Saturday, March 6, 2021

سفر ‏جوں ‏مسافر ‏کو ‏پرواز ‏دیتا ‏ہے

سفر جوں جوں مسافر کو پرواز دیتا ہے،  مسافر دم بہ دم فلک کی جانب اٹھتا چلا جاتا ہے گنبدِ بدن میں فلک بھی زمین .... دونوں میں اسکا نور ہے ...اس کی اقسام ہیں ..... جب دل کو بینائی مل جاتی ہے تب دل کا عالم سکتہ و حیرت میں پایا جانا عام سی بات بن جاتی ہے .... دل کی زمین و فلک بھی ہوتا جس طرح بدن کا بلند مقام سر ہے ... دل کا وہ مقام شہ رگ ہے ... یہ مقام شہ رگ سے ہوتا دماغ سے متصل ہے ..یہی خبر لاتا ہے یہی نور ہے جو نور ازل ہے یہ ایک ہے اس کے رنگ منقسم ہوگئے کس کو نیلا ملا کسہ کو سبز تو کسی کو سرخ تو کسی کو جامنی ... یہ تو اس کی عطا کس کو کیسا نوازے

شعور کیوں مجبور کرتا تعین کرنے کا جبکہ لاشعور نے میرے   سب کاموں کو  سنوار لیا ... رات اور دن کا تعین کیسے؟  مزمل و مدثر   میں تضاد کیوں ہے گوکہ لا الہ الا اللہ کی عملی تصویر ہوگئی ...  یسین کہنے والے کہتے کہ لوٹ جا حالت جو خواب کی ہے دن میں کہ رکھ توازن راستے میں  گویا کہ بصیرت بھی رکھ بصارت بھی رکھ ... کبھی نور ازل جب اس طور گھیر لے جیسے کہ عروج پر سورج موجود ہو گویا کہ انوار نے لباسِ مجاز کو ایسے گھیر لیا ہو جیسے مکمل سپیدی ہو،  اترچکا ہو رنگ کالا، بکھر گیا ہو نور کا اجالا ... نور مجلی نور اکبر نور تصدیق نور حبیب صلی علیہ والہ وسلم نور یزدانی .. 

یہ جو رگ و پے کی بے چینی ہے یہ ایسے سراٰیت ہوگی کہ تحریک کا انجماد بھی نہیں ٹوٹ رہا ہے .....  

رات کا حسن اتنا ہے کہ رات اللہ جی کے ملنے کی نشانی ہے رات جب چھاجاتی ہے،  سورج مکمل تجلی لیے ہوئے ہوتا ہے گویا کہ حالت دیدار میں ہو  اب کہ محفل ہوگی جو ہوگی تو سعید لمحے بھی نازاں نصیبے نور ہوں گے 

عشق رات ہے یا کہ صبح کی نفی ہے ...موت عشق کا پہلا مقام ہے ... ایسی موت کہ زندگی بھی ساتھ رہے .. ایسے کے وقت کے پنجرے میں جس نور کو قید کیا گیا، اسکو آزاد کیا جائے ...... .

کھیتی نرم ہے ، زمین گداز ہے ، نہاں اک راز ہے ، دروں وصل کی شراب ہے ، بیروں ذات تنہا ویراں ہے ، زندگی اک خالی پیالی ہے ، آنکھ اشکوں سے خالی ہے ، دل ہے کہ عاری ہے جلوہ جاناں سے ،


ردھم قائم رہتا ہے مگر موسیقی بدل دی جاتی!  یاسیت آ تھام لوں تُجھے،  تو نشان منزل تو نشاط ہست!  تو قرار زیست ... آج ہم رنگ میں رنگ کیے بیٹھے ہیں ہم کو علم نہیں کہ رنگ آیا کہاں سے


طلب مٹا دیتے ہیں،  انسان بنا دیتے ہیں . ہم انسان کو حق دکھا دیتے  ہیں.  جبین جھکی رہے گی اور قلب قطب بنا دیتے ہیں.  دل قطب نُما بَن جائے تو ہچکیاں لگنا شُروع ہو جاتی ہیں.  دل کو سکون سے نواز دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ
الا بذکر اللہ وتطمئن القلوب 

ذکر سے آئنہ چمکنے لگتا ہے .. تجلیات و انوار سے بھگویا جاتا ہے دل کو ... بندہ درود پڑھے تو سمجھے رب نے یاد کیا اور قرانِ پاک پَڑھے تو سمجھے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی محفل میں ....  میں نے اک نعت پڑھی یاد نہیں کونسی تھی  ابھی تک نعت کی سعادت نہ ملی نہیں .... نعت خوان جن کی آواز سکون دیے تو سمجھیے ان کو بارگاہِ نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ہدیہ نعت کہنے کی سعادت حاصل ہو جاتی ہے!  

تصویر تمھاری تصور میں رہتی ہے . ہر وقت تصور میں زندگی رہتی ہے.  کبھی شمع کے گرد پروانہ جلتا ہے تو جلتا رہتا ہے.  اے کاش لبوں پہ نام محمد صلی علیہ والہ وسلم ہمیشہ رہے آمین

یہ تھا عجب کلام جو دل نے کیا!  دل مجھ سے کہ رہا ہے کہ میں بہت خوبصورت ہوں.  دل کہتا ہے تو جمیل ہے تو حسین ہے!  میں کہتی ہوں کی جاناں  میں کون ...  ہست رے ہست کہ دل مست رے مست ... صورت حسین ہے جو کمال کی بلندی پہ روح ہے.  وہ طائر جس کی معراج سدرہ سے آگے ہے .. .. دو تھے تو ٹکرے،  دیکھا کیسے تین ہوئے!  تین تم نے دیکھے مگر کس نے دیکھا چار چار ہوئے ... اتنے ہوئے ٹکرے کہ بھول گئی میں کون ... کی جاناں میں کون!  رحمت کا جھروکے سے دیکھا تو دل روشن دیکھا جیسے شاہی مسند بچھائی گئی ہے کہ دل کہے پیا گھر آیا. ... یہ خوشبو میرے یار کی ہے،  یہ عکس یہ گفتگو یہ آواز جو میٹھی ہے اتنی کہ شیشہ توڑ دے ... اس صنم نے کرچیاں توڑ دیں اور رگ رگ نے رقص کیے کہا کہ تو سنگ ہے

دل!  تجھے بے نیازی بھلی نہیں کہ نیاز تیری میرے لیے ہے!  یہ جہاں ہے!  یہ دل ہے!  کیا اوقات ہے دل کی؟  یہ میخانہ ہے کہ ھو کی صدا لگاتا ہے!  "تو،  تو،  تو .... " کہتی رہی اور وہ "میں،  میں ...،  " کہتا رہا ... فرق کیا جاناِں ہم نے؟  فرق رکھا نہ گیا ہم سے بس جب ہوش سنبھالا نہیں گیا ہم سے!  جو جھک جائے،  فنا کا پھل اس میں لگتا ہے    اک بزرگ کہتے ہیں کہ مجذوب بیٹھا نعرے لگا رہا تھا،  تقسیم ہو رہی ہے..... خیرات لے لو     ..... اک شخص اٹھا اور بولا:  میِں تو محبوب سے محبوب کو مانگو ..مجذوب نے کہا " تعین کر جو شے ہے،  ملے گا انعام تعین شدہ  خیرات کی منظوری کے بعد  .. وہ ضدی کہ نہیں اسے دیکھنا ہے اسکو ملنا ہے ... مجذوب نے کہا:  شرط نہ لگا خیرات کے ساتھ،  عام ہے تو خاص نہ مانگ  .. ضدی تھا وہ شخص اور بولا.  .. خاص تو ہر کیساتھ ہوتا ہے جبھی تو بندہ خالص ہوتا ہے     خالص دھیان  ہے خالص گیانی ہے ... مستغرق روح کو کیا چاہیے.  اتنا گما دے کہ اس کا ہوش نہ رہے نہ خود کا  . مجذوب جذب میں آگیا اور دھمال ڈالتے ڈالٹے مدہوش ہوگیا کہ دیوانگی کا تیشہ پھر سے مل گیا.   مجذوب جونہی دھمال ڈالتا وہ شخص کہتا " وہ دیکھو اللہ!  وہ دیکھو اللہ!  وہ شجر کے پیچھے!  وہ،  وہ حجر کے پیچھے!  وہ لحد میں!  وہ مہد میِں وہ مًاں کی گود میِں وہ پاک قران کے الفاظ میِں وہ مجلی دل میِں،  وہ العالی ہے وہ جسکا والی ہے جس کا تن خالی ہے جس رنگ سیاہ ہے جس کی شبیہ کالی ہے وہ بس فراق میں ہے وہ بس ملال میں ہے کہ جب اتر جاتا ہے رنگ کالا تب اللہ کا محبوب مل جاتا ہے

Friday, March 5, 2021

منظم ‏چلو ‏شاہراہوں ‏

منظم چلو شاہراہوں پر، 
یہ رنگ عام نَہیں 
کچھ خاص نَہیں 
انسان ہے؟ وہم ہے؟
میں ہوں، کیا یہ خیال نہیں ہے؟
وہ ہے، اسکا نُور ہے 
ربی ربی کی صدا میں حدبندیاں ہیں 
گو کہ نوریوں کی حلقہ بندیاں ہیں 
انہی میں بزرگی کی چادر اوڑھے جانے کتنی ہستیاں ہیں 
انہی میں پیچیدہ پیچیدہ راہیں ہیں ... ... ... 
یہ.متواتر سی نگاہ مجھ پر ہے 
گویا حق علی حق علی کی صدا ہے 
گویا محمد محمد کی ملی رِدا ہے 
جھکاؤ نظریں کہ ادب کا قرینہ ہے 
پتے گویا جنگل میں قید ہیں
سر سر کی قامت بھی پست ہے 
محبت گویا عالی قدم ہے 
چلو منظم ہو جائیں 
چلو چلیں کہتے علی علی 
چلو چلیں، ذکر علی میں


میرے احساسات پر دنیا بھی رقصِ بسمل کیے جائے 
قیمتی ہیں نا، ہاں یہ پارس سے زیادہ قیمتی ہیں 
کیونکہ نظمیں مجھ سے ظاہر ہوتی  ہیں 
رقص بسمل درد کی وہ داستاں ہے 
جس میں خالق اپنے ہونے کی گواہی دیتا ہے 
جس میں ہم لفظوں کو لکھتے سوچتے کم ہیں کیوں کہ وہ،
سوچتے عامل ہوتا ہے 
کاش میرا درد تم سن سکتے 
کاش اس کی قیمتِ حاصل تم جان سکتے 
یہ مرے ہونے کا وہ درد ہے،
جو عدم میں مجھ کو لے جاتا ہے 

اُداسی رگ رگ میں سمائی ہے 
نَیا یہ کیا پیام لائی ہے؟
وہ جو کبھی دَریچہِ دل میں جھانکتا تھا 
وُہ اب کَہاں کَہاں نَہیں ہے 
اسی کا جلوہ چار سُو ہے 
دَروں میں،  لحظہ لحظہ وُجود پاتا گیا 
مگر موجود پہلے سے تھا 
ازل کا سفر، ابد کا تھا منتظر 
سعی یہی ہے 
یہیں سے چلتی ہے 
قسم  خُدا پاک کی 
وہ ذات یہاں قیام میں ہے ...


ہم خلق ہوئے تھے، پھر موجود ہوئے 
ہم غائب تھے، پھر ظاہر ہوئے 
یہ اس کی توجہ کے عناصر تھے 
ہم دھیان میں تھے، خواب ہوئے ہیں 
خوابیدہ سی کیفیت  اور وُہ 
حواس سوگئے اور روبرو ہوگئے 
کائنات اسکا مظہرِ عین ہے 
نقش تمام سینے میں پائے گئے


جسے اُس جَہاں کی تلاش ہے 
میرِ کارواں کے ساتھ چل 
چل کے نگر نگر کی خاک چھان 
رات کے سمان میں آگ سے بات کر
شام کی ہتھیلی میں انگلیاں دان کر
سرسوں کے پتے میں موتیے کے گلاب رکھ 
آج دل میں لوح قلم کی تمجید رکھ 
نمیدہ ہستی کو راہ سلسلہ کر

تخلیق ‏ہو ‏رہی ‏ہے ‏

تخلیق ہو رَہی ہے ...
کیسے؟  
کون کر رہا ہے؟
کس کی ہو رہی ہے؟  
وہ جو مالک ہے کُن صاحبِ اسرار ہے،  
دیکھ رَہا یے،
سُن رَہا ہے،
سَمجھ رہا ہے،
یا ھو!  تمہید باندھی ہم نے 
ہائے ھو میں پکارا تمھی کو 
لا بھی ھو بھی،  انوکھا راز ہے 
سمجھ رہی ہوں کہ میں نے کس دن سے،  کب سے،  تمھارا نام دل کی دیوار پہ لکھا تھا 
دل کی دیوار پر سنہرا تھا رنگ تمھارا 
لگتا تھا کہ لال شفق پر کوئی بیٹھا ہے مانند شمس 
تو شمس کو دیکھا، کھوگیا قمر 
تو کھونے سے زمین میں لاگی گردش 
نہ ہستی رہی،  نیستی میں اسکی ہستی 
مستی رہی،  پستی میں وہی ہے 
کیف نہیں یے، کیفیتات ہیں 
دل ہائے اسرار کا مرقع ہے 
دل کے قران پاک پہ سطر سطر میں اللہ اللہ لکھا ہے 
اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 
جگہ ترے لیے ہے 
دل فقط ترے لیے ہے
اور اسکی کرسی کو دل میں قرار ہے 
وسعت جس کی سماوات تک ہے 
دل عرش سے صبح فرش تک بس اک صدا 

اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ اللہ 

ہستی شہود را سے مستی ہنوز را تلک فقط مالک کی صدائے ھو سنی ہے 

سن لیا ہم نے نار میں کیا ہے، ھو کی صدا ہے 
سن لیا ہم نے فلک زمین کو بلاتا ہے،  ھو 
سن لیا ہم نے چاند و زمین کا نغمہ، ھو 
سن لی چرچرانے کی صدا میں،  پتے پتے کی ھو 
سن لی عشق ازل سے ابد کی صدا ھو 
نیستی میں نہیں کچھ بس وہ ہے 
ہستی میں وہ ہے، نہیں کچھ اور 
دل از لامکان تلک رفتار میں ہے 
خلائق جانب خلق گفتار میں ہے 
حالت سے حال کوئے یار میں ہے 
خانہ کعبہ دل کے اسرار میں ہے 
رنگ رنگ جو ہے،  وہ یار میں ہے 
زنگ اترے، کیا بات پیار میں ہے 
جا،  دے آ دل،  دل وار میں ہے 
لے، نکال نیام جو تلوار میں ہے 
رویت میں ہے،    گفتار میں ہے
مست، خراماں سے وقار میں ہے
جالی کے سامنے اظہار میں ہے 
اشک اشک، حال زار زار میں ہے
چلا وہ نغمہ جو ستار میں ہے 
رہ وضو میں، کیوں قرار میں ہے 
جنون ہے، جنون کوئے یار میں ہے 
پھیلی خوشبو، وہ جو ہار میں ہے 
دیکھی رنگ، جو چنر لعل میں ہے 
کیا ہے شوق نے راہ کو  معشوق 
عشق و معشوق ساتھ ساتھ ہیں 
یہ عشق دوئی مٹانا کا بہانا ہے 
یہ عشق ملنے کا اک سیاپا ہے 
ملن کے واسطے،  فسانہ ء جہاں 
ملن کے واسطے،  سجا یہ آستاں 
دل،  نمانا سمجھا نہ اسکے نشان 
محمدی نور میں عیاں ہے جہاں 
میم کے رنگ میں الف لازوال ہے 
الف میں الف کی مثالیں نہیں ہیں 
میم سے نکلیں ہیں سو ذاتیں
میم سے پھیلی ہیں کائناتیں 
میم نے کی سج دھج رگ جان میں 
میم سے پہچانا اللہ کا بیان 
میم سے جانا اللہ کا  ہےقران 
میم تو خود چلتا پھرتا قران  
میم کے واسطے یہ ہے جہان 
میم سے ملی شمس کو بینائی 
میم سے ملی قمر کو رعنائی 
میم سے ملی بحر کو روانی
میم سے ملی موجوں کو طغیانی 
میم سے ملی عشق کی کہانی 
میم سے ملی حسین کی قربانی 
میم سے ملی فاطمہ کی نشانی 
میم سے کار جہاں دراز ہے میاں 
خودی کو سرفراز کیا ہے میاں


