت کے فرائض نبھانا. جنبش مژگان سے موتی ٹپکانا خدا کی یاد میں تاکہ خدا ہمیں سرفراز کرے. ہم نے اس کی مخلوق ہونے کا فرض نبھانا ہے

نگاہ کہے ربی ربی 
یہ دل اس کی گلی 
دل کہے مرشد مرشد
مری بات ان سے بنی 

ستم یہ ہے کہ جہانیاں میں چراغ محبت ہے اور محبت تقسیم ہورہا ہے. ستم یہ ہے نجف سے ہوا چل رہی ہیں. ستم یہ ہے کہ کربل کے مقام پر دل پڑا ہے اور آہِ نہاں میں نالہ ء دل کہنے کو تابشِ غم بھی چاہیے. ستم یہ ہے اجمیر کے شاہ کا کرم ہے کہ کرم نے سنبھال رکھا ہے. ستم یہ ہے کہ الف اللہ والی بات ہے. ستم یہ ہے قاف سے قبلہ بنتا ہے اور ق سے قربانی ہوتی ہے. وقت کے مذبح خانے میں جوہر لٹانے کے بعد مست خرامی سے چلتے کہتے جاتے ہیں کہ کرم ہے!  کرم ہے!  کرم نے سنبھالا ہے ..

آج تم ایک انسان ہو. تم سوچو تم میں ایک چراغ ہے. تم کو خوش نصیبی پر فخر کرنا چاہیے کہ تم میں چراغ روشن ہے ... چراغ اپنی روشنی کے لیے بیتاب ہوتا ہے.  چراغ میں نور علی نور کی مثال روشنی ہوتی ہے. یہ سب مرشد حق کی بارگہ ناز سے محصول بات ہوتی ہے. جب نور مکمل ہونے لگے تو شہادتیں واجب ہوتی ہیں. انسان کو چاہیے ایک دوسرے کے کام آئے کہ انسان کے دل میں محبت کے چراغ اس لیے جلائے جاتے ہیں کہ محبت سے روشنی دیں  اللہ آسمانوں زمینوں کا نور ہے. چلو اس پر غور کریں کہ اللہ تو آسمان پر ہے اور زمین تو نور کی تلاش میں رہتی ہے. زمین ایک سیارہ ہے اور اس پر سورج ہے. سورج سے جہاں منور ہے. انسان کے اندر چراغ ہے  . اس کو باہر سے اک سورج چاہیے جو اس کے اندھیرے مٹائے. جب اس کے اندھیرے مٹ جائیں تو وہ خود اک سورج ہوجاتا ہے. بے شک اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے. وہ اللہ کا کرم ہے جس کو نور علی النور کی مثال کہا گیا ہے. یہی زیتون کا بابرکت تیل ہے نہ شرقی ہے نا غربی ہے. اللہ ہر سمت ہے اللہ مشرق و مغرب سے پاک ہے. جس اللہ کی حد مقرر کرلو وہ اللہ تو لامحدود نہ ہوا. جو لامحدود ہوا وہ ہر ضد سے پاک ہے. اس نے تم میں نور کی تجلی رکھی ہے اور کہا من جھاتا فقیرا، لنگی حیاتی. افسوس کا مقام ہے ان کے لیے جن کے چالیس کے ہندسے گزر گئے اور ان کی پہچان کے زینے قدم کو نقش نہ پا سکے. ایسوں کے لیے اللہ نے کہا والعصر ..گھاٹے میں وہ لوگ ہیں جن کو علم نہ ہو سکا زندگی کی دوپہر گزارنے کے بعد وہ کون ہے چالیس کا ہندسہ مبارک ہے. یہ مبارک ہے کہ اس نے انبیاء کا تعارف دیا. اس نے کئی ولی اس طرز پیدا کیے،  اس ہندسے میں چار بجتا ہے. بس اللہ باقی ہر جگہ

کوئ ‏سامان ‏تشنگی ‏مہیا ‏کرو

کوئی سامان ِتشنگی مہیا کرو
اب ابر کی نہ برسات کی ضرورت
ایک بادل کے کئی ٹکرے ہیں
ہر ٹکرا پھر ایک بادل ہے
اور ہر بادل کے پاس آسمان ہے
سیلاب بہتا رہا یہاں وہاں
لوگ سمجھتے رہے مکاں بہا ہے
میں کہتی سب خاک خاک ہوگیا
جو دنیا درد سمجھ رہی ہے
اس کو میں نے ہنس کے پینا
جو درد مجھے ملا ہے
اس کو کوئی نہیں جانا
میرا اندر خالی ہے
اس میں کون سمانا
اس رمز کو وہ جانا
جس کے پاس سب نے جانا
یہ دنیا بڑی بے مایا
کون یہاں پر چھایا
ہم نے بوریا سنبھالا
سمجھا کہ روگ پالا
ہم ہوتے روگی تو اچھا ہوتا!
بنتے ہم جوگی تو اچھا ہوتا!
یہ دنیا بڑی بے ثمر ہے
میرا پاؤں اس کی نظر ہے
میں کیا کہوں جواب میں،
کچھ نہیں اس کتاب میں،
دل درد کے لکھ نہ پائے گا!
یہ درد کیا کون سمجھ پائے گا!
جو سمجھے وہ چپ رہ جائے گا!
جو نہ سمجھے وہ مجھے تڑپائے گا!
میں نے کہا بڑا برا کردیا!
ڈ رتو میری نظر سے گر گیا ہے
میرا تعصب مجھے کھا گیا!
میری حرص نے دغا دیا!
میری آنکھ میں ریا کاری،
دل !دل شرم سے عاری،
کیسے ہو دور اب گنہ گاری؟
ہم کو اُس دنیا جانا ہے!
جہاں انسان بستے ہوں!
وہاں مکان گر جانے سے،
کوئی فرق نہ پڑتا ہو!
دلوں میں چراغ جلتے ہوں!
ان چراغوں کی لو سے،
خود کو جلا جانا ہے،
ہم کو اس دنیا میں جانا ہے!
جہاں سے روشنی بن کے نور،
ذات کو نور کردے،
میرے من کے اندھیروں کو
دور کردے ۔۔۔!
اندھیرا دور ہوجانے کے بعد
ہمیں سب سمجھ آئے گا!​

اب کہ کوئی سوال نہ ہو،
یاس کو اب جواز نہیں!
درد کا اب حساب نہیں!
یہ مجاز کی رمز کی بات نہیں!
جل کے مرنا اس میں پیاس نہیں!
غلطی سے دل کی بات لکھی!
اس کی سزا میں نے چکھی!
مجھے معاف احباب کردو،
میرے الفاظ میں ندامت ہے
ان کو اب نظر انداز کردو
یہ سمجھ ، وہ سمجھ اور نہ سمجھی!
سمجھ کر بھی جہاں میں نہ سمجھی!
دنیا میں آتے جاتے رہیے
آنے جانا ایک میلا ہے
کون اس دنیا میں اکیلا ہے
وہ ذات جو کمال حق ہے
وہ نصیب کی بات ہے
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے
یہ بڑے نصیب کی بات ہے​

دوستو! عشق کا تحفہ بڑی چیز ہے. جس کو اس سے نوازا جاتا ہے اس پہ اک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ محبوب کے رخ کا پردہ بڑی شان سے اٹھاتا ہے ... جس کو اجازت حجاب اٹھانے کی دی جاتی ہے، اس کو حجاب کے اندر داخل ہونے دیا جاتا ہے. کائنات کی دوئی ہجر کی اساس ہے اور وصل کی شراب عاشق کو دے دی جاتا . "لا " کی تسبیح تھما دی جاتی ہے

لفظوں کو اظہار دیجیے
ان سے بے حد پیار کیجیے
خالق کی نشانی ہیں لفظ
حقیقت کی ترجمانی ہیں لفظ

اک در بند ہوتا ہے تو سو در کھل جاتے ہی. وہ جو نیند کی طلب سے بے نیاز ہے یعنی کہ پیغام اجل! و وہی دے سکتا 

ہے. وہ سب سے بڑی طاقت ہے اس لیے نہیں کہ اس نے صرف دنیا بنادی مگر اس لیے کہ اس نے سب .چیزوں میں کشش پیدا کی. اس کشش میں محبت و عشق کا خمیر ڈال دیا .گہرائی کو عشق سے اور سطح کو کشش سے بھر دیا ...زمین پر چلنے والا نفس کشش میں رہتا اصل سمجھ نہیں پاتا، فساد برپا کرتا ہے جبکہ مرکز کے اجسام کے پاس اصل کو پہچاننے کی قوت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بس اسی کے ہوجاتے ہیں ... بس ان کے دل مین واحد کا بسیرا ہوجاتا ہے ... اس کی بارش میں بھیگنے والے ہر غرض سے بے نیاز کر دیے جاتے ہیں ...آزاد روح! آزاد روح کبھی قید نہیں ہوتی ..ان کی آزادی خالق کی نشانی ہوتی ہے ...اس نشانی کا احساس ایسا معجزن ہونے لگتا ہے کہ خود کی ذات معتبر ٹھہرنی لگتی ہے .... 

میرا وجود ترے عشق کی ہے خانقاہ
ہوں آئنہ جمال ترے عشق کا کمال ہے

بندہ مومن کے دل میں طلب دیدار پیدا کردی جاتی ہ ے..وہ شادی کی کیفیت! دنیا ہیچ ہے اس کے سامنے !. سب خزانے ہیچ ..

