اللہ ! اللہ کے نام سے دل بنا ھو !
ھو کے نام سے دل میں چھایا سکوت!
سکوت نے دل میں جما دی غنود !
اترا دل میں صحیفہِ سورہِ ھود !
لا الہ الا اللہ انت سبحانک انی کنت من الظلمین !
بیشک ہم جسے چاہیں نوازیں !
وہ جسے چاہے نعمت دے ! وہ جسے چاہیں صحت دے ! وہ جسے چاہیں شاہی دے ! وہ جسے چاہیں دولت دے ! وہ جسے چاہیں فقر دے!
تاحدِ گُمان فلک سے کچھ برستا دکھائی دے رہا ہے ، نعمت و رحمت سے زمین کی جھولی کو بھرا جارہا ہے ۔یہ جو نیلے نیلے دھاگے ہیں ! یہ جو زرد ریشم ہیں ! یہ سیاہ سیاہ پتھر ہیں !یہ نعمتِ خداوندی ، یہ رحمتِ خداوندی ! یہ جو سرمئی سرمئی نگینے ہیں ، جن کی چمک بالکل اسی طرح جس طرح تازہ انگور شاخ سے توڑا جائے ۔ان کی شبیہ زمرد سے ملتی ہے ، یہ زمرد ---یہ میرے نگینے ۔۔۔۔ شاخِ ہستی سے لٹکے ، زمین کی سطح پہ گرتے انار کی مانند سرخ لعل ۔۔۔یہ میرے لعل ، میرا جواہرات ۔۔۔ یہ نعمتِ خداوندی ، یہ رحمتِ خداوندی ۔۔۔میرے ہادی نے تحفہِ الانجیل مجھے تھما دیا ہے ! میرے دل کو نسخہِ کیمیا دیا ہے ، نسخہِ کیمیا گری نے دل کو طور کردیا ، دل کو نور و نور کردیا ہے
کبھی دل طور کبھی مدینہ !
کشتی کو مل گیا سفینہ !
جینے کا آ گیا ہے قرینہ !
نہیں اب کوئی آرزو دیرینہ!
اے مالک ، یزدان ، حسنِ ازل ---- محبت کی قسم کھائی ہے آپ نے ، وہ محبت مجھے لوٹا دو !
رفعتوں پر بیٹھا ، لامکانی پہ مکین ، مکان میں سمایا ، میرا حبیب ! میرا سہارا !
اے رفعتوں پر مکین ! لامکانی میں معین ، مکان میں مکین ! جلوہ کب ہوگا ؟ معراج کب ہوگی ؟ اے ''الباری '' اے مصور'' اے جمیل ! روح کو مستی دی ایسی کہ مستانی ہوگئی ہے ، مستانی ہوئی کہ دیوانی ہوگئی ہے
وہ جو کوہِ طور ہے ، وہ وادی النور ہے ! دل میں اتر گیا صحیفہِ النور ! وہ جو معراج کی باتیں ہے ، جس سے سینہ پُر ہے، اس سے دل ہوتا مدینہ ہے !
اللہ نور السموتِ ولارض
وہ آسمانوں کا نور ، وہ زمینوں کا نور
وہ آسمانوں کا علم ، وہ زمینوں کا علم
وہ نورِ کل ، وہ علمِ کل ، وہ عقلِ کل
جسے چاہے علم سے نوازے ----جاننے والے کیسے نہ جاننے والوں کے برابر ہوں ، وہ جانتے ہیں تیری حقیقت ، تیری عظمت ، باعثِ تخلیق کیوں ہے مظہرِ خاک، جب علم کے خزانے نواز دیے جاتے ہیں تب کمالِ روح کسی ایک خزینے پر کامل ہوتا ہے ، کسی کا دل آیت الکرسی سے جڑا ہوتا ہے ۔ علمِ کمال آیتِ سردار سے کامل ہوجاتا ہے ۔ یہ خزانہِ علم ہے جسکو جس پر عام کردیا جائے وہ خاص کیا خاص الخاص ہوجاتا ہے
قلب پہ تجلیات کی ابتدا کسی نہ کسی بہانے ، وسیلے سے ہوجاتی ہے ، کبھی کوئی جملہ ، کوئی لفظ ہادی بن جاتا ہے تو کبھی کتاب یا سورہ گنجینہ الاسرار ثابت ہوتی ہے ۔۔۔ بعینہ جسکا علم دل میں منقش ہوجاتا ہے ۔۔۔ جسکے دل میں سورہ الاھود کا علم اترے تو سمجھ لے وہ جانبِ صحت ایک قدم ہے ، جانبِ روح پہلا زینہ ہے ، یہ کلمہ پلِ صراط پر اترنے کے بعد یقین و ثابت قدمی کی ضمانت ہے ۔ اسی کلمے سے صراط پار کی جاتی ہے ۔یہ اسمِ اعظم روحی ہے۔ یہ اسم اعظم نورانی ہے ! یہ وجدانی ہے ! یہ کیف و جلوے کی علامت ہے ! یہ جلالت ہے ! یہ الوہاب کی باتیں ہیں ! یہ الرزاق کے رزق کی علامت ہے !
یہ جو روح کا کلمہ ہے ، یہ میرا کلمہ ہے ! یہ ترا کلمہ ہے ! جس پر نگاہِ الطافانہ حضرت محمد ﷺ کی ہو ، اسے چاہیے اپنی صبح و شام درودِ ابراہیمی میں گزاردے کہ یہ معطر و معجل کردینے والا کلمہ ہے ۔ جب یہ احساس ہو کہ دل کی مٹی میں نمی ہے ، دل میں خشیت سے رعب بیٹھا ہے ، جب کبھی سکوت سے دل گھبرا جائے تب درود کی میٹھی میٹھی ہوا سے دل کو حلاوت پہنچانا مستحسن ہے ۔
الباری --------الوالی
اللہ کے دو عالی نام
بناتا ہے ، مٹاتا ہے ، مٹا کے بناتا ہے
محبت دیتا ہے ، محبوب رکھتا ہے
الباری ، الوالی اسکے دو عالی نام
القھار ----------المھیمن
اللہ کے دو عالی نام
یہ تاجداری ، یہ مشکل کشائی
یہ غلبہ ، یہ جلوہ ، یہ ہبیت و جلال
سب سے برتر ذات ہے وہ
سب کا مشکل کشا ہے وہ
ذکر کو میرے جو عام کرے
اسکے لیے بڑے انعام ہیں پڑے
یٰس (1) وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ (2) إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (3) عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ (4) تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ (5)
کلماتِ یسین ---- یہ علامت ہے جبروتی کی ، رحمانیت کی ، قربت کی ، شافیعت کی ، یہ نشانیاں ہیں ۔ یہ نشانیاں جن کو یقین سے پڑھنے پر علم میں اضافہ ہوتا ہے