دیارِ عشق میں فقط نام محمد 
 لب پہ رواں  رہے صبح شام محمد
محمد کے جو غلام ہو جائیں 
قصے سارے پھر تمام ہو جائیں



نعتیہ ‏جذبات ‏

پیش حق ہیں، محشر کی گھَڑی ہے اور سب بھاگ رَہے ہیں، کہتے ہیں نفسی نفسی! نفس نے خطا، جفا سے ندامت کے پھل جھولی میں ڈال ہے دِیے، ظلمت میں ڈھلے وجود پُکار رَہے ہیں اور سب کہہ رَہے ہیں نفسی! نفسی!  .ظلمت تھی اب نور ہے! کیا ہو نفس کی پُکار نفسی نفسی؟ ہاں مقام بشر کا ہے خطا کا اظہار، معاف کرنا قادر کا ہے شعار!  اصل قدسی مقام رفعت پر ہے،  جوہر ذات محشر بدن میں ہے! پکارا یا رَسول اللہ!  صبا نے سکوت دے دیا ہے! دیکھا جو آپ نے، درود نکلا دل سے اور کَہا جگر کے داغ بُہت مگر تیر جدائی کا سینے میں پل پل مارتا ہے!  آپ کی مسکراہٹ جو دیکھے وہ دل ہارتا ہے!  جو اشک سے دل کو ملے لائے، وہ نصیب کو لڑی میں پروتا  ہے  

زخمِ جگر میں جھلکتا جلوہ ہے آپ کا، پیارا ہے
 دل بہ جبیِں آپ کے جو قدموں میں لائیِں ہیِں 

وصل کے لمحات میں کوٰئی کبھی رویا ہے 
جلوہ شہد، عکس ہے نور، انہی کو دیکھتے جائیں ہیں 

دِل صدائے نَفس سنتا رَہا عرصہ تَلک 
آقا پکارے جائیں،  سجدہ کیے جائیِں ہیں

خوش لَحن، چہرہ حَسیں، نوری جھَلک، میٹھا سُخن 
دیکھتے رَہے انہی کو ہم،کام یہ کر پائیں ہیں

جمعہ ‏کی ‏ساعت ‏

جمعہ کی ساعتــــوں میں باعث سعید گھڑی ـــــ جب قلب سے درود رَواں ہـــوجاتا ہے ..... درود الفـــــاظ کــا مجمـــوعـٌـہ جو دل کے فـــانوس کی روشــنی کو زیتـــون کے تیل سے مالا مال کیے دیتا ہے ...نرم ہـــوجاتی زمین.... تو تجلیات کا ظہور ہوجاتا ہے ....

مکے چلوں ...؟  یا کہ مدینے پاک؟
کیسے پائے خاک سرزمین حجاز میں رکھوں؟
سر کے بل کیسے چلو؟  خوشبو کیسے پاؤں؟
خوشبو اس مٹی کی جس نے پائے ناز شہ ابرار کی قربت سہی ...
سر پر ڈالوں یہ مٹی کہ اعجاز زندگی کا پتا چلے ی
نور علـــــی نور کے سلاسل ہیں سارے 
یہ حسن رض و حسین رض  پھول علی کے دلارے 
فاطمہ رض زوجہ علی، امِ حسنیــــن، بنتِ محمد ص 
وہ پر نور خدیجہ رض سراپائے بزرگ،  سفید چادر جن کا ملبوس ...... 
وہ بو بکر صدیقِ اعظم ....شہِ جمال، حبیب کبریاء 
فضا سنجیدہ چشم نمیدہ ... دل آویز شاعالی سیدنا محمد صلی علیہ والہ.وسلم کی صورت .....
اے نــــورانــــی ہـــالوں ... دل میں اجالا کرنے والو ....
اے حیات جاودانی کے سر چشــــموں ..... 
دل میں تمجید اترتی ہے جوں جوں ملتی ہے توحید 
شوق وصل سے وصل تک ہر کسی کو ملتی نہیں توفیق 
سلام سلام سلام 
یا حیدر عالی وقار سلام 
یا حیدر علم کے علم کے سردار 
اے حبیب کبریاء، محبت کی رکھ دی بنیاد ..یا بوبکر سلام 
ہستیاں جتنی بھی ہیں اپنی سب کو سلام ...

نور

نور


نور ہے! چار سو نور ہے!  نور کی پوشاک ہے! نوری ہالے ہیں!  یہ اسماء کیفیت والے ہیں!  یہ حرف پیامِ شوق والے ہیں! یہ نگاہِ شوق کا بیان ہے دل میں معجز بیانی کہ کہاں سے چلے ہم اور کہاں تلک ہم جائیں گے ... سیاہی بھی محجوب ہوگئی -- شرم سے -- حیا سے --- ردائیں، نوری دوشالے میں صحنِ نور ہے جس پر مجلی آیات ہیں .... یہ استعارہ ہے یا نقشِ علی پاک جس سے میرا ستارہ منور ہورہا ہے....   ستارہ سحری جسکو صبح کو نوید ملی یے --- آشیانہ تنکا تنکا کرکے جمع ہو تو ضائع ہو جاتا اور بنا بنایا زمین بوس مگر جو شہر دل ھو کے ویرانے میں رہے --- وہیں کاشانہ ء رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم موجود ہوتے ہیں --- وحدتِ کل،  امامت کل،  تاجدار کل،  علمِ کل،  قدسی سلام بھیجتے ہیں 
یہ ترے قدسی کے ان کے قدسی سے ربط ہیں 
کتنا شاداں بخت ہے تمام جن و انس کے قدسی بہ نسبت اسی صورت وہاں موجود ہوتے جس قدر یہاں 
جس کے دل کا تار مل جائے تو کہے 
وجی میم دی تار 
سانوں مکایا مار 
اشکاں دے اے ہار 
ہوئے دل دے آر پار 
شمع دل اچ وسدی اے 
ہور نہیں کوئ دسدا سے



خواب ‏

خواب کیا ہیں؟  کسی نے پوچھا!!  
حقیقت ہیں!!
حقیقت؟
سوچ جب یقین میں ڈھلتی ہے 
تصور کے دریچوں سے نکلتی ہے 
عزم کو عمل میں ڈھالتی ہے 
خواب پیغامات ہیں!
کیسے؟
الوہی حقیقتوں کے،
راستوں کی سمتوں کے 
بے بسی  کے یہ ستارے 
ڈوبتے کے یہ سہارے 

اے خواب نگر میں رہنے والے 
اے شیش محل کے مالک 
اے جوگ پالنے والے جوگی 
بتا تو نے کیوں خواب دیکھا؟
تو نے خواب میں دنیا بنا دی 
 تیرا دائرہ چار سو محیط ہے
ترا پہرہ کدھر نہیں 
بتا! تو ہمہ وقت جلوے میں 
مگر دنیا کو جلاتا نہیں 
جب کوئی چرواہا بکریں چراہتے تجھ تک پہنچے تو اس کو آئنے میں جلا دیتا ہے ..... 
وہ نہیں رہتا!  تو ہو جاتا ہے 
بتا باقی کیا ہے؟

بھٹ ‏شاہ

بھٹ شاہ سے اک سوغات دنیا کو ملی ہے. وہ عشق کا ایسا سوز ہے جسکے درد سے کھوٹ نکل کے رقص کرتا ہے کہ کھوٹ بھی مسلمان ہے. گویا ضد نہ رہی ہو گویا اندھیرا نہ رہا ہو. گویا سویرے والے چھپ گئے ہو ...وہ بزرگ جو ہمیشہ کڑی دھوپ میں وقت گزارا کرتے تھے اور ہوا سے سرگوشی ان کا دین تھا ... لطیف شاہ سچ ہوگئے. سچ ہوئے لطیف شاہ اور پھر عصا لیے وہ یدبیضا لیے جا بجا پھرتے رہا کرتے رہے ..  تلاش کیسا گھماتی ہے جو آواز ہے اٹھتی اندر سے اور کرلایا بولایا انسان جابجا سرگرداں رہتا ہے. یہی ہوا پھر جو اک دن وہ حق کی آواز میں ڈوبے تو ماہ صیام شروع ہوگیا. یہ مہینہ ان پر ساری زندگی دائم ہوگیا اور ان پر قران اترتا رہنے لگا ..وہ قران والے بابا ...وہ صحیفے والے شاہ ہیں اس لیے بھٹ میں رہنے لگے تھے ... یہ جگہ جہاں سے یہ آواز سچل سائیں میں چلی گئی. یہ آواز منتقل ہے. اسکا انتقال کیسے ہوا ہے کبھی نہ جانا یے. انسان خود کچھ نہیں ہے یہ صدائیں ہیں جو اس کو مجھ سے ملاتی ہیں. یہ پریم کی نیا ہے ...یہ پریمی کی نیا جس میں لال سرخ بخاری نے سرخی بانٹی. ہوش کی زبان میں کمال کا بیہوشی سے غالب لہجہ تھا انکا. وہ آواز گفتار میں ہو تو باقی صامت جو صامت و ساکت ہو تو اسکے قفل ہو جائیں کھل ... وہ کھلے دروازے جن پر سرخ بخاری کی ھو پہرا دے اسکا کیا ہوگا. اس کے لیے شیطان بھی ڈر کے بھاگ جاتا یے جب نام حیدر لیا جاتا یے. نام حیدر کرار ثانی کی بات ہے. بس اوقات نہیں ہے

سندیسے ‏

جس کو میسر تھا اسکا ساتھ اور جس کو نہیں تھا ساتھ ـ جس کا ہاتھ خالی اور جس کا دل بھرا ہوا تھا ـ جس کا من خالی اور ہاتھ بھرا ہوا تھا ـ دونوں میں فکری تفاوت کی خلیج نے فاصلے ایسے عطا کیے کہ من بھرے بھاگن سے تن پُھلے تن جاون کے مراحل تھے ـ یہ فکر جس نے پرواز کرنا ہے، یہ پرواز جس میں ماٹی کے قفس سے پرندے نے جگہ چھوڑ جانی ہے، اس کی بیقراری عجب ہے جیسا کہ سب بھول گیا ہو کہ وہ کن سے فیکون ہوا تھا ـ وہ تو نہ کن ہے اور نہ فیکون ہے ـ وہ نہ ازل ہے نہ ابد ہے ـ وہ تو لوح و کتاب کا خیال ہے اور وہ خیال بس آنکھ سے وارد ہوا اور سیدھا پیوست ہوگیا تو لا یدرکہ الابصار سے نظر والا ہوگیا ـ پھر جا بجا،  جگہ جگہ آیت اترتی دیکھی اور یاد آیا فثمہ وجہ اللہ اسی پر صادق اترا کہ خدا جابجا ہے اور کہیں نہیں ہے جس بے انکار کردیا ـ انکار کرنا کچھ بھی نہیں بس اثبات کی نفی ہے ـ اپنی نفی ہے اور تن کی چاشنی ہے،  روح کا سوگ یے ـ یہ ہجرت کے روگ ہیں اور جدائی کے سنجوگ ہیں ـ کتنی فطرت بیباک ہوئی ہے اور فطرت میں چھپا اک سیپ عیاں ہوا ہے ـ یہی نشان دل یے ـ یہی آیت دل ہے ـ پتوں کو ہلنے میں،  بوٹوں کے کھلنے میں، گلاب کی خوشبو میں،  پہاڑ کی سنگت میں،  وادی میں گونجتی آواز میں،  پنچھیوں کی اڑانوں میں ـــ اللہ وحدہ لاشریک یے اور جب یہ آیات دل میں اتریں تو منظر مشہد ہو جاتے اور بندہ شاہد پھر انسان اس آیت کی تفسیر ہو جاتا 
لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم 
وہ زمانہ لوٹے اور پھر ہم نہ لوٹیں کبھی ـ اس زمانے میں رہیں سدا ـ یہی حقایت ہے ـ


میری ہتھیلی پر اک جگنو چمک رہا ہے ـ یہ جگنو تو بس عکس ہے، اُس اصل کا جو دل میں قرار پائی ہے ـ میں اس نگر سے اس نگر اک تلاش کے سفر میں اور میری من کی سوئی اس روشنی سے پاتی دیپ بناتی جاتی ہے ـ میں کس سمت جستجو کے چکر لگاؤں؟ کس سمت سے پکاروں؟  غرض لامکان سے صدا مکان میں آتی ہے تو زمان و مکان سے نکل جانے کی سبیل بھی موجود ہوگی ـ اب تو لگتا ہے دل پتھر کا ہوگیا اور کیسے اس سے چشمہ پھوٹے گا؟  جب چشمہ نہیں رہے گا تو زمین بنجر ریے گی ـ دل کی زمین بنجر ہو تو ذکر اک وسیلہ بن جاتا ہے مگر ذکر کیساتھ روشنی کا انعکاس ضروری اور دل شفاف ہو جائے تو انعطاف بھی ضروری ـ غرض یا نہ عکس ہے نا کوئی شاہد ہے ـ نہ کوئی قرارِ مشہود ہے. ـ دل ایسے خالی ہے جیسے سونی زمین کو کسی ریتلے تھل سے مناسبت ہو ــــ 

کبھی موسم ہو تو بہار بھلی لگتی ہے ـ بہار میں اشجار کے گیت اور ہوتے ہیں ـ جو پتے لہلہاتے ہیں کبھی ان کی خوشی محسوس کرو ـ جسطرح وہ سر جھکائے شاخچے خوش گپیوں میں مصروف ہوتے تو اس ذکر خیر کو رائیگاں نہ سمجھو ـ تم بھی یہیں بہار کا نظارہ کرلو تاکہ دل وحدت کی جانب چلے ـ جب وحدت نہ ہو تو کثرت کی جامعیت سے کیا سروکار ہے ـ میں تو اپنے ہاتھ نہ دیکھ سکوں پاؤں نہ دیکھ سکوں،  تو کیسے اپنا سراپا مکمل دیکھو ـ مجھے اپنے ہاتھوں میں ہی تجلی نہیں ملی ـ


یہ تو بولیے جوگی بناتا ہے اور نقشہ بناکے خود بین بجانے لگ جاتا ہے ـ یہ حساب ہے یا طرز عمل کے وہ بین جدائی کی بجا رہا ہے ـ بجی جا رہی ہے اور بجتی رہی ہے ــــ رکی تو زندگی رک جانی ـ اس پورے عالم کو زمانے سمیت اسکے کن کی پھیلی پھونک سمجھو تو معلوم ہو کہ پھونک مکمل ہو تو سیاپا مک جاندا اے ـ سیاپا رولا کیہ اے؟  سیاپا ہے کہ سج گئی اے رات ـ سوہنا یار کہندا کہ تو نہیں تو  ـ یہ تو میرا کرم ہے کہ دل بنا حرم ہے ـ یہ غم ہے جس میں آنکھ نم ہے کہ یا شب فراق کا اور ستم ہے؟  وضو کم ہے !  پانی کم ہے!  مٹی نہیں زرخیر!  مورا ساقی کدھر؟  کدھر جائیے 
ساقی کا میخانہ آباد یے یارو



کبھی آپ میں سے کسی نے اک صدا سنی!  صرف اک صدا ــ جیسے دور کے دیس سے بانسری کی صدا ہو اور وجود تحلیل ہوتا جائے ـــ جب وجود رہے نہ تب تلک یہ صدا رہے ـ جب وجود باقی نہ ہو تب بھی یہ باقی ہو ـــ ـ ایسی صدا جب اندر سے ابھرے تو اس سے اشک گریزاں نہ ہوں

ہستی کے سندیسے مل گئے ہیں ـ
پرانے ساتھی سب مل گئے ہیں ـ

گویائی ‏کا ‏مقصد

شمس سے پوچھا جائے کہ گویائی کا مقصد کیا تھا تو جواب دے گا کہ خدا کی بات پہنچانی تھی وہ بھی سلیقے سے طریقے سے،  شمس کو علم نہیں تھا کہ خُدا کی بات پہنچ رہی ہے بنا گویائی کے، خدا لمحہ بہ لمحہ ہمکلام ہوتا ہے 
شمس سے سوال کیا غیر ضروری تھا یا جوابا اس کو نادانی کا احســـاس دلانا مقصود تھا .... شمس شاید روشنی پہنچاتا ہے تو بولتا ہے جبکہ جس کے پاس پہنچتی ہے اسکو اسکی خبر تک نَہیں ہوتی ہے ...... روشنی کا کلام خاموشی ہے اور شمس کو علم نہیں وہ خود روشنی ہے ... اب دیکھیے چاند کو وہ کتنا حسین ہے تو کہے گا زلفِ لیلی کا اسیر ہے اسیر  محبت کی قید میں حسین تر ہورہا ہے شایدـمحبت اک دائرہ ہے دائرہ سے باہر مکان اور اندر زمان ..جب زمان و مکان کی قید سے نکل جائیں گے تو مکان و زمانے کی وقعت کیا مگر اس سب کو سمجھنا کیا اتنی آسان ہے