علم.و روشنی کا خزانہ وہی تو ہے
میراعشق و فسانہ وہی تو ہے
قلم! قلم کی قسم! قلم کی عطا
اس عطا کی انتہا مجھ پر ہے
!وہ کون ہے زمانے نہیں جانتا
!وہ وہ ہے جسے میں جانتی ہوں
وہ وہ ہے جس کی شہنائی درد والی ہے
وہ وہ ہے جس کے در کی دنیا سوالی ہے
ہم نے اس کے لیے کیا آنگن خالی ہے
دیکھ! میری گالوں میں سرخی، ہونٹوں پہ لالی 
میں اس کی ہستی کی مست حالی ہوں
میری بستی میں اس کا بسیرا ہے
جس کے دم سے جہاں میں سویرا ہے

مرض مجھے ملا یے اور میں مریض عشق ہوں..جس کو عشق میں جلنا ہو تو خود کو آگ پہ جلتا محسوس کرے. وہ آگ ٹھنڈی ہو جائے گی جبکہ اندر کی آگ تو بھڑک اٹھے گی ..اے دل والو! اندر کی آگ بھڑک رہی اور وہ جو دور ہے وہی قریب ہے. وہی جو قریب ہے وہی نصیب ہے اور جو نصیب ہے وہی حبیب ہے جو حبیب ہے وہ میرا جلیل ہے

وہی جو جلیل ہے وہ خلیل ہے. جو خلیل ہے وہ اسماعیل ہے. جو اسماعیل ہے وہی کلیم ہے جو کلیم ہے وہی روح ہے۔ جو عشق ہے اس کے انداز تو نرالے ہیں ،محمدﷺ کی صورت میں عشق مکمل ہے

محمدﷺ میں تیری حکمت مکمل
بصورتِ بشر  میں وہ  تیرا   تجمل

محمدﷺ کی ذات کے نور سے امت محمدیﷺ کو فیض حاصل ہوا ہے کہ وہ ان کا آئنہ بن سکیں ۔ حق ً! یہ واقعتا ! نصیب کی بات ہے کہ ہم انہی کی امت ہیں ۔ ان کا ہونا ، ان کی محفل میں رہنا بڑی قسمت کی بات ہے ۔۔امت محمدیﷺ میں بھی چنیدہ لوگ اس بات کے لیے انتخاب کیے گئے ۔تشنگی کا صحرا ، پیاس کے ابر میں ان کی پرورش کی گئی ۔ان پر ان کی نسبت سے فقر کو زندگی کا خاص تحفہ دیا گیا ۔ آزمائش کے واسطے پہل ان کے خاندان سے ہوگئی ۔ ان کا خاندان وسعت میں امت محمدی ہے ، اور حد میں عشاق کا قافلہ اس میں شامل ہے ۔سیدنا امام حسین علیہ سلام اس کے امام ہیں  جن کو نسبت سیدنا حضرت علی رض سے بھی ہے اور جن کو نسبت سیدنا محمدﷺ سے بھی ہیں ۔ ان کی امامت میں چلنے والے حق کا نور ، دل کا سرور ہوتے ہیں ۔ وہ خاص لوگ دنیا کے لیے تحفہ ہیں ،ان کی ذات کی تشنگی کا سامان بھی تشنگی ہے ۔

جس ‏کی ‏کرسی ‏عرش ‏پر ‏قرار ‏ہے

جس کی کُرسی عرش پر قرار ہے
وہ میرے ساتھ چلا ندی پار ہے
ندی میں عشق کا رنگ دیکھا
مقتول عشق ندی کنارے بہتا پایا

سُرخی نے لالیاں ندی اچ نیراں
سرخی اُتے نور، نور نال چلی جاندا اے
 سرخی اندر وی ! سرخی باہر وی اے
 ہستی اچ ہستی نے ہستی لبی اے
آئنہ جیوں آئنے دے اچ رلیا اے !
آئنے   تے نور دا ناں لکھیا اے
 سرخی نے پالیا سرخی چولا  اے!
میں لبدی پھراں کتھے گیا چولا!
یار نے رقص آئنہ وچ ویکھیا اے
 جیویں ندی اچ ندی ملدی پئی اے !
میرا رنگ روپ اُڈیا 
لالی نے  کیتا  مست حال
دل اچوں آری ہوگئی آرپار
بسمل وانگوں تڑپدی پیئ آں
اُوس نے ویکھ ٹھردی پئیی آں
یار حدوں حدی قریب ہویا اے 
اودھی خشبو دی سنیاں واجاں ایں
اللہ ھو ! اللہ ھو ! اللہ ھو !

ھو دی گلاں کریاں ہن  کیہ کیہ  میں
ھو نے کردی انگ انگ اچ سج دھج
نچاں ''الف '' تے ''میم'' دے سنگ
''م'' دی ہستی ویکھاں گی الف دے نال

اس کی آنکھوں سے جہاں دیکھا  میں نے 
کیا بتاؤں میں کہ کیا ہے میرے دل کا حال
وصل کے شیریں شربت کا  جام مل گیا ہے

وصل دی بوٹی مشک و عنبر وانگوں
کیہ دساں کیہ اے ہن میرا حال 
الف دی مستی لکی اے میری ہستی اچ
مٹڈے جاندے  نیں ہن ہستی دے زنگ
بارش چھم چھم کریندی جاندی اے
وصل دی گلاں کریندی جاندی اے

بارش میں بھیگی بارش بنتی گئی 
بارش نال بادل دا بسیرا
چھاندا جاندا اے ہنیرا
اندر سویرا تے بار ہنیرا
مینوں بار کج نظر نہ آوے
ایڈھے اچ میں ڈبدی جاندی آں
جیویں رت ہنیرا لاندی جاندی اے
رشنائی اندر چھاندی جاندی اے 
ایس رشنائی نے مینوں کیتا بے رنگ
رشنائی نوں رشنائی لکھواندی پئی اے
عشق دی رشنائی وڈی نورانی اے
لکھدی پئی میں ایس دی کہانیاں
ھو ! ھو ! ھو! ھو !
حق ھو ! حق ھو ! حق ھو

اسکی ‏شہنائی ‏گونج ‏رہی ‏ہے

اس کی شہنائی گونج رہی ہے 
روح مستی میں گھوم رہی ہے
جوگ پالتے کردیا اس نے روگی
اس کی بات میں خود کو میں بھولی
ضربِ عشق سے ذائقہِ موت ملا
کلُ نفس ذائقتہ الموت
یہ کون میرے سامنے ہے
میں کس کے سامنے ہوں 
وہ میرے یا میں اس کے۔۔۔؟
ہجرت میں گمشدہ روح پہچانے کیسے؟

وہ جو اس جہاں کا سردار ہے جس کے اشارے سے سب کام چلتے ہیں ۔ جس نے میرے دل میں دھڑکن دی اور اس دھڑکن میں اپنے نام سے رونق دی ۔ اس کو جلوہ دل کی مٹی کو بہت نرم کردیتا ہے مگر اس کے کے ساتھ غم کی ایسی کیفیت لا حق ہوجاتی ہے جس کو میں کوئی بھی نام دینے سے قاصر ہوتی ہوں ۔یوں لگتا ہے کہ دل کو مٹھی میں بند کرکے نچوڑ دیا گیا ہے مگر ہر سانس شہادت دیتی نظر آئے اور زندگی آزار سے آزادی کی تمنائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اس دل کو درد ملتا ہے مگر کون جانے کو کتنا درد ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔؟ شاید صدیوں کا درد ملا ہے یا ایک پل میں صدی کا درد ۔۔۔۔۔۔! میرے سوا اس درد کو کون جان سکتا ہے کیونکہ اس کو سہنے والی میری اپنی ذات ہے مگر میں اپنی اوقات میں رکھی ہوئی اس سرخ پلیٹ کو دیکھتی ہوں جس میں چھپا وصل کا نقاب مجھے اپنی اوقات سے بڑھ کے دکھتا ہے ۔ بحرِ وجود سے نکلتی درد کے بے کراہ لہریں ساحل پر  شور کرتی ہیں تو لفظوں کی صورت شور کی آواز میں بھی سن لیتی ہوں ۔ لہریں بحر سے علیحدہ ہوتے ہی اپنا وجود دھارتے مٹی میں مدغم ہوتی جاتی اور میں اپنی ذات کے منقسم ٹکروں کے رقص پر حیرت کناں! جونہی حیرت کے دریا میں غوطہ زنی کرتی ہوں تو اپنی حمد اپنے یار سے سن کے خراماں خراماں چلتے اس کے سامنے سر بسجود ہوجاتی ہوں ۔۔۔۔۔۔

اے یار سجدہ بنتا ہے
سجدہ کے بعد جلوہ  ہے
جلوہ کے بعد حیرت ہے
حیرت کے بعد کچھ نہیں ہے
میں غائب ہوں ! وہ موجود!

