مصطفوی چراغ لیے کملی نے جنگل میں روشنی کرنا چاہی ...کملی عین وسط میں پہنچی اور تو شیر خدا دیکھ کے ہیبت سے ڈر گئی .... شیر خدا کے ہاتھ میں حیدری شمشیر ... اس پہ لکھا ہوا تھا
ورقہ بن نوفل نے تصدیق کردی تھی. اس لیے پیغام پہنچانا الہامی عمل ہے ...نور الہامی سیڑھیاں کیا چڑھ سکے جو خود ملحم نور ہے ...
یہ پیغام سے بھرپور شمشیر کملی سے کہا جاؤ، میں دیکھ رہا.ہوں سب ...
کملی نے یہ شمشیر کمر پہ باندھ دی اور سرور میں مبتلا ہونے کو تھی کہ حیدری آواز کے جلال سے ڈر گئی ...
سرر کے میخانے سے چلتا نظام ہے، یہاں کاروبار عشق بدنام ہے، طبیب سے کیسا کام ہے؟ کیا تو ابھی خام ہے؟ ترا تو انعام ہے؟ تجھے ملا کام.ہے؟ شمس ہدایت نے نگاہ ڈال رکھی ہے .
تلوار، کملی نے نیام سے نکال لی ..شیر خدا کو سلام کہتے روانہ ہوگئی ...شیریں سخنی پہ کمال تھا، لبی لبی دود ہستی سے پھیلا دھواں جس کی خوشبو گلابی، عنابی ....
جنگل کے رستے خواب مل گیا. خواب سے پوچھا، ملاقات کب ہوگی ..خواب نے کہا جب نظام سرکار نے دعا دینی ہے ..ملاقات ضروری ہوئی .... تلوار اٹھا کے کملی نے اسکی حرارت دل میں ڈالی ..جس سے دل ایسے موم ہوا کہ پگھلنے لگا ...جو سیسہ.تھا وہ موم ہوا ...ہائے خدا یہ موہوم ہوا .... جھکائی زمین جو زمین پہ نیاز میں تو محفل مولائے حیدرم سے مالک کون و مکان.، واصف دو جہاں سے، امیر الاخیر الانام سے ہوئی ..پوچھا کہ کیا دیکھا کہ حیرت ہوئی ...
سیدی مولا کی شان میں مدح خوانی کی سعادت پائ ہے ..اشک بامنزل.رسائ پائ ہے ..
سیدی مولا... یا مصطفی
عربی.ڈھولا....یا مصطفی
کمال.مرشد، کمال نبوت
کمال.بندگی یا مصطفی
سید البشر کا.شیریں لقب
حیات و ممات کا.سبق
کیا لمحات ہیں یہ عجب
ملتا اسے جو کرتا ادب
ادب سے روشنی پائی ..
روشنی نے زندگی دی
زندگی نے درد کا رشتہ
شکستگی سے ہے خوشی
جمال نبی کی نظر سے "بدلی "ہوئی
برسات میں نور برستا دیکھا یے
محمد محمد کا نوری کلمہ.دیکھا
دل ملا، دل جلتا ہوا .تب دیکھا
شاہ ولی سے ملا ولایت کا تحفہ
شاہ ولی نے زمین پہ نام محمد لکھا
شاہ ولی کا بارِ علم سماوی نور ہے
شاہ ولی کا شعار یقین رہبری کا.سرور ہے
شاہ ولی نے حسن کی چادر اوڑھے ہوئے
دل صدقے دل پہ ہزار جان نچھاور
من کی بتیاں نچھاور، مرے یاور
کمال کی یہ اگر بتیاں، مرے یاور
مل رہےنوری ہالے، جل رہے سارے
سرر نے عجب حال کر رکھا ہے
شاہا نے سایہ ڈال یوں رکھا.ہے
کمال کی چادر گلابی گلابی.ہے
حیا کی.چادر سرخ عنابی ہے
کفن پہ نام محمد کی تجلی ہے
شاہا کے نام کی یہ "کملی "ہے
کملی جانے کیا، .ادب سے جھکی
شاہا کی نظر سے مست و مجذوب
شاہا کے الطاف کی حد نہیں ہے
ان کے قد کی. کوئی حد نہیں.ہے
شام حنا نے رنگ سے اجالا کردیا
آقا کے نور نے یوں بول.بولا کردیا
کعبے نے شوق حضور میں کہا ہے
نور کے دل میں مرا حبیب رہا.ہے
کعبہ کا کعبہ دل مجذوب ہوا ہے
قصہ یوں عشق کا.مشہور ہوا ہے
سماوات پہ میم کی عجب مثال
سنگیوں پرروشنی، عجب کمال
آپ کی نعمت ، دل پہ نوری ہالہ
دل کہے جائے شاہ والا.شاہ والا ...