حسین لعل یمنی،  حسین فرد آہنی ہے 
حسین حیدری جلال ہے مردِ آہنی ہے 
زمانہ کہتا خلیفہ انہیں ہے جنہوں نے 
سرکٹا کے خلافتِ زمن زمن چنی ہے 
وہ کربلا دلِ فگار لیے روتی رہی تھی 
زمین غازیوں سے شہید ہوتی رہی تھی
لہو جدھر جدھر گرا، تو کلمہ پڑھا گیا 
گواہی ذرے ذرے نے خدا کی دی تھی

کبھو تو چین آئے کبھی تو سر اٹھا کے چلیں 
کبھو تو ہم نہ رہے کوئ نہ رہے جو رہے وہ رہے 
وہ رہے تو سدا رہے یہ صدا کہ علی علی ہیں 
علی بڑے باکمال ہیں علی مرے لجپال ہیں 
علی سخیوں کے شاہ علی اماموں کے شہا 
علی علم کی زمین کا لا محیط آسمان ہیں 
گواہی علم کی ہیں وہ الواجد کا وجدان ہیں 
علی بہ راز نمی، علی مونسں دل خیر خواہ 
علی بہ حق روشنی کا جلال ہے وصل حال 
دما دم میں نعرہ لگتا رہے گا یہی علی علی 
دما دم میں توئی توئی کا آوازہ علی علی


خَریدو گے مری آنکھیں؟ میں نے کَہا؟
یہ انمول آنکھیں کیا بیچنے کے لیے ہیں؟ 
یہ اتنی انمول ہیں کہ مول لگتا نہیں ہے 
لگا کہ مول کرنا کیا ہے؟ بے مایہ رہنے دو 

وہ کربلا کی زمین پہ کسی کو دیکھا گیا 
صبا کو قبورِ پاک گرد رقص میں دیکھاگیا 
حسینی ہوں میں یہ کہتے اسے سنا گیا ہے
مہک ہے عنبرین، مشک کی فضا کہا گیا ہے 
یہ دودِ ہستی حُسین ہے، یہ رشک باد ہے 
درود اس فضا پہ بارہا صبا نے بھیجا ہے 
بنامِ نور یہ درود کی مہک کربلا پہنچی 
مرے حُسین کو سلام کہتے شہید ہوئی 
ہے ناز ایں خاک بخشا نیستی کا لباس 
بہ فخرِ گردشِ گنبدِ سنہری رنگ خونین 
حصول عشق کی درسگاہ کا نسخہ ہوں 
میں کیمیا گری ہوں شہِ حسین کی 
منم چراغِ حسینی بہ نور لم یزل کی 

خریدار مل جائیں گے بُہت آنکھوں کے 
مگر نہ بیچو خزانہِ حسینی خواہی خواہی 
ذرہ ذرہ ہو مشکبار تو شکر گزاری سیکھ لو
کہ خاکِ اسفلی کو ملے کمالِ نور کا حال 
یہ عطیہ تحفتا دیا گیا، تحفتا دیا گیا ہے 

ہماری آنکھوں کے خریدار کربلا کے امام ہیں 
انہی سے مل رہے ہیں رنگ و نور کے جام ہیں 
انہی کے در پہ رکھ دی ہیں نَذر لے لیں گے 
عوض اسی جلوہ مستقل کے، جو موت دے


؛

رازدان

رازدان ہے وہ ... عرش کا رازدان ہے کہانی کا عنوان ہے، کہانی میں الہام ہے. طائر کو بوقت پرواز کہا گیا تھا کہ ید بیضا تھام لے. اس نے راستے طے کیے وہ جہاں جلوہ فرما تھا. وہ جگہ پانی میں تھی. پانی سے وضو کا طریقہ پوچھا تو جگہ نے کَہا،  راز ہے!  راز ہے!  راز ہے!  بات بات میں راز ہے اور راز میں بات پتے کی ہے، پتا بھی ہلتا ہے گواہی ہے اعمال کی اور شجر نیتوں کے وضو سے پروان چڑھا ہے. اندر بڑا پانی ہے،  یہ خیال میں اک سچ ہے اور سچ حق ہے اور حق رب ہے. رب ہم سب میں ہے مگر ہم سب رب میں نہیں ہاں اس سے ہیں. ہمارا ڈھانچہ خاکی،  ہماری روح نوری، ہماری فکر وجدانی،  کرو ذکر قرانی،  واقعہ ہے ہر اک سبحانی،  جذب آیت آیت ہے اور یہی روایت ہے. جذب اور جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن،  جذب ہو پھر جاذب بن 
یہ پتوں اشجار کی بولی ہے 
یہ چلمن سے اسرار کی بات 
یہ واللہ ہے اعتبار کی بات 

ترجمہ تفسیر قران اک ذات ہے،  ذات نقطہ ہے، نقطہ بحر ہے اور بحر سبحانی ہے،  سبحان کی نشانیاں ہیں رحمان کی وساطت جیسی کوئی مل جائے ریاست،  جب آنکھ چلی جائے تو منانا کیسا؟ جب ذکر پھیل جائے تو مرنا کیسا؟  جب جاودانی کا سفر ہو تو رکنا کیسا؟  جب انجیل تمنا پریشان کرے تو مایوس ہونا کیسا 

التباس میں حقیقت ہے اور طریق رہ حق التباس ہے جیسے جیسے ہم.شعور کی گہرائ میں اترتے ہیں ہم جان لیتے ہیں اس کی مملکت میں انسان کا ذکر نہ تھا اب ذکر ہے. انسان آپے آپ اپنا ذکر کر ریا او رب نے ذکر کرن نہ دیوے. کج تے کریا جانا چاہی دا
تعلق میں آشنائی ہے،  آشنا تجھ میں ہے اس لیے تعلق خود سے بَنانا ہے. سچا مرشد سچل سائیں ہے.  شاہ کے لیے تحفہ درود ہے. اسم محمد خود اک قطب ہے جس میں کشش ساتھ ہے. کشش کے کناروں پے آجاؤ، کنارے لگ جاؤ گے،  قوت ہے اس میں ہے جس قوت سے ہمارے دلوں کو توحید سے پاک کیا ہے وہ مثال سے پاک ہے مگر اپنی مثال خود قران میں دی ہے. اک طرف کہا لیس کمثلہ شئی تو دوسری طرف کہا کہ مثال بمانند طاق جس میں ستارہ اور ستارے میں نور اور جو نور علی النور ہو جائے اسکی کیا بات ہے؟

عرفان ‏ذات ‏

...عرفان ذات خود سے خدا تک سفر ہے،  چھوٹے چشمے کا سمندر کی جانب ..معبد بدن میں جب اک ذات ظاہر ہوجائے تو وہ ہی رہتی ہے،  وہ ہمہ وقت رہتی ہے،  وہ پاس بلاتی ہے،  وہ یار سے ملاتی ہے. یارانہ ہے کیا؟ بہانہ بنتا ہے اور یارانہ ہوجاتا ہے ..  وہ دوست جو اسکا دوست ہوتا ہے اسکو کیفیات نفسانی مغلوب نہیں کرتی. مقام لاتحزن ولاخوف سے مبراء ہوجانا بے نیازی کا مقام یے. اے خدا،  دل لگی کی ہے 
اے خدا،  روشنی سی ہے 
اے خدا، زیبا پس حجاب ہے 
اے خدا، کون پس نقاب ہے؟
اے خدا،  دید کو بہانے ملتے نہیں 
اے خدا، ترے دوست ملتے نہیں 
یہ دل لگی ساری ہے، کائنات پیاری ہے
یہ مقام شوق سے پرے نہیں 
یہ مقام دل میں اوٹ میں ہے 
یہ نیاز مندی کے سجدے میں 
یہ نوائے دل کی صدا میں ہے.
خدا،  لامحدود ازل سے ہے 
یہ رگ دل میں کب سے ہے 
کٹیں انگلیاں نامہ ء بر کے پاس 
رہین دل کے پاس نگار جان نہیں 
پیش روئے جاناں ہو مازاغ البصر کا مقام.
وہ چہرہ ہو اور. مسکرانے کا حال 
وہ حال ہو کہ مٹ جائے. ملال

یہ تحریر شوق ذات ہے،  یہ ستم ہے تیرِ پیوست کا،  یہ نگہ سے گھائل جو دل ہے،  یہ فقط اسیر باغِ امیر ہے،  کہیں کے دل جس در کا فقیر ہے ...

... جو مبارک زیست ہو سفر میں ہو ...یہ زندگی بسر حذر میں، جو شوق ہو ننگ سفر میں ہو، جو حال ہو وہ نہال غم میں ہو، جو درد کی سوغات ہو تو ھل من کی صدا ہو، جو ھل من پر بات چلے تو اذن ہو استعجاب کا،  جو حیرت سے نکل سکوں تو میں یہ کہہ سکوں کہ عالم شہود میں عالم نیست میں، کچھ نہیں ہے مگر سب ہے، کچھ نہیں ہے بس وہ ہے، جو خلا ہے وہ مدام شوق ہے،  جو فنا ہے وہ رفقیق جان ہے

عطا کے واسطے صدائیں لگاتے ہی رہیں گے 
سوالی شہ کے خالی ہاتھ کیا رہ جائیں گے

دلِ بے چین کو نوید جانفزا سنا 
اے بادِ صبا جا کے میرا حال سنا 
ستارو! تم بھی دیکھو میرا حال 
اب کہ روشنی کا کچھ حصہ لا


کائنات بہت بڑی، وسیع ہے. تسخیرِ کائنات مشکل ہے. انسان پیدا تو اسکی تسخیر کے لیے ہے. تسخیر سے پہلے تو یہ علم ضروری ہے کہ کائنات ہے کیا؟  یہ وسیع کیوں ہے؟ میں اک نقطہ ہوں، میرے اندر یہ کائنات وسعت کیسے اختیار کرگئی. مشین کے اس دور میں ہم ڈی ـوی ـ ڈی میں سافٹ وئیر اور چیزوں  موجودگی کو جانتے ہیں. اس میں موجود گانا سنتے ہیں. درحقیقت یہ گانا پہلے سے گایا گیا ہے 

ہم پاسدارِ دانائے راز نہ ہوئے 
گویا ہمی اہلِ پاسباں نہ ہوئے 
جذب حق ہو تو کرتا ہے بیان 
وہ بیان جسکا نہ کوئی بیان 
میم دا رنگ سچا سُچا رنگ 
میم دا سوانگ اے انگ انگ 
میم دی ہست نے مست کیتا 
میم آپوں آپے قرانی صحیفہ


دل کی کائنات پے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم لکھا ہے مگر ہم اس کو دیکھے، سمجھے بنا مسلمان ہوسکتے ہیِں. مومن بننے کے لیے ہمیں دیکھنا پڑے گا. یقین اندر کی قوت سے ملتا ہے  

کائنات کے پیدا کرنے والے نے ہمیں یقین سے قوت سے نوازا ہے تو کام بھی کائنات کا چل رہا ہے. کام کی سمت کیا ہے، یہی سمت منزل کا تعین کرتی ہے.


وجہ تخلیق بشر اے، بلیغ لسان ..کوئی ترے جیسے کہاں. ترے مکھ کا.بیان ہو کسی سے کہاں، شوق جرم خانہ باب میں،  وہ ذیشان طلوع ذات ہے،  ریحان ذات زیست میں کوئے نہاں ہے ...زندگی اے زندگی کدھر جائیں کہ نام صلی علی پہ گر نہ ہو بیان کہ یہ تجسس فقط عرق ریزی ہے،  زندگی تو بس تیری یے. یہ عجم سے اٹھی عرب تک گئی، میرے شوق کی داستان جانے کہاِں تک گئی ..اے قبلہ ء شوق،  اے شمع پروانہ، اے ضوئے گلستان ...جب ترا بیان ہو، کب کسی کا نشان ہو

قدوسی صفات شش جہات 
رحمانی اوصاف کی ہے بات 
گہ میں خالق ملے ذات ذات 
گنجینہ ہائے گل یہ کائنات 
زندگی نہ کر ستم کی بات 
خوشبوئے سے آغاز ہوا ہے 
کائنات، انسان اور حیوانات 
سیدہ فاطمہ ہیں امِ بنات 
خاتون اول میں یہی بات 
ازل کا حجاب اور صبح وہ 
اٹھا جب نقاب، مل گئ ذات


وجد، الواجد کی تحریر ہے
جب مری روح کو مرا حصہ ملتا ہے
تو میں جھوم کے کہتی ہوں
الواجد کی تصویر کون ہے؟
مرے دل میں سرر کی تصویر ہے
یہ المصور کے ست رنگ میں ڈھلی ہو 
مرے دل میں سات کلیاں کھل جاتی ہیں  
مرے چراغوں کو تبسم ملتا ہے تو 
میں مسکراتی رہی ہوں مسلسل 
میں رقص میں رہتی مسلسل
مجھ پہ واجب الوجود کا سایہ ہوتا ہے 



مقام انس جان وہ نہ پائے گا 
خودی میں  ڈوب نہ جائے گا 
مقام حیرتِ عشق میں رہ لے 
مقام دل میں وہ مل جائے گا



مطاف ‏

مطاف کے سامنے کھڑا انسان، ہاتھ اُٹھائے گڑگڑا رہا تھا ... 

اسی کا عکس تھا، مکان میں مگر اور خاک کے پنجرے میں.کیا بچا تھا ... وہ سجدہ ریز تھا مگر التجائے حرم کو سوچ محرمانہ تھی. زندگی نزع کے پأل پے چل رہی تھی اور ہر دم موت نے لذت سے سرشار کردیا تھا ..  

وہ پھر سجدے سے اتھا مگر وہ دیکھ رہا تھا اپنے عکس کو، مصطفوی نور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہالے میں.  گویا طائر کو وہاں بلایا جاتا ہے ...

اس نے ٹہلنا شروع کردیا اور ٹہلتے ٹہلتے ہڈیاں جواب دینا شروع کردیں.   

وہ مقام کربل پہ بیٹھا تھا اور سلام پیش کرتا رہا 

حسین حق ہے اور حق "لا " کیسے ہو 
حسین باقی ہے اور باقی فنا کیسے ہو 
حسین  بادشاہ ہے اور بادشاہ حکومت کیوں نہ کرے 
حسین صبح کا وہ تارا ہے، خدا قسم کیوں نہ کھائے 

والسماء والطارق  ...النجم الثاقب 

وہ ٹہلتے ٹہلتے بیٹھ گیا، گویا نیند میں ہو مگر وہ سویا تو نہیں تھا وہ تو شاہ نجف کے پاس تھا ... 

یہ چمکتا ستارہ دن میں نمودار ہوتا ہے اور رات کی سیاہی سے ابھرتا ہے ... یہی تارے روشن ہوگئے 

وہ تو نہ رہا اور خودی نہ رہی، جبین سجدے میں فقط طلب یار میں محو رہی. یہ فنا تو نہ تھی تو بقا کا سوال کیسے آتا ... چمکتا تارا طلوع کیسے ہو جبکہ اندھیرے کو روشنی چاہیے.