مقامِ شُکر کہ موت آن پُہنچی
مقامِ شُکر کہ میں چُن لی گئی
مقامِ شُکر کہ بعد موت زندہ ہوں
مقامِ شُکر کہ آبِ حیات پیا ہے !
مقامِ شُکر اس کو پہچانا ہے !
مقامِ شُکر کہ اس نے بنایا مجھے
مقامِ شُکر کہ میں اسکا جمال
مقام شکر کہ میں اس کا کمال
مقامِ شُکر کہ میں اس کے ساتھ
مقامِ شُکر کہ وہ ہے  میرے پاس 
مقامِ شکر کلمہ توحید میں پڑھا
مقامِ شکر کہ مرشدیت محمد کی ملی 

اپنی ذات جب فنا کے سفر پر روانہ ہوئی ہے تب سے ہستی کے ذرہ ذرہ نڈھال مستی میں اپنا وجود کھوئے جارہا ہے اور بادل بنتے ابر کی شکل میں ڈھلتے برسنے کو تیار ۔۔۔۔۔۔! وہ جو شاہد ہے ، وہ جو مشہود ہے ! نور کو اسی کا طرز عمل ملا ہے جس پر وہ چلتے یار سنگ رقص کرے گی ۔ میرا نام آسمانوں میں نور کے نام سے لکھا ہے کہ لوح قلم پر میری پیدائش اسی نام پر رکھی گئی ۔ہستی تو نور بن کے بکھر جانی ہے اور باقی کچھ بھی نہیں بچنا ! اس کے ساتھ پر کچھ ایسی گمان ہوتا ہے کہ میرا وجود جبل النور کی مانند روشن ہے اور میں اپنی  حمد میں خود مصروف ہوں گویا کہ میں یار کی تسبیح کرتی ہوں ۔دوست جب ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں اور میں نے بھی اپنے یار کو پہچان لیا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ تیرا نام نور ہے اور میں کہتی ہوں کہ مالک تو تو سراپا نور ہے ! نور کا کام یقین کی روشنی دینا ہے ۔ حق ! حق ! حق ! میں اس کے رکوع میں گم ہوں اور اس میں فنا ہوں ۔۔! فنا کے سفر میں پہ در پہ انکشافات نے وجود میں بھونچال بپا کردیا ہے اور حرارت بدن نے محشر کی سی گرمی بخش دی ہے ۔میری ہڈی ہڈی اس کی تسبیح میں گُم ہے ۔ اس محشر سے جسم روئی کی مانند بکھرتا جارہا ہے جیسے شمع اپنا بدن گھل گھل کے ختم کردیتی ہے بالکل اسی طرح ہڈی ہڈی سرمہ ہوتی جاتی ہے مگر کیا غم ! اس کی فنا  کے حال میں کیا پروا؟ کیوں ہو پروا ؟ میں تو اس کی تسبیح میں ہوں اور مجھے لا الہ الا للہ کی تسبیح ملی ہوئی ہے ۔

 اس نے نور کو آزادی دی ہے ، آزادی جو بعد موت کے ملتی ہے ! جو بعد فنا کے ملتی ہے ! جب اس سے فریاد کرتی ہوں کہ تجھے دیکھنا ہے ! اپنی دید تو کرادے نا ! تو وہ کہتا ہے کہ جاؤ ! نوریو ! 

تڑپ دلِ مضطر کی بڑھ چکی ہے
ابر رحمت کی برسات ہوچکی ہے 

اس کو تسلی دو کہ اس کی بات سن لی گئی ہے ۔ وہ پاس آتے ہی  حمد شروع کرتے ہیں میں اپنے مالک کی تسبیح میں ان کے ساتھ ہوتی ہوں اور صدائے درود عاشقانہ مجھے مسحور کیے دیتی ہے

اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔

درود کے ساتھ پیرکامل کی نظر ہوجائے تو دل میل کے دھل جاتے ہیں اور کثافتیں سب غائب ہوجاتی ہیں ۔دل توحیدی میخانہ بن جاتا ہے ۔ جام در جام پینے کے بعد میخانہ کو میخانے کی طلب ہوتی ہے کہ اب پیاس اس صحرا کی اسی در سے بجھ سکتی ہے کہ جانے کب اس در پر ملے حاضری اور کب ہو یار کی دید ، کب ہو مرشد کامل کا جلوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔! مرشد کامل کی نظر ، کرم ہے مگر اب دل دید کے سوا کچھ  مانتا نہیں ہے ۔۔۔جی چاہتا ہے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے اسی در کی ہوجاؤں اور دل کے بجھے چراغ اسی در کی روشنی سے جلالوں ۔۔۔۔۔۔!

لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں کھال اترنی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں زبان کھینچی جانی ہے
لا الہ الا اللہ میری تسبیح ہے
عشق میں دار پر مستی کرنی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ.اللہ ‏کے ‏نام ‏سے ‏دل ‏بنا ‏ھو

اللہ ! اللہ کے نام سے دل بنا ھو !

ھو کے نام سے دل میں چھایا سکوت!

سکوت نے دل میں جما دی غنود !

اترا دل میں صحیفہِ سورہِ ھود !

لا الہ  الا اللہ انت سبحانک انی کنت من الظلمین !

بیشک ہم جسے چاہیں نوازیں !

وہ جسے  چاہے نعمت دے !  وہ جسے چاہیں صحت دے ! وہ جسے چاہیں شاہی دے ! وہ جسے چاہیں دولت دے ! وہ جسے چاہیں فقر دے! 

تاحدِ گُمان فلک سے کچھ برستا دکھائی دے رہا ہے ، نعمت و رحمت سے  زمین کی جھولی کو بھرا جارہا ہے ۔یہ جو نیلے نیلے دھاگے ہیں ! یہ جو زرد ریشم ہیں ! یہ سیاہ سیاہ پتھر ہیں !یہ نعمتِ خداوندی ، یہ رحمتِ خداوندی ! یہ جو سرمئی سرمئی  نگینے ہیں ، جن کی چمک بالکل اسی طرح جس طرح تازہ انگور شاخ سے توڑا جائے ۔ان کی شبیہ زمرد سے ملتی ہے ، یہ زمرد ---یہ میرے نگینے ۔۔۔۔ شاخِ ہستی سے لٹکے ، زمین کی سطح پہ گرتے انار کی مانند سرخ لعل ۔۔۔یہ میرے لعل ، میرا جواہرات ۔۔۔ یہ نعمتِ خداوندی ، یہ رحمتِ خداوندی ۔۔۔میرے ہادی نے تحفہِ الانجیل مجھے تھما دیا ہے ! میرے دل کو نسخہِ کیمیا دیا ہے ، نسخہِ کیمیا گری نے دل کو طور کردیا ، دل کو نور و نور کردیا ہے

کبھی دل طور کبھی مدینہ !

کشتی کو مل گیا سفینہ !

جینے کا آ گیا ہے قرینہ !

نہیں اب کوئی آرزو دیرینہ!

اے مالک ، یزدان ، حسنِ ازل ---- محبت کی قسم کھائی ہے آپ نے ، وہ محبت مجھے لوٹا دو !

رفعتوں پر بیٹھا ، لامکانی پہ مکین ، مکان میں سمایا ، میرا حبیب ! میرا سہارا ! 

اے رفعتوں پر مکین ! لامکانی میں معین ، مکان میں مکین ! جلوہ کب ہوگا ؟ معراج کب ہوگی ؟ اے ''الباری '' اے مصور'' اے جمیل ! روح کو مستی دی ایسی کہ مستانی ہوگئی ہے ، مستانی ہوئی کہ دیوانی ہوگئی ہے

وہ جو کوہِ طور ہے ، وہ وادی النور ہے ! دل میں اتر گیا صحیفہِ النور ! وہ جو معراج کی باتیں ہے ، جس سے سینہ پُر ہے، اس سے دل ہوتا  مدینہ ہے ! 

اللہ نور السموتِ ولارض 

وہ آسمانوں کا نور ، وہ زمینوں کا نور

وہ آسمانوں کا علم ، وہ زمینوں کا علم 

وہ نورِ کل ، وہ علمِ کل ، وہ عقلِ کل

جسے چاہے علم سے نوازے ----جاننے والے کیسے نہ جاننے والوں کے برابر ہوں ، وہ جانتے ہیں تیری حقیقت ، تیری عظمت ، باعثِ تخلیق کیوں ہے مظہرِ خاک، جب علم کے خزانے نواز دیے جاتے ہیں تب کمالِ روح کسی ایک خزینے پر کامل ہوتا ہے ، کسی کا دل آیت الکرسی سے جڑا ہوتا ہے ۔ علمِ کمال آیتِ سردار سے کامل ہوجاتا ہے ۔ یہ خزانہِ علم ہے جسکو جس پر عام کردیا جائے وہ خاص کیا خاص الخاص ہوجاتا ہے

قلب پہ تجلیات کی ابتدا کسی نہ کسی بہانے ، وسیلے سے ہوجاتی ہے ، کبھی کوئی جملہ ، کوئی لفظ ہادی بن جاتا ہے تو کبھی کتاب یا سورہ گنجینہ الاسرار ثابت ہوتی ہے ۔۔۔ بعینہ جسکا علم دل میں منقش ہوجاتا ہے ۔۔۔ جسکے دل میں سورہ الاھود کا علم اترے تو سمجھ لے وہ جانبِ صحت ایک قدم ہے ، جانبِ روح پہلا زینہ ہے ، یہ کلمہ پلِ صراط پر اترنے کے بعد یقین و ثابت قدمی کی ضمانت ہے ۔ اسی کلمے سے صراط پار کی جاتی ہے ۔یہ اسمِ اعظم روحی ہے۔ یہ اسم اعظم نورانی ہے ! یہ وجدانی ہے ! یہ کیف و جلوے کی علامت ہے ! یہ جلالت ہے ! یہ الوہاب کی باتیں ہیں ! یہ الرزاق کے رزق کی علامت ہے !