قبر پہ روشنی.، روشنی.ہادی ہے
یہ قبر نہیں، غار حرا کی.وادی.ہے
غار حرا میں اصحاب کی باری
محفل میں ادب یوں ہے طاری
خاموشی کا یوں ہے سرر طاری
آمنہ کا لعل، عبد اللہ کا چاند
اللہ کی کمال تصویر ہیں شاہا
میرے دل میں رہتے مرے بابا
سرکار کی آمد مرحبا
دلدار کی آمد مرحبا
فقیر ہوں، فقیر پہ اہل کرم کا کرم
خالی جھولی کا رکھا ہے یونہی.بھرم
جھکا رہا سر مرا کہ عاری ہے شرم
مرے سر پہ شاہا کا ہاتھ، ان کا ہے کرم
نوازئیے نور ابدی کے کامل آئنے
مطلق حقیقت کے سب کامل.آئنے
درود سے چلتا ہے نظام مصطفوی
مصطفوی نور میں.چمکے حجابات
مصطفوی نور سے ہوتی رہی ہے بات
آج تو پانی پانی ہو رہے ہیں سماوات،
چہرہ محبوب دیکھنا ؟ دیکھنا حق
چہرہ محبوب دیکھنا عبادت، حق
چہرہ نور سے بقعہ نور بنا دل، حق
جانب طور سلسلہ.ء جبل کمال روشن
تقریب حسن کی، رعنائی تو دیکھ
دل سے بجتی ہے شہنائی تو دیکھ
ملائک سے سماوات مخاطب
مولائے کائنات سے آپ مخاطب
یوں سلسلہ ہائے نور در نو.چلا
عرش سے نور فرش تک چلا
زیست کے سفر میں کفر اضافی
شمس کی زندگی ولا میں کافی
اللہ والے پہ رہتا الوالی کا سایہ
جو ملے سایہ تو بدلتی.ہے کایہ
نام محمد تو جہاں پہ چھایا ہے
کلمہ حق کی استمراری زبان ہے
نام محمد تو اللہ کی گردان ہے
حق نے سج دھج کی میم مثال لیے.
مثل کائنات سے ہوئے خیال زیر بار
ہار، سے جاتے ہیں جب ملتے ہیں یار
یار سے ملیں تو تیر چلتے ہیں آر پار
یہ وار، محبت کے تلوار سے کاری ہیں
نعت لکھنے کو ہجوم سے بھاری ہے
کاف سے کچلی جاتی ہے، حم سے حامل
ع سے قربانی ء بسمل ..تحفہ مقبول
کرم کا سلسلہ چلا، مرے دل تک
گمان سے نکلا یقین بنا تصویر تک
کیا ملا؟ کیا نہ ملا؟ کانچ کے دھاگے سے لکھا میں نے یہی بار بار، عشق خالص کہاں ملےبار، بار،بار ... اٹھاتا ہے جو بار اس کا، وہ ہوتا ساحل پار ...
چاند سے نکلا نور، نور حزین کو ملا، چاند نے تحفہ ء معراج کو بخشا لطیف احساس .... خوشبوئے محمد سے دل ضیا بار ...کمال نے کردیا حالی حال ... خوشبوئے زلف محمد سے نکلی عنبر کی مہک خوشبوئے لالہ، موتیا اس پہ نثار، آپ کے دلاور لہجے میں چھپا جلال، شاہ ولی نے آپ.سے لیا جلال، شاہا نے سرخ کملی اوڑھ رکھی ہے، کالی زلف والی محمد کی.صورت ابھرتی یے
تاجور نے تاجوری کا تحفہ دیا
کاجل لگا، پہننے کو.ڈوبٹہ دیا
یہ ہےاندھیرے و روشنی کا سنگم
کملی والے اک کالی پہ ہوئے مکرم
سج گئیں راہیں اور رفعت ملی اور رفعتوں پہ.مکانت، سیادت سے ملی اجابت، عجیب رشتے پہ رشتہ ملا اک سیدی مولا ..
ہار میں غنیم کا بار کیسا.ہے
ستم میں معین کا کار کیسا ہے
کچل دے، نفس وہ وار کیسا ہے
جسم مقید روح افلاک پر ہے
مری زندگی کسی شاخ پر ہے
حجاب سے ازل کے رشتے بڑے
شاید ترے دل میں بات اترے
صلی علی کی صدا پڑھتے.ہیں
آپ کی محفل جو بیٹھتے ہیں
سجا کے سج سج کے آشنا ہوئے
نور حزین پاک زمین کی نشانی
یہ عشق فقط اس کی کہانی
کچک کچک، کچ کچ نکلا دھاگہ
خاک پڑی رہی، خیال کا.ارادہ
پانچ برابر، برابری کا رشتہ نہیں
پیار سے بڑھ کا پیاروں کا رشتہ نہیں
کمال حال ہے، زوال و اوج کا وصال
صبح کچھ کمال، نہ رات کچھ کمال
بلالیجیے شاہا اپنے مجھ کو در پر
آؤں ارض مقدس پاؤں کے بل پر
عشق سپر، تیغ نیام میں ہے
مخلوق کی ذمہ بھاری کام ہے
چشم دل سے من شاد ہوا ہے
اسی سے میخانہ آباد ہوا ہے.
یہ زمین علی کی ولا میں ہے
دل وادی ء شاہ بطحا میں ہے
چاک جگر، حسرت کا دھواں
ملن کو تڑپتا مرا لمحہ لمحہ
مجھ کو اپنی ولا میں گما
مرے دل میں سما کے نہ جا
شاہا، شام غریباں کیا ہے؟
شاہا آپ کا جانا، غربت ہے
شاہا، شام حنا کیا ہے.
شاہا آپ کا آنا امداد ہے