کملی ‏

محمد کی کملی میں چھپ کے، 
غلامی کے اَزبر کِیے ان سے آداب،
انہی سے سیکھی  وَفا کی سبھی رسمیں 
علومِ سرّی سے کُھلے سب نِہاں راز 
مکاں دائرہ، لامکاں میں 
اسی میں ہمی رقص آہن کریں ہیں 
یہ زنجیر سے مچتا جو شور ہے 
یہ میں تو نہیں، یہ کوئی اور ہے
رہائی پہ پرواز مل جائے گر تو
نہ لوٹوں عُمر بھر میں تو 
جہاًں ہجر دردِ ناسوتی ہے 
جَہاں غمِ دل کے قیدی مشقت بھری کاٹیں ہیں جو سزائیں 
جفا پروَری میں حدِ غم سے گزرے  وہی ہیں 
امّید کی آیت پکڑ کے،
ہیں جستجو میں تری ہم
ملے خواب میں وہ فسانہ.
فسانہ نہیں یہ،
 حقیقت کا ہے یہ ترانہ 
مری آپ سے یہ  عرضانہ ہے 
 کہ تشریف یوں خواب میں لانا ہے 
مدامِ نگہ یار میں رہنا ہے 
عجب ربط کا شاخسانہ ہے 
گھڑی دو گھڑی آپ کا مسکرانا ہے

ترے ‏حضور ‏یہ ‏کمیں ‏ہے ‏

تیرے حضور یہ کمیں ہے 
برکھا رت میں برسی ہے 
ان کی نگاہ جمال میں ہے 
عاصی پرنم لکھ رہی ہے 
کوئے جاناں کی جالی ہے 
سنہری رنگت دل پہ لگی ہے 
سلام کی گھڑی میں کھڑی.ہے 
سلام اے ہادی شہ الامم 
مست رہ ہست میں ہوجاؤں 
ہست کے چکر میں نام.تمھارا 
اس نام سے ملے گا پھر کنارا 
طوفان تھم گیا، کام بنا ہمارا 
موجوں نے آپ پہچان لیا ہے 
جب اسم محمد نےکلام کیا.ہے 
راکھ ہوا دل،  دود میں.گلاب 
گلاب  یہ عنبرین لطف لیے ہے 
میرے دل پہ پانچ نقش کیے ہیں 
محمد کی میم نے اجال دیا ہے 
فاطمہ بی بی سے بات بنی.ہے 
یا حسین کہتے زیست گزر چلی 
یا علی میں خمیر رنگِ نور ہے 
میرے دل میں کون پرسرور ہے 
گویا کہ دل پیش روئے حضور ہے 
ستم کہ وہ ہیں، چومی قدم جاؤں 
نقشِ پا، اک اک پر واری میں جاؤں 
جھکے سر تو نہ اٹھے گا کبھی کہ 
یہ سنگ،  در نبی سے جڑا ہے 
رنگ رنگ میں گلِ کی مہک ہے 
محمدی سینوں میں اللہ کی.بات 
آوازہ ء حق ورفعنا لک ذکرک ہے 
الم نشرح سے انشراح تلک ہے 
اس علم کی ابتدا اقرا تلک ہے 
یہ منتہی ہے فاذکرونی اذکرکم 
واشکرولی سے صدر ہوئے ہلکے 
ووضعنا وزک سے بنی ہے بات 
جمال محمد یاایھا المزمل کی.صدا 
خشیت کی سیدی پہنے تھے ردا 
اضطراب جب بڑھنے حد سے لگا 
تہجد کا حکم سینوں میں اترا 
فانوس دل میں آوازہ حق پہنچا 
سجدہ شکر میں نیاز کی جھلک 
مجھے ان کی ملنے لگی ہے چمک 
لحن سرمدی میں ثنائے محمدی 
میری مجال لکھوں شان احمدی 
طٰہ جب آتے ہیں،  روشن تجلیات 
ظہور آدم سے معراج تلک بات 
محمد محمد کرتے سب انبیاءتلک
نوریوں کے سکتے صلی علی تلک 
اللہ کی صداحی علی الفلاح  تلک 
پہنچی  ہے آذانِ بلالی فلک تلک 
کعبہ میں بوذر نے کلمہ ڈٹ کے پڑھا 
فثمہ وجہ اللہ،  آیت آیت میں ہے 
بوذر کا کلمہ بعثت سے قبل تلک 
کس قدر خوش نصیب اصحاب رسول 
ناز رنگ و نسل میں بڑھ کے ابن.بتول 
فاطمہ.بنت رسول کائنات ہیں 
الکوثر کی فیض کی ملکہ ہیں 
ہر مومن میں ان کا حلقہ ہے 
مالی نے خوب پانی دے دیا ہے 
صحن دل میں نئے چمن کی بات 
میرے ساتھ ہے راب کی ذات 
اے ذات،  نہ پڑ تو ذات پات میں 
ہر اک کو رکھ تو دل کے پاس تو 
قدموں میں جھکا کے پاسِ رسول 
دیکھتی رہ محمد رسول بنت رسول 
میں کون ہوِں، مجال میں سب حصول 
میں نے کیا ہے سلام،  کرلیجیے قبول 
ورنہ زندگی ہوجائے گی میری فضول 
عام الحزن میں ہجرت کا سال ہے 
میری دل میں غم کا اک بال ہے 
مجھے آپ سے بیحد پیار ہے 
کوئے جاناں میں اک غار ہے 
دہن غار میں اسم محمدی کا ہالہ 
دل کہے جائے شہ والا شہ والا 
دل میں اسم محمدی کا ہالہ 
ان کی خوشبو نے مست کردیا 
ان سے جذب و شوق کا حاصل 
نہیں ملا اس دوڑ میں کوئ فاضل 
عجلت میں خون ریزی کی شکایت 
جانے احساسات پیدائش میں ہیں 
گویا دید کی بات عمل تلک یے

قفس ‏میں ‏روشنی ‏ہے ‏،کیا ‏تم ‏ہو

قفس میں روشنی ہے، کیا تم ہو؟
سلاخوں سے لپٹ رہی ہے چاندنی، کیا یہ تم ہو؟
منتٰہی پہ سدرہ کے نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے،
اس نور میں کائنات شامل ہے، کیا میری کائنات تُم ہو؟
جلتا ہے دِل، نہیں جلتے پَر مگر کہ توسل نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے باغِ عدن چلیں ہیں 

پتے جس کی شاخچے سرخ ارغوانی سیب لیے ہیں، یہ نور حزین، حریم دل سے وہاں کیسے پہنچا، کیا یہ تُم ہو؟

چلیں تھے شاہراہوں پر جس کی سمت کا تعین بشری نَہیں،  چار سمت یک بیک دیکھ سکے، یہ وہ نگاہ ہے، یک بیک سمجھ سکے چار سمت کے علوم کو، کیا یہ تُم ہو؟

کچھ انگور تھے جن پر لا الہ الا اللہ منقش ہے،  کچھ ناشپاتیاں جن پر ھو لکھا ہے اور کچھ لعل سے بھرپور فرش تھا آگے آگے چلتے رہے تو دیکھا کہ فلک تو اس سے اوپر ہے یا شاید کوئ عرش جیسا سماں ہے ..عرش کا پانی بمانند علم پھیلا ہے اور اس کی آیت پڑھنے لگی 
وسعہ کرسیّہُ السماوت ولارض 

یہ توسیع جو اس دل میں ہُوئی ہے، کیا یہ تُم ہو؟  

جب میں نے اس نور کو مانند بادل چلتے ہوئے پایا تو سجدہ کیا،  سجدہ میں میں خود نور ہوں ... تو یہ عالم اے دل کیا تُم ہو؟  

کچھ محل سفید سے ہیں ذرا چلو آگے تو جن کی سفیدی میں نور الہی ہے اور نور میں لکھا ہے 

ونفخت فیہ من روحی 

صورت اک سے مختلف کیسے ہوئ؟ جو کُل یکتائ آدم کو ملی کہ پشت میں نورِ محمدی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بھی شامل تھا، وہ کسی کو اور ہوئی؟  آدم کی ابتدا اور انتہا موجود تھی ان میں اور کہا گیا 
ھذ صفی اللہ 
صورت کے پیمانے، تجریدیت کے شاخچے،  جمال سے منجمد رمزیں،  کمال کے سلاسل پابہ تکمیل امرکن این نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم .... 

آدم بوقت تخلیق سے پہلے کیا الگ تھا؟  بس خُدا مرشد اور آدم عَبد .. نہیں عبدیت تو بعد توبہ حاصل ہوئی کہ پہچان بعد عبدیت ممکن ہے .. آدم کی پشت میں نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو میں نے دیکھا تو کہا 
کیف ھذ البشر ..ھذا بشر انا افضل ... 

مجھ پہ جس نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا سایہ ہوا، وہ اَبر تو تمھارا تھا .... اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اللہ اکبر .. 

آشکار ہُوا کہ خُدا مرشد ہے اور خُدا پہچانے گا اور عبد بن جانے پر فرق نہ رہے مگر ہوا کیا 
منصور نے کہہ دیا انالحق 
یہ منصور کی غلطی تھی ..صریح غلطی کہ خاک کو زیبا نہ تھا راز منکشف کرے اور ہم شرع سے ہٹ جانے والو کو سزا دیتے ...
سزا دی گئی، ہاں دی گئی! کیوں دی گئی!
ہم حد سے نکل جانے والوں کو سزا ہی دیا کرتے تھے ... 

وہیں پہ مجھے لال شہباز قلندر،  بو علی قلندر،  رابعہ بصری،  ابولحسن خرقانی،  با یزید بسطامی دکھے تو میں نے ان کے ابر سایہ دار میں وہ نور پایہ جو سراپا ہو بہو تھمارا تھا، یہی تو نور مجھ پہ چھایا ہے آج کل ... 

میں نے دیکھا جیلان کے شاہ کا جلالی و کمالی رنگ، جس سے نکلتا جاتا تھا میرا دم،  ہیبت و رعب  اور پھر اک نور جس نے مجھے آئنے سے آئنے کو ملانے کے قابل کیا، وہ کیا تھا تم؟

ہاں خُدا مرشد ہے اور خدا احسن التقویم کے والیوں میں شہید ہے اور احسن التقویم والے خدا پر شاہد ہیں .. ہاں ہر اک نے دوجے کی پہچان کی اور مرشد سے نرمان تلک وجدان کی بات میں اک بات دیکھی 

پشتِ آدم میں نور محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اک نور جو مکمل سپیدی لیے شفافیت سے بھرپور کہ آنکھ کو خیرہ کیے نہ نظر ٹھہرے نہ رک سکے ...جمال و جلال سے بھرپور اک کمال کا سلسلہ ...فاطمہ زہرا کا نور 

میں نے بے ساختہ کہا تھا 
وہ جو عفو کی مثال ہیں، وہ فاطمہ کمال ہیں 
ملا ہے ان سے اوج نور کو مقام ھُو تلک 

پَتا ہے دل ...
میں کیوں جھک سی جاتی ہوں؟
میں سجدہ نہیں، بلکہ رب کو دیکھتی ہوں ..  
ان میں، اللہ وحدہ ء لاشریک لہ کا نور دیکھ کے دل حمد میں جاتا سبحان سبحان ربی ربی کہتا ہے اور میں پھر سجدے میں فنا ہوتی تو لگتا ہے 

لا الہ الا اللہ مکمل ہوگیا، مرشد الا اللہ کی تسبیح سے لا کی مٹی کو سکھا دیتا ہے کہ کیسے لا الہ الا اللہ کی مکمل تفسیر محمد رسول اللہ تلک لیے جاتی ہے 

فرق بس یہی ہے سیدہ فاطمہ کا نور اک خاکی پنجرے میں ہے اور میں نور پہ مر مٹے جا رہی ہوں اور میں کہے جارہی ہوں

سیدہ طاہرہ عالیہ واجدہ زاہدہ مطہرہ، مجلی، منور،  قراہ العین،  تمجید القران،  تمثیل رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم، صورت ایقان،  پہچان! پہچان! پہچان!
میں اندھی ہوں!  دید دیجیے مجھے!  ورنہ خالق کہے گا کہ دل میں نفاق تھا دل بجلی نے اچک لیے!  نہ نہ شرالدواب نہیں کہلایا جانا، میں نے فلاح کی جانب قدم رکھے تو سیدی بلال نے کہا 

حی الفلاح!  حی الفلاح!  حی الفلاح 
میں نے فلاح پہ قدم رکھا، سینہ درد سے لبریز ہوگیا ہے اور درد کی ہر صدا پہ آپ کی یاد،  آہٹ،  دستک نغمہ کی صورت گنگنانے لگتی ہے اور میں کہتی ہوں، یہ دل جو جڑا ہے،  نہ مڑ سکتا، نہ مڑ ے گا کہ آئے جو اسطرف دے دیا سب، لے آئے دل آپ کا ...سلام قبول کرلیجیے ورنہ یہ دل تو مٹ جائے گا کہ میرا نشان نہیں ہے بس آپ ہیں اور میرا درد نہیِ، یہ آپ کا درد ہے جس نے جلا ڈالا ہے .. ارحم لنا!  ارحم لنا!  ارحم لنا ورنہ منم مریضم شدم ...

الف ‏

میں نے اس سے کہا مجھے چھوڑ کے نہ جا اور وہ مجھے چھوڑ کے چلا گیا. یہ بہت عام سی بات ہے جسکو ہجر سے تعبیر کیا. میں نے خود پر رحم کھایا اور کسی کو ہمدم کو ڈھونڈ لیا. مجھے احساس ہوا کہ اسکو بھی ہمدم چاہیے مگر اسکا دکھ الف تھا اور میرا "ب " مجھے خدا سے شکوہ ہونے لگا کہ خدا تو نے الف الف کروادی اور تجھ کو "ب " سے کیا سروکار .. یہ ماجرا ہم کرتے رہتے ہیں اور ہم کو ہجرت کی سمجھ نہیں آتی کیونکہ ہم نے "ب " سے ہجر کو دیکھا جبکہ "ہجر " تو پہلے حرف "الف " سے شروع ہوا تھا. ہم نے جب اس کو الف میں پالیا .تو ہم خود نہیں رہے. اب ماجرا یہ ہے کہ الف الف الف کی تکرار ہے اور "ب " کا وجود نہیں

اک ‏رقص ‏داستان ‏عشق ‏

اک رقص داستانِ عشق 
اک بات دل سے نکلی 
تیر دل میں لگا 
خون بَہا اور بہتے قطروں میں خُدا کا جلوہ 
دِل!
خدا کیا ایسے جلوہ گر ہوتا ہے؟
تیر ہجرت کے؟  نیناں کے؟  
دل قدموں میں

یہ خالی ہے دل یا بھرا ہے؟
اچھا کتنا بھرا ہے؟  

عشق جوگ دے ڈالتا ہے 
عشق رانجھے صورت آیا 
دل اچک لیا 
رانجھن یار دکھ جاووے تو بات بن جائے 
جب جب وہ دکھتا ہے اندر روشنی ہوجاتی ہے 
فنائیت میں کسک ہے؟
کیا چبھن؟
کیا خالی پن؟  
فنائیت کیسی ہے جو سوال رکھتی ہے 
تری بات چل گئی 
مری بات رہ گئی ہے 
تری یاد کے دیپ دل میں جل اٹھے ہیں 
جدائی نہیں تھی کبھی 
وصلت کا سوال کیسے ہو؟
اک بے نام جوگنیا رہ گئی 
جوگی نَہیں رہا ...