 یہ جو روح کا کلمہ ہے ، یہ میرا کلمہ ہے ! یہ ترا کلمہ ہے ! جس پر نگاہِ الطافانہ حضرت  محمد ﷺ کی ہو ، اسے چاہیے اپنی صبح و شام درودِ ابراہیمی میں گزاردے کہ یہ معطر و معجل کردینے والا کلمہ ہے ۔ جب یہ احساس ہو کہ دل کی مٹی میں نمی ہے ، دل میں خشیت سے رعب بیٹھا ہے ، جب کبھی سکوت سے دل گھبرا جائے تب درود کی میٹھی میٹھی ہوا سے دل کو حلاوت پہنچانا مستحسن ہے ۔ 

الباری --------الوالی 

اللہ کے دو عالی نام 

بناتا ہے ، مٹاتا ہے ، مٹا کے بناتا ہے

محبت دیتا ہے ، محبوب رکھتا ہے 

الباری ، الوالی اسکے دو عالی نام

القھار ----------المھیمن 

اللہ کے دو عالی نام 

یہ تاجداری ، یہ  مشکل کشائی 

یہ غلبہ ، یہ جلوہ ، یہ ہبیت و جلال 

سب سے برتر ذات ہے وہ

سب کا مشکل کشا ہے وہ

ذکر کو میرے جو عام کرے

اسکے لیے بڑے انعام ہیں پڑے

یٰس (1) وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ (2) إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (3) عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (4) تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (5)

کلماتِ یسین ---- یہ علامت ہے جبروتی کی ، رحمانیت کی ، قربت کی ، شافیعت کی ، یہ نشانیاں ہیں ۔ یہ نشانیاں جن کو یقین سے پڑھنے پر علم میں اضافہ ہوتا ہے

ذکر ‏مصطفی ‏میں ‏دل ‏جھومتا ‏ہی ‏رہتا ‏ہے

ذکر مصطفی میں دل جھومتا   ہی رہتا ہے

شمع  گرد پروانہ گھومتا ہی رہتا ہے

*****

یہ میری آنکھ کے آنسو جو چشمِ نادیدہ سے جاری ہیں ، وہ اسمِ حق کی تپش ہے ، جو نمی دل میں ہے وہ عکسِ مصطفیﷺ کی رُوشنی ہے جس نے میرے گرد ہالہ کر رکھا ہے ۔ ذات میں خلا سا ہے ،جیسے میں ایک قدم پیچھے ہوں سفر میں ، سفر مُبارک ہے جس نے میرے رگ و پے میں جستجو کے نادیدہ دروازے وا کررکھے ہیں ، ان سے جاری اضطراب کو سرر کی ہوا سے ٹالا جاتا ہے ۔ میری آنکھوں میں چمک ہے وہ جلوہِ یار کی بدولت ہے

ذکرِ مصطفیﷺ میں دل جھومتا رہتا ہے

شمع گرد پروانہ گھومتا ہی رہتا ہے

یار کی حضوری میں روح جھومتی ہے تو

قلب، نامِ احمد ﷺ کو چومتا ہی رہتا ہے

شوق میں مقامِ حیرت کا ذکر ہوتا ہے ، حیرت کے اسرار کیا ہیں کوئی نہ جانے ۔ بس ایسی جگہ ہے جہاں پر اپنی ذات کا جلوہ رہتا ہے ، ہمیں یہی ذات ساجد دکھتی ہے ، یہی رکوع میں ، اسکی فنائیت پل پل میں خبر دیتی ہے ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ رابطے میں روح سرکارِ دو عالم سیدنا ﷺ سے رہتی ہے اور ایک لمحے کا یہ رابطے گوکہ بے پایاں خوشیاں دیتا ہے اسی شدت سے ہجر کی لہروں کو تن بدن میں آتش کی طرح بکھیر دیتا ہے ۔ بدن ایسا کہ جلے تو دکھے بھی نہیں ۔

زندگی میں بیقراری کا مقام قرار کے بعد سے شروع ہوتا ہے ، جتنا انسان بیقرار رہتا ہے ، اتنا سکون ملنا ہوتا ہے ، یہ روح جس نے کبھی غارِ حرا کے گرد گھومتا ہوتا تو کبھی مسجدِ نبوی کے مینارے نگاہ کے سامنے ہوتے تو کبھی جالیوں کے آگے کھڑی روح سلام پیش کیے رہتی ہے ، دل میں خواہش اُبھرتی ہے کہ اتنا درود بھیجوں ، اتنا سلام بھیجوں کہ کائنات کی کسی روح نے نہ بھیجا ہو ، اتنی اطاعت کروں کہ پہاڑ گرپڑے مگر سرمہ بھی دھول بن کے نامِ احمد صلی علی پڑھتے پڑھتے بکھر جائے ، پہچان ختم ہو تو پہچان ملتی ہے ، شناخت نے زندگیوں کو مسمار کررکھا ہے ، انسان کی پہچان تو بس فنا میں چھپی ہے

سلام اے میرے شہر میں مقیم اے عالی مقام ، سلام اے سدا بہار مسکراہٹ کی حامل ہستی ، اے میرے عالی مقام! عید بھی تب ہوتا ہے جب شمع کا جلوہ تیز ہوجاتا ہے اس جلوے سے آئنہ صیقل ہوتا رہتا ہے ، عکس اتنا پڑتا ہے کہ نقل و اصل کا فرق مٹ جاتا ہے یہ مقام جس کی چاہت ہے کہ میں نہ رہوں بس میرا حبیب رہے ، میں ایک اڑتی ہوئی خاک کے ذروں کی مانند بکھری رہی ہوں ، ہر ذرہ میں جلوہ رہے ، جلوے میں ہزار وں تجلیات کے اسرار رہیں ، ہر اسرار ہزاروں راز کلامِ الہی کے منکشف کرے ، میری ذات میرے لیے مشعلِ ہدایت ہوجائے ، میرے دل میں بس تو رہے میں نہ رہوں

میں خاک ، جلوہ بس تو

میں ذرہ ، باقی بس تو

میں فانی ،لافانی بس تو

میں عکس ، آئنہ ہے تو

میں آئنہ ، جلوہ بس تو

جلوہ تو ، میں تقسیم

ہزار ہوگئے آئنے

جن میں دکھتا بس تو

اے میرے موسی ، جلوے کی تابش میں جلنا ، جل جل کے مرنا ، مر مر کے زندہ رہنا ، عشق نے مجھے مجبور کردیا ، طواف کب شروع ہوتا ہے کب ختم وہ تو ہوش نہیں بس ایک ہی ہوش رہتا ہے کہ بس تو ہی ہے ، اے لافانی یہ دنیا جو تخلیق کے مادے سے معرض وجود میں آئی ،، اس کے اندر سے جو روشنی نکل رہی ہے وہ بس تو ، میری آنکھ میں سرمہِ دید ہے ، میری زبان میں ذکر محمدﷺ کی چاشنی ہے ، اتنی مٹھاس روح میں کہ خوشی کا سا مقام ہے ۔۔۔ کب ہوگا آپ کا جلوہ، اے میرے یحیی ، کب ہوگا ، یہ دل تو سب ایک آس میں جی رہا ہے کہ کب میں آپ کی محافل میں شرکت کروں گی اور کب یہ شرکت ہوگی ، اے میرے ہادی بس دل نہیں سمجھ سکتا کہ کونسا تحفہ دوں جب آپ شہر میں تشریف لاتے ہیں میرے شہر شہر میں روشنی سے احساس کی پلکیں بھی روشن ہوجاتی ہیں

مصطفوی ‏چراغ

مصطفوی چراغ لیے کملی نے جنگل میں روشنی کرنا چاہی ...کملی عین وسط میں پہنچی اور تو شیر خدا دیکھ کے ہیبت سے ڈر گئی .... شیر خدا کے ہاتھ میں حیدری شمشیر ... اس پہ لکھا ہوا تھا
 
ورقہ بن نوفل نے تصدیق کردی تھی. اس لیے  پیغام پہنچانا الہامی عمل ہے ...نور الہامی سیڑھیاں کیا چڑھ سکے جو خود ملحم نور ہے ...

یہ پیغام سے بھرپور شمشیر کملی سے کہا جاؤ، میں دیکھ رہا.ہوں سب ...
 
کملی نے یہ شمشیر کمر پہ باندھ دی اور سرور میں مبتلا ہونے کو تھی کہ حیدری آواز کے جلال سے ڈر گئی ... 

سرر کے میخانے سے چلتا نظام ہے، یہاں کاروبار عشق بدنام ہے،  طبیب سے کیسا کام ہے؟  کیا تو ابھی خام ہے؟  ترا تو انعام ہے؟  تجھے ملا کام.ہے؟  شمس ہدایت نے نگاہ ڈال رکھی ہے .

تلوار، کملی نے نیام سے نکال لی ..شیر خدا کو سلام کہتے روانہ ہوگئی ...شیریں سخنی پہ کمال تھا،  لبی لبی دود ہستی سے پھیلا دھواں جس کی خوشبو گلابی،  عنابی .... 

جنگل کے رستے خواب مل گیا.  خواب سے پوچھا،  ملاقات کب ہوگی ..خواب نے کہا جب نظام سرکار نے دعا دینی ہے ..ملاقات ضروری ہوئی .... تلوار اٹھا کے کملی نے اسکی حرارت دل میں ڈالی ..جس سے دل ایسے موم ہوا کہ پگھلنے لگا ...جو سیسہ.تھا وہ موم ہوا ...ہائے خدا یہ موہوم ہوا .... جھکائی زمین جو زمین پہ نیاز میں تو محفل مولائے حیدرم سے مالک کون و مکان.،  واصف دو جہاں سے،  امیر الاخیر الانام سے ہوئی ..پوچھا کہ کیا دیکھا کہ حیرت  ہوئی ...

سیدی مولا کی شان میں مدح خوانی کی سعادت پائ ہے ..اشک بامنزل.رسائ پائ ہے ..

سیدی مولا... یا مصطفی 
عربی.ڈھولا....یا مصطفی 
کمال.مرشد،  کمال نبوت 
کمال.بندگی یا مصطفی 
سید البشر کا.شیریں لقب 
حیات و ممات کا.سبق 
کیا لمحات ہیں یہ عجب 
ملتا اسے جو کرتا ادب 
ادب سے روشنی پائی  ..
روشنی نے زندگی دی 
زندگی نے درد کا رشتہ
شکستگی سے ہے خوشی 

جمال نبی کی نظر سے "بدلی "ہوئی
برسات میں نور برستا دیکھا یے 
محمد محمد کا نوری کلمہ.دیکھا 
دل ملا،  دل جلتا ہوا .تب دیکھا 
شاہ ولی سے ملا ولایت کا تحفہ 
شاہ ولی نے زمین پہ نام محمد لکھا 
شاہ ولی کا بارِ علم سماوی نور ہے 
شاہ ولی کا  شعار یقین رہبری کا.سرور ہے 
شاہ ولی نے حسن کی چادر اوڑھے ہوئے 
دل صدقے دل پہ ہزار جان نچھاور

من کی بتیاں نچھاور، مرے یاور 
کمال کی  یہ اگر بتیاں، مرے یاور 
مل رہےنوری ہالے،  جل  رہے سارے 
سرر نے عجب حال کر رکھا ہے 
شاہا نے سایہ ڈال یوں رکھا.ہے 
کمال کی چادر گلابی گلابی.ہے 
حیا کی.چادر سرخ عنابی ہے 
کفن پہ نام محمد کی تجلی ہے 
شاہا کے نام کی یہ "کملی "ہے 
کملی جانے کیا، .ادب سے جھکی 
شاہا کی نظر سے مست و مجذوب 
شاہا کے الطاف کی حد نہیں ہے 
ان کے قد  کی. کوئی حد نہیں.ہے 
شام حنا نے رنگ سے اجالا کردیا 
آقا کے نور نے یوں بول.بولا کردیا 
کعبے نے شوق حضور میں کہا ہے 
نور کے دل میں مرا حبیب رہا.ہے 
کعبہ کا کعبہ دل مجذوب ہوا ہے 
قصہ یوں عشق کا.مشہور ہوا ہے

 
سماوات پہ میم کی عجب مثال 
سنگیوں پرروشنی،  عجب کمال 
آپ کی نعمت ، دل پہ نوری ہالہ 
دل کہے جائے شاہ والا.شاہ والا ... 
قبر پہ روشنی.،  روشنی.ہادی ہے 
یہ قبر نہیں، غار حرا کی.وادی.ہے
غار حرا  میں  اصحاب کی باری 
محفل میں ادب یوں  ہے  طاری 
خاموشی کا یوں ہے سرر طاری 
آمنہ کا لعل،  عبد اللہ کا چاند 
اللہ کی کمال تصویر ہیں شاہا 
میرے دل میں رہتے مرے بابا 

سرکار کی آمد مرحبا 
دلدار کی آمد مرحبا 

فقیر ہوں،  فقیر پہ اہل کرم کا کرم 
خالی جھولی کا رکھا ہے یونہی.بھرم 
جھکا رہا سر مرا کہ عاری ہے شرم 
مرے سر پہ شاہا کا ہاتھ،  ان کا ہے کرم 
نوازئیے نور ابدی کے کامل آئنے 
مطلق حقیقت کے سب کامل.آئنے 
درود سے چلتا ہے نظام  مصطفوی 
مصطفوی نور میں.چمکے حجابات 
مصطفوی نور سے ہوتی رہی ہے بات 
آج تو پانی پانی ہو رہے ہیں سماوات،
چہرہ محبوب دیکھنا ؟ دیکھنا حق  
چہرہ محبوب دیکھنا عبادت،  حق  
چہرہ نور سے بقعہ نور بنا دل،  حق
جانب طور سلسلہ.ء جبل کمال روشن 
تقریب حسن کی، رعنائی تو دیکھ 
دل سے بجتی ہے شہنائی تو دیکھ 

ملائک سے سماوات مخاطب 
مولائے کائنات سے آپ مخاطب 
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا 
عرش سے نور فرش تک چلا 
زیست کے سفر میں کفر اضافی 
شمس کی زندگی ولا میں کافی 
اللہ والے  پہ رہتا الوالی کا سایہ 
جو ملے سایہ تو بدلتی.ہے کایہ 
نام محمد تو جہاں  پہ چھایا ہے

کلمہ حق کی استمراری زبان ہے 
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے 
حق نے سج دھج کی میم مثال لیے.
مثل کائنات سے  ہوئے خیال زیر بار 
ہار،  سے جاتے ہیں جب ملتے ہیں یار 
یار سے ملیں تو تیر چلتے ہیں آر پار 
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری ہیں 
نعت لکھنے کو ہجوم سے بھاری ہے 
کاف سے کچلی جاتی ہے، حم سے حامل 
ع سے قربانی ء بسمل ..تحفہ مقبول 
کرم کا سلسلہ چلا، مرے دل تک 
گمان سے نکلا یقین بنا تصویر تک

کیا ملا؟  کیا نہ ملا؟  کانچ کے دھاگے سے لکھا میں نے یہی بار بار،  عشق  خالص کہاں ملےبار، بار،بار ... اٹھاتا ہے جو بار اس کا،  وہ ہوتا ساحل پار ...

چاند سے نکلا نور، نور حزین کو ملا، چاند نے تحفہ ء معراج کو بخشا لطیف احساس .... خوشبوئے محمد سے دل ضیا بار ...کمال نے کردیا حالی حال ... خوشبوئے زلف محمد سے نکلی عنبر کی مہک خوشبوئے لالہ،  موتیا اس پہ نثار، آپ کے دلاور لہجے میں چھپا جلال، شاہ ولی نے آپ.سے لیا جلال، شاہا نے سرخ کملی اوڑھ رکھی ہے، کالی زلف والی محمد کی.صورت  ابھرتی یے

تاجور نے تاجوری کا تحفہ دیا 
کاجل لگا،  پہننے کو.ڈوبٹہ دیا 
یہ ہےاندھیرے و روشنی کا سنگم 
کملی والے اک کالی پہ ہوئے مکرم 

سج گئیں راہیں اور رفعت ملی اور رفعتوں پہ.مکانت،  سیادت سے ملی اجابت، عجیب رشتے پہ رشتہ ملا اک سیدی مولا ..

ہار میں  غنیم کا بار کیسا.ہے 
ستم میں معین کا کار کیسا ہے 
کچل دے،  نفس وہ وار کیسا ہے 
جسم مقید روح افلاک پر ہے 
مری زندگی کسی شاخ پر ہے

حجاب سے ازل کے رشتے بڑے 
شاید ترے دل میں بات اترے 
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں 
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں 
سجا کے سج سج کے آشنا ہوئے 
نور حزین پاک زمین کی نشانی 
یہ عشق فقط اس کی کہانی 
کچک کچک، کچ کچ نکلا دھاگہ
خاک پڑی رہی،  خیال کا.ارادہ 
پانچ برابر،  برابری کا رشتہ نہیں 
پیار سے بڑھ کا پیاروں کا رشتہ نہیں 
کمال حال ہے،  زوال و اوج کا وصال  
صبح کچھ کمال،  نہ رات کچھ کمال

بلالیجیے شاہا اپنے  مجھ کو در پر 
آؤں ارض مقدس پاؤں کے بل پر
عشق سپر، تیغ نیام  میں ہے 
مخلوق کی ذمہ بھاری کام ہے 
چشم دل سے من شاد ہوا ہے 
اسی سے میخانہ آباد ہوا ہے. 
یہ زمین علی کی ولا میں ہے 
دل وادی ء شاہ بطحا میں ہے 
چاک جگر، حسرت کا دھواں 
ملن کو تڑپتا مرا لمحہ لمحہ
مجھ کو اپنی ولا میں گما 
مرے دل میں سما کے نہ جا 
شاہا،  شام غریباں کیا ہے؟  
شاہا آپ کا جانا،  غربت ہے 
شاہا،  شام حنا  کیا ہے. 
شاہا  آپ کا آنا امداد ہے

سرحد ‏پار

کیا سرحد کے پار پریم رنگوں میں ڈھلی مورت دیکھی؟
کیا سرحد کے پار یار کی یار میں  صورت دیکھی؟
لکھتے ہوئے جس قدر خوش ہوں، اسی قدر کرب سے دوچار ہوں ... 
آتش شوق کے مرغولے بکھر کے دائرے بناتے ہیں 
ان دائروں میں ان کہی کہانی کی تحریر دیکھتی ہوں.  
یہ دائرے سرحد پار سے میرے ہست نگر کے گرد چکر کھا رہے ہیں 
صدائے عشق مجھے نہ دو 
غمِ عشق میں حال سے گئے
کسے فرصت سنے شب دیجور میں سرحد پار کے فسانے 
سرحد پار مٹی کے پتلوں سے ہوتے ہوائیں پیٍغام دیتی ہیں 
آہستہ آہستہ چلیے 
یہ زینہ عشق  قرینہ ادب سے ملتا ہے.
الفت کے نشے میں سرشار ہوں، کسے خبر شرر بار ہوں 
میری حدت سے گھبرا کے آنکھیں موند لیں جس نے 
ہواؤں جاؤ،  بتاؤ اسکو!  بتادو کہ جاودانی ملی ہے!  یہ شراب عشق سے نصیب ہے.  
حبیب کون ہے؟  رقیب کون ہے؟  
کس کو خبر وحید کون ہے؟
کس کو عطا رنگِ پیرہن ہے 
کس کو ملی دستار شوق کہ وہ مدہوش ہے.  
سرمہ ء وصال میں رنگت کا سوال ہے بابا 
رنگت سرمئی ہے!  وجدانی لہر نے نعرہ لگایا.  صبغتہ اللہ!  
ملتا ہے یہ رنگ جس کو 
اسی کو شام و سحر میں انعام ملتا ہے 
وجدان!
وجدان کیا ہے 
میں اکثر سوچتی ہوں وجدان کیا ہے ؟  میں حیران رہ جاتی ہوں کہ وجدان بس ایک راستہ ہے. ایک سفر کی گزرگاہ جو وقت کے ساتھ طویل ہوجاتی ہے اور بحر کی مانند وسیع ہوجاتی ہے.  وجدان الوہیت کے چراغوں کو پانے کا راستہ ہے!  یہ شام حنا ہے جو رات کی ہتھیلی پر سجتی ہے. یہ رات کی قبا ہے جس کو پہن پہن کے رات بہروپ بدل کے جلوہ گر ہوتی ہے. رات کا حجاب کب اترے گا!  افسوس رات کا حجاب تار ازل سے تار ابد تک کالا ہی رہے گا اور اس بے معنویت سے گزر کے صبحیں ملتی رہیں گی مگر اے چارہ گر 
رات کے چراغ سے،  شام کے لباس میں چلتے ہوئے شمس کے سامنے نہ آجانا کہ چاند ہی کافی ہے!  اصل کا پردہ فاش ہوتا ہے تو شمس شمس نہیں رہتا اور چاند چاند نہیں. چاند پر شمس کا گمان اور شمس پر چاند کا. رات اپنے بے معنوی حسن کے پیچھے چاند و سورج کی گفتگو کھولتی ہے تو حجاب فاش ہوتا ہے کہ رات آنکھ کا دھوکا ہے ہر طرف اسی کا سرمدی دھواں ہے بس اسی سرمدی دھواں کے چھپ جانا، چبری اوڑھ لینا حجاب ہے.  حجاب کو ملال کیا ہوسکتا ہے؟  سوچیے؟  سوچ تو یہی ہے کہ حجاب خود اٹھنا چاہتا ہے تاکہ حسن کی سرسامانیوں سے اسے سکون ملے، سامنے والا اس جلوے کو سہے بار بار اور کہے 
حق محمد!  حق علی! حق اللہ 
حق حسین!  حق علی!  حق فاطمہ 
حق اللہ حق محمد