ابھی تو ابتدا ہے 
سفر دائم کسک ہے 
سفر دکھ کا ہار ہے 
سفر میں اشکبار کیوں؟  
سانول یار ساتھ ہے تو یہ فاصلے کیسے؟  
یہ کہانی لکھی ہے 
یہ کہانی لکھی گئی ہے اس سنہری کتاب میں جس کا قرطاس چاندی کا ہے 
یہ عشق کی کتاب ہے 
وہ چنتا ہے بندوں کو 
بندے سوانگ بھرتے ہیں 
تیر دل میں چلا کے 
جھروکوں سے جھانکتے ہیں 
پوچھتے ہیں 
زخمی تو نہیں؟  
غم تو نَہیں؟

جب اس صورت یار کو دیکھیں تو دیکھا کریں خدا کو 
لکا چھپی ہو جیسے 
لا اور الا اللہ کا کھیل جیسا 
ہیر نے پہنا لباسِ لا.
رانجھن یار کے نشان کہاں؟  
اللہ پاؤں کیسے امکان؟

مکان میں کہاں ملے گا 
لامکان میں لازمان دائروں میں 
پنجرے میں رہتے گھٹن ہوگی 
نکلنا پڑے گا!  نکلنا پڑے گا!  نکلنا پڑے گا

درد ‏کسی ‏فلک ‏پر ‏ہے ‏

درد کسی فلک پر ہے 
یا کسی وادی میں ہے 
اشجار مسجود ہیں 
پتھر کی تسبیح تسلیم ہے 
کائنات نے رازِ توحید بتایا ہے 
یہ وحدت کی گھڑی ہے 
اس گھڑی راز نے انکشاف کیا ہے 
کیسا راز؟
یہ راز جس میں جل رہا عضوِ عضوِ بدن
آگ نَمود،  آگ شہود ہے 
آگ وجود، آگ صعود 
آگ تنزیل،  آگ رموز 

نشانی چمک رَہی ہے ...
 یہ نشانات وحدہ لاشریک لَہ کے ہیں 
جس میں نشانِ خاص "میم " رنگ ہے 

کسی نے قُم کہا،  پرندہ بنا 
کسی نے قُم کہا،  بندہ بنا 
کسی نے قُم کہا،  ہادی آیا 
کسی نے قم کہا،  وصلت ممکن ہوئی 

وصال یار کو بیقراری کے نماز نے درون نیلگوں روشنی کے سامنے مناجات کیں کہ سرخی چاہیے.  وصلت سے وجودیت کے بکھرے ٹکرے سنبھالنے ہیں. یہ نظام کیسے چلے گا؟  

کشتی ملاح چلانے لگا اور دکھانے لگا خضر رستہ ... 
اصحاب کہف والے غار میں رہ کے سوتے رہے 
ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شب بیدار رہے 

توبہ سے کھیل کا آغار کہ غلطی کا  خمیر نفخ کیا گیا تھا 
نبی ء محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامل صحیفہ،  مرشد حق ہمارے 
مریم بنتِ عمران علیہ سلام کی تجریدیت نے تجسیمیت کی شکل اختیار کرلی 
جناب فاطمہ رضی تعالی عنہ کی صورت آیتِ کوثر، جاری و ساری ہے 
تمام مومنین و بنات کے لیے پانی کا چشمہ یہیں سے ہے

ذات کا پانی،  انصال سے منتقل ہوتا ہے 

کسی نبی کے لیے التین کے نشان 
کسی نبی کے لیے شجر زیتون کا انعام 
کسی نبی کے طور سراپا نعمت بنا 
مگر شہرِ مکہ جو ان تماموں کو نشانیوں کو سموئے ہوئے یکجا!  یکجا!  یکجا!  
زم زم سمندر دل اندر 
زم زم سمندر دل اندر 
جبین والے جھک جاتے ہیں نشانی پاتے 
بلکنے سے،  رونے سے،  پھڑ پھڑانے سے قفس میں خاموشی بہتر ہے 
کعبہ پر لکھی تحریر:  اللہ نور السماوات والارض 
زمین پر ہے قرض اک فرض 
رخ نیا،  رقص نیا،  نئی طرز 
زمین ہلائی جاتی ہے 
الہام نشر ہوتا ہے 
کائنات کے اخبار کو قلم سے پڑھنے والے دل جانتے ہیں
قلم تو ایک ہی ہے
قلم تقسیم ہوا ہے 
ن!  والقلم یسطروں 
بس قسم کھائی گئی خلقِ عظیم کی 

تاویل نہیں اس میں گھڑنے کو 
کائنات میں برق اسی قلم سے ہے 
مرکز نما دل کا، کائنات کے قبلے سے ملنے کی دیر 
رابطہ ہوتا ہے 
رابطہ ہوجاتا ہے 
رابطہ ہوتا رہے گا

Wednesday, March 3, 2021

وہ ‏حبیبِ ‏زمانی ‏ہے

وہ حبییب زمانی ! اس نے کہا نور میرے ساتھ رہا کر ! میں اس کی پہلے سی تھی مگر آنکھ کی نمی بڑھا دی ! اس نے کہا نور عشق تیرا ہے ، تو مریض ہے ، تو محبوب ہے ، درد بڑھا دوں ؟ میں نے کہا کہ تو،تو ہے میں تیری ہوئی تو  جیسے تو رکھے مجھے راضی ، سرجھکا کے نیزے پر چڑھا یا نفی میں گم کرتے اثبات کرااور سر کٹوا دے ! مجھے تیرے ہونے نے کمال کی بلندی عطا کردی ہے ! اس نے کہا کہ تو نے میری جستجو کیوں ختم کردی ! میں نے کہا میں نے خود کو ختم کردیا ! سب نفی ہوگیا اور کیا جستجو کروں ! اس نے کہا چل میرا طواف کر ! میں نے کہا اس سے کبھی فرصت نہیں ملی ہے ! وہ کہتا رہا کہ نور تو میری ہے اور میرے روح نے چیخ ماری ۔۔۔میرے درد میں لامتناہیت شامل کردی گئی ! ہائے ! ہائے ! کہاں جاؤں ! کس سے کہوں میں درد کی کہانی ! یہ سمجھ کسی کو آنا نہیں ! جس کو آنا ہے ،اس نے سننا نہیں ! وہ کہتا ہے میں تجھے بھگو بھگو کے ماروں یا ذرہ ذرہ نڈھال کردوں ،تجھے فرق پڑے گا !میں کہتی ہوں کہ میرے محبوب ! قسم ہے تیری ذات کی فرق پڑے گا ، میرے ہر ذرے کو نور دے دے ، اس کے لامتناہی ٹکرے کر ، اِن کو  رلا رلا کے ، تپش دے دےکے مار  ! ان کو دھوپ دے مگر ابر نہ دیوں مالک ! ان کا عشق بڑھائیں مالک ! میرے ہر ذرے کو عشق میں دے دے نا ! مجھے فرق نہیں پڑے گا !  میں نے تجھ سے تجھے مانگا ہے نا مالک ! دنیا والے تو دنیا مانگتے ہیں ، عشق والے  تجھ سے وصل مانگتے ہیں میں نے تجھ سے ہجر مانگا ہے کیونکہ جو ہجر تیرے پاس ہے وہی لینا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہی سہنا ہے ! وہی لیتے لیتے، مرتے مرتے تیرے پاس آنا ہے ۔مجھے خود میں گمادے ، اپنی ولایت عطا کردے ! میں تو ،تو میں ! کیا فرق ہے مالک! تو میرا ہے میں تیری ہوں !
 اندر بڑی آگ ہے سائیں !
اندر بڑی تڑپن ہے سائیں !
 اندر سب نیلا ہے !
 نیلاہٹ اور دے دے نا !
مجھے نیل و نیل کردے نا !
 اندر روتا ہے ہر پل ،
  عطائے بے حساب کردے نا !
مجھے اضطراب کی انتہا دے دے !
  کھوٹ  دل سے نکال دے !
  دل میں اپنے سوا تو کچھ بھی نہ رکھ !
 دل میں تیرے سوا کوئی بھی نہ ہو!

تیری ذات بڑی بے نیاز ہے ۔مجھ جیسی ذات کی ذلیل و کمینگی میں پھنسی کو اپنے عشق کی دولت سے نواز دیا ۔میں کیسے ے  بتاؤں دنیا والوں کو ۔میں اب ذلیل نہیں ہوں ۔''تو جسے چاہے ذلت دیتا ہے ،تو جس چاہے عزت دیتا ہے '' میں ذلت و رسوائی کا تاج پہنے ہوئے مگر میرے سر پر تاجِ بے نیازی ہے ۔مجھے عشق کی خلافت کا میں بادشاہی دی گئی ہے ۔ لوگو ! تم کیا جانو ! مجھ پر کرم کی انتہا ہوگئی ہے ۔ اس نے مجھے اپنا دوست کرلیا ہے ۔ وہ جب خوش ہوتا ہے نا مجھ سے !!! میرے اندر انہونی خوشی کی لہریں پھیلا دیتا ہے اور پھر سمندر  شور بھی کرے نا تو اچھا لگتا ہے ۔اس شور کی آواز میں موسیقی سنو ! یہ آواز دیتا ہے تو میں لکھتی ہوں ،یہ مجھے نغمہ دیتا ہے میں سر بناتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ ! کون جانے محبت کا درد ! کون جانے عشق کے ہجر کی لذت ! جو جان جائے اس کو درد کی شدت میں ،جلن میں ایسا مزہ ملتا ہے کہ درد ہی اس کے لیے عید ہوجاتا ہے

تو شہ یار ہے

تو ابرار ہے

تو پالنہار ہے

میں قلم تیری

تو میرا علم ہے

میں عاشق تیری

تو میرا عشق ہے

میں تجھے چاہتی ہوں

یا تو مجھے چاہتا ہے

کیہ فرق کراں مولا!

کیہڑا فرق تو جانڑاں

مجبوریاں دا ایہہ ویلا

یار دے سنگ منانا

اندر تیڈھی کائنات

وار وی تیڈھی کائنات

تو کیہڑا   میرے توں دور

میں تیڈی یاد وچ مخمور

اندر کتنے غم سائیں

اندر تیرے غم سائیں

زندگی نے مجھے یار کے پاس چھوڑ دیا ۔ میں یار کے سامنے مدہوش ہوں مگر دنیا کے سامنے میرا لباس لہولہان ہے ۔ یہ عشق بیانی میرے رقص کی داستان ہے ۔اس درد کا بیان کیسے ہو ۔ میری ذات کو بسمل بنادیا ہے ۔۔۔ تڑپ رہی ہوں مگر میرے زبان اس کو پکار رہی ہے ۔۔

اے عشق ! سر جھکا ہے

اے عشق ! وہ ملا ہے

اے عشق ! رقص بسمل کر

اے عشق ! آگ پر چل لے

میٹھا درد سہانا ہے ۔ آہ نکلتی ہے نا ہائے ! بس جی چاہتا ہے میں عشق ، عشق کہوں ۔۔مجھے عشق ہوگیا ہے ۔۔۔میں اس کی ہونے چلی ہے ، اندر شادی کی کیفیت ہے ۔ میری زنجیر اس کے ہاتھ ہے ، اس نے اب زنجیر اپنی جانب کھینچ لی ہے ! وہ کھینچتا جارہا ہے اور مسرت سے دل تلخی سے بھرتا جاتا ہے ۔

عشق حلاوت میں کڑواہٹ ہے ۔

عشق کڑواہٹ میں حلاوت ہے

عشق خون ریزی کی علامت ہے

عشق ، عاشق کی جلالت ہے

رقص بسمل کر اور چل جا زمانے

لٹا دے خاک پھر پھر پاس میرے

ہم کو پاس بلاتا ہے اور پھر بھیجتا ہے ! وہ کیسا یار ہے جس کو ہم محبوب بھی ہیں ، ہمیں بلاتا ہے مگر پھر ہم کو امتحان میں واپس بھیج دیتا ہے


Tuesday, March 2, 2021

ساقی ‏تری ‏محفل ***‏

کسی ظالم کا حسن بھی ظالم ہوتا  وہ حسن کی وجہ سے ظالم ہے. خطاب اپنے آپ مخاطب کی جانب لیجائے تو کشش بے جا نہ ہوگی. پھر کہو گے 
ظالم، محفل لوٹ لی 
بولو کیسے ؟
ارے حسن خوابناک ہے زکوہ نکلے نا حسن کی تو تسبیح کیسے ہو؟ 
چل پھیرے لگا 
چل کوچہ جاناں 
چل طواف کر 
مطاف میں بیٹھو 
سلام پڑھو.
تسبیح ہے 
مسجد ہے 
واج بھی یے 
ساز بھی ہے 
کافر کو بولو. ظالم تو نے پی نہیں 
ہم پی لیں گے میخانہ. ہم کو نہ کہیو ساقی ، 
ساقی تری محفل کی شان نرالی 
ساقی تو نے جبین کس جا جھکالی 
ساقی تو نے کہا ساقی تو ہوگیا 
ساقی ہوش خراباتی میں ، رند خراباتی 
ساقی تقسیم نہیں یے ساقی تجسیم نہیِ یے 
ساقی خواب نہیِ ہے ساقی سہاگ نہیں یے 
ساقی شام نہیں ہے ساقی چراغاں نہیِ یے 
رند چل اٹھ طواف کر. چل بیٹھ اللہ بے بلایا 
چل اللہ بلائے سلام پیش کیے جا 
چل رونق لگا چل واپس نہ جا.
چل شوق امام رکھ چل پیار سے رہ 
چل محبوب رہ چل محبت کر .
چل جا جانب طیبہ خاک لے لے .
چل جا جانب بطحا آنکھ لے لے 
آنکھ کا سودا ، اللہ لو اللہ لو اللہ لو 
لو اللہ اللہ 
حق اللہ
 

تری پرواں کرن گیا واواں 
تو چھپر اتے کنڈی لاچھڑ 
کتھے چانن نہ ترا لک جاوے 
آساں امیداں دے دیوے بلن 
درد ملے، درمان ملے، ماں ملے 
تینوں سب تو یاری نہ پلے ہوگی 
یار نے یاری واسطے بلایا اے 
مرا دل انہے میتھوں لکایا وے 
میں کیہ جانڑاں درداں دی 
جانڑے گا اے زمانہ



آپ آوے،  آپ مستور 
آپ کعبہ،  آپ دستور 
آپ مانگ،  آپے سندور 
رب تو ملیا ملسی ضرور 
رگ جاوے رگ آوے سرور 
ایسی مانگ دا سودا بھر 
 پا کے ڈبدی جاوے تو تر
سر دا سودا منگدے نہ زر 
بچ جاوے کہ آس ہے نرا شر

اللہ ‏کی ‏اطاعت

اللہ کی اطاعت
نور حجاب کی بات ہو یا نور انسان کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمانی کی بات ہو یا بشریت کی ------------مٹی کی بات ہو یا روح کے امر کے ----------- سب میں ایک راز پنہاں ہے ۔ انسان پر جب تیسری آنکھ کھُلتی ہے اصل راز کھلتا ہے کہ اندر کی دنیا پر حجاب دراصل تیسری آنکھ ہے اور جس کی تیسری آنکھ بیدار ہوگئی ------------اس نے حقیقت کی جانب قدم رکھ لیا -------وہ قدم جس کی سیرھیاں خار دار تاروں سے بھرپور ہیں ، جن پر مسافروں کے نقش پا ہیں ۔۔کچھ لوگ نقش پا کی کھوج میں وقت برباد کر دیتے ہیں اور کچھ قدم قدم دھیرے دھیرے رحمان کی جانب قدم بڑھانا شروع کردیتے ہیں ۔ کچھ لوگ فیاضی سے تو کچھ لوگ عفو سے تو کچھ لوگ اخلاق سے اللہ کو پاتے ہیں ۔ سب سے کامل درجہ اخلاق کا ہے جس نے خلق کو اپنے اخلاق سے مسخر کرلیا اس پر تمام حجابات کے نقاب اتر گئے اور راز کے انکشاف اس جہاں پر لے گئے جس کو روح کی معراج کہا جاتا ہے ۔ نصیب والے ہوتے ہیں جو اس دنیا میں وصل عشق میں ہجر کے بعد وصال پاتے ہیں گویا وہی دیدار الہی کے سچے حق دار ہیں اور روز قیامت ان کا درجہ شاہدوں سے بڑھ کے صدیقوں میں ہوگا -------------اللہ کی حکمتوں کی شہادت ہر ذی نفس دیتی ہے مگر اس کی جانب حجابات ہر روح پر دور ہونا بہت مشکل ہے ۔ اس راہ میں بڑے بڑے پھسل جاتے ہیں ۔

ذکر اللہ کا
نام اللہ کا
کام اللہ کا
جلوہ بھی اللہ کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں میں اشکوں کی لڑی ہو
دل کی زمین میں نمی بڑی ہو
محبوب کی یاد دل سے جڑی ہو
دل کی حالت سٰیخ کباب کی سی ہو
حیرت کے مقام پر غلام کھڑی ہو
عطا تیری جنبش کی منتظر میں ہے
کرم کی اب سوغات دے دے


کسی کو یہ جلوہ لیلی میں مل جاتا ہے تو کسی کو یہ جلوہ محبوب کے محبوب میں مل جاتا ہے ۔ نبی پاک صلی علیہ والہ وسلم کے امتی ہونے کا ایک فائدہ ہمیں حاصل ہے ۔ موسی علیہ سلام کو اللہ نے کہا کہ موسی تم مصطفی صلی علیہ والہ وسلم کی آنکھوں میں دیکھ لینا ------تجھے رب کا دیدار ہوجائے گا------------جبکہ نبی کے امتی اس پر فوقیت لے گئے ۔ ان کے راستے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم سے جڑے ہیں ۔۔۔۔ جب ان کے نقش پا کو ہم اس راستے میں پاتے جائیں گے تو ہم بھی اس منزل تک پہنچ جائیں گے جس مقام پر میرے مصطفی صلی علیہ والہ وسلم پہنچے کیونکہ ان کی اتباع و پیروی ان کے راستے پر چلنا ہے ۔ بے شک محبوب جیسا کوئی نہیں ہے اور ناہی ان جیسا کوئی ہوگا مگر ان کے راستے پر چلنا عین عشق ہے اور اس راستے میں صعوبتوں کو برداشت کرنا عین الرضا ہے ۔ اس لیے اللہ تک پہنچنے کا راستہ نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے نبی اکرم صلی علیہ والہ وسلم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی


محبت کی انتہا ہے عشق
نفس کے انکار میں عشق
حق کے ہے اقرار میں عشق
شوخی و ہیجانی ہے عشق
بے سروسا مانی ہے عشق
جستجو کا قصہ ہے عشق

Monday, March 1, 2021

میں ‏حسن ‏مجسم ‏ہوں ***‏

میں حُسنِ مجسم ہوں 
کبھی کبھی تعریف کرنے کو دل چاہتا ہے میں خود کی تعریف کروں کہ میں حُسنِ مجسم ہوں ۔ ویسے تو ہر کوئی حُسن پرست ہے مگر میں کچھ زیادہ ہی حُسن پرست ہوں۔ گھنٹوں آئنہ دیکھوں مگر دل نہ بھرے ۔ میں نے آئنہ دیکھنا تو بچپن سے ہی شروع کیا کہ ہر کوئی پچپن سے کرتا مگر اپنے حسین ہونے کا احساس بچپن سے ہی جڑ پکڑ گیا کہ میں نور مجسم ہوں۔ میں حسین اور مجھ سا کوئی حسین نہیں۔ سوا اپنی حسن پرستی اور خُود نمائی کہ کچھ نہیں ۔ کچھ عرصہ ایسا گزارا میرے دل نے آئنے کے سامنے کھڑا ہونا چھوڑ دیا مجھے لگا کہ میں حسین نہیں ہوں ۔ میں سدا کی حُسن پرست ، جمال و ذوق کی خاطر اپنا نقصان کرنے والی ، ایک دن دنیا کی خاطر اپنے ذوق کا نقصان کردیا۔


آج میں کھڑی ہوں آنئے کے سامنے اور صبُح سے تک رہی خود کو۔۔۔ سوچ رہی ہوں میں کتنی حسین ہوں ، مجھ پر سحر سا طاری ہو رہا ہے جیسے میں کسی جھیل کے کنارے کھڑی ہوں ، اور ندی کی جھرنے میں سے میرا عکس میرے ہوبہو کھڑا مجھ سے باتیں کر رہا ہے اور میں ان جھرنوں کی موسیقیت میں خود کو سمو لے کر پُھولوں کی مہک محسوس کرتی ہوں میرا تن من مہک جاتا ہے ۔ گُلاب کی خوشبو کی میں شُروع سے دیوانی۔۔۔!!! مجھے خوشبو پاگل کر دیتی ہے 

یہ میری خود پسندی نہیں ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے ہر بندہ خوبصورت ہے کہ نگاہ میں ہو خوبصورتی بس! تلاش کو گر خوبصورتی کی مورتیں ۔۔۔کہاں ملیں گی ؟ کھوج لو یہ مورت اندر ! مل جائے گی خوبصورتی ۔۔ اس کی قیمت ابدی ہے ۔ یہ ویسے ہی خوبصورتی ہے ، جیسا کہ دنیا میں ہر سو باد ک جُھونکوں نے اشجار کے پتوں میں آواز پیدا کر دی ہو۔۔۔ ہواؤں نے گُلوں کی خوشبو جہاں میں مہکا دی ہو ۔ ندیوں نے پانی کی غزل بنا دی ہو۔ پرندوں نے موسیقی سے تال ملا دی ہو ، پہاڑوں نے کوئی گواہی دی ہو تب۔۔۔۔۔۔۔!!! گواہی دی ؟ ہاں دی !

کس کی گواہی ؟ حُسن کی گواہی !

''میں'' کہ اس وادی میں، جہاں سب مظاہر میری تعریف کرتے ہیں کہ ''میں'' ہی سب کچھ ہوں اور ''میں'' ایک حقیقت ہوں ۔ کیا حسین ہونا ہی خوبصورتی ہے ؟ میں نے کبھی خود کی تعریف نہیں کی تھی مگر آج جی چاہتا کہ تعریف کیے جاؤں اور کہے جاؤں کہ ''میں'' خوبصورت ہوں ۔ ''میں'' سرمدی نغمہ ہوں ۔۔۔!!!

میری اندر کی ''تو'' کی جنگ کو شکست فاش ہوگئی ہے ۔ کشمکش کو انجام ہونا تھا ۔ کشمکش انجام پا گئی ہے ۔ اس لیے اب کہ ''میں ''خود اپنے جمال میں محو ہوں ۔ انسان کتنی عُمر لے کے آیا ؟ کتنی لے کر جائے گا؟ بچہ پیدا ہوا معصوم ۔۔ لے کر آیا جمال اور واپس نہ جاسکا بحالتِ جمال تو کیا ہوگا؟


ابھی جمال میں محو ۔۔۔!!!


ابھی اشکوں نے شرر بار کردیا ! ابھی ندامت میں سر جھک گیا ! ابھی حلاوت نے فرحت ختم کردی ! ابھی رموز و آداب سے واقف نہیں ہوں۔ اس لیے اپنے آپ میں محو ہوں ۔ ابھی سجدہ کیا ! سجدہ کیا کہ معبود کا سجدہ عین العین ہے ۔۔۔ ابھی گُناہوں کی معاف مانگی ۔!!! انسان سمجھتا نہیں ہے کہ انسان جمال کا طالب ہے ، حسن کا مشتاق ہے ، پاگل ہے ، آوارہ ہے ، نہریں کھودتا دودھ کے ، کچے گھڑے پر بھروسہ ہوتا ، اور جانے کیا کرتا ہے ، حاصل ِ ذات اگر کامل ذات نہ ہو تو فائدہ ؟ مجھے شرمندہ ہونا تھا ۔۔۔ آج کے بعد کبھی خود کو خوبصورت نہیں کہوں گی؟ مگر کیوں نہ کہوں اگر میں خود کو بُھلا دوں تو؟ مجھ میں کیا رہے گا ؟ مجھ میں واحد رہے گا ۔۔۔ تو پھر کیوں کروں خود سے نفرت ؟ میں خود سے نفرت کیوں کروں کہ خود سے محبت آج ہی تو کی ہے

زندگی ‏میں ‏محبوب ‏کو ‏کہاں ‏کہاں ‏پایا*** ‏

زندگی میں محبوب کو کہاں کہاں پایا!
مجسمِ حیرت ہوں اور دیکھ رہی ہوں اس کو... سب نظر آتا ہے جیسے کہ بس نظر نہیں آ رہا ہے ، سب ظاہر ہے مگر ظاہر نہیں ہے . نقش نقش میں عکس میں ہے آئینہ اس کا مگر میری نظر کمرے میں موجود ٹیبل لیمپ کی طرف مرکوز رہی .

میں نے اُس کو یک ٹک دیکھا اور سُوچا اس طرح محبت مل جائے گی . مسکرا دی ! اور بہار کا عالم سا محسوس ہوا کہ اب بہار کا موسم رہے گا کبھی نہ جانے کے لیے مگر اس بہار کو محسوس کرنا ہے کیسے .... یک ٹک دیکھنے سے ؟

نہیں ! پھر کیسے ؟

کمرے میں موجود ہوں اور مقید ہو کے نظر جمائے لیمپ کی روشنی دیکھ رہی ہوں اور کبھی ٹیوب لائٹ سے نکلنے والی روشنی ... یوں لگا منبع تو ایک ہے مگر ... مگر ایک نہیں ہے ..دونوں میں رنگ کا فرق ہے ... قریب گئی اور ہاتھ لگا کہ دیکھا ... لیمپ قدرے گرم تھا .. احساس ہوا کہ جاؤں اور ٹیوب لائٹ کو ہاتھ لگاؤں .. اس کا لگا کے دیکھا مگر مجھے محنت کرنی پڑی اس کو ہاتھ لگانے کے لیے ..... میں نے بالآخر لگایا ہاتھ .... احساس فرحت بخش تھا ... !

خود سے بولی : احساس ایک ہی ہے مگر جمال ہے جلال ..... ! جلال ہے کہ جمال ... ! یہ کہتی رہی ہوں میں .... روشنی روشنی ... بس روشنی روشنی ہے کیا فرق پڑتا ہے کہ میں اس کو کوئی نام دوں ... روشنی کا نام ہے پھیل جانا اور اس کا کام اجالے دینا ، اُجیارا کرنا ... سیاہی کو مٹانا ...

فرق سے یاد آیا...

ارے !! یہ تو وہی چاند اور سورج کی روشنی ہے ... چندا روشنی لیتا ہے اور سورج کا ظرف ..... !!! سورج کا ظرف کہ وہ دے کر خاموش ہے ...تعریف چاند کی ہوتی ہے... تمثیل چاند ہوتا ہے .... محبوب بھی چاند ....!

سورج کی تمثیل نہیں کیا؟

ارے ! ہوتی ہے بابا!!! ہوتی ہے ! بس اس تمثیل میں آسمان و زمین کے قلابے نہیں ملائے جاتے ..... ظرف کا فرق ہے نا !!! ظرف ... جس کا جتنا ظرف ہے اُتنا وہ خاموش ہے اور جو ہوتا ہے سمندر ... وہ خاموش رہ کر تصور باندھے رکھتا ہے چاند کا تو کبھی سورج کا اور سورج کا ہو کر چاند کو دیکھتا ہے کہ چاند ! کہ چاند ! تیری حقیقت کیا ہے ؟ کتنا غرور کرلے گا تو ؟ جتنا بھی کرے مگر اس پر کر .... ''دین'' تو ایک سے ہے اور لینے کا سلیقہ بس یہی کہ محبت میں رہے بندہ عاجز......!!!'

چاند گردش کس لیے کر رہا زمین کے گرد؟ کس لیے ؟ بتاؤ نا !!!

وہی تو .... لینے کا سلیقہ ہے اور دینے کا بھی ... اس ہاتھ لے اور اس ہاتھ دے ..... ملتا بھی تو ایسا ہے کہ فرق محسوس نہیں ہوتا کہ مل رہا ہے یہ چاند دے رہا ہے..


روشنی کی مشقت ! یا روشنی سے مشقت !

دونوں کرنی پڑتی ہیں... دونوں سے زندگی چلتی ہے جسم سے سرمدی نغموں کی لہریں نکلتی ہیں کہ نغمے کہاں سے آیا.... نغمہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے ... صدی بھی پل پھر کی ہوتی ہے یا پل میں صدیاں ... اور فاصلے کو کب ناپا جا سکتا ہے ... فاصلے بس فاصلے ... چلتے رہتے ہیں قافلے .... قافلے کو چلنا چاہیے کہ محبوب تو ایسے ملتا ہے ... نہ ملیں تو دکھ ، دکھ اور اس کے سوا کچھ ہوتا بھی نہیں ہے.... فاصلوں کا تکلف ... ہمیں کیا غرض ... ہمیں غزض ہو صرف اور صرف قافلے سے کہ جس کی سوچ پر چلنا ہے کائنات کا رُواں رُواں ... اس میں شمولیت کا ہونا عجب نہیں کہ عجب نہیں کائنات کے اس نگار خانے میں ... کوئی بیکار شے بھی کیا ہے کائنات کے اس کارخانے میں ؟؟؟

ارے ! ارے ! نہیں نہیں !!!! کچھ بھی نہیں ہے بیکار ! کچھ بھی نہیں ہے بیکار اس کارخانے میں....


کیا درد کا احساس بیکار نہیں ؟ کچھ بھی نہیں کہ دو پل کی زندگی ہے ، خوشی میں گزار دے اور جا نا ! جاکے عیش کر ! چار دن کی چاندنی ہے ...! گزار دے !

درد ! ہائے ! یہ درد ! جب سے محبوب جُدا ہوا ہے ،،،زمین تھم جاتی ہے ایسا لگتا ہے کہ تھم دل بھی گیا ہے مگر اسی تیزی سے گھومتا ہے کہ صُبح کی نوید کوئی استعارہ ملے ....!!! کوئی اشارہ اور حوالہ ! یہ دنیا ہے ... دن اور رات کا چکر دنیا .... اس لیل و النھار کے چکر سے گھبرا مت .....!!! رات دن کی مجنوں اور دن رات کو لیلیٰ کی طرح چاہتا ہے ... رات کو دوام چاند سے ہے ... چاند کا رشتہ سورج سے ہے .... سورج روشنی ہے ! کون جانے گا اس روشنی کا.... کوئی کہے محشر کی گرمی ہے وصال میں اور کوئی راحت ہی راحت ہے چاند کے دیدار میں.... کون جانے درد کے کتنے چہرے ہیں ... کون جانے سب سے خوبصورت درد کا چہرہ .....؟

سب سے خوبرو چہرہ محبوت کا ہے.... سب سے پیارا درد کا چہرہ محبوب کا ہے .... اس کا احساس درد ہے ، مگر اس احساس سے دوامیت ملتی ہے ..... کون جانے گا اس محبت کے درد کو.... درد خوشبو ہے ، درد راحت بھی .. درد پیغام بھی ، درد الہام بھی ، درد اشکال بھی ، درد جمال بھی ، درد جلال میں.........کون جانے ! کون جانے ! کوئی نہ جانے ! جو جان جائے وہ کیا بتائے ! آہ ! درد بہت پیارا ہے............! اس درد کو میں اور آپ کیا محسوس کریں گے .....!

درد --------محبوب ---- روشنی

کیا تعلق درد کا روشنی سے کہ درد محبوب سے ملتا ہے ........ !!! جب تک ! جب تک درد نہ ملے ، آگاہی ہوتی نہیں ہے . اس کا انعام سمجھ اور تقسیم کو اکرام سمجھ ... اس تقیسم پر جہاں مرتا ہے ... مگر ہر کوئی مراد کہاں پاتا ہے .... راضی ہو جا اُس سے ، جو تجھ سے راضی ہے ... اس کی رضا میں سر جھکا ! سر جھکا ، مگر چھلکا کچھ بھی نا! جب جھکے گا سر ، تب ملے گا پھل ... اور جب ملے پھل تب کھلے گا اصل ... سب ایک ہی سے جڑا مگر مقصد جدا جدا ہیں...اصل اصل ہے اور نقل نقل ہے ..


مٹی کیا ہے َ؟ کیا ہے مٹی ہے؟ کچھ بھی نہیں ہے مٹی کی حقیقت .... کچھ بھی نہیں ... بس مٹی ایک ملمع ہے ، ایک پانی ہے ملمع کاری کا... بس اور کچھ نہیں .. نقلی چیز کون پسند کرتا ہے ...کوئی نہیں... سب سونا خالص مانگتے ! اور سونا خالص ہر جگہ ملتا نہیں ہے ....! جہاں ملے وہاں عطا ہوجاتی ہے ..