نزع ‏دل ‏سے ‏جاری ‏آنسو

اللہ پاک قبول کرے نزع دل سے جاری  یہ آنسو، ان سے پیدا ہونے والی خنکی اور خنکی سے قوس قزح کی بجلیاں جن سے قلب سرمہ ہوجائے یا شرماجائے. آنکھ نے کہا، دل نے مانا اور دونوں ہوئے گیانی ... لقد جاءکم رسول  من انفسکم عزیز  علیہ عنتم ما حریص ....... روؤف بھی رحیم ... صاحب الجمال نے اپنی کریمی کی چادر میں جسے چھپایا،  وہی پاگیا گوہر مقصد ...ان گنت درود سیدنا عالی شہ ابرار محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر

حق حق آقا آقا ... کس نام سے پکاروں آپ کو؟  کتنے نام آپ کے؟ سارے چہرے آپ کے سیدی ..سارے جلوے آپ کے ...یہ جلال منکشف کی داہنے باہنے راستے ہیں، یہ جمال حیا کی سیڑھیاں ہیں جو فلک تک بلند ہے، یہ آنکھ آنسو سے تر مگر خشک ہے، یہ دل نرم مگر خواہش دید سے حقیقت تک کی بات ہے ...لاکھ چاہوں لاکھ بار آؤں، لاکھ سونے سے پہلے پر تولوں اور پرواز کرنا چاہوں نہ کر پاؤں پائے اجازت سخنی در سخنی 

.قلب سے لازوال  موج کے دھاگے ہیں،  شیریں لبی سے نکلنے والے الفاظ کے میعارات ہیں ..اشکبار دل ..ساون ہے جھڑی لگی ہے ...منتوں مراد کی گھڑی ہے اور شاہا گھڑی ہے مانگنے کی ہے دیجیے ہم.غریبوں کو.تاکہ.دامن خشک، تر ہوجائے گویا لب و بام سے رستا خون تسبیح خوان ہو.....کچھ رحم.رحیمی سے کچھ کرم کریمی سے کچھ.احسان رحمانیت کے صدقے ...کردو کرم

باایں غلام محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم،  سرور تاجدار محمد، تو شمع گزید من شب گزید، تو رفتہ، من پائند،  تو جائے یاد کعبہ، من جان کعبہ،  توئی ستم جانِ بیا پیش دلم،  قرار دلم توئ 
آ شب فرقت کی گھڑی ہے، مانگ محبوب سے تحفہ ء رسالت مانگ،  دلم شاہد مانگ،  جانم فدای مانگ ..او مانگ ارے مانگ
درد جگر چاک کر دیکھا 
پایا جسے، نہ اسکو دیکھا
قریب تھا کہ مرجاتے ہم 
مرتےسمے روئے جاناں دیکھا
قبیلہ ء عشق میں جزو نہیں 
ہم نے تو کل میں سب دیکھا 
ذات کھوئی ضربِ روح میں 
چشم نم میں فنا، بقا دیکھا 
گرتے پڑتے ہیں شاہا، روتے ہیں 
سکندر نے کہاں تجھ کو دیکھا 
قلندر نے کب تجھ کو نہ دیکھا 
آئنہ دل تھا، نور العلی تھا،
نور محمد جگمگاتا، منور دیکھا 
محفلِ بود بہ ایں حضور سرور 
محو رقصم بسمل ایں چور چور

رب کائنات درد دل کو دیکھ 
آئنہ ء رحمت کا سلسلہ تو دیکھ 
رحمانی فضائیں شور نہ دیں 
ٹھنڈی ہوا کا مزہ تو دیکھ لے 
موجوں نے پوچھا نور ہے کہاں؟
شاہ ہادی اشارہ بجانب فلک کیا 
جام در جام اس میخانے سے پیا 
ہم نے محبت میں کیا، نہ کیا کیا؟
یار کو تو ہم نے تجھ سے جدا کیا!
جدائی لمبی،  ہجرت شور والی،
ازل سے یہی تری مری ہے کہانی 
داستان نرانی،  کبریا کی محبت 
یہ کبیر و کبریاء کا سنجوگ عجب 
روگ لگتا ہے،  وہ ذوق ہے الگ

کبیر و کبریاء کی کہانی ہے 
داستان دلم بہ زبانی ہے 
موج شان نے شان سے پوچھا 
رحمن نے انسان سے پوچھا.
کب آئے؟  کب گئے؟ 

یہ آنا جانا؟  سکوت پذیر تری محفل میں ہوں!  ساجد، سجدنی سجدنی سجدنی 

رحمانی جھونکے ہیں،  آسمانی سندیسے ہیں،
یہ میرے نور ازل کے فرمان ہے. یہ میرے کاشانِ دل کے دہر سے رشتے،  یہ تیرگی میں اجالا کس کے دم سے؟  .

ہائے!  ہائے!  ہائے!  یہ غم کے اندھیرے پردہ چاک کرگئے!  ترا مرا رشتہ بے حجاب کرگئے!  میں محو رقص دوش بدوش جانب منزل ...آہا کہ منزل قریب ہے!  رقص بودم می شرر،  غم دل پذیر

دل ‏کی ‏رقت

دل کی رقت پر سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ سوال کیا ہے؟ سوال کا جواب کیا ہے؟  سوال کا اسباب کیا ہے؟ رات میں ملال اور ملال کا لباس کیا ہے؟ جبین سجدہ ریز ہے، رمز شناس ہے کیا؟  جب جاگتے ہیں دل، روتی ہے آنکھ،  سوتا ہے شعور اور بہتا لہو دل میں ھو ھو کی صدا سے مخمور ہو کے رواں رواں میں محبوس ہو کے بھی نعرہ ء حق لگا دے تو بندہ کَہے کہ کہاں جاؤں میں؟ میں کتھے جاواں؟ کتھے اونہوں نا پاواں؟  اودھے جلوے چارچفیرے .. بانگ دیندے ریندے نے مرغ سویرے سویرے ...لنگ گئی حیاتی، غماں نے مار مکایا ..جنگ جاری ہے ... حیات  پیہم مشقت میں،  رہن رکھی چاندنی نے پوچھا کہ کیا ملا؟  ملا جو سوال کو جواب ملا ...جواب میں یاد کا سندیسہ تھا ..سندیسے آتے ہیں اور ستاتے رہتے ہیں .. رات میں نور علی النور چمکا چاند،  رات میں سحر در سحر اشجار ہیں جن کی رگ رگ میں جاودانی کا دھواں ہے اور مکھڑا جس کا نورانی ہے.. وہ پھرتا چلتا ہے عکس وجدانی ہے،  لہر لہر میں رنگ ہے اور رنگ میں کلی کلی کی مہک سے جل رہا ہے چمن،  دود ہستی میں راگ چھڑا ہوا ہے ..سرمدی راگ میں بات بھی ذات کی ہے اور بات ذات میں واحد ہی رہی اور واحد میں خاموشی صامت رہی. حق وحدہ لاشریک کے سامنے رگ جان سے قریب کون تھا؟  میں نہیں تھا ..وہ بھی وہی تھا ..بس آئنے تھے دو ..دوئ تھی کیا؟  دوئ نہیں تھی مگر یہ آنکھ روئ تھی کیا؟  جی جی!  جذب تھی جس آنکھ میں وہ رہتی ہے یاد میں ..زہرا کے بابا صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر بے حساب درود کہ کمان سے نکل گئے تیر اب زخم.سے جل.رہا دجلہ ... فرات کی نہر میں انالحق کی صدا ہے ...گراں تھا نعرہ کیا؟  راز عیاں تھا کیا؟  برسر منبر بہک گیا کوئ ... بہک جانے کی سزا بھی نرالی تھی مگر جس کے پاس سایہ کالی کملی والا کا ہے اسکی شان نرالی ہے. کوئ آقا والی ہے ..صلی اللہ علیہ والہ وسلم. مری غلامی بھی نرالی ہے کہ رنگ و نور کی محفل سجنے والی ہے. شام میں صدا یے اور صدا میں کرن کرن کا جلوہ اور جلوے میں رنگ ساز نے رنگ دکھائے تو ست رنگی بہار میں عیاں راز کے سارے پردے فاش!  راج ہوا کبریائی کا.  جو.صبغتہ اللہ والی ہے،  اسکی کملی کالی یے، جس کے پاس رات کی جاودانی ہے،  راج جس کا انوکھا یے سورج کی کرن کرن میں مگن کون یے؟ گگن کی لالی کہاں سے آئ ہے؟  راج کرے گی دنیا جب  دیکھے گی جب جھلک دیکھے گی ..کچھ جو صلی علی کی دھوم میں مر جائیں گے ..کچھ اس بازگشت میں رہ جائیں گے. کچھ اس جھلک کے سکتے میں رہ جائیں گے کچھ کے سر جھکے رہ جائیں گے کچھ قائم قیام میں رہ جائیں  گے. کچھ کو عندلیب کا نغمے سنائیں جائیں گے، کچھ رقص شرر میں جل جائیں گے، کچھ کو نغمہ جانفزاں سے بہلایا جائے گا کچھ کو دید کا سامان دیا جائے گا کچھ کو رات کے پہرے فاروقی نقارے دیے جائیں گے، کچھ کو صدیقیت کی مسند پر گرانقدر تحاٰئف دیے جائیں گے، کچھ علی علی کی صدا میں نبی نبی کی گونج میں مگن رہیں گے تو یہ ہوں گے وہ حال جن پر رشک فلک ہوگا، نوریوں کو ملال کہ وہ بشر ہوتے تو یہی احسن تقویم ہے. یہ زمانہ ہے شرفیت کہ اشرف المخلوقات سے وابستگی کا ہے کہ آؤ نعرہ ھو لگائیں دل میں رہ جائیں گے ارمان نہ ملیں گی وہ گلیاں

قریب ‏تھا ‏کہ ‏مر ‏جاتے

قریب ہے کہ مرجاتے ہیں،  قرین جان سے، جان کو جو پا جاتے،  ردھم نہیں ہے ... رات کی رانی ہے، گلاب بھی ہے،  اور پتے پتے ہل ہل کے سلام کہے جارہے ہیں ...شامستان کی گھڑی میں داستان عشق کا لہو کون دیکھے گا؟  یہ جو ہم جیسے قبیل کے چند ہیں،  کس میں ہمت ہے کہ لہو لہو کی بوند ٹپکاتے ہوئے یاد کے پیکان سے دل کو بہلاتے رہیں ..اے دل مسکرا کہ یہ عالم ہجر نہیں یہ عالم موت ہے اوررنگریز کی  جاودانی لہریں بھی ہے ..اے دل مسکرا کہ موت نے سجدہ کیا ہے کہ موت سامنے کھڑی مسکرا یے اور موت کے سامنے ہی میں موجود ہوں ...کیا میں موجود ہوں؟  میں نہی  موجود ہوں وہ موجود ہوں. میری نس نس میں جس کا ذکر ہے مری حرف حرف کی شدت اسکی گواہ ہے کہ سراہ راہ ہو یا سرطور بات اک ہی ہے ..ہمیں تو جلوے سے مطلب ہے کہ چار چفیرے ہیں مالک کے سب رنگ ...سورج کی تمازت بھی کیا خوب ہے کہ چمک رہا ہے تو صلی علی کی صدا ہے اور ہم کہتے ہیں سلیقہ بندگی میں طریقہ ء درود کیا ہے؟  طریقہ درود میں کیسی وارادت ہے کہ ورود کون یے؟  شاہد کون یے؟ شہود کون ہے؟  اے عکس  اٹھ جا!  اے رات ٹھہر جا!  اے حنا!  رک سوال باقی ہیں کہ کچھ نقاب باقی ہیں. کچھ زوایے ہیں الگ، کچھ ماہتاب الگ ہیں کچھ راج الگ ہیں. کچھ دیوانے مضطرب ہیں، کچھ انجان راہیں ہیں، کچھ نئے شاہرائیں ہیں، کچھ ہجر کی لمبی رتوں میں آہون کی داستان میں اک صدا ہے. حق وہی باقی یے. حق وہی موجود ہے. میں نہی  موجود یے وہی موجود یے. اے جلوہ جاناں. اللہ کہاں ہے. اب کون کیسے بتائے کہ اللہ کہاں ہے بس پیش حق کہتے ہیں کہ اللہ تو رگ جان سے قریب یے ..شہ رگ کا کلمہ ھو ہے میں کہتی ہوں تو تو تو تو ہے. عالم میں کیا ہے می تو خود اک عالم ہوں میں نہیں ہوں وہی عالم ہے. رات چھاگئی ہے اور گلاب مانند کتاب سینے پر دھرا ہے اب بتائیے کہ گلاب کا کیا کیا جائے؟ گلاب کو سونگھا جائے یا تکا جائے یا سونگھ سونگھ کے سرائیت پذیر سرمدی دھواں دیکھا جائے. کہنے کو تو عشق میں عشق رہ جاتا ہے طور جل جاتا ہے مگر طورمیں مجلی اسم کس کو ملا ؟ جی جو بیہوش ہو گئے ان کو ..سو اے خمار آلود آنکھ چپ رہ ورنہ خماری مہنگی پڑ جائے گی. اے دل گرفت رکھ ورنہ رات کٹ جائے اورصبح نہ ہوگی اورصبح کے بین کا رنگ کتنا پھیکا یے جب تک کرنیں روشن روشن ہو کے ہر جا کو جلوہ نہ بنادیں فائدہ ا اے دل خاموش!  ورنہ کیا رہ جائے باقی؟ کچھ طلب کے سکے؟  پھینک دے کاسہ کہ کاسے تو کہتا تو ہے پیاسہ. کیا تو پیاسا ہے. نہیں تو مضطرب نہی‍ یہ پیہم مرا طوفان ہے. یہ گریہ نہیں ہے یہ مری یاد ہے یہ تو نہیں ہے یہ میں ہوں میں تو ہر جا موجود ہوں میں شہ رگ کا کلمہ ہوں ..

Wednesday, January 13, 2021

آسمان

اللہ اسم ذات ہے ذات کیسے ملتی ہے؟ جب تک ذات نہ ملے تب تلک شریعت پر عمل کرنے سے انسان کو نیکی کا زعم کھا جاتا تو کہین تکبر! اسم ذات پانے کے لیے اندر پڑھنا پڑتا ہے ... اندر پڑھنے کے لیے آپ کو رات میں داخل ہونا چاہیے. رات میں داخل ہونا گویا شہادتیں پانا ہے. کسی نے کہا اس کو گویائی ملی؟  خود سے باتیں کرنا ... خود سے باتیں کرنے والے دو طرح کے ہوتے اک حالات کے ستائے دوسرا حالات میں سمائے. حال وہی ہے جو ابھی ہے جو صبح ہے وہ حال ہے باقی سب قیل و قال ہے. قران قیل و قال سے سمجھ نہیں آتا. الہامی مصحف کسی آیت کی ترتیل سے شروع ہوتا .. ایسی خشیت ایسا لرزہ جس سے ہیبت نازل ہو. یہ کلام ایسے خشیت کیسے نازل کرتا ہے؟  جب ہم اس میں جذب ہو جاتے ہین. قران پاک آسمان سے ہے ہم زمین سے ہے آسمان و زمین کا جب تک ربط نہ ہوگا تضاد رہے. تضاد کا خاتمہ ہونے کے لیے آسمان سے رابطہ چاہیے ....یہی آسمان و زمین کے نور کا ربط ہے ربط جب تک نہ ہو بندہ جانور رہے گا  جانور کو شرالدواب کہا گیا. احساس کی دولت آسمان پر لیجاتی ہے

فتح ‏! ‏

شمس بینائی سے محروم ہوا کبھی؟  شمس کو رات کا حجاب چھپا سکا؟  اندھے وہ ہیں جن کو رات میں کچھ نہ ملا، بہرے ہیں وہ جو رسول محتشم، پیمبر مختتم،  خاتم النبیین، شمس العلی بدرالدجی،  سید السادات ان گنت درود،  کی صدا نہ پا سکا. گونگے ہیں وہ جن کو کچھ سنائی نہ دے،  وہ جواب دیں بھی کیا  جھک جاؤ  سب جھک جاؤ    .... سب کو جھکنا ہے 

صدائے ربی ہے محمد کی ہر صدی ہے 
صدائے ربی ہے شانِ محتشم بڑی ہے 
صدائے ربی ہے  حیدر سید الولی ہیں 
صدائے ربی ہے علی زمن کی کلی ہیں 
صدائے ربی ہے شانِ زہرا درودِ اصلی 
صدائے ربی ہے فاطمہ  ستارہ سحری 
صدائے ربی ہے  آیت کوثر کی ہے لڑی 
صدائے ربی ہے ہر لڑی میں ملی ہے کڑی 
صدائے ربی یے  کڑی میں جڑی نئی لڑی 

ستارہ سحری ڈوب کے ابھر آیا  ہے ..

کسی نے کہا فتح نصیبہ ہے. کسی سے پوچھا فتح کیا ہے؟ یہ الفاتح کی تسبیح ہے جو فکر کے بعد محصول ہے ..

 کن!  کُن!  کُن!  
کِنوں ہویا اے؟
صور پھونکا؟ 
زندگی ہے کیا؟
موت کا صور.
نفخ ہوا سوتا 
دھاگا مرا وعدہ 
اشارہ ہے سادہ 
رب کا ہے ارادہ 
جنبش مژگان ہے؟
اشکبار تو دل ہے! 