میرا سوال پھر بھی ادھوارا ہے کہ محبوب کو میں نے کہاں کہاں پایا ہے .....َ؟

سب کچھ سامنے ہے اور سوال پر سوال... غور کرآلے کچھ ... فکر کر لے کچھ.... محبوب کو درد میں پایا کیا؟ محبوب کا احساس میں پایا کیا؟ محبوب کو مظاہر میں پایا کیا ہے ؟ محبوب کو دل میں پایا کیا؟ اگر پایا تو سوال بڑا لا یعنی ہے اور نہیں پایا تو سوال بے معنی ہے جس کی تُک نہیں ... سب کچھ پکی پکائی کھیر نہیں کہ آنکھ چاہے ، دل مانگے جو وہی مل جائے ... بس جب فکر کی جائے تو آنکھ سے پہاڑ کی طرح کچھ بھی اوجھل نہیں ہونا.... بس راضی رہ ! راضی کرنا بھی سیکھ! خوش رہ اور خوش کرنا بھی سیکھ ! شکر کر اور شکر کرنا بھی سیکھ! چلتا بھی رہے اور ساکت رہنا بھی سیکھ کہ پانی بہتا بھی ہے اور ساکت بھی ہوتا ہے ، شور بھی مچا موج کی مانند اور خاموش بھی رہ سمندر کے جیسا...!!! درد لینا بھی سیکھ ، درد کو سمیٹنا بھی سیکھ ..! سیکھ سب ... فکر کر کیا کیا سیکھنا اور پھر جستجو کر

اک ‏سمت ‏سے ‏دوجی ‏سمت ‏چلی ‏میں*** ‏

ایک سمت سے دوجی سمت چلی میں

سوچ مقید ہو نہیں سکتی
روشنی بند ہو نہیں پاتی
خوشبو ہر سو پھیلتی ہے
سورج دن کو نکلتا ہے
کام سب چلتا رہتا ہے
ڈھنگ بدل جاتا ہے
آئین اسلامی ہو جاتاہے
جسم روحانی ہوجاتا ہے

حضرت محمد ﷺ کی جب بات ہوجائے ، ہر سمت خوشبو پھیل جاتی ہے۔ دل میں مناجات رہ جاتی ہیں  جو بعد میں حمد و ثناء میں ڈھل جاتی ہیں۔ آنکھ کا سُرمہ زائل ہوجاتا ہے ۔ بصیرت کھو بھی جائے تو غم نہیں ہوتا کہ سب کو فنا  ہے اور اگر کسی کو  فنا نہیں تو وہ ذات نورانی ذوالجلال ہے۔ اس ذات سے روشن سب ہیں ۔یہ رُوشنی سب میں موجود ہے مگر اس کو ڈھونڈنے کی سعی کوئی نہیں کرتا ہے ۔۔۔۔۔! اے میرے مولا کریم ! کچھ گُنہ گار ، سیہ کار کی عرضی سُن لے ۔۔

اے میرے مولا!
نمیدہ دل کو فراخ کردے!
میرے درد کو خاص کردے!
سینے میں آگ بھر دے!
آگ میں بھسم کردے!
میری راکھ جل جل کے،
بکھر جائے ہر کونے میں،
ذرہ ذرہ روئے بچھونے کو،
راکھ کے ہر حصے میں،
اے نورِ ازل!
اے نورِ ابد!
لکھ دے اپنا نام۔۔!
میری کچھ نہ ہونے پر۔۔۔!
لکھ دے، لکھ دے  نام اپنا ۔۔۔۔!
ترے کرم کی تجلی سے۔۔!
میرے دل کی ہر دھڑکن ،
رقص کرے بن کے بجلی،
ہوش کھو جاؤں ،
مدہوش ہوجاؤں،
ترے عشق میں ۔۔!
ہست کھو جاؤں!

اے مالک !
اے خالق!
اے رازق!
اے لم یزل!
اے حسن حقیقی!
اے دل کے نور!
اے جلیل !
اے حبیب!
میری آرزو اب یہی ہے!
آپ سے آرزو رہے میری!
محبت کی نشے میں گم ہوجاؤں!
عشق کی ہستی بن جاؤں!
گمشدہ بستی بن جاؤں!
کہ آپ کو بقا ہے!
اور مجھ کو فنا ہے!
اور مجھ کو فنا ہے!
فنا کی مٹی کو مالک،
فنا کی مٹی کو۔۔۔۔۔۔!
اپنے عشق میں نچا دے،
ایسی جلن اور مزہ دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔!

خیالات کی باتیں کبھی کبھی نثر میں اچھی لگتی ہیں ۔۔ کچھ نثری باتیں ہیں اور ان میں شامل موسم کی سوغاتیں ہیں ۔ انسان کیا ہے ؟ کچھ بھی نہیں ،، سوا راکھ کے ، اگر جل جائے عشق میں تو پروانہ بن جائے ۔۔۔ کبھی جلے تو بات بنے ۔۔ کبھی تو دل کے دیے جلیں گے ۔۔ کبھی تو شمعیں روشن ہوں گی ۔۔۔ اور دل کی مسند احد اور اُحد کا کلمہ پڑھے گی ۔ساتھ ساتھ اس کے محبوب کی باتیں کرے گی کہ مالک تک پہنچنا ممکن ہے تو اس کے محبوب ------رحمت اللعالمین کے ذریعے پُہنچا جاسکتا ہے ۔۔۔۔میری زندگی کا لفظ لفظ ان کی ثناء میں گزرے کہ اب یہی صدا میری ہے

شافی محشر۔۔۔!
ساقی کوثر۔۔۔!
والی کون و مکاں!
ہم چلے جہاں جہاں !
ذکر آپ کا وہاں وہاں!
صدیق و امین کے بیاں!
ہم نے سُنے یہاں وہاں!
محبت کا میٹھا کنواں!
کینہ کردے دھواں!
سچائی کے ہیں قالب!
نور پر نور کے جالب!
اے قاصد برحق!
در پر کھڑی ہے سگ!
سنہری جالیاں تکنے!
کاش روح لگے دمکنے!
نور کی بارش ہو جائے!
دیدار کی حسرت ہو پوری!
دنیا بے شک رہے ادھوری!
زندگی کے سب رنگ!
چلنے لگے تیرے ڈھنگ!
میرا دل و جاں و روح!
یک دل و جاں و روح!
پیش کرتے ہیں سلام تجھ کو!
بھیج رہے درود کا نذرانہ !
قبول کرلیں نذر عاجزانہ!

دل کی صدا کبھی کبھی'' یوں'' بھی ہونے لگتی ہے کہ اس صدا میں خوشی و شادمانی کی لہروں کے ساتھ بے قراری رگوں میں ڈورتی ہے اور دل پکارتا ہے


ترا دل اسم محمد سے چمکے!
سبھی ستارے اس دم سے دمکے!
یہ اسم بڑا ہے نورانی و سبحانی!
نہیں اس جیسا کوئی جہاں میں لاثانی!
دل کی کثافتیں دھوئے گا یہ اسم!
تری ذات کو چمکائے گا یہ اسم!
جس دل میں اسم محمد کا ہو ورد!
اس دل میں رب ہے بسیرا کرے!
طوفان میں دے گا کنارا یہ اسم!
معطر گلاب کی مانند ہے نام ِمحمد!
سجدہ شکر اسم محمد کی عطا پر کر!
ذات کا اسم اعظم ہے نام محمد!
۔۔۔۔۔
ایک سمت سے دوجی سمت چلی میں ۔۔۔!
         بن کے ہوا شوخ  
احساس کی بارش پر کروں گی جان کو وار
       میں ہوجاؤن گی گُلنار !   
         محبوب کون ہیں ۔۔؟   
جو اس دنیا میں پیغام لے کر آئے
        کس کا ؟ حق کا۔۔۔ !  
اس لیے تو ان کا نام روشن آج تک ہے !
ان کے نام کے بغیر نماز و قران کہا ہے ۔۔۔!
کلمہ میں بھی نام ہے محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ۔۔۔۔۔!
۔۔۔۔۔۔
اقراء کا جب آیا فرماں۔۔!
کہنے لگے جنابِ محمد ﷺ!
امی پر کچھ نہیں ہوتا عیاں!
پڑھیے ! اندر ہے سب پنہاں!
انوار کی بارش آپ پر ہوگئی!
خوف کی رات طاری ہوگئ!
گھر آکے کہا خدیجہ رض سے!
زملونی زملونی ..
کملی والے کا لقب پاگئے!
مدثر و مزمل سے ہوئی ابتدا !
نشرح ہوئی جب نازل !
سینہ محبوب کا کھل گیا !
رب نے ذکر کیا عام !
ورفعنا لک ذکرک ہوئی بات!
محمد کی سیرت سے ہوگا!
اسلام کے ہر دور کا بول بولا!
اس ذکر میں ہے آئینِ قران کا ہالہ!
جو بھی کہے گا محمد ﷺ کو دیوانہ !
اس کا حال خود ہو گا مجنونانہ !
چلیے ان کی راہ پر چلیے سب!
رب کچھ اسرار تو کھولیے اب!

۔۔۔۔۔۔۔۔
!
اب باتیں کرم کی ہوں گی!
اب فضل سے کام چلتا رہے گا!
بادِ صبا کی اوڑھ میں ہم،
چلیں گے کوہساروں پر،
اور خوشبو پھیلے گی چار سو،
رنگ دنیا کا نکھرے گا!
ہر سو نور پھیلے گا!
حق کی بات ہے!
حق نے کہا ہے!
دنیا تلاش کر رہی ہے جسے،
وہ نہاں ہے ، نہاں دل میں!
نہاں روح کے اسرار خانے میں!
یہاں وہاں نہ دھونڈو! اے صاحب!
مجنوں کو نہیں ملتا سکون پینے میں!
پینے کے بعد تشنہ رہ جانے میں!
کیا سکون ہو گا ؟ کیا سکون ہو گا؟
اب کہ تشنگی سے کام چلتے رہا گا
ندی کی طرح بہ رہی ہے ایک وادی!
اس وادی میں رہ رہا ہے ایک حق والا!
اس حق کی ھو سے اب عالم نکھرے گا!
۔۔۔۔۔

آؤ ! دیوانو ! شرابِ عشق لو پی
رقص میں گُم خود کو کھو لینے تُو اب دو

آگ میں اپنی جلو ! بن شمع دکھاؤ
کپڑا جلنے دو کہ پروانہ اُڑا دو

خون سے بھر جائے مٹی زمیں کی
آہ سے اپنی شجر کو بڑھنے تو دو

زندگی کم، رات کا قصہ کہیں کیا
خاک کو بادِ صبا سے ملنے تو دو

حلق پر خنجر چلے چپ چاپ سہ لے
درد کو کم ہونے دو! خوش ہو لو دو پل


نور مجسم کی بات کرو!
حسن مکمل کی بات کرو!
جمالِ یار کی بات کرو!
حسرت کے مارو۔۔!
دیدار ِ یار کی بات کرو!
حق کے نور کی بات کرو!
حق ھو کا نور ایک ہے!
اس نور سے روشن عالم ہے!
اس نور کی بات کرتے جاؤ!
رنگ سے یک رنگ ہوتے جاؤ!
اس کے سنگ چلتے جاؤ!
زندگی سنورے گی!
دنیا والوں کی،
نور کا ذکر کرنے ،
نور کی بات کرنے سے!

نور ۔۔۔نور  نور۔۔!!!
نور کی بات اب کون سمجھے گا!
نور دنیا میں رہ کر پھیل رہا ہے!
دیکھو، سنو اور سمجھو حق کو،
دنیا میں رہ کرنا کیا ہے؟
دنیا تو فانی ہے!
جان بھی آنی جانی ہے!
وہ ذات یکتا ہے!
نور جس کو کہتے ہیں!
نور کے آگے جھک جاؤ!
نور کو اپنا لو۔۔۔!
حق اللہ !حق اللہ !حق اللہ !
اے خالق کون و مکاں!
اے مالک دو جہاں!
ہم گر گئے ہیں گڑھے میں،
گناہوں سے بچا لے ہم کو۔


عشق احمد ﷺچاہئے!
حبِ مدینہ چاہیے!
ہو جائیں ہم خاک جب،
خاک ِ مدینہ چاہیے!
سرمہ عشق کا ہوجاؤں!
قدموں کا دھون ہو جاؤں!
جالیوں کو پکڑ لوں ا!
بولوں یانبیﷺ سلام آپ پر!
یا رسولﷺ سلام ہو آپ پر!
درود ہزار ہو آپ ہو!
نعت کا ہدیہ قبول کیجے!
آپ کی فصاحت کی بات کروں کیا!
آپ کی بلاغت کا داعی قران ہے!
یانبی ﷺ آپ چلتا پھرتا قران ہو!
آپ ﷺکے نور سے شام نہیں ہوئی!
خورشید کو روشن آپ نے کیا!
چاند کو حسن آپ نے دیا ہے!
یہ دنیا منور آپ سے ہے!


اے عفوِ کمال ِ ہستی!
اے صبر مثال ہستی
اے رحمت عالمین!
شافی المذنبین!
سید الثقلین!
امام القبلتین!
نبی الحرمین!
راحت العاشقین!
مراد المشتاقین!
شمس العارفین!
سراج السالکین!
مدحت کا بیاں کیا ہو؟
کس زباں سے مدحت کرو؟
تری مدحت میری بولی!
تو خزانہ میں ہو جھولی!
تری عطا نظرِ کرم ہے!
میری خلش مرا جرم ہے!
امام ہو تمام نبیوں کے!
پہچان تمام سرداروں کے!
اے مدنیﷺ و مکی ﷺ!
اے مزمل ﷺو مدثرﷺ
اے بشیر ﷺونذیرﷺ
اے یسﷺ طہ ﷺ
سرورِ دو جہاں ﷺ
نور عیںِ زمان و مکاں!
حق کا ہو آپﷺ نشاں!
کون مدحت کرے گا یہاں!
ہم سے کیا ہو آپ کا بیاں!
ہمارا قلم چلے تو چلتا رہے!
آپ کی تعریف ہوتی رہے!
ہمارا کام بنتا رہے یانبی ﷺ
آپﷺ کی نظرِ کرم کے محتاج ہیں!
ایک نظر سے پیمانہ پھر دیجئے!
آپ ﷺکا نام ہماری زبان پر چلتا رہے!
آپﷺ کا نام ہمارا قلم لکھتا رہے!
سانس چلے تو آپﷺ کا نام سے!
قدم رکیں تو آپﷺ کے نام سے!
ہماری سانسیں آپﷺ پر ہو قربان!
ہمارا قطرہ لہو کا آپﷺ پر ہو قربان!
آپ ﷺکے ہوتے رہیں سب پیروکار!
آپ ﷺسے ملتا رہا سب یاروں کو یار!
بھیجیں سب درود ، پڑھیں سب صلوۃ!

یاصاحب الجمال ویا سید البشر
من وجھک المنیر لقد نو القمر
لا یمکن الثناء کما کان حق ھو
بعد از بزرگ توئی قصہ مختصر
مختصر سی میری کہانی ہے
جو بھی ہے ان کی مہربانی ہے
جتنی سانسوں نے نام لیا ہے
یہ میرے آقاﷺ کی مہربانی ہے
نعت محبور دعور مستند ہوگئی
فردِ عصیاں میری مسترد ہوگئی
مجھ سا عاصی بھی آغوشِ رحمت میں ہے
یہ تو بندہ نوازی کی حد ہوگئی ''

لفظوں کی کہانئ اب کون سمجھے گا؟
میری زبانی اب کون سنے گا؟
آپ کی عطا سے ہو برگرفتِ خامہ!
مدحت کروں،بن جائے سخن نامہ!
تاجدار لکھوں ،سر کٹ جائے نذرانہ
مشہد میں آپ سے ہوجائے یارانہ!
مجھ کو بھجئے، مقتل بنا کے میخانہ!
سر کٹ جائے  ادا ہو ہر جانہ!
خار گل سے بھی دل کو بہلانا!
خوشبو سے نگر کو ہے سجانا!
اے جان ، جاناں ،جانِ جاناں!
قبول کیجئے میرا ادنی سا نذرانہ!

متلاشی ‏روح ‏کا ‏سفر ‏



زندگی میں سچائی کی جستجو میں متلاشی روح کا سفر ازل سے ابد تک محیط ہوتا ہے . لامکاں کی بُلندی سے مکاں کی پستی کے درمیان ارواح اپنے سفر میں آزمائشوں سے کامیابیوں کی جانب رواں دواں ہوتی ہیں  جیسے پرندوں کی ٹولیاں غول در غول خود میں مگن رفعتوں  کی جانب  پرواز کیے ہوتی ہیں تو کہیں کچھ پرندے پہلی پرواز  میں انجانے اندیشے میں مبتلا ہوتے ہیں مگر اس کے ساتھ خُوشی کا خُمار  سُرور کی منزلیں طے کرائے دیتا ہے .  آسمان کی بُلندیوں سے پرے  رنگ و نور کا جہاں ہے .  اس میں کھُو جانا سالک کا کام نہیں ہے بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا ہی عین زندگی ہے . محؒل کے پار ایک وادی ہے جس میں دہکتے ہوئے انگارے ہیں جو اپنی ہیئت میں سرخ نارنجی رنگت لیے ہوئے ہیں ان سے نکلنی والی چنگاریاں خوف کی کیفیت طاری کردیتی ہیں اور محل کی خوبصورتی اس وادی کو دیکھ کے اور بڑھ جاتی ہے . محل کی ابتدا میں یاقوت کی سیڑھیاں ہیں . ان سیڑھیوں پر قدم زائر احتیاط سے رکھ کہ پرواز بلندی تک  ہونی چاہیے .راستے کبھی بھول بھلیوں میں گم ہونے سے نظر نہیں آتے بلکہ یقین کے راستے پر سفر کرنے سے حاصل ہوتے ہے ...