کتنے دل تجھے سجدہ کرتے ہیں؟  کتنے دلوں میں تو فاتح ہے؟  کتنے دلوں میں فتح رقم ہوئی!  ..
انا فتحنا لک فتحا مبینا ..

صریح فتح!  جشن آزادی.
صریح فتح!  جشن ولادت 
صریح فتح!  ذکر کی تلاوت 
صریح فتح!  تسبیحِ مناجات 
صریح فتح! ہست ہے نابود.
صریح فتح!  وہ،  وہ ہے موجود.
صریح فتح!  کس کے ہم محجوب.
صریح فتح!  رت ہے شام کی.
صریح فتح!  لیل میں شمس ہے.
صریح فتح!  حنا تابِ شمس میں 
صریح فتح!  مہندی،  شہنائی ہے 
صریح فتح!  صدا ملن والی ہے

سادہ سی بات ہے، سب میں سادگی ہے. سادگی کیا ہے؟  سچ سادگی ہے  سچ میں قباحت کیا ہے؟  سچ کی حکمت یہ ہے کہ حکیم سے ملتا ہے  حکیم  طبیعت کا سلیم ہوتا ہے. سلیم وہ ہے جس نے رب سے وعدہ یاد رکھا ہوتا ہے  وعدہ کونسا؟  وعدہ کہ حق میں فقط نائب ہو مگر اصل تو ہی ہے  جس نے انالحق کہا،  اس نے فرق مٹا دیا .. اللہ مثال نہیں ہوسکتا ہے مگر مثل ٹھہرانا ہمارے لیے کیا ضروری ہے؟  اللہ اکبر. اللہ سب سے بڑا ہے  .مثال در مثال سب میں سچ ہے اور سچ بڑا ہے  ساری مثالیں مصوری ہیں. وہ المصور ہے. نقاش گر نے بنایا مجھے. میں نے نقش کو پہچان لیا اور پہچان کے سب کو  آپریٹو کردیا. اس آپریٹو کے پیچھے بڑی طاقت ہے. میں منبع کل کا معلوم نہیں ہوں. میں اپنی ذات کا معلوم ہوں  ... سب سے بڑا معلوم جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں. اس لیے:  بعد از خدا بزرگ توئ قصہ مختصر

عشق ‏روحاں ‏دا ‏سنجوگ ‏اے ‏

راگ سناوے آس دلاوے 
ساز وجاوے یاس مکاوے 
عشق روحاں دا سنجوگ 
عشق سے جاتا ہے سوگ 
عشق خوشبو عین وصل 
کدی ہجرت کدی وصلت 
کدی واج تے کدی خاموش 
کدی راگ اے کدی شور اے 
کدی بحر اے تو کدی موج 
کدی بادل اے کدی ساون 
کدی بجلی تے کدی رحمت 
دیدار دی اگ لگا دیوے 
آرزو نو صد آرزو بنا وے 
پیراں پڑیے، اکھیاں روون 
ساواں اوکھیاں راتاں لمیاں 
اتھرو وگن،  سرخی منگن 
جندڑی نو روگ لگا دیوے 
عشق روحاں دا سنجوگ ہے 
عشق توں جاندا سوگ اے 
عشق مست مست کریندا 
عشق جذب تے آپے مجذوب 
عشق دی ہستی مستی ویکھو 
عشق رلاوے عشق ہنساوے 
عشق دا مرض لاعلاج اے
من دے روگ تن دے سوگ 
عشق اے روحاں دا سنجوگ 
من دی ہستی ہوجاوے مٹی 
مٹی دی اوقات ہوجاوے مٹی 
عشق مٹی دا بالن  چنگا اے 
بھٹیارن بن جا جے سچا اے 
سمجھ سمجھ نہ آوے گا اے 
دلوں وحی بن کے اتر جاوے 
سجن مٹھن پیار دی مستی 
ساڈی ہستی کیہ اودی ہستی

Tuesday, January 12, 2021

پرواز



کبھی کبھی ہمارا درد ، اضطراب ایک مجسم صورت ڈھال لیتا ہے . ہمیں ایسی وادی کی سیر کراتا ہے جہاں پر ہم اپنے وجود کے لاتعداد
حصوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں . تب جاکے ہمیں احساس ہوتا ہے کہ کائنات کی دوئی کبھی ختم نہیں ہوسکتی . یہ سفر اس کائنات کے زوال پر ختم ہوگا . اسی لیے دل کے اندر کائنا ت سما جاتی ہے . میرے اندر سے کئی آدمی ، عورتیں ، بچے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں . یہ سب اپنی اپنی صفات رکھتے ہیں . کوئی خوشیاں مناتی مستی میں رہتی ہے تو کوئی ہجر کے غم میں لیر لیر ہوجاتا ہے . وہیں میرے جیسی درد کی متلاشی ہمزاد روحیں مزید بکھروں ، حصوں میں منقسم ہوجاتی ہیں .میں دور بیٹھے ان سب پرنظر  رکھتی ہوں . یہ سب میری نگاہ سے اوجھل ہوتے ہوئے اوجھل نہیں ہے . یہ روحیں براہ راست اپنا حال بیان بنا بھی بیان کرتی ہیں .

پرانے برگد کے پیڑ تلے قبر پر ماتم کناں فاتحہ پڑھنے میں مصروف تھی . میرے دکھ کی تحریر کالے سیاہ دھواں کی شکل لیے مجھ سے نکلی اور پاس اک قبر پر جا کے آہ و فُغاں شروع کردی . لامتناہی درد کی بوچھاڑ پے در پے وجود کو منقسم کرنے پر تلے تھی . اس تقسیم کا مقابلہ ازل سے ہر ہستی کرتی آئی ہے . ہر روح جلتی آئی ہے . اس جلن کا دھواں آنسو بن کے نکلتا ہے تو کبھی ذات کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے .میں اپنے گرد ذاتوں کی تقسیم پر حیران ہونے کو تھی کہ میری ہم شکل صورتیں کہیں قبروں میں تو کہیں تحلیل ہوتے دھواں میں رقص کرتی دکھ رہی تھی .میری آنکھیں آنسوؤں کی خاموش تسبیح میں مصروف تھیں . میرا وجود آگ سے جل رہا تھا . جب کپڑا مکمل جل جائے تو راکھ بکھر جاتی ہے .مجھے پانی میں بگھو بگھو کے جلایا گیا ہے . دکھ کا ، یاس کا پانی جس نے میری آنکھوں سے بینائی چھین لی ہے . میں آرام سے گرم گرم آگ کی تپش کو برداشت کرتے خود سے وقفے وقفے سے خود سے بچھڑتے دیکھ رہی تھی . ہر دھواں اپنی اپنی قبر پر جاکے ماتم شروع کرتا ہے . لوگ کہتے ہیں کہ اجل کا سامنا ایک دفعہ ہوتا ہے جبکہ ہر گھڑی موت کا پیالہ زہر سمجھ کے پیا ہے کہ شاید مکمل موت مجھے تھام لے

میں برگد کے درخت سے ٹیک لگائے ان سب کو دیکھے جاتی ہوں کہ اچانک سیاہ لباس میں وجود حاضر ہوتا ہے . میری توجہ پاتے ہی جنازے کی اطلاع دی جاتی ہے .میرے مٹھی بند ہاتھ سے ریت پھسل کے پاس پڑی قبر سے ملنا شروع ہوتی ہے
[COLOR=#b30000]
اندر کتنے غم سائیں
اندر تیرے غم سائیں
غم کی برسات کر سائیں
اب تو  نڈھال کر سائیں
اندر کتنے غم  ہوں سائیں
دے دے اپنا آپ سائیں
لے لے میری ذات سائیں[/COLOR]

[COLOR=#660000]اگربتی ساتھ لیتے جاؤ [/COLOR].. میں اس مخاطب ہوتی ہوں
[COLOR=#660000]آج محبوب نے آنا ہے.گلاب کے پھول بھی لے آنا.سجا دینا مٹی کو .. اس کو پسند ہیں ..![/COLOR]
وہ سرجھکائے کھڑا  اثبات میں سر ہلا دیتا ہے

ہم فضا میں پرواز کرنے لگتے ہیں ...ایک فضا سے دوسری فضا، ایک آسمان سے دوسرے آسمان . ہم زمیں پر رہتے ہیں ، زمین پر بیٹھے ہیں مگر ہماری نظر ہرجگہ پر ہے ، اپنے اندر کے آسمان سے اپنے  اندر کی زمین تک ....ہماری نظر ایسی وادی پر لگا دی جاتی ہے جہاں پر سیاہ لباس میں  ارواح رقص میں مصروف ہے ان کے مرکز میں میرے یار کا جنازہ ہے .

ایک سیاہ نقاب پوش مجھے دیکھ کے بھاگنے لگا . اس کا تعاقب کیے بنا اسے جالیا اور ساتھ ہی اس  مجلس میں شامل ہوگئی . جوں جوں روح جلتی ہے ، راکھ سلامت رہتی ہے اور آگ بھی سلامت رہتی ہے . مجھے ابھی مزید جلنا تھا کیونکہ میرے وجود میں ''میں '' کے سپید ٹکرے کہیں کہیں دکھ رہے تھے ان کی سیاہی میں بدلنے کی دیر تھی .جوں ہی جوش مسرت میں رقص شروع کیا ،مزید وجود نکلنا شروع ہوگئے . اتنے زیادہ وجود کہ تا حد نگاہ سب سیاہ لباس میں وجود بکھر گئے .........کالا سب اڑ گیا ، باقی سفید رہ گیا ....... وہ بھی سلامت نہ رہا ، روح یک دم اوپر کی جانب اٹھی اور آسمانوں میں غائب ہوگئی[/CENTER]