''اے خاک نشین !
''تیرا یقین تیری سواری بن چکا ہے'' .''اب منزل تک پہنچ تاکہ عین الیقین سے  ہوتے تجھے وہ  نظارے دیکھنے کو ملیں کہ  دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیاں جاتی ہیں .'اب اُس کا انتظار ختم ہوا جس کے لیے برسوں تو نے انتظار کیا ہے . اب رخت سفر  باندھ ''!

اٹھ  خاک نشین !
قدموں کی لڑکھڑاہٹ کی پروا نہ کر ! اپنے اندر جھانک اور نور کے نظارے میں گُم رہ اور اعتماد کے ساتھ میری طرف آ ! میرا پیار تجھے بُلاتا ہے ! میری رحمت کی آغوش میں آجا ! محبت لے جا اور عشق بانٹ دے .

محبت کی میراث لے جا مگر یاد رکھیں !

''آزمائشوں کا سمندر پار کرنا پڑے گا مجھ سے دوبارہ ملنے کے لیے مخلوق سے عشق کرنا پڑے گا . تیرے اشک جو میری یاد میں بہتے ہیں مجھے محبوب ہیں مگر اس زیادہ محبوب تر کام یہی ہے کہ مخلوق کا ہو کے عین الرضا کے مقام کو پہنچ تاکہ  عدم کی مٹی تجھے نصیب ہو تبھی تیری خواہش کو قرار آئے گا اور تجھے وصل کی ٹھنڈی چھاؤں نصیب ہوگی .

محبت والے عشق کا سمندر پار کر گئے
عقل والے  بے عقلوں سے بڑھ گئے
آجا ! عشق کی بازی کھیل لے
اپنا دامن ابدی مسرت سے بکھیر لے
مقصد ء حیات پورا کرلے

محل نور کا کس کو ملتا ہے ؟ وہ جو محبوب پر شاہد ہوتے ہیں . اپنے خون سے لوح و قلم پر لکھا عمل میں لاتے گواہی دیتے ہیں کہ رب یکتا و واحد ہے . اس کا کوئی شریک نہیں ہے . وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا.  جب کچھ نہ تھا تب بھی وہ تھا اور جب کچھ نہ ہوگا تب بھی وہی ہوگا . اسی ذات کو قرار ہے جو یہ کائنات رواں دواں کیے ہوئے ہے . وہ چاہے تو آسمان کی رفعتیں نواز دے اور وہ چاہے تو پستیوں میں گرادے . وہ چاہے تو شیطان کو ولی بنا دے وہ چاہے تو ولی کو شیطان بنا دے. وہ چاہے تو نفس پرست کو  عامل کامل بنا دے اور وہ چاہے تو عامل کامل کو نفس پرست بنادے وہ چاہے تو دنیا میں کوئی صدیق ہی نہ رہے اور وہ چاہے تو دنیا صدیقین سے بھر جائے . وہ چاہے تو  دنیا سے سرداری اٹھ جائے اور وہ چاہے تو دنیا میں نائب کا عمل دخل ہو جائے . وہ چاہے تو کیا نہیں ہوسکتا ہے. و چاہے تو نائب کو سردار بنادے اور سردار سے محبوب بنادے . وہ چاہے تو پستی میں گرادے جس کی انتہا کوئی نہیں ہو مگر وہ اپنے محبوب کو گرنے نہیں دیتا . محبت شے ہی ایسی ہے کہ اس کا امر اپنے بندوں کو کشش کیے رکھتا ہے اور وہ اصل کی طرف لوٹ جاتے ہیں

 

سورہ ‏التین ‏اور ‏قسمیں ‏


جب پہلے نائب لائے تشریف
مالک کائنات کی تھے حدیث
ُاس کی سلطنت کا نشان
قبلہ اول مسجد الاقصی
جس سے نکلے ہر انسان
ہوجائے  کنزالایمان
اللہ کا گھر بنایا حجاز کی سرزمین پر
آدمؑ کو خانہ کعبہ کی تعمیر پر
   ملا خطاب صفی اللہ کا
لاالہ الا اللہ آدم صفی اللہ
کوئی معبود نہیں اللہ کے سوا
اور آدمؑ اللہ کی برگزیدہ ہستی ہیں ۔
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
ہوئے برگزیدہ اللہ کے پیغمبر
تمام نفوس کے باپ ہوئے آدمؑ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
وہ لوگ جو  مقامِ رضا کے اعلی درجے پر فائز
ان کی اتباع میں قربانی کے سبھی فرائض
مناتے ہیں  مسلمان تہوار کی صورت
ان کی اعمال میں چھپی ان کی سیرت
جب کہا مالک نے قربانی کا ابراہیمؑ سے
کردیا ذبیح رضا سے اسماعیلؑ کو
بھاگئی مالک کو ادائے خلیل اللہ
رکھ دیا نام اسماعیل کا ذبیح اللہ
لا الہ الا اللہ اسماعیل ذبیح اللہ
ہوئے دوست ابراہیم اللہ کے
لاالہ الا  اللہ ابراہیم خلیل اللہ
  کیا تعمیر اللہ کے گھروں کو
ایک قبلہ اول :مسجد الاقصیٰ
دوسرا قبلہ دوم: خانہ کعبہ
اترا آسمانی صحیفہ ان پر
مقرر ہوئے جدِ امجد سبھی نبیوں کے
ہوئے اسحقؑ جدِ امجد بنی اسرائیل کے
ہوئے اسماعیلؑ جدِ امجد بنو  عدنان کے
اللہ اپنے مقرب بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
خاک ہوئی نمردو کی خدائی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
خلیفتہ الارض لائے تشریف
جن وانس ہوئے  ان کے تابع
حدی خوانِ جنت کو علم ملا نافع
اتری الہامی کتاب  بصورت زبور ان پر
لا الہ الا اللہ داؤد خلیفہ الارض
مٹی ہوئی فرعون کی بادشاہی
عشق کی چلی جہاں پر حکمرانی
موسیّ گھر کے لیے آگ لینے ہوئے روانہ
تجلی حق اور صدائے حق سے نوازے گئے
پھر خواہش ہوئی کہ مولا میں تجھے دیکھنا چاہتاہوں
فرمایا : لن ترانی ، تو مجھے نہیں دیکھا سکتا
اللہ سے کلام کرتے رہے تھے موسیّ
لا الہ الا اللہ موسی ّ کلیم اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت توریت
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا ؟
کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
کلمہ: قم با اذن اللہ  کی عطا سے
کرتے رہے مردوں کی زندہ
مسیحائی بندوں کی کرنے والے
مریمّ کے بیٹے ، یحییّ کے بھائی
لا الہ الا اللہ عیسی روح اللہ
اتری الہامی کتاب بصورت  انجیل
اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے کیا؟
وہ مکہ و مدینہ کی سرزمین
جس پر رہے ہیں نبی ﷺ مکیں
سردار الانبیاء ، خاتم الانبیاء
نور کی سرزمین پر نور کی جبین
شمع رسالت کے ہوا جو قرین
تابندہ ہوئی سب کی زندگیاں
عملِ بندگی سے مٹی  تاریکیاں
معراج کی رات قاب و قوسین کی رفعتوں پر مکیں
نبی آخرالزماں ،شافعی دو جہاں، رحمت اللعالمین
فقر و عفو سے کی سربراہی
دولت ایمان ہم نے پائی
اتری الہامی کتاب ، حکمتوں کا گنجینہ
مرے نبی ہوئے نبیوں کا نگینہ
احمد کو محمدﷺ کے رتبے پر کیا فائز
درود بھیجنا ہم پر  ہے کیا عائد
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
ان کی صفت میں گم ہے خدائی
ملتی رہے گی ان سے رہنمائی
مسخر ہوئی ان پر سبھی خلائق
تسبیح ان کی کرتے ہیں ملائک
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ
اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم نہ کھائے؟
اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی قسم کیوں کھائی ؟


سورہ التین میرے سامنے کھلی پڑی ہے ۔میں نے اس کی پہلی آیت پڑھی ۔ کچھ توقف کے بعد سوچ نے مجبور کیا ہے کہ اللہ قسم   پھل کی کھارہے ہیں ۔

وَالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ

|وَطُوْرِسِيْنِيْنَ|وَهٰذَاالْبَلَدالْاَمِيْنِ |
انجیر اور زیتون کی قسم ہے۔اور طور سینا کی۔اور اس شہر (مکہ) کی جو امن والا ہے۔


اللہ نے دو پھلوں کی قسم کھائی ہے اور میں سوچ پر مجبور کہ ان دو پھلوں کی قسم کیوں کھائی گئی ہے ۔ بے شمار پھلوں میں دو پھل اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں تو گویا  یہ جنت کے پھل ہیں ۔ اگر جنت کے پھل ہیں تو زمین پر سب سے پہلے  کس مقام پر ان کو اُگایا گیا ۔ تلاش و فکر کے بعد معلوم ہوا کہ سرزمین فلسطین و شام میں ان کو اگایا گیا ہے ۔  وہ زمین جہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے اس قبلے کو دو مقرب ہستیاں تعمیر کرچکیں تھیں جو کہ حضرت آدم علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ہیں ۔ بنی نوع انسان کے باپ اور نبیوں کے جد امجد پر اللہ تعالیٰ کے صحائف بھی اترے ہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ سلام کی نسل سے تمام نبی و رسول مبعوث ہوئے ہیں جن میں کچھ زیادہ مقرب و برگزیدہ ہوئے ہیں اور انہی پر اللہ تعالیٰ نے آسمانی صحائف اتارے ہیں ۔  وہ دو پھل جن سے نبیوں کا سلسلہ چلتا رہے گا کہ یہ پھل سدا بہار ہیں جن  پر ہمیشہ سبزہ رہتا ہے ۔  ان سدابہار پھلوں میں مقرب کون ہیں  جن پر الہامی کتابیں اتریں ۔ حضرت داؤد علیہ سلام اور حضرت سلیمان علیہ سلام نے قبلہ اول کو از سر نو تعمیر کیا گویا کہ نئے سرے سے دین کی بنیاد رکھی کہ اللہ تعالیٰ کے گھر جب جب از سر نو تعمیر کیے گئے گویا دین میں کچھ ترامیم اور تبدیلیاں ہوئیں ۔حضرت عیسی علیہ سلام کی مشابہت حضرت آدم علیہ سلام سے ہے کہ دونوں بن باپ کے پیدا ہوئے تھے ۔ وہ پھل جس کی بنیاد حضرت آدم علیہ سلام نے بنیاد رکھی اور وہ پھل جس کی بنیاد جناب سیدنا ابراہیم علیہ سلام نے رکھی وہ سدا بہار پھل ہیں ۔ اس مقام کی قسم جو کہ اللہ کی نشانی ہے ، ان کتابوں کی جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہیں اور تمام انبیاء کے سرداروں کی قسم جو اللہ پر شاہد ہیں اور اللہ ان پر شاہد ہے ۔ اللہ نے ان کی قسم کھائی ہے ۔

حضرت موسی علیہ سلام  لاڈلے نبی تھے ۔ اللہ تعالیٰ سے کلام کیا کرتے تھے ۔ ان کو معجزات عطا ہوئے کہ ان کا ہاتھ سورج کی طرح روشن ہوجاتا تھا اور ان کا عصا سانپ کی شکل اختیار کرلیا کرتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کتاب سے کوہِ طور پر  نوازا گیا ۔ یہی طور کا پہاڑ جنت کے پہاڑوں میں سے ایک ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب ، اپنے نبی اور اس مقام کی قسم کھائی ہے ۔ تیسری آیت مبارکہ میں امن والے شہر کی قسم کھائی ہے وہ شہر حجاز جس کی تعمیر سیدنا آدم علیہ سلام اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ سلام نے کی ۔۔ یعنی جس دین کی ابتدا و ارتقاء ان مبارک و برگزیدہ ہستیوں نے کی تھی ، اس کی منتہیٰ سیدنا جناب حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر ہوئی جن کے کمال کی کوئی حد نہیں ہے ۔ حضرت موسی علیہ سلام تو پہاڑ پر اللہ سے ملاقات کا شرف حاصل کرنے گئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو خود اپنے پاس بلا لیا ۔اس شہر امان کی از سر نو تعمیر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے ہوئی تھی  ۔

دین کی ابتدا ہوئی آدم علیہ سلام سے
دین کی منتہی ہوئی محمد صلی علیہ والہ وسلم سے
نبیوں کے جد امجد ہوئے ابراہیم علیہ سلام
نبیوں میں مقرب ہوئے موسی  علیہ سلام
نبیوں میں خلیفہ ہوئے داؤد علیہ سلام
نبیوں میں کلمہ ہوئے عیسی علیہ سلام
فلسطین کی سرزمین ہو یا طور کا مقام
سرزمین ِ حجاز کا ہو یا مقام
جنت کے یہ سبھی ہیں مقام
جن پر ہوا رسولوں کا قیام
زبور کی بات ہو یا توریت کی
انجیل کی بات ہو یا قران کی
یہ سبھی  الہامی ہیں پیغام
جن میں اللہ نے بندوں سے کیا کلام
پڑھیں گے جو اس کو ملے گا انعام
آیات کا مفہوم اترے گا بصورت الہام
اللہ کے پیغام کو کیا رسولوں نے عام
ان سب پر واجب ہے مرا تو سلام
جب بات محمدﷺ کی  کسی بھی زبان سے ہوگی
درود ہوگا جاری اور الہام کی بارش ہوگی
ان کی قسمیں کھائی ہیں مالک نے
بندوں کی اقسام بتائیں  خالق نے
احسن التقویم پر پیدا ہوئے سب
نور کے چراغ کے حامل ہوئے سب
اس نور کو نسبت ہے محمدﷺ سے
جو بڑھے گا اس نور کی جانب بھی
سینہ روشن ہوگا نور کی جانب سے
دور جو ہوئے  تھے نور کے چراغ سے
شداد ، فرعون ، قارون ، ابو جہل ہو یا ابو لہب
مقام اسفل کے ہوئے سبھی تھے حامل
قفل ان کے روحوں پر لگ گیا کامل



اس سورہ اور ان آیات کا موضوع ہے جزا و سزا کا اثبات۔ اس غرض کے لیے سب سے پہلے جلیل القدر انبیاء کے مقامات ظہور کی قسم کھا کر فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کو دوسرے مقامات پر قرآن مجید میں مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً کہیں فرمایا کہ انسان کو خدا نے زمین میں اپنا خلیفہ بنایا اور فرشتوں کو اس کے آگے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ ۔ کہیں فرمایا کہ انسان اُس امانتِ الٰہی کا حامل ہوا ہے جسے اٹھانے کی طاقت زمین و آسمان اور پہاڑوںمیں بھی نہ تھی ۔ کہیں فرمایا کہ ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی ۔ لیکن یہاں خاص طور پر انبیاء کے مقاماتِ ظہور کی قسم کھا کر یہ فرمانا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ نوع انسانی کو اِتنی بہتر ساخت عطا کی گئی کہ اس کے اندر نبوت جیسے بلند ترین منصب کے حامل لوگ پیدا ہوئے جس سے اونچا منصب خدا کی کسی دوسری مخلوق کو نصیب نہیں ہوا۔

اس امر واقعی سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ جب انسانوں میں یہ دو الگ الگ اور ایک دوسرے سے قطعی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں تو پھر جزائے اعمال کا کیسے انکار کیا جا سکتا ہے۔ اگر پستی میں گرنے والوں کو کوئی سزا اور بلندی پر چڑھنے والوں کو کوئی اجر نہ ملے، اور انجامِ کار دونوں کا یکساں ہو، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی خدائی میں کوئی انصاف نہیں ہے۔ حالانکہ انسانی فطرت اور انسان کی عقلِ عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ جو شخص بھی حاکم ہو وہ انصاف کرے۔ پھر یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ اللہ، جو سب حاکموں سے بڑا حاکم، ہے، وہ انصاف نہیں کرے گا۔

اس کے بعد یہ بتایا گیا کہ انسان میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں، ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اُس انتہاء کو پہنچ جاتے ہیں جہاں ان سے زیادہ نیچ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی، دوسرے وہ جو ایمان و عمل صالح کا راستہ اختیار کر کے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اُس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو اُن کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔ نوع انسانی میں اِن دو قسموں کے لوگوں کا پایا جانا ایک ایسا امر واقعی ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس کا مشاہدہ انسانی معاشرے میں ہر جگہ ہر وقت ہو رہا ہے۔